Wednesday, January 30, 2019

Latin America: America’s Cold War Right Wingers Pal Are In Power

 Overthrow Nicolas Maduro's Government, Venezuela Will Be A Battle Ground of War Between Rich And Poor

مجیب خان
Maduro attends a rally in support of his government, and to commemorate the 61st anniversary of the end of the dictatorship of Marcos Perez Jimenez in Caracas 

The Trump Administration recognize Juan Guaido the elected leader of the opposition National Assembly as the country's legitimate President 

Looting and unrest in Venezuela



   امریکہ میں دو سال سے 2016 کے صدارتی انتخابات میں روس کی مداخلت پر بڑا شور ہے۔ دونوں سیاسی پارٹیوں میں یہ غصہ ہے کہ روس نے امریکہ کے انتخابات میں یہ مداخلت کیسے کی تھی۔ روس کی مداخلت پر ایک خصوصی کمیشن اس کی  تحقیقات کر رہا ہے۔  ابھی روس کی مداخلت پر بحث جاری ہے کہ امریکہ نے ونزویلا کے انتخابات میں مداخلت کی ہے۔ اور اب اقوام متحدہ کا ایک خصوصی کمیشن قائم کیا جاۓ جو یہ تحقیقات کرے کہ سی آئی اے نے ونز ویلا کے انتخابات میں Juan Guaido کو جتانے میں کیا رول ادا کیا تھا۔ اور اپو‌زیشن کو کامیاب کرانے پر کس قدر ڈالر خرچ کیے گیے تھے؟ امریکہ ابھی تک سرد جنگ کی سیاست سے آزاد نہیں ہوا ہے۔ صدر ٹرمپ نے 20جنوری 2017 کو حلف برداری کی تقریب سے خطاب میں کہا تھا کہ امریکہ اب دوسرے ملکوں کے داخلی معاملات میں مداخلت نہیں کرے گا۔ ہر ملک کو اپنے مفاد اور سلامتی میں فیصلے کرنے کا حق ہے۔ تمام ملکوں کو اپنے خطہ میں استحکام اور امن کے لئے خود اقدام کرنا ہوں گے۔ لیکن حلف برداری کی اس تقریب کے دو سال بعد صدر ٹرمپ نے اپنے اس وعدہ کی خلاف ورزی کی ہے اور و نیز ویلا  کی داخلی سیاست میں Meddling کی ہے۔ اپوزیشن پارٹی کے لیڈر Juan Guaido کو و نیز ویلا کا De-jure صدر ہونے کا فتوی دیا ہے۔ صدر ٹرمپ کے اس فتوی کے فوری بعد لاطین امریکہ کی Right wings حکومتوں نے بھی Juan Guaido کو صدر تسلیم کر لیا ہے۔ کینیڈا بھی ان ملکوں کی یونین میں شامل ہو گیا ہے۔ امریکہ نے عالمی قانون کی خلاف ورزی میں لا طین امریکہ کے ان ملکوں کو شامل کیا ہے جو ماضی میں انسانی حقوق کے قانون کی خلاف ورزیاں کرتے تھے۔ صدر ٹرمپ سے قبل صدر بش اور صدر اوبامہ نے بھی عالمی قانون کی ایسی ہی خلاف ورزیاں کی تھیں۔ اور بھر پور فوجی طاقت سے Sovereign ملکوں میں Regime change کیے تھے۔ حیرت کی بات تھی کہ صدر ٹرمپ نے امریکہ کی سرحد پر میکسیکو کے ساتھ دیوار تعمیر کرنے کا اپنا انتخابی وعدہ پورا کرنے کے لئے کانگرس سے فنڈ ز منظور کرانے کے لئے 35 دن حکومت کا کاروبار بند رکھا تھا۔ لیکن صدر ٹرمپ نے دوسرے ملکوں کے داخلی معاملات میں مداخلت نہیں کرنے کے وعدہ سے انحراف کیا ہے۔ صدر ٹرمپ بھی ابNeoCon  کے سامنے جھک گیے ہیں۔ صدر ریگن کی انتظامیہ میں Iran-Contra scandal میں سزا یافتہ Elliot Abrams کو و نیز ویلا کے لئے امریکہ کا خصوصی Envoy نامزد کیا ہے۔ بڑے بش نے صدر بننے کے بعد Iran-Contra scandal کے تمام ایکٹروں کو صدارتی معافی دے دی تھی۔ چھوٹے بش نے انہیں اپنی انتظامیہ میں شامل کر لیا تھا۔ 2002 میں ونزیلا میں Hugo Chavez کی حکومت کا تختہ الٹنے کی سازش میں Elliot Abrams کا نام بھی شامل تھے۔
