War With Pakistan, India Will lose Kashmir As Pakistan Had Lost East Pakistan In War With India; Facts
On The Ground In Kashmir Are Very Similar
مجیب خان
Jammu and Kashmir under a heavy military presence |
Kashmir encounter: Two soldiers and Three insurgents killed, south of Kashmir |
Jammu and Kashmir Police operation against insurgents |
Indian army in Kashmir |
Protest against an Indian army operation in Srinagar, in district Pulwama |
مودی حکومت کے اقتدار کے 5سال مکمل ہو رہے ہیں۔ انتخابی مہم شروع ہو چکی ہے۔ انتخابات مئی میں ہوں گے۔ وزیر اعظم مودی اب اپنے 5سال دور اقتدار کا ریکارڈ دیکھ رہے ہیں لیکن انہیں اس میں کوئی نمایاں کامیابیاں دکھائی نہیں دے رہی ہیں۔ جو انہیں دوبارہ منتخب کرنے کا جواز فراہم کرتی ہیں۔ لہذا وزیر اعظم مودی کو ایک ضمنی بجٹ لانا پڑا تھا جس میں کاشتکاروں کو خصوصی مراعات دی گئی تھیں۔ غریبوں پر ٹیکس کے بوجھ میں کمی کی گئی تھی۔ مودی کے 5 سال دور اقتدار میں بیروز گاری میں اضافہ ہوا تھا۔ لیکن پھر بے روز گاری کے نمبروں میں ہیرا پھیری اس طرح کی گئی تھی کہ جس میں نئے روز گار زیادہ بڑھا چڑھا کر بتاۓ گیے تھے۔ صدر ٹرمپ نے اس پروگرام کو ختم کر دیا تھا جس کے تحت ہر سال بھارت سے Software انڈسٹری میں ایک لاکھ بھارتی بھرتی کیے جاتے تھے۔ صدر ٹرمپ کے اس فیصلے کے نتیجہ میں دو لاکھ Software انجنیئر بے روز گار تھے۔ خارجہ امور میں مودی حکومت کی کوئی خاص Achievements نہیں ہیں۔ Trade میں بھارت امریکہ سے فائدے اٹھا رہا ہے۔ اور Terrorism کی سیاست سے بھارت پاکستان کو الزام دینے سے فائدے اٹھا رہا ہے۔ مودی حکومت کے 5سال میں تقریباً ہر سال پاکستان کو یہ الزام دئیے گیے ہیں کہ دہشت گرد پاکستان سے بھارت میں دہشت گردی کرنے آتے ہیں۔ مودی حکومت سے پہلے من موہن سنگھ حکومت میں بھی بھارت میں دشت گردی کے ہر واقعہ کا الزام پاکستان کو دیا جاتا تھا۔ یہاں تک کہ ٹرین کے حادثوں کو بھی دہشت گردی کہا جاتا تھا۔ اور اس کا الزام بھی پاکستان کو دیا جاتا تھا۔ وزیر اعظم اٹل بہاری وا جپائی حکومت نے 2003 میں اسرائیلی وزیر اعظم ایریل شرون کے دورہ بھارت کے بعد Terrorism کے الزامات پاکستان کو دینے کی پالیسی اختیار کی تھی۔ اس وقت تک بش انتظامیہ افغانستان میں طالبان کے خلاف جنگ میں پاکستان سے تعاون کر رہی تھی۔ اس جنگ میں پاکستان کے تحفظات کو بھی اہمیت دی جاتی تھی۔ لیکن پھر وزیر اعظم ایریل شرون کے دورہ بھارت کے بعد صورت حال بدل گئی تھی۔ امریکہ- بھارت Strategic تعلقات افغان جنگ پر غالب آ گیے تھے۔ افغان جنگ اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کا Epicenter پاکستان کو ایٹمی ہتھیاروں سے محروم کرنے کا مشن بن گیا تھا۔ وزیر اعظم شرون نے کہا تھا "ہم امریکہ کو چلاتے ہیں۔ ہم امریکہ سے جو کہتے ہیں امریکہ وہ کرتا ہے" بش انتظامیہ نے بھارت کو افغانستان میں رول دے دیا تھا۔ بھارت نے پاکستان کی سرحدوں کے قریب اپنے دہشت گردوں کے مورچے بنا لئے تھے۔ امریکہ- بھارت Strategic تعلقات بہت زیادہ بھارت کے مفاد میں بن گیے تھے۔ پاکستان ہر طرف سے دہشت گردوں کے حملوں میں گھر گیا تھا۔ پاکستان کی سلامتی اور بقا خطروں میں آ گئی تھی۔ دہشت گردوں کے حملہ پاکستان میں ہو رہے تھے۔ لیکن امریکہ اور بھارت پاکستان کو دہشت گردوں کو پناہ دینے اور ان کی پشت پنا ہی کرنے کے الزام دیتے تھے۔ اس دہشت گردی میں پاکستان میں 50ہزار لوگ مارے گیے تھے۔ جن میں بڑی تعداد میں فوجی بھی شامل تھے۔ پاکستان کی معیشت کا 100 بلین ڈالر کا نقصان ہوا تھا۔ بہرحال پاکستان نے اپنی سرزمین سے داخلی اور غیرملکی دہشت گردوں کا صفایا کیا ہے۔ اور اس کا کریڈٹ پاکستان کی فوج کو دیا جاۓ گا۔ امریکہ- بھارت Strategic تعلقات افغان جنگ جیتنے میں ناکام ثابت ہوۓ تھے۔ امریکہ افغان جنگ ہار گیا تھا۔ اگر امریکہ یہ Strategic تعلقات افغانستان سے دور رکھتا تو اس میں کوئی شبہ نہیں تھا کہ افغان جنگ 10سال پہلے ختم ہو گئی ہوتی۔ بھارت افغانستان کی سر زمین پاکستان کے خلاف استعمال کر رہا تھا۔ جبکہ امریکہ اور نیٹو پاکستان کی سر زمین افغان جنگ جیتنے کے لئے استعمال کر رہے تھے۔ پاکستان کے لئے یہ ایک انتہائی Bitter Lesson تھا۔
