What Have They Achieved In Syria Besides Human Destruction?
مجیب خان
destruction in Syrian civil war Buildings in Homs, 2014 |
Destruction of a country is a brutal destruction of humanity |
U.S President Barack Obama after hosting a working session of the six-nation Gulf cooperation at Camp David, May14, 2015 |
Syrian refugees in Lebanon |
Syrians running from a war-torn region, Middle East |
متحدہ عرب امارات نے 8سال بعد شام کے ساتھ سفارتی تعلقات بحال کر لئے ہیں۔ د مشق میں متحدہ عرب امارات کا سفارت خانہ دوبارہ کھل گیا ہے۔ بحرین کے وزیر خارجہ اقوام متحدہ کے سالانہ اجلاس میں سائڈ لائن پر شام کے وزیر خارجہ سے بڑی گرم جوشی سے گلے ملے تھے۔ بحرین نے کہا کہ شام میں اس کا سفارت خانہ اور Manama میں شام کا سفارتی مشن کسی مداخلت کے بغیر پہلے سے کام کر رہے تھے۔ سوڈان کے صدر عمر البشر پہلے عرب رہنما تھے جو گزشتہ ماہ د مشق آۓ تھے۔ اور صدر بشر السدد سے ملے تھے۔ اور ان سے علاقائی صورت حال پر تبادلہ خیال کیا تھا۔ عرب لیگ نے کہا ہے کہ شام کی عرب لیگ کی رکنیت معطل کرنے کا فیصلہ عجلت میں کیا گیا تھا۔ اور عرب لیگ اب شام کی رکنیت بحال کرنے پر غور کر رہی ہے۔ عرب لیگ کا اجلاس مارچ میں ہو گا۔ جس میں شام کی رکنیت بحال ہو جاۓ گی۔ شام اب بڑی سرگرمی سے دوبارہ عالمی برادری میں آ رہا ہے۔ صدر اسد نے جنگ جیتی ہے۔ عالمی برادری یہ بھی اعتراف کر رہی ہے۔ یہ ان عرب ملکوں کے لئے باعث ندامت ہے جنہوں نے امریکہ کے ساتھ اتحاد بنایا تھا اور شام میں مداخلت کی تھی۔ لیکن وہ خود اپنے ملکوں میں بیرونی مداخلت پر شور مچاتے تھے۔ اپنی ریاستوں میں وہ نظام تبدیل کرنے کے لئے تیار نہیں تھے۔ لیکن شام میں وہ حکومت تبدیل کرنے کے حق میں تھے۔ اور لوگوں کو آزادی اور سیاسی حقوق دینے کی حمایت کرتے تھے۔ جبکہ اپنے ملکوں میں انہوں نے آزادی اور سیاسی حقوق پر بندشیں لگائی ہوئی ہیں۔ تاہم امریکہ دراصل کرد و ں کو خود مختاری دلانے کے ایجنڈہ پر کام کر رہا تھا۔ نام نہاد داعش سے لڑنے کے آ ڑ میں کرد و ں کو فوجی تربیت اور اسلحہ دیا جا رہا تھا۔ لیکن شام میں روس کی بر وقت مداخلت نے اس منصوبے کو ناکام بنا دیا تھا۔ پھر ترکی میں بموں کے کئی دھماکوں سے ترکی کی حکومت کی آنکھیں کھل گئی تھیں۔ جس میں سینکڑوں ترک شہری مارے گیے تھے۔ ترکی کی حکومت نے بموں کے دھماکے کرنے کا الزام ترکی کی کالعدم کرد تنظیم کو دیا تھا۔ PKK جسے امریکہ نے بھی ایک دہشت گرد کرد تنظیم قرار دیا تھا۔ اور اس تنظیم کا شام کے کرد و ں کے ساتھ اتحاد ہو گیا تھا۔ امریکہ کا کہنا یہ تھا کہ وہ داعش کے خلاف لڑائی میں کرد و ں کی مدد کر رہا ہے۔ با ظاہر امریکی اسرائیلی منصوبہ یہ تھا کہ شام کے شمال مشرقی حصہ میں کر د و ں کی خود مختاری کا اعلان کیا جاۓ۔ تاہم روس ایران اور خطہ کے بعض دوسرے ملکوں نے شام کو تقسیم کرنے کے کسی بھی منصوبے کی مخالفت کی تھی۔ اور شام کی سلامتی اور یکجہتی کی مکمل حمایت کی تھی۔ جو کرد و ں کی آزادی اور خود مختاری کے لئے کام کر رہے تھے وہ انتہائی نامعقول تھے۔ جبکہ امریکہ فلسطینیوں کی آزادی اور خود مختاری کے لئے تو کچھ کر نہیں رہا تھا۔ اور فلسطینیوں پر اسرائیلی فوجی قبضہ کی پشت پنا ہی کر رہا تھا۔
