Friday, February 15, 2019

Forty-Years Of America’s Failed Middle East Policies

  Forty-Years Of America’s Failed Middle East Policies  
Forty-Years Success Of Iran Revolution, While Surrounding By Iran Haters And Enemies
مجیب خان
Forty-Years of Iran's Islamic revolution

Camp David Accords: President Jimmy Carter, Egyptian President Anwer Sadat, and Israeli Prime Minister Menachem Begin on March26,1979

Oslo Accords: PLO Chairman  Yasser Arafat Shakes hands with Israeli Prime Minister Yitzhak Rabin, US President Bill Clinton stands between them, after signing of the Israeli-PLO Peace Accord, at the White House, Sept13, 1993 

Palestinian Prime Minister Mahmoud Abbas, US President George W. Bush, and Israeli Prime Minister Ariel Sharon, Red Sea Summit in Aqaba, Jordan June 4, 2003

President Obama with Prime Minister Netanyahu and Palestinian President Mohammed Abbas, 2010



  صدر ٹرمپ نے ایران انقلاب کے 40سال یوم جشن پر اپنے ایک Tweet میں کہا ہے " بدعنوانیوں کے 40سال، جبر و تشدد کے 40سال، دہشت کے 40سال، ایرانی حکومت کی ناکامیوں کے 40سال ہیں، ایک مدت سے اذیت میں ایرانی عوام زیادہ روشن مستقبل کے مستحق ہیں۔" صدر ٹرمپ کے قومی سلامتی امور کے مشیر جان بولٹن نے اپنے ایک Tweet بیان میں کہا ہے کہ " یہ ناکامیوں کے 40 سال ہیں۔ یہ ایرانی حکومت کو طے کرنا ہے کہ وہ اپنا رویہ تبدیل کرے۔ بالا آخر اپنے ملک کی سمت کا تعین کرنے کا فیصلہ ایرانی عوام کو کرنا ہے۔ واشنگٹن ایرانی عوام کے فیصلہ کی حمایت کرے گا۔ اور ان کی پشت پر کھڑا ہو گا۔ اور یہ یقینی بناۓ گا کہ ان کی آوازیں سنی جائیں۔" اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ صدر ٹرمپ اور قومی سلامتی امور کے مشیر جان بولٹن کے یہ بیان اسرائیلی حکومت کی خواہش اور ارادوں کے مطابق ہیں۔ خود John Bolton مڈل ایسٹ کے بارے میں 40 سال سے ناکام ہیں۔ ان کے Hawkish نظریات ہمیشہ غلط ثابت ہوۓ ہیں۔ اور مڈل ایسٹ کے عوام کے لئے صرف تباہی بربادی لائیں ہیں۔ اور حقیقت یہ ہے کہ مڈل ایسٹ میں امریکہ کی 40 سال سے مسلسل ناکامیوں میں ایران انقلاب کی کامیابی کے 40 سال ایک چمکتا نگینہ ہیں۔ ایرانی حکومت کی یہ بڑی کامیابی ہے کہ قوم اس کے پیچھے متحد ہے۔ ایرانی عوام ابھی تک یہ نہیں بھولیں ہیں کہ کس طرح امریکہ اور برطانیہ نے ان کی منتخب جمہوری حکومت کے خلاف سازش کی تھی اور اس کا تختہ الٹا تھا۔ اور ان پر ایک بدترین آمریت مسلط کی تھی۔ سی آئی اے اس آمریت کی پشت پر تھی جس نے ایرانی عوام کو ہر طرح کی اذیتیں دی تھیں۔ ایرانی قوم اسے کبھی نہیں بھولیں گے۔ اس پس منظر میں ایرانی عوام کی جد و جہد اور قربانیاں یہ انقلاب لائی تھیں۔