امریکہ- بھارت Strategic تعلقات کو دراصل چین کی ابھرتی طاقت کے پس منظر میں دیکھا جا رہا تھا۔ جو امریکی پالیسی ساز کی ایک غلط فہمی تھی۔ سرد جنگ دور کی بھارت کی غیر جانبدارانہ پالیسی خارجہ امور میں برقرار رہے گی۔ بھارت کے پہلے وزیر اعظم جواہر لال نہرو نے اسے اپنی خارجہ پالیسی کا ستون بنایا تھا۔ اور یہ ستون اب بھارت کی خارجہ پالیسی کا کلچر بن گیا ہے۔ بھارت اب چین کے سلسلے میں بھی اس پالیسی کو جاری ر کھے گا۔ بھارت امریکہ کے لئے چین سے جنگ نہیں کرے گا۔ وزیر اعظم موہن سنگھ کی حکومت میں چین نے صرف یہ دھمکی دی تھی کہ 'چیونٹی کی طرح مسل دیں گے' اس کے بعد دو مرتبہ چین کی فوجیں لداخ میں داخل ہوئی تھیں۔ دوسری مرتبہ لداخ میں150میل اندر آ گئی تھیں۔ بھارت کی سیکیورٹی چوکیاں تباہ کر دی تھیں۔ سیکیورٹی کیمرے توڑ دئیے تھے۔ من موہن سنگھ وزیر اعظم تھے۔ بھارتی جنرلوں نے وزیر اعظم سے کہا کہ چین کی فوجیں لداخ میں 150 میل اندر آ گئی ہیں۔ وزیر اعظم موہن سنگھ نے کہا 'چلی جائیں گی'۔
18سال سے کشمیریوں کی ا نسر جنسی کے خلاف بھارتی فوج کی کاروائیوں کے یہ نتائج ہیں کہ کشمیری اب فوج سے لڑنے سڑکوں پر آ گیے ہیں۔ کشمیر کا ہر شہر جنگ کا محاذ بنا ہوا ہے۔ کشمیری 18 سال سے بھارتی فوج کی وحشیانہ کاروائیوں کے Pressure cooker میں گھٹ رہے تھے۔ اور اب یہ Pressure cooker پھٹ پڑا ہے۔ Pulwama میں ایک کشمیری بچے نے حالات اور زندگی سے تنگ آ کر 40 بھارتی فوجیوں کو مار کر خود کشی کر لی۔ یہ دہشت گردی نہیں تھی۔ یہ جنگ ہے۔ بھارتی فوجیں 18 سال سے نہتے کشمیریوں سے جنگ کر رہی ہیں۔ کشمیریوں پر ان کے ظلم و بربریت کے بارے میں تفصیل ایمنسٹی انٹرنیشنل اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی رپورٹوں میں بیان کی گئی ہیں۔ حال ہی میں بھارتی حکومت نے انسانی حقوق کی ایک تحقیقاتی ٹیم کو کشمیر میں جانے کی اجازت نہیں دی تھی۔ ہندو انتہا پسند گجرات کی تاریخ اب کشمیر میں دوہرا رہے ہیں۔ یہ بڑے دکھ کی بات ہے کہ مغربی طاقتیں 40 بھارتی فوجیوں کے مرنے پر بھارت سے اظہار ہمدردی کر رہے ہیں۔ لیکن بھارتی فوج 18 سال سے جس بربریت سے نہتے کشمیریوں کا قتل عام کر رہی ہے۔ اس پر انہیں انسانیت سے جیسے کوئی ہمدردی نہیں ہے۔ یہ کسی آمرانہ ملک میں نہیں ہو رہا ہے۔ یہ بھارت میں ہو رہا ہے جسے دنیا کی ایک سب سے بڑی جمہوریت کہا جاتا ہے۔ اس جمہوری ملک کے سیاسی لیڈروں کے پاس کشمیر کے مسئلہ کا سیاسی حل نہیں ہے۔ اس لئے انہوں نے اسے حل کرنے کا ٹھیکہ فوج کو دے دیا ہے۔
آج کشمیر کے حالات 48 سال قبل مشرقی پاکستان کے حالات سے زیادہ مختلف نہیں ہیں۔ اس وقت فوجی حکومت نے جو غلطیاں کی تھیں۔ آج وہ ہی غلطیاں بھارت کی سیاسی حکومت کر رہی ہے۔ بھارت نے اگر پاکستان سے جنگ شروع کی تو کشمیر بھارت سے نکل جاۓ گا۔ جس طرح 1971 میں مغربی سرحدوں پر بھارت کے ساتھ پاکستان کی جنگ شروع ہونے سے مشرقی پاکستان نکل گیا تھا۔ پاکستان میں ایک فوجی حکومت تھی۔ بھارت میں ایک سیاسی حکومت ہے۔ لیکن مودی حکومت نے 5 سال میں کشمیر کی صورت حال کا کوئی سیاسی حل نہیں دیکھا تھا۔ فوج نے کشمیر کے حالات زیادہ بگاڑ دئیے ہیں۔ ایک مرتبہ حالات جب قابو سے باہر ہو جاتے ہیں تو پھر حالات کو قابو میں لانا ممکن نہیں ہوتا ہے۔