افغانستان اور عراق کے بعد امریکہ کو شام میں یہ تیسری بڑی ناکامی ہوئی ہے۔ امریکہ عرب دنیا میں سفارتی طور پر زیادہ کامیاب ہے اور نہ ہی فوجی مہم جوئیوں میں کامیاب ہے۔ روس، ایران، حزب اللہ اور بشر السد فاتح Allied بن کر عرب دنیا میں ابھرے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ امریکہ ایسی جنگیں شروع کرنے میں پہل کیوں کرتا ہے جن میں ناکامی یقینی نظر آ رہی ہوتی ہے۔ 9/11 کے بعد ری پبلیکن یا ڈیمو کریٹ انتظامیہ نے ایک جنگ بھی اگر جیت لی ہوتی تو ڈونالڈ ٹرمپ شاید کبھی منتخب نہیں ہوتے۔ عراق جنگ کا المیہ یہ ہے کہ 15 سال بعد امریکہ کے تیسرے صدر بھی انتہائی پراسرار طریقہ سے عراق جاتے ہیں اور بغداد حکومت سے بھی اسے خفیہ رکھا جاتا ہے۔ کیونکہ بش انتظامیہ نے عراق کو جو جمہوریت دی تھی مقتدا الصد ر کی پارٹی نے اس میں بھاری اکثریت سے انتخاب جیت لیا ہے۔ اس لئے ڈونالڈ ٹرمپ کے دورہ عراق کو بغداد حکومت سے خفیہ رکھا تھا۔ جس پر بغداد حکومت خوش نہیں تھی۔ عراق میں اگر صد ام حسین ہوتے تو امریکہ کے صدر کبھی اس طرح پراسرار طور پر بغداد نہیں جاتے۔ داعش کا کوئی وجود نہیں ہوتا۔ واشنگٹن اور تل ابیب میں مڈل ایسٹ میں ایران کا اثر و رسوخ بڑھنے کا موضوع زیر گفتگو نہیں ہوتا۔ عراق میں حکومت تبدیل کرنے کا فیصلہ سو فیصد غلط تھا۔ اور اس کے بعد ری پبلیکن اور ڈیموکریٹک انتظامیہ نے مڈل ایسٹ میں جو بھی فیصلے کیے ہیں وہ سب غلط ثابت ہوۓ ہیں۔ بش انتظامیہ 8 سال اقتدار میں تھی۔ 2003 میں عراق پر حملہ کر کے صد ام حسین حکومت کا خاتمہ کیا گیا تھا۔ لیکن 5سال بش انتظامیہ نے عراق کو عدم استحکام میں رکھا تھا۔ اور عراق کو عدم استحکام میں چھوڑ کر گیے تھے۔ صد ام حسین حکومت گرنے کے فوری بعد بغداد میں نیویارک کے امریکیوں کی حکومت قائم کرنے کے بجاۓ اگر عراقی حکومت کی وزارتیں لا اینڈ آ ڈر نافذ کرنے والے ادارے اور حکومت عراقیوں کو دی جاتی تو شاید دہشت گردوں کے لشکر وجود میں نہیں آتے۔ اور داعش کا نام امریکہ کے صدر کی زبان پر نہیں ہوتا۔ لیکن بش چینی انتظامیہ کے عزائم مڈل ایسٹ کو عدم استحکام کرنا تھا۔ جتنا مڈل اسٹ عدم استحکام ہوتا اتنے ہی زیادہ دہشت گرد گروپ بنتے اور پھر دہشت گردی کے خلاف جنگ 50 سال جاری رہتی جس کا نائب صدر ڈک چینی نے کہا تھا کہ یہ جنگ 50 سال تک جاری رہے گی۔ امریکہ اور دنیا کے لوگوں میں 50 سال تک یہ جنگ جاری رکھنے کا Stamina نہیں تھا۔ 2016 کے انتخابات میں انہوں نے یہ فیصلہ دیا تھا۔
