Monday, January 14, 2019

Iran Didn’t Occupy Arab Land, Iran Is Not Killing Arab Women And Children, Iran Is More Interested In Arab People's Economic Well-being

Iran Didn’t Occupy Arab Land, Iran Is Not Killing Arab Women And Children, Iran Is More Interested In Arab People's Economic Well-being

مجیب خان
The U.S 'is acting against Iran at the economic level and we here in Israel are acting against Iran at the military level' Mr. Netanyahu address to Israel army Cadets

The murderous regime and its supporters will face significant consequences if they do not change their behavior. John Bolton national security advisor 

We will not ease our campaign to stop Iran's malevolent influence and actions against this regime and the world. Mike Pompeo, 10 January 2019 


 
   گزشتہ سال نومبر میں CSIS کی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ 9/11 کے بعد 17 سال میں دہشت گردوں کی تعداد میں زبردست اضافہ ہوا ہے۔ رپورٹ کے مطابق دو لاکھ تیس ہزار سلا فسٹ جہادی جنگجو 70 سے زیادہ ملکوں میں ہیں۔ شام ان ملکوں میں سر فہرست ہے۔ جہاں 45 ہزار سے 70 ہزار جہادی لڑ رہے ہیں۔ جبکہ عراق میں یہ 10 ہزار سے 15 ہزار ہیں۔ اسی سال براؤن یونیورسٹی کے Watson Institute for International and Public Affairs نے اپنی سالانہ رپورٹ کے Costs of War جائزے میں یہ تخمینہ دیا تھا کہ اکتوبر 2019  تک دہشت گردی کے خلاف امریکہ کی عالمی سرگرمیوں کے اخراجات 5.9 ٹیریلین ڈالر پر پہنچ جائیں گے۔' صدر جارج ڈبلو بش نے دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کے آغاز پر کہا تھا کہ "امریکہ 60 ملکوں میں جنگ لڑنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔" لیکن CSIS کی رپورٹ کے مطابق 17 سال میں دہشت گردوں کی تعداد میں زبردست اضافہ ہوا ہے۔ اور یہ 70 ملکوں پھیلے ہوۓ ہیں۔ اور ان کے خلاف عالمی مہم پر امریکہ کے اخراجات 5.9 ٹیریلین پر پہنچ رہے ہیں۔ میرے خدشات درست تھے کہ جنگ دہشت گردی ختم نہیں کر رہی تھی۔ بلکہ اسے وسعت دے رہی تھی۔ عراق کے بعد شام دہشت گرد پیدا کرنے کے فیکٹری بن گیا تھا۔
   تاہم برسوں بعد 2018 پہلا سال تھا جس میں کوئی نئی جنگ نہیں ہوئی تھی۔ Regime change کرنے کی مہم نہیں چلی تھی۔ اچھی خبر یہ تھی کہ دہشت گردی کے واقعات میں حیرت انگیز کمی آئی تھی۔ شام میں گزشتہ سالوں کے مقابلے میں بہت کم ہلاکتیں ہوئی تھیں۔ دنیا میں بموں کے دھماکے بھی نہیں ہوۓ تھے۔ صدر ٹرمپ کے لئے بلاشبہ یہ ایک اچھا سال تھا۔ شمالی کوریا نے اپنا ایٹمی پروگرام ختم کرنے میں 180ڈگری سے یو ٹرن لیا تھا۔ صدر ٹرمپ اور شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ ان کی پہلی تاریخی ملاقات سنگاپور میں ہوئی تھی۔ اس ملاقات میں ایٹمی ہتھیاروں کے ایشو پر دونوں رہنماؤں کو ایک دوسرے کے موقف کو سمجھنے کا موقع ملا تھا۔ اس لحاظ سے یہ ایک کامیاب ملاقات تھی۔ آ بناۓ کوریا جسے دنیا کا ایک انتہائی خطرناک خطہ کہا جا رہا تھا۔ 2018 میں آ بناۓ کوریا ان خطروں سے نکل آیا ہے۔ دنیا کے بعض دوسرے خطرناک خطوں کے لئے یہ ایک اچھی مثال بن سکتی ہے۔ چین کے ساتھ تصادم کی پالیسی بیک فائر ہو رہی ہے۔ صدر ٹرمپ نے 2018 میں چین کے ساتھ  ٹریڈ وار شروع کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ صدر ٹرمپ کا خیال تھا کہ ٹریڈ وار جیتنا افغان وار جیتنے سے زیادہ آسان تھا۔ لیکن کوئی بھی وار جب مفادات کی وار ہوتی ہے تو اس کو جیتنا پھر اتنا آسان نہیں ہوتا ہے۔ صدر ٹرمپ کی ٹریڈ وار نتائج کی شدت کو اب محسوس کیا جا رہا ہے۔ امریکہ کی معیشت پر اس کے منفی اثرات ہو رہے ہیں۔ اور اب چین کے ساتھ ٹریڈ وار جلد ختم کرنے کی آوازیں اٹھ رہی ہیں۔ صدر بش اور صدر اوبامہ نے جو جنگیں شروع کی تھیں 2018 بھی ان جنگوں میں گزر گیا۔ صدر بش اور صدر اوبامہ امریکہ کی فوجیں جہاں چھوڑ کر گیے تھے۔ یہ فوجیں ابھی تک وہاں بیٹھی ہوئی ہیں۔ اور جنگ جاری ہے۔ شاید اس صورت حال سے تنگ آ کر صدر ٹرمپ نے 2018 کے اختتام پر شام سے فوری طور پر فوجیں واپس بلانے کا اعلان کیا ہے۔ اور افغانستان میں فوجوں کی تعداد میں کمی کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
   2018 میں Alliances کی نوعیت بھی بدل گئی ہے۔ یورپ میں Collective Security کا تصور بدل گیا ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ میں عالمی اداروں کی افادیت کو زیادہ اہمیت نہیں دی جا رہی ہے۔ صدر ٹرمپ نے اقوام متحدہ کے ادارہ مہاجرین کی امداد بند کر دی ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارہ براۓ انسانی حقوق سے بھی امریکہ نے نکلنے کا فیصلہ کیا ہے۔ نیٹو میں ٹرمپ انتظامیہ کی دلچسپی انتہائی Low Point پر ہے۔ صدر ٹرمپ کو نیٹو رکن ملکوں سے شکایت ہے کہ وہ نیٹو میں اپنے حصہ کی ادائیگی نہیں کر رہے ہیں اور ان کے حصے کی ادائیگیوں کا بوجھ امریکہ کو اٹھانا پڑتا ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ میں امریکہ کی پالیسیوں میں ان تبدیلیوں کے پیش نظر یورپی ممالک یورپ کی سیکیورٹی کے سلسلے میں خود اپنے اقدامات تجویز کر رہے ہیں۔ روس کے ساتھ Tension بڑھانے کے بجاۓ کم کرنے کو ترجیح دی جا رہی ہے۔ روس کی نیوی نے Black Sea میں یوکرین کی نیوی کے کئی جہازوں پر جب قبضہ کر لیا تھا۔ تو اس پر یورپ کا رد عمل خاصا سرد تھا۔ جرمنی اور دوسرے یورپی ملکوں نے روس کے خلاف نئی بندشیں نہیں لگائی تھیں بلکہ یوکرین کو روس کے ساتھ مذاکرات کے ذریعہ تنازعہ  حل کرنے کا مشورہ دیا تھا۔
   با ظاہر ری پبلیکن پارٹی نے صدر ٹرمپ کے خارجہ امور میں ان خیالات سے اختلاف نہیں کیا ہے۔ البتہ خارجہ پالیسی اسٹبلیشمنٹ کو صدر ٹرمپ کے خارجہ امور میں تبدیلیوں پر شدید اختلاف ہے۔ اسٹبلیشمنٹ دوسری جنگ عظیم کے بعد جو عالمی ادارے وجود میں لاۓ گیے تھے۔ اور جو Alliance بننے تھے۔ انہیں ختم کرنے کے خلاف ہے۔ اسٹبلیشمنٹ کا کہنا کہ یہ عالمی ادارے اور Alliance امریکہ اور مغرب کے مفادات بہتر طور پر Served کرتے تھے۔ اور انہیں برقرار رکھا جاۓ۔ لیکن یہ تبدیلیاں اب یقینی نظر آ رہی ہیں۔ صدر ٹرمپ یہ چاہتے ہیں کہ امریکہ کے روس کے ساتھ تعلقات اچھے ہونا چاہیں۔ اور دونوں ملکوں کو مڈل ایسٹ کا نقشہ Shape دینے میں مل کر کام کرنا چاہیے۔ لیکن امریکہ میں روس کی مخالفت آج سرد جنگ دور سے کہیں زیادہ ہے۔
