Friday, January 25, 2019

Crusade Among Islamic Countries

Crusade Among Islamic Countries 

American Sanctions Squeezing Iran, But ISIS Is Exempted
 From Sanctions

مجیب خان
ISIS, World's richest terrorist organization

ISIS convoy go to Syria

ISIS convoy in Mosul, Iraq

    چار دہائیوں سے اسلامی دنیا کو جنگوں، تنازعوں اور انتشار نے گھیر لیا ہے۔ اقتصادی اور صنعتی ترقی میں اسلامی دنیا بہت پیچھے ہے۔ 1980s میں سوویت کمیونسٹ فوجوں کے خلاف افغانستان جہاد کا محاذ بنایا گیا تھا۔ افغانستان میں سو ویت فوج کی شکست سے افغان عوام کو صرف طالبان ملے تھے۔ لیکن ان کا امن اور سکون چلا گیا تھا۔ جو جنگ 1980s میں شروع ہوئی تھی اس جنگ کا سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ افغانستان زندگی کے ہر شعبہ میں اب پتھر کے دور میں ہے۔ آج مڈل ایسٹ میں ایران کی نام مداخلت پر اسرائیل سعودی عرب اور امریکہ بڑا واویلا کر رہے ہیں۔ ایران پر امریکہ نے بندشیں لگا رکھی ہیں۔ ایران کو مڈل ایسٹ میں دہشت گردوں کی حمایت کرنے کا الزام دیا جا رہا ہے۔ جو ایسا ہی ہے جیسے صد ام حسین نے 9/11 کے امریکہ پر حملہ میں القا عدہ کی مدد کی تھی۔ لیکن 1980s میں یہ اسرائیل تھا جس نے بلا کسی اشتعال کے عراق پر بمباری کی تھی۔ اور ایک عرب ملک کے خلاف جارحیت کی تھی۔ 1980s میں اسرائیل لبنان کی خانہ جنگی میں اپنی فوج کے ساتھ ملوث تھا۔  لبنان   کی خانہ جنگی میں اسرائیل کے اپنے 'ہوتی' تھے۔ جن کی اسرائیل پشت پنا ہی کر رہا تھا۔ صابرہ اور شتیلا کے فلسطینی مہاجر کیمپوں پر اسرائیلی فوج کے بلڈ و زر چلانے کی تاریخ فلسطینیوں کے لئے Holocausts تھا۔ 1980s میں عراق ایران جنگ جو تقریباً 9 سال تک لڑی گئی تھی اور جس میں دو ملین سے زیادہ عراقی اور ایرانی مارے گیے تھے۔ اس جنگ میں خلیج کے عرب حکمرانوں نے کھربوں ڈالر صد ام حسین میں invest کیے تھے۔ امریکہ اور اسرائیل  نے عراق اور ایران دونوں کو ہتھیار فروخت کیے تھے۔ عراق اور ایران دونوں ہی یہ جنگ جیت نہیں سکے تھے۔ دونوں نے اپنے قیمتی وسائل برباد کیے تھے۔ وقت برباد کیا تھا اور حاصل کچھ نہیں ہوا تھا۔ عراق ایران جنگ ختم ہونے کے تقریباً چار سال بعد 1990s  میں امریکہ کی قیادت میں عراق کے خلاف ایک نئی جنگ کا آغاز ہو گیا تھا۔ صد ام حسین کو پہلے کویت پر حملہ  کرنے اور پھر اس پر قبضہ کرنے میں گمراہ کیا گیا تھا۔ اور پھر عراق کے خلاف فوجی کاروائی کی گئی تھی۔ تاہم اس تنازعہ کو ڈائیلاگ سے بھی حل کیا جا سکتا تھا۔ لیکن سرد جنگ ختم ہونے کے بعد ڈائیلاگ پہلی Casualty تھے۔ حالانکہ صد ام حسین نے کویت سے اپنی فوجیں واپس بلانے کا اعلان کیا تھا۔ لیکن بش سینیئر نے اسی وقت عراق پر حملہ کرنے کا حکم دے دیا تھا۔ عراق کے خلاف اس پہلی جنگ میں دو لاکھ عراقی فوجی مارے گیے تھے۔ سعودی عرب نے 90بلین ڈالر اس جنگ کے اخراجات امریکہ کو ادا کیے تھے۔ جبکہ امیر کویت نے کویت کو آزاد کرانے اور شاہی خاندان کی حکمرانی بحال کرانے پر امریکہ کو 100بلین ڈالر دئیے تھے۔ عراق پر مہلک ہتھیاروں کے الزام میں دنیا کی تاریخ کی انتہائی بدترین اور غیر انسانی اقتصادی بندشیں لگائی گئی تھیں۔ ان بندشوں کے نتیجہ میں پانچ لاکھ معصوم بچے پیدائش کے بعد چند روز میں مر گیے تھے۔ کیونکہ بندشوں کی وجہ سے ہسپتالوں میں دواؤں کی قلت تھی۔ اور طبی سہولتوں کا فقدان تھا۔ اس دوران امریکہ اور برطانیہ کی وقفہ وقفہ سے عراق پر بمباری کا سلسلہ بھی جاری تھا۔ 1990s کے اختتام پر امریکہ اور برطانیہ نے عراق پر تین ہفتہ تک مسلسل بمباری کی کیونکہ صد ام حسین سلامتی کونسل کی قرار دادوں پر عملدرامد نہیں کر رہے تھے۔ اقوام متحدہ کے انسپکٹروں کو عراق میں داخل ہونے اور مہلک ہتھیاروں کو تباہ کرنے کی اجازت دینے سے صدر صد ام حسین نے انکار کر دیا تھا۔ اسلامی ملکوں کی 1990s کی دہائی عراق پر اس تباہ کن بمباری پر ختم ہوئی تھی۔
   اسلامی دنیا میں 21ویں صدی کی پہلی دہائی کا آغاز 1980s میں سوویت فوجوں کے خلاف جن جہادیوں نے حصہ لیا تھا ان کا خاتمہ کرنے کی جنگ سے ہوا تھا۔ 9/11 کو امریکہ پر حملہ کا ذمہ دار ان جہادیوں کو ٹھہرایا  گیا تھا۔ ان کا سرغنہ بن لادن تھا۔ اس کی تنظیم القا عدہ تھی۔ امریکہ کا یہ کہنا کہ طالبان جو اس وقت افغانستان میں حکومت میں تھے۔ انہوں نے القا عدہ کے دہشت گردوں کو افغانستان میں پناہ دی تھی۔ اس لئے امریکہ نے طالبان حکومت کا خاتمہ کر نے اور القا عدہ کے دہشت گردوں کو پکڑنے کے لئے افغانستان میں فوجی کاروائی کی تھی۔ بعد میں نیٹو بھی امریکہ کے ساتھ جنگ میں شامل ہو گیا تھا۔ امریکہ اور نیٹو کی اس فوجی کاروائی میں تین ہزار سے زیادہ افغان طالبان مارے گیے تھے۔ ان میں ایک بڑی اکثریت ان کی تھی جنہوں نے سوویت یونین کو شکست دی تھی۔ اور افغانستان کو کمیونسٹ فوجوں سے آزاد کرایا تھا۔ افغانستان میں امریکہ اور نیٹو کی یہ فوجی کاروائی 21ویں صدی کی دوسری دہائی میں بھی جاری ہے۔
   کویت کو عراقی فوجوں سے آزاد کرانے کی جو جنگ 1990s میں ہوئی تھی۔ وہ جنگ 21ویں صدی کی پہلی دہائی کے تیسرے سال میں بغداد میں Regime change کرنے کی جنگ بن گئی تھی۔ بش انتظامیہ نے برطانیہ اور چند دوسرے ملکوں کے ساتھ مل کر بھر پور فوجی طاقت سے عراق پر Preemptive حملہ کیا تھا۔ اور عراق کا امن استحکام  اقتدار اعلی شیعہ سنی عیسائی جو عراق میں ایک فیملی کی طرح صدیوں سے رہ رہے تھے  سب تہس نہس کر دیا تھا۔ بش انتظامیہ نے افغانستان پر حملہ دہشت گردوں کا خاتمہ کرنے کے لئے کیا تھا۔ لیکن عراق پر حملہ کر کے اسے دہشت گردوں کی جنت بنا دیا تھا۔ دہشت گردوں کے لئے عراق  Revolving door بن گیا ہے۔ صد ام حسین کے 40سال دور اقتدار میں عراق میں دہشت گردی کا کوئی وجود نہیں تھا۔ وہاں امریکہ کے فوجی حملہ کے 40 روز میں دہشت گردی ہونے لگی تھی۔ شیعہ سنی عیسائی مذہب کے نام پر ایک دوسرے سے نفرت کرنے لگے تھے۔ ایک دوسرے کی عبادت گاہوں پر حملے ہونے لگے تھے۔ اور یہ دہشت گردی عراق میں امریکہ اور برطانیہ کے فوجی قبضہ کے دور میں ہو رہی تھی۔ ایران کا اس میں کوئی رول نہیں تھا۔ ایران کو اپنی سلامتی اور استحکام کی فکر تھی۔
   القا عدہ کے خلاف بش انتظامیہ کی جنگ کا آغاز 2001 میں ہوا تھا۔ پھر اوبامہ انتظامیہ کے ابتدائی چند سالوں تک یہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے ریڈار پر تھی۔ 2012 کے صدارتی انتخابات سے چند ماہ قبل بن لادن کو دریافت کر لیا تھا اور اسے اسی وقت مار دیا تھا۔ القا عدہ کی دہشت گردی کا ایک Chapter ختم ہوا تھا اس طرح 2001-2011 تک اسلامی ملکوں کو القا عدہ کے خلاف دہشت گردی کی جنگ میں مصروف رکھا تھا۔ 2011 کے  بعد القا عدہ کی جگہ ISIS آ گئی تھی۔ اوبامہ انتظامیہ نے لیبیا میں Regime change کر کے ISIS کو پھیلنے کا موقع دیا تھا۔ حالانکہ صدر قد ا فی اور ان کی حکومت کے اعلی انٹیلی جینس حکام نے دنیا کو اس سے آگاہ کیا تھا کہ اسلامی انتہا پسند  ان کی حکومت کا خاتمہ چاہتے ہیں اور لیبیا کو ایک اسلامی ریاست بنانا چاہتے ہیں۔ لیکن صدر اوبامہ لیڈر آف دی فری و ر لڈ نے صدر قد ا فی کی اس تشویش کو بالکل Ignore کر دیا تھا۔ اور اب ابوبکر الا بغدادی آ گیے تھے۔ جو ISIS کے لیڈر تھے۔ اب ISIS کے خلاف جنگ جاری ہے۔  اسلامی ملکوں کی 21ویں صدی کی دوسری دہائی ISIS سے جنگ میں گزر رہی ہے۔ اسے شاید 2021-22 تک جاری رکھنے کا منصوبہ ہے۔ ان جنگوں کے نتیجہ میں اسلامی ملکوں میں جو انتشار آیا ہے۔ وہ اسلامی ملکوں کو تعلیم، سائنس، ٹیکنالوجی اور اقتصادی ترقی میں 50سال پیچھے لے گیا ہے۔
   لیبیا میں 6 امریکی جن میں امریکی سفیر اور اسپیشل فورسز ز  کے فوجی شامل تھے دہشت گردی کے حملہ میں مارے گیے تھے۔ اور چار امریکی فوجی اب شام میں ایک خود کش بم کے دھماکے میں مارے گیے ہیں۔ ISIS نے اس حملہ کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ یہ بات خصوصی طور پر نوٹ کی جاتی ہے کہ جب بھی امریکی انتظامیہ نے  فوجیں واپس بلانے کا فیصلہ کیا ہے۔ دہشت گردی کے واقعات ہونے لگتے ہیں۔ Warmongers فوجیں واپس بلانے کی مخالفت کرنے لگتے ہیں۔ امریکی عوام کو دہشت گردوں سے خوفزدہ کرنے لگتے ہیں۔ حالانکہ افغانستان میں 18 سال سے امریکہ کی فوجیں ہیں۔ لیکن امریکی فوجوں کی موجودگی میں طالبان آدھے سے زیادہ افغانستان پر قابض ہیں۔ افغانستان میں دہشت گردی کے انتہائی خوفناک دھماکہ ہوۓ ہیں جن میں سینکڑوں افغان مارے گیے ہیں۔ عراق میں 5 ہزار امریکی فوجوں کی موجودگی میں ISIS نے مو صل میں اپنی اسلامی ریاست قائم کر لی تھی۔ عراقی اور ایرانی فوجوں نے مل کر موصل اور عراق کے دوسرے حصوں سے ISIS کی اسلامی ریاست تباہ کی تھی۔ دوسری طرف شام کے جن علاقوں پر ISIS نے قبضہ کر لیا تھا۔ شام اور ایران کی فوجوں نے مل کر وہ علاقہ بھی ISIS سے آزاد کراۓ تھے۔ سوال یہ ہے کہ امریکی فوجیں 15 سال سے عراق میں اور 8 سال سے شام میں تھیں۔ اور امریکہ کے واچ میں ISIS کا عروج ہوتا ہے۔ اور ISIS عراق اور شام کے ایک بڑے حصہ پر قبضہ کر لیتی ہے۔ اور اپنی اسلامی ریاست قائم کر لیتی ہے؟ اور اب امریکہ کے ذریعہ ایران کو اس کی سزا دی جا رہی کہ ایران نے عراق اور شام کے ساتھ مل کر ISIS کی اسلامی ریاست کا خاتمہ کیا تھا۔ جو سنی مسلمانوں کی اسلامی ریاست تھی۔ اسرائیل کو عراق اور شام میں ISIS کی اسلامی ریاست قائم ہونے سے اتنا بڑا خطرہ نہیں تھا کہ جتنا شام میں ایران کی موجودگی کو اسرائیل اپنے لئے ایک بڑا خطرہ سمجھتا ہے۔ اس لئے امریکہ نے بھی تمام بندشیں ایران پر لگائی ہیں۔ اور ISIS کے خلاف کوئی بندشیں نہیں ہیں۔ ISIS کی قیادت کو بھی امریکہ نے بندشوں سے آزاد رکھا ہے۔ ISIS کے خزانے ڈالروں سے بھرے ہوۓ ہیں۔ ISIS میں لڑنے والوں کے اہل خاندان کی دیکھ بھال ہو رہی ہے۔ انہیں تین وقت کا کھانا مل رہا ہے۔


  دنیا کو اب آنکھیں کھولنا چاہیں اور سمجھنا چاہیے کہ دہشت گردی کی جنگ 21ویں صدی کا ایک بہت بڑا فراڈ اور ڈرامہ ہے۔ اس جنگ میں اتنے Facts نہیں ہیں کہ جتنا جھوٹ، Distortions اور Contradictions ہیں۔                                 

No comments:

Post a Comment