حیرت کی بات تھی کہ عراق عدم استحکام کے حالات میں تھا۔ اور Dumb عرب رہنماؤں نے لیبیا اور شام عدم استحکام کرنے میں امریکہ کا اتحادی بننا پسند کیا تھا۔ عرب لیگ نے تو کبھی بھی امریکہ کے کسی فیصلے کی مزاحمت نہیں کی ہے۔ اور اس کے ہر فیصلے کے آ گے گھٹنے ٹیک دئیے تھے۔ سعودی عرب کی قیادت میں خلیج کے ملکوں نے بھی عرب دنیا میں حکومتیں تبدیل کر کے یہاں دہشت گردوں کا راج قائم کرنے کا ماحول بنانے کی کوئی مزاحمت نہیں کی تھی۔ بش اور اوبامہ انتظامیہ صرف اپنے مفاد کے مطابق عرب دنیا میں توڑ پھوڑ کر رہے تھے۔ انہیں مقامی آبادی کی پرواہ نہیں تھی کہ اسے کیا نتائج بھگتنا ہوں گے۔ صدر ٹرمپ نے شام سے امریکی فوجوں کے انخلا کا اعلان کیا ہے۔ اس سے قبل صدر ٹرمپ نے خلیج کے دولت مند ملکوں سے شام کی تعمیر نو میں Contribute کرنے کے لئے کہا ہے۔ اب Dumb کون ہے؟ خلیج کے حکمرانوں نے 8 سال شام کی خانہ جنگی میں کھربوں ڈالر Invest کیے تھے۔ اس خانہ جنگی کے نتیجہ میں شام سے جن ہزاروں اور لاکھوں خاندانوں نے مہاجر کیمپوں میں پناہ لی تھی۔ ان پر علیحدہ لاکھوں ڈالر خرچ کیے جا رہے تھے۔ کن کے ہتھیاروں سے یہ خانہ جنگی لڑی جا رہی تھی؟ داعش کو کس کے خفیہ فنڈ سے ٹینک اور ٹرکوں کی فلیٹ خرید کر دی گئی تھی؟ سب نے مل کر جب شام کو کھنڈرات بنا دیا تو اب شام کی تعمیر نو میں ان سے کھربوں ڈالر دینے کے لئے کہا جا رہا ہے۔ یہ امریکہ اور یورپ میں Immigrations سے زیادہ بڑا مسئلہ ہے کہ مڈل ایسٹ میں غیر ملکی مداخلت نے انسانی تباہی پھیلائی تھی۔ معاشرے تہس نہس کر دئیے۔ کئی نسلوں کا مستقبل تاریک ہو گیا۔ عراق، شام، لیبیا، یمن یہ سب ایجوکیشن میں کم از کم 50 سال پیچھے چلے گیے ہیں۔ ان جنگوں کی شاید یہ سب سے بڑی کامیابی ہے۔ اور پھر دنیا کو یہ بتایا جاتا ہے کہ امریکی فوجیں یہاں داعش کا خاتمہ کرنے کے لئے لڑ رہی ہیں۔ 2003 میں یہاں داعش کا کوئی وجود تھا اور نہ ہی 2011 اس کا کوئی نام لیتا تھا۔ صرف وہابی اور سلا فسٹ نظریاتی انتہا پسندی کی باتیں ہوتی تھیں۔ ان سب کو جیسے داعش بنا کر دی گئی تھی۔
صرف 8 سال میں شام کو تباہ کرنے پر جو کھربوں ڈالر خرچ کیے گیے ہیں۔ ان سے 8 سال میں اس خطہ کے ملکوں کو ہانگ کانگ، سنگاپور، جنوبی کوریا، ویت نام بنایا جا سکتا تھا۔ اس خطہ میں استحکام ہوتا۔ مقامی لوگوں کے لئے اقتصادی ترقی کے مواقع ہوتے۔ اسرائیل اور امریکہ بادشاہوں، شہزادوں، امیر مملکت، ڈکٹیٹروں کو ایران سے خوفزدہ نہیں کرتے۔ اور پھر انہیں کھربوں ڈالروں کا اسلحہ ان کی سلامتی کا مفاد بتا کر فروخت نہیں کرتے۔ عربوں نے بہت جنگیں لڑی ہیں۔ بہت ماریں کھائی ہیں۔ تباہی بہت ہوئی ہے۔ اور انہیں ملا کچھ نہیں ہے۔ انہیں اب صرف اپنے مفاد میں اقدامات کرنا ہوں گے۔ صرف اسی میں ان کی سلامتی اور بقا ہے۔ اور عرب عوام کے مستقبل کے لئے روشنی ہے۔
No comments:
Post a Comment