  صدر ٹرمپ نے شمالی کوریا کے رہنما سے ملاقات کے بعد اسے ایک اچھا ڈکٹیٹر تسلیم کیا تھا۔ جمال کشو گی کے قتل میں ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے ملوث ہونے کے بارے میں صدر ٹرمپ نے کہا کہ ولی عہد محمد بن سلمان کے جمال کشوگی کے قتل میں ملوث ہونے کے ثبوت نہیں تھے۔ جبکہ سی آئی اے کی تحقیقات میں ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے کشوگی کے قتل میں ملوث ہونے کے واضح ثبوت بتاۓ گیے تھے۔ صدر ٹرمپ نے ایران کے ایٹمی پروگرام پر عالمی سمجھوتہ کو عالمی مخالفت کے باوجود مستر د کر دیا تھا۔ امریکہ کو و نیز ویلا میں ڈکٹیٹر اور جمہوریت کی باتیں کرنے سے پہلے مصر میں جمہوریت بحال کر کے دکھانا چاہیے۔ فلسطینی جو 70سال سے اپنے حقوق اور آزادی سے محروم ہیں۔ انہیں حقوق اور آزادی دلا کر دکھانا چاہیے۔ اس وقت سوڈان میں لاکھوں لوگ سڑکوں پر حکومت کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ سوڈان کے لوگ حکومت تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن ٹرمپ انتظامیہ کی سوڈان میں حکومت  تبدیل کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ سوڈان میں اپوزیشن کے احتجاج پر سیکرٹیری آف اسٹیٹ، قومی سلامتی امور کے مشیر نے ابھی تک کوئی بیان نہیں دئیے ہیں۔ سوڈان کی صورت حال سے  بالکل منہ موڑ لیا ہے۔ اس “Two face” پالیسی سے امریکہ کی ساکھ گر رہی ہے۔
  و نیز ویلا کو عراق نہیں بنایا جاۓ۔ لاطین امریکہ میں بچے بھی یہ جانتے ہیں کہ و نیز ویلا میں کھربوں ڈالر کا تیل ہے۔ 570بلین ڈالر کا سونا ہے۔ اس کے علاوہ Irone ore, Bauxite, Coal  اور دوسری معدنیات ہیں۔ امریکہ کینیڈا اور یورپی ملک و  نیز ویلا کے قدرتی دولت میں اپنی کمپنیوں کے لئے منافع کے سنہری مواقع دیکھ رہے ہیں۔ جیسے سرد جنگ کے دور میں ایشیا، افریقہ اور لاطین امریکہ کے ملکوں میں ڈکٹیٹروں کو اقتدار میں بیٹھا کر ان کے قدرتی وسائل کی لوٹ کھسوٹ کی جاتی تھی۔ اور ڈکٹیٹروں کو بھی اس میں حصہ دیا جاتا تھا۔ اور اب اپوزیشن کو اقتدار پر مسلط کر کے و نیز ویلا کے قدرتی وسائل کا استحصال کیا جاۓ گا۔ امریکہ کینیڈا اور یورپ اپنی کمپنیوں کا مفاد دیکھ رہے ہیں۔ و نیز ویلا کے عوام اسی طرح غربت میں پڑے رہے گے۔ عراق میں 15سال قبل کے مقابلے میں آج غربت بہت زیادہ ہے۔ عراقی ابھی تک بنیادی ضرورتوں سے محروم ہیں۔ صدر بش نے صد ام حسین کو 72 گھنٹے دئیے تھے کہ وہ اقتدار چھوڑ کر کہیں اور چلے جائیں۔ صدر ٹرمپ نے و نیز ویلا کے صدر Nicolas Maduro سے یہ کہنے کے بجاۓ اپوزیشن کے رہنما Guaido کو و نیز ویلا کا صدر بنا دیا ہے۔ صدر ٹرمپ نے اسے بھی کوئی اہمیت نہیں دی کہ صدر Maduro کی حمایت میں بھی لاکھوں لوگ ہیں۔ اور ان کی سیاسی راۓ کا بھی احترام کیا جاۓ۔ صدر ٹرمپ نے اپنے صرف چند لفظوں سے و نیز ویلا میں دشمنوں کے دو بلاک بنا دئیے۔ اور خانہ جنگی کے لئے میدان زر خیز کر دیا۔ امریکی میڈیا میں بھی صرف حکومت کے خلاف اپوزیشن کے اجتماع اور سڑکوں پر توڑ پھوڑ کو دکھایا جاتا ہے۔ بالکل یہ ہی کچھ شام میں ہوا تھا۔ صدر اوبامہ یہ کہتے رہے ‘Assad has to go’ صدر اوبامہ نے جب یہ کہا تو برطانیہ فرانس اور ترکی بھی یہ کہنے لگے تھے۔ بیرونی مداخلت سے غیرملکی کسی ملک میں اپنی پسند کی حکومت قائم نہیں کر سکتے ہیں۔ یہ فیصلہ صرف اس ملک کے عوام کریں گے۔ اس لئے امریکہ کو ہر جگہ Regime change جنگوں میں شکست ہو رہی ہے۔
  سرد جنگ ختم ہونے کے بعد روس نے مشرقی یورپی ملکوں میں جمہوریت اور آزادی سبوتاژ کرنے میں مداخلت نہیں کی ہے۔ حالانکہ یہ مشرقی یورپی ملک روس کی سلامتی کے لئے خطرے پیدا کر رہے ہیں۔ یہ نیٹو میں شامل ہو گیے اور نیٹو کے ہتھیار روس کی سرحد کے قریب پہنچ گیے ہیں۔ روس کی جگہ اگر امریکہ ہوتا تو اس صورت میں وہ کیا کرتا؟ تاہم امریکہ نے ایشیا افریقہ اور لاطین امریکہ کے ملکوں میں مداخلت کرنے کی سرد جنگ کی پالیسی جاری ر کھی ہے۔ بش انتظامیہ نے 2002 میں و نیز ویلا میں صدر Hugo Chavez کی حکومت کا تختہ الٹنے کی سازش کی تھی۔ اور فوج اقتدار میں آ گئی تھی۔ صدر بش نے فوری طور پر فوجی حکومت کو تسلیم کر لیا تھا جس طرح آج صدر ٹرمپ نے اپوزیشن رہنما Guaido کو و نیز ویلا کا صدر تسلیم کر لیا ہے۔ لیکن 2002 میں لاطین امریکہ میں ہر طرف پروگریسو حکومتیں تھیں۔ جو سرد جنگ میں بائیں بازو کی فوجی حکومتوں سے لڑی تھیں۔ ان تمام حکومتوں نے صدر بش کے فیصلے کے خلاف شدید مزاحمت کی تھی۔ بلا آخر صدر بش کو اپنے فیصلے سے پیچھے ہٹنا پڑا تھا۔ اور صدر Hugo Chavez کی حکومت بحال ہو گئی تھی۔ لیکن آج پیشتر سے زیادہ ملکوں میں Right wings اقتدار میں ہیں جو سرد جنگ دور کے امریکہ کے اتحادی ہیں۔ لہذا امریکہ نے ان کے ساتھ مل کر و نیز ویلا میں Regime change کا منصوبہ بنایا ہے۔ و نیز ویلا پر سخت اقتصادی بندشیں لگا کر اس کی معیشت کا تباہ کیا ہے۔ اس کے نتیجہ میں لوگوں کی زندگیاں بری طرح متاثر ہوئی ہیں۔ غربت بھوک اور افلاس میں 50 گنا اضافہ ہوا ہے۔ ضروریات زندگی کی اشیا کی قلت سے لوگوں کے لئے مسائل پیدا ہوۓ ہیں۔ اور پھر میڈیا کے ذریعہ یہ بتایا جا رہا ہے کہ Maduro حکومت کر پٹ ہے۔ حکومت کی اقتصادی پالیسیاں ناکام ہو چکی ہیں۔ جو لوگوں کے اقتصادی مسائل میں اضافہ کا سبب بنی ہیں۔ و نیز ویلا کے دولت مند اپنی  دولت کے سات بھاگ کر فلو ر یڈا امریکہ آ گیے ہیں۔ ان کے علاوہ و نیز ویلا کے سیاسی اور اقتصادی حالات سے تنگ آ کر تقریباً  تین لاکھ و نیز ویلن سیاسی پناہ لینے فلو ریڈا میں آ گیے ہیں۔ امریکہ کی پالیسیاں و نیز ویلا کے حالات خراب کر رہی ہیں۔ جس کی وجہ سے لوگ و نیز ویلا سے بھاگ رہے ہیں۔ لیکن صدر ٹرمپ لوگوں کے اس سیلاب کو روکنے کے لئے میکسیکو کے ساتھ امریکہ کی سرحد پر دیوار تعمیر کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن امریکہ کی سرد جنگ کی پالیسیاں تبدیل نہیں ہوں گی۔   



No comments:

Post a Comment