Post Cold War World: Militarism Encouraging Fascism
Western Great Values Are Under NATO’s Boots, Middle East Transforming From Arab Spring To Arab NATO
مجیب خان
صدر ٹرمپ نے امریکہ کو نیٹو سے نکالنے کا کہا ہے۔ اور نیٹو کو ایک Obsolete تنظیم کہا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ آخر نیٹو کیوں ہے؟ جس دن دیوار بر لن گری تھی اسی دن نیٹو بھی ختم ہونا چاہیے تھا۔۔ سرد جنگ کی تمام نشانیاں بالکل ایسے ہی ختم کی جاتی جیسے امریکی فوجوں نے صد ام حسین کا اقتدار ختم کرنے کے بغداد میں صد ام حسین کا Statue تباہ کیا تھا۔ نیٹو کا وجود برقرار رکھنے سے سرد جنگ ختم ہونے کا کوئی فائدہ نہیں ہوا ہے۔ اور سرد جنگ کی دنیا کے مقابلے میں Post-Cold war world زیادہ خطرناک ہو گئی ہے۔ 30سال ہو گۓ ہیں سرد جنگ ختم ہوۓ لیکن آج دنیا میں 30 سے زیادہ مقام پر نئی جنگیں ہو رہی ہیں۔ بعض مقام جنگ کی خطرناک کشیدگی میں ہیں۔ اور بعض خطوں میں انتشار حالات کو جنگ کی طرف لے جا رہے ہیں۔ دنیا کے کئی جگہوں پر یہ حالات نیٹو کی وجہ سے پیدا ہوۓ ہیں۔ اور بعض ملکوں میں نیٹو اپنی سرحدوں سے نکل کر جنگ کر رہی ہے۔ سرد جنگ میں مشرقی یورپ کے جو ممالک سوویت وار سا ملٹری پیکٹ میں تھے۔ وہ اب مغربی ملٹری پیکٹ نیٹو میں شامل ہو گیے ہیں۔ اور ان کی سرزمین پر نیٹو فوجی اڈے قائم ہو گیے ہیں۔ مغربی اور مشرقی یورپ کے نیٹو ملکوں نے روس کو گھیر لیا ہے۔ دوسری طرف یورپی یونین کی روس پر اقتصادی بندشیں لگی ہوئی ہیں۔ جبکہ روس پر امریکہ کی ایگزیکٹو اور کانگریس کی اقتصادی بندشیں علیحدہ ہیں۔ امریکہ اور یورپ کے آج روس کے ساتھ تعلقات سرد جنگ دور سے زیادہ خراب ہیں۔ سرد جنگ ختم ہونے کے بعد دنیا میں امن کو اتنی اہمیت نہیں دی گئی ہے کہ جس قدر نیٹو ملٹری الائنس فروغ دینے کو خصوصی اہمیت دی گئی ہے۔ اور یہ ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس کے مفاد میں کیا جا رہا تھا۔ نیٹو میں مشرقی یورپ کے نئے رکن ملکوں سے یہ کہا گیا کہ انہیں اپنے فوجی معیار کو نیٹو ملکوں کے فوجی معیار کے برابر بنانا ہو گا۔ اور اس کے لئے انہیں امریکہ اور دوسرے مغربی یورپی ملکوں سے ہتھیار خریدنا ہوں گے۔ روس کے گرد نیٹو کا حصار بنانے سے ہتھیاروں کی کمپنیوں کی تجارت میں زبردست Boom آیا تھا۔ اور دوسری طرف جنگیں انہیں منافع دے رہی تھیں۔