 مڈل ایسٹ ایک انتہائی پیچیدہ اور مشکل ترین خطہ ہے۔ جو جنگوں اور تنازعوں کی گتھیوں میں بری طرح پھنسا ہوا ہے۔ جو بھی اس خطہ کو اس صورت حال سے نکالنے میں کامیاب ہو جاۓ گا وہ پیغمبر ہو گا۔ صدر ٹرمپ نے اپنی انتظامیہ کی پالیسیوں کی America First بنیاد بتایا تھا۔ صدر ٹرمپ نے خارجہ اور دفاعی امور اور تجارت اور اقتصادی پالیسیوں میں America First کو بنیاد بنایا ہے۔ لیکن مڈل ایسٹ میں صدر ٹرمپ جیسے بلکل بھٹک گیے ہیں۔ مڈل ایسٹ میں صدر ٹرمپ کی پالیسی یا تو Saudi Arabia First ہے۔ یا پھر Israel First ہے۔ ان کے علاوہ ٹرمپ انتظامیہ کی مڈ ل ایسٹ میں کوئی نئی تبدیلی نہیں ہے۔ اسرائیلی منصوبوں کے مطابق مڈل ایسٹ کا سیاسی نقشہ Shape دیا جا رہا ہے۔ اور سعودی عرب کو اس میں Accommodate کر لیا ہے۔ دو سال میں صدر ٹرمپ نے فلسطینیوں کے حال زار پر کوئی بات نہیں کی ہے۔ اسرائیلی فوجی روزانہ فلسطینی بچوں اور عورتوں کا اس طرح شکار کرتے ہیں جیسے Wyoming میں لوگ پرندوں کا شکار کرتے ہیں۔ فلسطینیوں پر اسرائیل کے 70سال فوجی قبضہ کے جشن پر صدر ٹرمپ نے یروشلم تحفہ میں اسرائیل کو دے دیا ہے۔ دنیا کے اصول، قانون اور لوگوں کے حقوق سب کے لئے یکساں ہیں۔ کوئی ان سے بالاتر نہیں ہے اور کوئی ان سے ابتر نہیں ہے۔ سابقہ دو انتظامیہ اور اب ٹرمپ انتظامیہ میں آزادی، حقوق، قانون اور اصولوں پر باتیں بہت کی گئی تھیں۔ لیکن کیا کچھ نہیں تھا۔ دنیا کو لیکچر بہت دئیے  تھے۔ لیکن ان کے ایکشن میں ان لیکچروں کی جھلک نہیں ہوتی تھی۔ صدر بش نے عرب رہنماؤں سے یہ عہد کیا تھا کہ صد ام حسین کا مسئلہ حل کرنے کے بعد وہ فلسطین کا تنازعہ حل کریں گے۔ کیونکہ صد ام حسین اس تنازعہ کے حل میں ایک بڑی رکاوٹ بنے ہوۓ تھے۔ حالانکہ صد ام حسین رکاوٹ نہیں تھے۔ چیرمین یا سر عرفات نے اسرائیل کے ساتھ اوسلو معاہدہ کیا تھا اور اسرائیل کے وجود کو تسلیم کیا تھا۔ صد ام حسین کوئی رکاوٹ نہیں تھے۔ صد ام حسین اور معمر قد ا فی فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی فوج کی بربریت کے خلاف بولتے تھے۔ صد ام حسین اور معمر قد ا فی کے جانے کے بعد عرب دنیا میں کوئی لیڈر اسرائیلی فوج کے فلسطینیوں پر ظلم اور بربریت کی مذمت میں بولنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ عرب حکومتیں انتہائی کمزور اور خوفزدہ ہیں۔ کیونکہ یہ سب مطلق العنان اور ڈکٹیٹر ہیں۔ اور اپنی بقا اور سلامتی کے لئے یہ امریکی Orbit سے نکل کر اب اسرائیلی Orbit میں جانے کا راستہ دیکھ رہے ہیں۔ اس عمل میں انہیں ایران ایک بڑی رکاوٹ نظر آ رہا ہے۔ ایران فلسطینیوں کے حقوق اور آزادی کی جد و جہد میں شانہ بشانہ ان کے ساتھ کھڑا ہے۔ ایران کو راستہ سے ان ہی الزامات اور Fake داستانوں سے ہٹانے کی کوشش کی جا رہی ہے جو انہوں نے صد ام حسین کے خلاف استعمال کی تھیں۔