  40سال میں انقلاب ایران کو ناکام بنانے کی کوششیں کی گئی تھیں۔ لیکن انقلاب ایران کی جڑیں عوام تھیں۔ انقلاب ایران کو سبوتاژ کرنے کی ایک کوشش عراق کو ایران پر حملہ کرنے کے لئے استعمال کیا تھا۔ عراق ایران جنگ میں صدر صد ام حسین کو ہر قسم کے مہلک ہتھیار فروخت کیے تھے۔ اسرائیل نے بھی عراق اور ایران دونوں کو کھربوں ڈالر کے ہتھیار فروخت کیے تھے۔ عراق ایران جنگ 8سال تک لڑی گئی تھی۔ ایک ملین ایرانی اس جنگ میں مارے گیے تھے۔ جبکہ اتنی ہی تعداد میں عراقی مارے گیے تھے۔ اس جنگ سے کسی نے کچھ حاصل نہیں کیا تھا۔ امریکہ اور اس کے عرب اتحادی سب ناکام ہوۓ تھے۔ لیکن انقلاب ایران اس جنگ سے اور زیادہ کامیاب ہو کر ابھرا تھا۔ سنی عربوں میں ایران اس وقت بھی تنہا تھا۔ مغربی ملکوں میں بھی انقلابی ایرانی حکومت کو کوئی حمایت حاصل نہیں تھی۔ ان حالات میں ایرانی حکومت نے انقلاب کو مضبوط کیا تھا۔ ایران کو سیاسی استحکام دیا تھا۔ جبکہ ایران نے لبنان میں استحکام اور امن بحال کرنے میں بھی ایک اہم رول ادا کیا تھا۔ لبنان ایران کی مدد کے بغیر اسرائیل کے قبضہ سے اپنا وادی بکا کا علاقہ آزاد نہیں کرا سکتا تھا۔ اور گو لان کی چوٹیوں کی طرح آج وادی بکا پر بھی اسرائیل کا قبضہ ہوتا۔ 40 سال میں یہ انقلاب ایران کے تما متر مشکل حالات کے باوجود مثبت کامیابیاں ہیں۔
  اب 40 سال میں مڈل ایسٹ میں امریکہ کی ناکامیوں بھی دیکھی جائیں۔ 1979 میں صدر کارٹر کی انتظامیہ میں مصر اور اسرائیل میں جو کیمپ ڈیوڈ امن سمجھوتہ ہوا تھا۔ وہ مڈل ایسٹ کو ایک پائدار امن دینے میں ناکام ہوا تھا۔ صدر ریگن کی انتظامیہ میں لبنان کی خانہ جنگی میں بیروت میں امریکی فوجیں بھیجنے کا مشن ناکام ہو گیا تھا۔ اور صدر ریگن کو امریکی فوجیں لبنان سے واپس بلانا پڑیں تھیں۔ امریکی فوجی بیرک پر بم دھماکہ میں 100 سے زیادہ فوجی مارے گیے تھے۔ صدر بش 41 کی انتظامیہ کویت پر عراق کے حملہ کے تنازعہ کو پرامن سفارتی طریقوں سے حل کرنے میں ناکام ہوئی تھی۔ اور عراق کو مسلسل جنگ کے حالات میں رکھنے کے دور رس نتائج کو بش انتظامیہ نے بالکل نظر انداز کر دیا تھا۔ کلنٹن انتظامیہ عراق کا مسئلہ حل کرنے میں ناکام ہوئی تھی۔ اور عراق جنگ کو جاری رکھا تھا۔ کلنٹن انتظامیہ کے پہلے سال میں فلسطین اسرائیل اوسلو امن معاہدہ ہوا تھا۔ PLO نے اسرائیل کا وجود تسلیم کر لیا تھا۔ اور PLO کے چارٹر سے اسرائیل کا وجود ختم کرنے کی شق نکال دی تھی۔ ایران نے PLO کے اس فیصلہ کی مخالفت نہیں کی تھی۔ لیکن پھر کلنٹن انتظامیہ کے آخری دنوں میں یہ اوسلو امن معاہدہ بھی ناکام ہو گیا تھا۔ جارج بش انتظامیہ میں فلسطین اسرائیل تنازعہ پھر Square one پر آ گیا تھا۔ بش انتظامیہ میں مڈل ایسٹ میں امریکہ کی Grand Slam ناکامیاں تھیں۔ صد ام حسین کو اقتدار سے ہٹانا ایک آسان کامیابی تھی۔ لیکن عراق کا استحکام اور امن بحال کرنے میں امریکہ  ناکام ہوا تھا۔ عراق جنگ سے مڈل ایسٹ میں امریکہ کی ناکامیوں کا ایک نا ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔ بش انتظامیہ میں فلسطین اسرائیل تنازعہ کے حل میں شرم الشیخ مصر میں معاہدہ ہوا تھا۔ یہ معاہدہ بھی بش انتظامیہ میں ناکام ہو گیا تھا۔