روس 1990s میں انتہائی خطرناک حالات کا سامنا کر رہا تھا۔ روس کی معیشت بالکل تباہ ہو چکی تھی۔ حکومت کا خزانہ خالی تھا۔ حکومت کے اثاثوں کی لوٹ مار ہو رہی تھی۔ بینکوں، کمپنیوں، آئل اور گیس کا اونے پونے سودا ہو رہا تھا۔ حکومت کے پاس فوجیوں اور سرکاری ملازمین کو تنخواہیں دینے کے لئے فنڈ ز نہیں تھے۔ ماسکو میں بم پھٹ رہے تھے۔ روس کے شمالی Caucasus میں علیحدگی پسند بغاوت کر رہے تھے۔ چیچن اور د قستان میں خانہ جنگی عروج پر تھی۔ روس کے حالات افغانستان سے مختلف نہیں تھے۔ واشنگٹن اور یورپی دارالحکومتوں میں عام تاثر یہ تھا کہ روس کا ان حالات سے دوبارہ ایک بڑی طاقت بن کر ابھرنا ممکن نہیں تھا۔ ان حالات میں ویلا دیمیر پوتن اقتدار میں آۓ تھے۔ اور روس کو سرد جنگ کے ملبہ سے نکالا تھا۔ معیشت کو استحکام دیا تھا۔ جو حکومت کے اثاثے لوٹ کر لے گیے تھے۔ وہ ان سے واپس لئے تھے۔ چیچن میں خانہ جنگی ختم کی تھی۔ چیچنیا جو شام کی طرح کھنڈرات بن گیا تھا۔ اسے دوبارہ تعمیر کیا تھا۔ چیچنیا میں چیچن کی حکومت قائم کی تھی۔ ان کے سیاسی حقوق تسلیم کیے تھے۔ ایک انتہائی مختصر عرصہ میں یہ صدر پو تن کی شاندار کامیابیاں تھیں۔ صدر پو تن کے جرمن چانسلر Gerhard Schroder سے بہت اچھے ذاتی تعلقات تھے۔ چانسلر شورو ڈر نے روس کے آئل اور گیس کے منصوبوں میں صدر پو تن کی مدد کی تھی۔ یورپ میں روس کے تیل اور گیس کی پائپ لائنیں پھیلتی جا رہی تھیں۔ جیسے جیسے روس کا آئل اور گیس مارکیٹ میں پہنچ رہا تھا۔ روس کی معیشت پوری رفتار سے ترقی کے راستہ پر تھی۔ صرف چند سال میں روس کے Foreign Reserve 700بلین ڈالر پر پہنچ گیے تھے۔ صدر پو تن نے سرد جنگ دور کے تمام قرضہ ادا کر دئیے تھے جن میں جرمن حکومت کے 80بلین ڈالر کا قرضہ بھی شامل تھا۔ روس یورپ میں اکنامک پاور ہاؤس بننے کی طرف بڑھ رہا تھا۔ حیرت کی بات تھی کہ روس نے 200بلین ڈالر امریکہ کو قرضہ دیا تھا۔ اور امریکہ کو قرضہ دینے والے ملکوں کی فہرست میں شامل ہو گیا تھا۔
دوسری طرف روس کے گرد حلقہ تنگ کرنے کی نیٹو سرگرمیاں بھی جاری تھیں۔ Baltic ملکوں کو بھی نیٹو کا رکن بنا لیا تھا۔ یورپ بھر میں نیٹو کی ان سرگرمیوں میں یہ واضح ثبوت نظر آ رہے تھے کہ امریکہ اور نیٹو دنیا کو ایک نئی سرد جنگ کی طرف لے جا رہے تھے۔ روس کو یورپ میں تنہا کیا جا رہا تھا۔ اگر ایسا امریکہ کے ساتھ ہوتا تو شاید ایٹمی ہتھیار امریکہ کے اطراف میں لگ چکے ہوتے۔ لیکن صدر پو تن نے انتہائی ٹھنڈے ذہن سے اس صورت حال کا مقابلہ کیا تھا۔ اور نیٹو کو Obsolete بنا دیا تھا۔ دراصل صدر بش نے 9/11 سے غلط فائدے اٹھانے کی کوشش کی تھی۔ جس کے نتیجہ میں نیٹو Obsolete ہوا ہے۔ نیٹو کو افغانستان میں کبھی ملوث نہیں ہونا چاہیے تھے۔ بش انتظامیہ میں جنہوں نے نیٹو کو طالبان کے خلاف جنگ میں شامل کرنے کا مشورہ دیا تھا۔ انہوں نے دراصل روس کو ایک Favor دی تھی۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد ویت نام امریکہ کی پہلی جنگ تھی۔ اور افغان جنگ نیٹو کی پہلی جنگ تھی۔ افغانستان نیٹو کے لئے ویت نام بن گیا تھا۔ 18 سال ہو گیے ہیں اور نیٹو ابھی تک افغان جنگ میں لٹکا ہوا ہے۔ نکلنے کا کوئی راستہ نہیں ہے اور افغان جنگ جیتنے کے کوئی آثار نہیں ہیں۔ متعدد نیٹو رکن ملکوں کے فوجی افغانستان میں مارے گیے ہیں۔ ان ملکوں میں عوام اپنی حکومتوں سے یہ سوال کرتے ہیں کہ ہمارے فوجی افغانستان میں کس کی جنگ لڑ رہے ہیں؟ برطانیہ میں مائیں جن کے بچے افغان آپریشن میں مارے گیے ہیں وہ بھی اپنی حکومت سے یہ پوچھتی ہیں کہ ان کے بچے افغانستان میں کیوں ہیں۔ افغانوں نے ہمارے ملک پر حملہ نہیں کیا تھا۔ پھر ہم ان سے کیوں لڑ رہے ہیں؟ بعض نیٹو ملکوں نے افغانستان سے اپنی فوجیں بلا لی ہیں۔ اور وہ دوبارہ اپنی فوجیں افغانستان بھیجنا نہیں چاہتے ہیں۔ لیکن امریکہ میں کانگریس اور سینیٹر ز افغانستان سے فوجیں واپس بلا نے کی مخالفت کرتے ہیں۔ لیکن وہ یہ نہیں دیکھ رہے ہیں کہ افغانستان میں 18 سال سے جنگ کے نیٹو اور الائنس پر کیا اثرات ہو رہے ہیں۔ کیا نیٹو برقرار رہے سکتا ہے؟ صدر ٹرمپ نے نیٹو سے امریکہ کو نکالنے کا کہا ہے۔ ایک بار جب یہ بحث شروع ہو جاۓ گی تو پھر پنڈو رہ با کس کھلنا شروع ہو جاۓ گا کہ نیٹو کے وجود سے کیا مغربی قدریں پامال ہورہی ہیں۔ ہاں یہ قدریں بری طرح پامال ہوئی ہیں۔ جمہوریت انسانی حقوق اور قانون کی با لا دستی جیسی مقدس قدریں نیٹو کے فوجی Boots کے نیچے آ گئی ہیں۔ سرد جنگ میں مغربی قدروں کو کمیونزم سے اتنا نقصان نہیں پہنچا تھا کہ جتنا نیٹو کی فوجی سرگرمیوں سے مغربی قدروں کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ عالمی قوانین کی مسلسل خلاف ورزیاں ایک معمول بن گیا ہے۔ Sovereignty Law of کو Preemptive war سے پامال کر دیا ہے۔ بگرام، ابو غریب جیل، گو تانو مو بے نظر بندی کیمپ، واٹر بو رڈنگ، اذیتیں، سیاسی قیدیوں کو بنیادی حقوق سے محروم رکھنا، انہیں صرف الزامات کی بنیاد پر غیر معینہ عرصہ تک نظر بند رکھنا انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں ہیں۔ جن کا تصور صرف سرد جنگ میں اشتراکی ملکوں میں کیا جاتا تھا۔ سرد جنگ میں سو ویت یونین اپنے حلقہ اثر ریاستوں میں Regime change کرتا تھا۔ اب Regime change مغربی جمہوری قدروں کا نظام بن گیا ہے۔ Arab Spring عرب ڈکٹیٹروں اور اسرائیلی Warmongers نے ناکام بنا دیا اور مغربی جمہوریت نے اسے قبول کر لیا۔ اور اب Arab Spring کو Arab NATO میں Transform کرنے کی تجویز ہے۔ اور Arab NATO کی یہ تجویز سیکرٹیری آف اسٹیٹ Mike Pompeo نے اپنے حالیہ مڈل ایسٹ کے دورے میں عرب حکم رانوں کو دی ہے۔ NATO کو جیسے McDonald کی طرح Franchise کیا جا رہا ہے۔ Arab NATO کے بعد پھر African NATO ہو گا۔ پھر Latin NATO ہو گا۔ شاید اس لئے صدر ٹرمپ نے NATO سے امریکہ کے دستبردار ہونے کا کہا ہے۔
No comments:
Post a Comment