   صدر ٹرمپ نے فلسطینیوں کی طرف سے منہ موڑ لیا ہے۔ اور وہ ان کی آہ و بکا سننے کے لئے بالکل تیار نہیں ہیں۔ انہیں ونزویلا کے عوام سے ہمدردی ہے۔ انہیں ایران کے عوام سے ہمدردی ہے۔ لیکن فلسطینی عوام سے کوئی ہمدردی نہیں ہے۔ قومی سلامتی امور کے مشیر جان بولٹن اور سیکرٹیری آف اسٹیٹ Mike Pompeo کے حالیہ دورہ مڈل ایسٹ میں عربوں کو صرف 'ایران ایک بڑا خطرہ' کا پیغام دیا ہے۔ دونوں نے اپنے دورے میں صرف اسرائیل کے موقف کی وکالت کی تھی۔ جیسے عربوں سے کہا ہے کہ وہ ایران کے بڑھتے اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنے کے لئے اسرائیل کی قیادت میں متحد ہو جائیں۔ ایران کے بارے میں عربوں میں صرف Irrational fear پھیلایا جا رہا ہے۔ حالانکہ ایران اس خطہ میں جنگیں نہیں چاہتا ہے۔ نہ ہی ایران دوسروں کی جنگوں میں ملوث ہونا چاہتا ہے۔ ایران نے 1980s میں عراق کے ساتھ 9 سال جنگ لڑی تھی۔ ایک ملین ایرانی اس جنگ میں مارے گیے تھے۔ کھربوں ڈالر اس جنگ میں برباد ہوۓ تھے۔ دونوں کو اس جنگ سے تباہی کے سوا کچھ نہیں ملا تھا۔ دونوں ہمسایہ ملک اقتصادی طور پر تباہ و برباد ہو گیے تھے۔ دنیا میں شاید صرف اسرائیل ہے جس کے لئے جنگ ایکLuxury ہے۔ اور جو 70سال سے عربوں سے جنگیں کر رہا ہے۔ اور اقتصادی اور معاشی طور پر بہت خوشحال ہے۔
   شام ایک خود مختار ملک ہے۔ شام کی حکومت نے اپنے ملک کی بقا اور سلامتی میں انتہائی مشکل ترین حالات میں ایران سے مدد مانگی تھی۔ ایران نے دمشق حکومت کو گرنے سے بچایا ہے۔ اور اس کے ساتھ اس خطہ کو بھی ایک بہت بڑی تباہی سے بچایا ہے۔ لہذا ایران کی شام میں موجودگی کو تنازعہ بنانے کا کسی کو حق نہیں ہے۔ اسرائیل اور سعودی عرب نے جن خدشوں کی وجہ سے مصر کے لوگوں کی جمہوریت کا خاتمہ کرایا تھا۔ اسرائیل اور سعودی عرب کو شام کے حالات میں بھی ان خدشوں کو مد نظر رکھنا چاہیے تھا۔ شام میں ان کا جو رول تھا انہیں اب اس کی قیمت بھی ادا کرنا ہو گی۔ شام میں ایران کی موجودگی اگر اسرائیل کے لئے اتنا بڑا خطرہ ہے تو پھر امریکہ کو اسرائیل کی سرزمین پر اپنا فوجی اڈہ قائم کرنا چاہیے اور اسرائیل کا دفاع کرنا چاہیے۔ جیسے امریکہ کی فوجیں جنوبی کوریا میں ہیں۔ اور 60سال سے جنوبی کوریا کا شمالی کوریا سے خطروں کا دفاع کر رہی ہیں۔ یا جس طرح امریکہ کی فوجیں جاپان میں دوسری جنگ عظیم کے بعد سے بیٹھی ہوئی ہیں اور جاپان کا شمالی کوریا اور چین سے خطروں کا دفاع کر رہی ہیں۔ امریکہ کی فوجیں عرب دنیا کے ہر کونے میں ہیں اور اسرائیل کا دفاع کر رہی ہیں لیکن اسرائیل پھر بھی ایران کے خطرے سے خوفزدہ ہو رہا ہے۔
                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                
      

                                                              

No comments:

Post a Comment