Thursday, January 3, 2019

Pakistan Under Corruption Cartel

Pakistan Under Corruption Cartel

مجیب خان
Asif Ali Zardari and Nawaz Sharif

Hundreds of millions of pounds in British aid are given to education in Pakistan, Sindh, a judicial inquiry found it was being siphoned off by 50,000 schools and 40,000 teachers

Lahore, Government schools in at least 34 districts in Punjab presently lack an adequate number of toilets for children


   "چور الٹا کوتوال کو ڈانٹے" "چوری اور سینہ زوری" "سو دن سو نار کے ایک دن لوہار کا" یہ وہ کہاوتیں ہیں جس میں آصف علی زر داری اور میاں محمد نواز شریف بہت موزوں نظر آتے ہیں۔ میاں نواز شریف کے بلاشبہ سو دن سو نار کے تھے اور اب ایک دن لوہار کا آگیا ہے۔ آصف زر داری کے بارے میں، یہ چور الٹا کوتوال کو ڈانٹ رہا ہے۔ اور سینہ زوری بھی کر رہا ہے کہ تم 3 سال کے لئے آتے ہو لیکن ہمیں تو یہاں رہنا ہے۔ ہماری چوری کا حساب لینے کا تمہیں کس نے اختیار دیا ہے۔ یہ کام پارلیمنٹ کا ہے۔ کرپشن کا پنڈو رہ با کس کھلنے سے آصف زر داری ذرا حواس باختہ ہوتے جا رہے ہیں۔ بہکی باتیں کر رہے ہیں۔ سمجھ میں نہیں آ رہا ہے کہ حقائق کو جھوٹ سے کیسے غلط ثابت کریں۔ وکیلوں کے لئے بھی کرپشن کے ہزاروں دستاویز پر مبنی ثبوت دس جھوٹ سے کیسے غلط ثابت کیا جاۓ۔ حکومتیں پانچ سال کے لئے اقتدار میں آتی ہیں۔ اور اگر اقتدار میں ان کے کرپشن اور منی لا نڈ رنگ کے بارے میں عدالتی احتساب تین سال میں ہو جاتا ہے تو یہ جمہوری عمل کو صحت مند رکھنے کے لئے ایک اچھا عدالتی عمل ہے۔ کاش، آصف زر داری یہ " تم 3 سال کے لئے آتے ہو۔ لیکن ہمیں یہاں رہنا ہے" صدر بش سے کہتے جو ان کی حکومت سے طالبان کے خلا ف جنگ جاری رکھنے کا مسلسل اصرار کر رہے تھے کہ مسٹر پریذیڈنٹ آپ تو چند ماہ کے لئے اور اقتدار میں ہو لیکن ہمیں تو یہاں رہنا ہے۔
   امریکہ نے 1970s پاکستان کے داخلی سیاسی بحران میں مداخلت نہیں کی تھی۔ اور بھارت کو مداخلت کرنے کے لئے آگے کر دیا تھا۔ 2006 میں بش انتظامیہ نے اپنے سیاسی مفاد میں پاکستان کے داخلی سیاسی معاملات میں مداخلت کی تھی۔ اور انتہائی کر پٹ لیڈروں سے کام لینے کے لئے ان کے خلاف کرپشن کے تمام مقدمات جو عدالتوں میں تھے ختم کر و آۓ تھے۔ صدر جنرل پرویز مشرف سے انہیں سیاست میں حصہ لینے کی اجازت دینے کی سفارش کی تھی۔ بش انتظامیہ نے صدر زر داری کی صدارت جیسے 60ملین ڈالر میں خرید لی تھی۔ جو ان کے سوئس بنکوں میں منجمد تھے۔ اور زر داری کو دلواۓ تھے۔ المیہ یہ تھا کہ یہ غیر قانونی سیاسی مداخلت دن دھاڑے کی جا رہی تھی۔ لیکن پاکستان کے وکلا، بار Associations ، میڈیا کی دنیا کے دانشوروں میں سے کسی نے بھی اس غیر قانونی اور ناجائز مداخلت کو مسترد نہیں کیا تھا۔ بلکہ سب نے امریکہ کا شکر یہ ادا کیا تھا۔ پاکستان کی تاریخ کا یہ دن شاید دسمبر 1971 کے دن سے کم تاریک نہیں تھا کہ آصف علی زر داری عوام کے کندھوں پر تھے۔ جنہیں 14 اگست 2003 کو منی لا نڈرنگ کے کیس میں سوئس عدالت نے 6 ماہ جیل کی سزا سنائی تھی۔ لیکن اسے معطل کر دیا تھا۔ کیونکہ زر داری اس وقت پاکستان میں جیل میں تھے۔ تاہم زر داری کو 12 ملین ڈالر پاکستانی حکومت کو ادا کرنے کا حکم دیا تھا۔ 50ہزار ڈالر جرمانہ کیا تھا۔ اور ان کے ساتھ بے نظیر بھٹو کو بھی 50 ہزار جرمانہ کیا تھا۔  آصف زر داری کے خلاف  منی لانڈرنگ کے اس کیس کا تعلق 1990s میں دو سوئس کمپنیوں سے جو پاکستان میں کاروبار کرتی تھیں ان سے Kickback سے لاکھوں ڈالر وصول کیے تھے۔ صدر جنرل پرویز مشرف نے NAB کے اعلی حکام کو منی لانڈرنگ اور کرپشن کے الزامات کے بار ے میں معلومات لینے کے لئے سوئزر لینڈ بھیجا تھا۔ زر داری جیل میں تھے۔ اور بے نظیر بھٹو جن کا نام بھی منی لانڈرنگ میں تھا۔ ان کے خلاف وارنٹ تھے۔ اور وہ پاکستان سے باہر تھیں۔ انہیں پاکستان آنے پر گرفتار کر لیا جاتا۔ تاہم بے نظیر بھٹو نے اپنے خلاف منی لانڈرنگ کے الزامات سے انکار کیا تھا۔ اور کہا تھا کہ جنیوا میں بنک اکاؤنٹس سے ان کا کوئی تعلق نہیں تھا۔ پاکستانی تحقیقاتی ٹیم کا کہنا تھا کہ زر داری نے 1995 میں جنیوا میں سٹی بنک میں اکا ؤ نٹ کھولا تھا۔ اور اس میں 10ملین ڈالر جمع کراۓ  تھے۔ جو انہیں سوئس کمپنی نے پاکستان میں Contract دینے کے بدلے میں دئیے تھے۔
  1998 میں نیویارک ٹائمز میں ایک تفصیلی تحقیقاتی رپورٹ شائع ہوئی تھی۔ جس میں پاکستانی تحقیقاتی ٹیم کے حوالے سے بتایا گیا تھا کہ انہیں بنک اکاؤنٹس کے ایک نیٹ ورک کی دستاویز ملی ہیں۔ جو سوئزرلینڈ میں فیملی کے وکیل سے منسلک ہے۔ اور آصف علی زر داری اس کے Principal share holder تھے۔ نیویارک ٹائمز کی اس رپورٹ کے مطابق فرانس کی حکومت نے جو دستاویز جاری کی تھیں۔ ان میں یہ انکشاف ہوا تھا کہ زر داری نے فرانسیسی ائیر کرافٹ Manufacturer Dassault کو پاکستان کی ایرفورس کے فائٹرجٹ تبدیل کرنے کا کلی اختیار دیا تھا۔ اور کمپنی سے اس کے عوض 5.5 فیصد کمیشن لیا تھا۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ دوبئی کی ایک کمپنی کو پاکستان میں سونا امپورٹ کرنے کا لائیسنس دیا گیا تھا۔ جو صرف یہ ہی کمپنی سونا امپورٹ کر سکتی تھی۔ اور اس کمپنی سے زر داری 10ملین ڈالر سے زیادہ وصول کرتے تھے۔ اور یہ دوبئی میں ان کے Citi Bank اکاؤنٹ میں جمع کیے جاتے تھے۔
 پولینڈ کی حکومت نے 500 صفحات پر مشتمل دستاویز پاکستان کو دی تھیں جن میں زر داری اور بھٹو کے خلاف کرپشن کے الزامات کی تفصیل تھی۔ ان الزامات میں 1997 میں 8ہزار ٹریکٹروں کو سودا کرنے پر پولینڈ کی ٹریکٹر کمپنی نے غیر قانونی طور پر 2ملین ڈالر کمیشن دیا تھا۔ بے نظیر بھٹو آصف زر داری کی منی لانڈرنگ  اسکیم میں با ظاہر ایک Innocent victim تھیں۔ زر داری کے منی لانڈرنگ  اور کرپشن کے بارے میں انکشاف ہونے کے نتیجہ میں بے نظیر شاید پاکستان سے باہر چلی گئی تھیں۔ اس میں شبہ نہیں تھا کہ بے نظیر بھٹو کمرہ بند کر کے اس پر روتی ہوں گی کہ وہ ایک ایسے باپ کی بیٹی تھیں جس پر کرپشن کا ایک قطرہ برابر الزام نہیں تھا۔ وہ جنرل ایوب خان کی کابینہ میں دو مختلف وزارتوں کے وزیر تھے۔ ایوب خان کی کابینہ کے ہر رکن نے کرپشن کیا تھا۔ اور دونوں ہاتھوں سے دولت لوٹی تھی۔ لیکن بھٹو واحد وزیر تھے۔ جنہیں دولت بٹورنے کی کبھی ہوس نہیں تھی۔ بے نظیر ایک ایسے باپ کی بیٹی تھیں۔ اگر بے نظیر تیسری مرتبہ اقتدار میں آتیں تو وہ ضرور یہ ثابت کرتی اور اس مرتبہ زر داری کو پرائم منسٹر ہاؤس سے میلوں دور رکھتیں۔ یہ پاکستان کے ساتھ ایک المیہ ہے کہ فرانس کی عدالت سے ایک Convicted پاکستان کا صدر بن گیا تھا۔ اور پاکستان کے 22 کڑوڑ میں سے کوئی شرمندہ نہیں تھا۔ اقبال کی خودی کے گیت گاتے ہیں۔ لیکن کسی میں خودی نہیں تھی۔ نواز شریف کرپشن کرنے میں زر داری سے زیادہ پیچھے نہیں ہیں۔ نواز شریف مسجد نبوی میں ستائسويں شب کو اللہ سے معافی مانگتے ہیں اور پاکستان میں NRO سے اپنے کرپشن معاف کراتے ہیں۔ لیکن پھر کرپشن کرنے لگتے ہیں۔ مذہبی جماعتیں اور ان کے رہنما بھی اتنے ہی کر پٹ ہیں کہ جتنی سیاسی قیادتیں ہیں۔ کرپشن مسجدوں میں پہنچ گیا ہے۔ رسول اللہ صلعم کا مکہ اور مدنیہ میں کافروں کے درمیان اور ان کے ساتھ جو رویہ اور کردار تھا۔ پاکستان میں مسلمانوں کے ساتھ اور ان کے درمیان کسی اسلامی رہنما کا ایسا رویہ اور کردار نہیں ہے؟ یہ توہین رسالت پر مرنے اور مارنے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں لیکن توہین رسالت کے سب سے بڑے مجرم خود ہیں کہ رسول اللہ صلعم کے نقش قدم پر نہیں چلتے ہیں۔ اسلامی رہنماؤں کے کردار میں ان کی تعلیم کی ذرا بھی جھلک نظر نہیں آتی ہے۔ اسلامی رہنما بھی دنیا کے کرپشن میں غرق ہیں۔
   جیکو لین کنیڈی اوناسس جان ایف کنیڈی  کی بیوی تھیں۔ 65 برس کی تھیں۔ 1994 میں ان کی وفات ہوئی تھی۔ شدید علیل تھیں۔ ہسپتال میں تھیں۔ ایک بیٹی اور ایک بیٹا تھا۔ مرنے سے چند روز قبل انہوں نے بیٹے اور بیٹی کو ہسپتال میں بلایا اور ان سے کہا کہ ان کے پاس 350 ملین ڈالر ہیں، اثاثے اور پراپرٹی ہے۔ دونوں بہن بھائی سے کہا وہ یہ لے لیں۔ دونوں نے کہا ان کے پاس بہت ہے۔ وہ ٹرسٹ فنڈ اور کنیڈی فاؤنڈیشن کو دے دیں گے۔ فاؤنڈیشن اسکالر شپ دیتی ہے۔ ریسرچ لیبارٹریوں کو دیتی ہے جو بیماریوں کے علاج پر ریسرچ کرتی ہیں۔ اور بہت سے دوسرے فلاحی کاموں میں امداد دیتی ہے۔ پھر کچھ سال بعد بھائی اور اس کی بیوی بھی طیارے کے حادثے میں جاں بحق ہو گیے تھے۔ بھائی کی کوئی اولاد نہیں تھی۔ بہن نے بھائی کے 60،70 ملین ڈالر بھی فاؤنڈیشن کو دے دئیے تھے۔ بہن کو نہ تو ماں کی دولت کی ہوس تھی اور نہ ہی بھائی کی دولت کی ہوس تھی۔ اللہ کا فرمان ہے کہ ہوس مت کرو اتنی دولت ر کھو جتنی تمہیں ضرورت ہے اور باقی غربا پر خرچ کرو۔ صدر اوبامہ نے کیرو لین کنیڈی کو جاپان میں امریکہ کا سفیر نامزد کیا تھا۔ بڑی دیانتداری سے اپنے ملک کی نمائندگی کی تھی۔ امریکہ اور جاپان کے تجارتی تعلقات  فروغ دئیے تھے۔ لیکن Kickback نام کی کوئی شہ نہیں تھی۔                         

No comments:

Post a Comment