  صدر اوبامہ نے بھی فلسطین اسرائیل تنازعہ کے حل کے لئے کوشش کی تھی لیکن صدر اوبامہ بھی اس مشن میں ناکام ہو گیے تھے۔ اوبامہ انتظامیہ نے مڈل ایسٹ کو جمہوریت اور آزادی میں Transform کرنے کے پروجیکٹ پر 500ملین ڈالر خرچ کیے تھے۔ مصر کی تاریخ میں پہلی بار آز ادانہ انتخابات ہوۓ تھے۔ اخوان المسلمون نے 60% فیصد ووٹ  لیے تھے۔ اور بھاری اکثریت سے انتخاب جیتا تھا۔ مصر میں پہلی مرتبہ ایک منتخب جمہوری حکومت اقتدار میں آئی تھی۔  مصری عوام کو پہلی بار سیاسی آزادی ملی تھی۔ لیکن پھر چند ماہ میں سعودی عرب اور اسرائیل نے مصر کی جمہوری حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا۔ اور فوج اقتدار میں آ گئی تھی۔ سعودی عرب اور اسرائیل امریکہ کے قریبی اتحادی تھے۔ جنہوں نے مڈل ایسٹ کو جمہوریت اور آزادی میں Transform کرنے کا 500ملین ڈالر کا پروجیکٹ ناکام کر دیا تھا۔ اور اب John Bolton کا ایرانی عوام کے لئے یہ پیغام ہے کہ "واشنگٹن ایرانی عوام کے ہر فیصلہ کی حمایت کرے گا اور ان کی پشت پر کھڑا ہو گا۔" جبکہ امریکہ مصری عوام کا ساتھ چھوڑ کر اسرائیل اور سعودی عرب کے ساتھ مصر میں فوجی ڈکٹیٹر کے ساتھ کھڑا ہو گیا تھا۔ عوام کی منتخب جمہوری حکومت کے صدر محمد مو رسی اور ان کے ساتھ 900 سیاسی کارکن جیلوں میں تھے۔ جنہیں فوجی حکومت نے پھانسیاں دینے کا اعلان کیا تھا۔ امریکہ نے ان مصری عوام کے لئے کیا کیا تھا؟ حالانکہ مصر میں جو لوگ منتخب ہو کر اقتدار میں آۓ تھے وہ آ ئرلینڈ میں IRA سے زیادہ برے نہیں تھے۔ انہیں بھی IRA کی طرح ایک جمہوری سیاسی عمل میں لایا جا سکتا تھا۔ لیکن اسرائیل سعودی عرب اور امریکہ کا مشترکہ مفاد انہیں دہشت گردی کے سیاسی عمل میں رکھنے میں تھا۔ عرب عوام کے ساتھ یہ Mockery تھی کہ مصر میں فوجی ڈکٹیٹر کی حمایت کی جا رہی تھی۔ اور اوبامہ انتظامیہ  سعودی عرب اور اسرائیل کے ساتھ شام میں انتہا پسندوں اور دہشت گردوں کی پشت پر کھڑے تھے اور شام میں ڈکٹیٹر کو اقتدار سے ہٹانے میں ان کی مدد کر رہے تھے۔ ان پالیسیوں سے مڈل ایسٹ کھنڈرات بن گیا ہے۔ لوگوں کی زندگیاں عذاب بن گئی ہیں۔ امریکہ کی مڈل ایسٹ میں پالیسیاں دہشت گردی اور مذہبی انتہا پسندی کو فروغ دینے میں کامیاب ہیں۔ لیکن اس خطہ کے لوگوں کو امن استحکام اور اقتصادی خوشحالی دینے میں ناکام ہیں۔ ٹرمپ انتظامیہ اب سعودی شہزادہ کی پشت پر کھڑی ہے۔ اور اس کی سن رہی ہے کہ وہ بے گناہ ہے۔ لیکن مصر کی جیلوں میں جو پھانسی کا انتظار کر رہے ہیں امریکہ نے ان سے منہ موڑ لیا ہے۔ انہیں بے گناہ تسلیم کرنے کے لئے امریکہ تیار نہیں ہے۔ مصر، عراق، شام، لیبیا، یمن میں انسانی تباہی اور بربادی دیکھنے کے بعد ایرانی عوام کا John Bolton اور صدر ٹرمپ کی باتوں پر یقین کرنا خود کشی کرنا ہو گا۔


  امریکہ کی Extreme Unilateral اقتصادی بندشوں کا مقصد دراصل ان ملکوں کے لوگوں کو سزا دینا ہے۔ تاکہ وہ اقتصادی مسائل کا الزام حکومت کو دیں اور پھر حکومت کے خلاف بغاوت کریں۔ جیسا کہ یہ ونزویلا میں دیکھا جا رہا ہے۔ اور ٹرمپ انتظامیہ اب ایران میں بھی ایسے حالات پیدا کر رہی ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ اس خطہ کو ایک نئی تباہی کی طرف لے جا رہی ہے۔ اس خطہ کی حکومتوں کو اپنے ملکوں کی سلامتی  میں Extreme Unilateral اقتصادی بندشوں کی مخالفت کرنا چاہیے۔ دوسری طرف امریکہ کی یہ اقتصادی بندشیں ان ملکوں میں مڈل کلاس کو تباہ کر رہی ہیں۔ امریکہ کی یہ پالیسی اس خطہ کے ملکوں کے لئے شمالی کوریا  کے ایٹمی پروگرام سے زیادہ خطرناک ہیں۔                            

No comments:

Post a Comment