Sunday, February 10, 2019

Is Anti Zionism, Is Anti-Semitic?

  Is Anti Zionism, Is Anti-Semitic?
When Palestinian Youths In Jewish Designers’ Jeans And T-Shirts Threw Rock On Israeli Army
مجیب خان
Palestinians sitting in front of the rubble of a destroyed house by the Israeli army

Israeli army demolition of Palestinian homes

Palestinian youths use slingshots to hurl rocks at an Israeli checkpoint in West Bank 

A teenager  has been killed and more than 200 Palestinians injured as clashes with the Israeli army


 

  اسرائیل اقوام متحدہ کا رکن ہے۔ اسرائیل نے اقوام متحدہ کے چارٹر پر دستخط کیے ہیں۔ اقوام متحدہ کے چارٹر کے تحت اسرائیل اسی طرح ایک Sovereign ملک ہے جس طرح 190 دوسرے ملک Sovereign ہیں۔ عالمی قوانین کا جس طرح اقوام متحدہ کے دوسرے ملکوں پر اطلاق ہوتا ہے اسی طرح اسرائیل بھی عالمی قوانین کا پابند ہے۔ عالمی قوانین میں کسی ملک کو مذہب، رنگ اور نسل کی بنیاد پر برتری نہیں دی گئی ہے۔ عالمی برادری صرف ایک قانون کے ماتحت ہے۔ اور صرف یہ نظام قانون ہے جس نے دنیا کو منظم رکھا ہے۔ چند ممالک ہیں جو سیکورٹی کے نام پر قانون کی حدود سے باہر کاروائیاں کر رہے ہیں۔ جس کی وجہ سے دنیا میں بے چینی بڑھ رہی ہے۔ اور اسرائیل ان ملکوں میں ہے۔ جس نے فلسطینیوں کو اپنے فوجی قبضہ میں 7 دہائیوں سے  رکھا ہوا ہے۔ انہیں بنیادی انسانی حقوق سے محروم کر دیا ہے۔ فلسطینیوں کے گھروں پر بلڈ و زر اور فلسطینی عورتوں اور بچوں پر مشین گنوں کی گولیاں روز کا معمول بن گیا ہے۔ اسرائیل کی یہ کاروائیاں اقوام متحدہ کے چارٹر کی خلاف ورزیاں ہیں۔ ان اسرائیلی پالیسیوں کی مذمت عالمی قوانین کے دائرے میں ہیں۔ اور اس کا تعلق Anti-Semite سے نہیں ہے۔ سعودی عرب یا کسی بھی اسلامی ملک میں ایسی پالیسیوں کی مذمت اور تنقید Anti-Islam نہیں دیکھی جاتی ہے۔ تاہم امریکہ یورپ اور بعض دوسرے مقا مات پر جہاں یہودیوں کے Synagogue پر حملہ کیے جاتے ہیں، ان کے کاروبار یا ان کی املاک کو نقصان پہنچایا جاتا ہے۔ یا یہودیوں کو ہلاک کیا جاتا ہے۔ بلاشبہ یہ Anti-Semite ہے۔ اور اس کی مذمت کی جاۓ۔ اس کے خلاف اقدام کیے جائیں۔
  اسرائیل ایک Zionist State ہے۔ اس پر Jewish State کا جھنڈا لہرا رہا ہے۔ لیکن اس کی پالیسیاں Zionist Ideology  کو فروغ دیتی ہیں۔ مغربی ممالک سعودی عرب کے وہابی نظریات فروغ دینے کو انتہا پسند ی پھیلانا قرار دیتے ہیں۔ اس کی مذمت ا کرتے ہیں۔ لیکن دوسری طرف اسرائیل کی Anti-Semite کا لیبل لگنے کے خوف سے اس کی انتہا پسند Zionist Ideology کی مذمت اور مخالفت کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ Zionists نے اسرائیل کے قیام کے لئے اسی طرح انتہا پسندی اور دہشت گردی کی مہم چلائی تھی جس طرح  فلسطینی اب اسرائیل کے فوجی قبضہ سے آزادی کے لئے  مہم چلا رہے ہیں۔ Zionists نے فلسطائین میں King David Hotel کو بم سے اڑا دیا تھا۔ جس میں برطانوی فوجی ٹھہرے ہوۓ تھے۔ اس Zionists تحریک کے دباؤ میں دوسری جنگ عظیم کے اختتام پر امریکہ اور برطانیہ اور دوسرے یورپی ملکوں نے Zionists کا مطالبہ تسلیم کر لیا تھا۔ اور فلسطائین میں ان کی Zionists یہودی ریاست بنا دی تھی۔ فلسطینیوں سے ان کی ریاست یہودی ریاست کے برابر قائم کرنے کا کہا تھا۔ تاہم اسرائیل کی سرحدوں کا تعین نہیں کیا تھا۔ یہ فیصلہ Zionists کے لئے چھوڑ دیا تھا۔ اگر امریکہ برطانیہ اور دوسرے یورپی ملک اسی وقت فلسطینی ریاست بھی بنا دیتے اور اسے تسلیم کر لیتے تو شاید اس خطہ میں اتنا خون خرابہ نہیں ہوتا۔ جنگیں اس خطہ کی نسلوں کا مقدر نہیں بنتیں۔ Zionists اس دور کے طالبان تھے۔ ان کا انتہائی Combative Behavior تھا۔ اسرائیلی ریاست کے حکمران بننے کے دوسرے ہی دن سے انہوں نے فلسطینی کاشتکاروں کی زر خیز زمینوں پر قبضہ کرنا شروع کر دیا تھا۔ انہیں ان کی زمینوں سے بے دخل کر دیا تھا۔ یہ فلسطینی یہاں صدیوں سے آباد تھے۔ اور کاشتکاری کرتے تھے۔ یہ Zionists کا اپنی سرحدوں کے تعین کا پہلا اقدام تھا۔ عرب بادشاہوں نے فلسطینیوں کو Zionists کے خلاف مزاحمت کرنے کے بجاۓ انہیں اپنے علاقہ چھوڑنے کا مشورہ دیا تھا۔ ان فلسطینیوں میں ایک بڑی تعداد عیسائی فلسطینیوں کی بھی تھی۔1948 میں اسرائیل وجود میں آیا تھا۔ اور 1948 میں پہلی اسرائیل عرب جنگ کی ابتدا ہو گئی تھی۔ دوسری جنگ عظیم ختم ہو نے کے صرف 3 سال بعد مشرق وسطی میں مستقبل کی نئی جنگوں کا آغاز ہو گیا تھا۔ دوسری اسرائیل عرب جنگ 1967 میں اور پھر تیسری عربوں کے ساتھ اسرائیل کی جنگ 1973 میں ہوئی تھی۔ یہ جنگیں اسرائیل کی مستقبل کی سرحدوں کا تعین کرنے کے لئے تھیں۔ اسرائیل نے عربوں کے ایک بڑے علاقہ پر قبضہ کر لیا تھا۔ اسرائیل فلسطین نا ختم ہونے والی جنگ کا سلسلہ اس وقت سے جاری ہے۔ امریکہ اور یورپ مڈل ایسٹ میں ‘War and Peace’ کو Micromanage کرنے کی سیاست کر رہے تھے۔
   مشرق وسطی میں عرب اسلامی ملکوں کی اسرائیل سے جنگ جاری تھی۔ لیکن دوسری طرف امریکہ اور یورپ کے یہودیوں کے ساتھ ان کے سیاسی تجارتی اور سفارتی تعلقات تھے۔ اور یہ امریکہ اور یورپ کے شہری تھے۔ اور ان یہودیوں کا عرب اسلامی ملکوں میں آنا جانا رہتا تھا۔ امریکہ اور یورپ کے ملک یہودیوں کو عرب اسلامی ملکوں میں اپنے سفیر بھی نامزد کرتے تھے۔ ان کے سفارت خانہ کے اسٹاف میں بھی یہودی سفارت کار ہوتے تھے۔ لیکن یہ امریکہ اور یورپی ملکوں کے شہری تھے۔ امریکہ اور یورپ میں تیل کی بڑی کمپنیاں یہودیوں کی تھیں۔ اور تیل اور گیس کے بڑے Producers عرب اسلامی ملک تھے۔ لہذا یہودی تیل کمپنیوں کے مالکوں کے عرب حکمرانوں کے ساتھ دوستانہ تعلقات تھے۔ وہ عرب ملکوں میں جاتے تھے۔ عرب سربراہوں سے ملتے تھے۔ اعلی عرب حکام کے ساتھ تجارتی معاملات طے کرتے تھے۔ ان کے ساتھ ڈنر بھی کرتے تھے۔ Slim Fast کے چیرمین کے شام میں صدر حافظ السد سے خاصہ دوستانہ تعلقات تھے۔ اور وہ اکثر صدر حافظ سے ملنے دمشق جاتے تھے۔ بعض دوسری کمپنیوں کے یہودی سربراہوں کے بھی صدر حافظ السد  سے دوستانہ تعلقات تھے اور وہ بھی دمشق جاتے تھے۔ صدر قد ا فی اسرائیلی Zionists کے خلاف تھے۔ پی ایل او کی حمایت کرتے تھے۔ اور اسے فنڈ ز بھی دیتے تھے۔ لیکن صدر قد ا فی نے لیبیا کا Investment fund نیویارک میں وال اسٹریٹ کی Goldman Sachs کو دئیے تھے۔ جو ایک Jewish firm تھی۔ لیبیا کے علاوہ خلیج کے ملکوں نے بھی اپنے Sovereign funds امریکہ اور یورپ میں Jewish investments اداروں کو دئیے تھے۔
  عرب اسلامی ملکوں سے ہر سال ہزاروں طالب علم امریکہ اور برطانیہ کی یونیورسٹیوں میں اعلی تعلیم کے لئے آتے ہیں۔ ان یونیورسٹیوں میں وہ Jewish Professors کے اسٹوڈنٹ ہوتے ہیں۔ ان سے اعلی تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ ان میں سے اکثر  ان یونیورسٹیوں میں لیکچرار ہو جاتے ہیں اور یہودی ان کے اسٹوڈنٹ ہوتے ہیں۔ اسی طرح امریکہ اور یورپ کے ہسپتالوں میں عرب اسلامی ملکوں کے ڈاکٹر ز ہیں۔ یہ Gynaecologists ہیں، Heart surgeons ہیں اور میڈیکل کے دوسرے شعبوں میں بھی ہیں۔ اور یہ یہودی عورتوں مردوں اور بچوں کے معالج بھی ہیں۔ یہ مضبوط انسانی رشتہ ہیں جو مذاہب سے بالاتر ہیں۔ عرب اسلامی ملکوں میں امریکہ اور یورپ کے Jewish Designers  کے کپڑے ، پرفیوم، گھڑیاں، عورتوں کے ہینڈ بیگ ، Jeans وغیرہ بھی خاصی مقبول ہیں۔ فلسطینی Jewish Designers کی Jeans اور T-shirts میں اسرائیلی فوج پر پتھر پھینکتے ہیں۔ عرب اسلامی ملکوں کے لوگوں کو مغربی ملکوں میں جب کھانے کی Halal اشیا نہیں ملتی ہیں تو وہ پھر Kosher food کو ترجیح دیتے ہیں۔ عرب اسلامی لوگوں میں Anti-Semitism نہیں ہے۔ البتہ یہ Anti Zionists ہیں۔ جرمنی میں تقریبا دو ملین سے زیادہ ترک کئی دہائیوں سے آباد ہیں لیکن یہ New Nazi نہیں ہیں اور نہ ہی Anti-Semite ہیں۔ جبکہ ترکی میں لوگ Anti Zionists ہیں اور فلسطینیوں کے ساتھ ان کے سلوک پر انہیں غصہ ہے۔ صدر اردو گان کے بیانات میں اکثر اس غصہ کا اظہار بھی نظر آتا ہے۔

  ایران میں ایک بڑی تعداد میں ایرانی یہودی صدیوں سے آباد ہیں۔ اور آیت اللہ ؤں کے نظام میں بھی یہودی ایران میں ہیں۔ ان کے Synagogues بھی ہیں۔ ایران میں Anti-Semitism نہیں ہے۔ لیکن اسرائیل اور امریکہ میں Anti- Iranianism  عروج پر ہے۔ وزیر اعظم نتھن یا ہو ایسے حالات میں اومان گیے تھے کہ جب اسرائیلی فوجیں بے گناہ فلسطینی بچوں اور عورتوں کو مار رہی تھیں۔ لیکن اومان کے امیر نے وزیر اعظم نتھن یا ہو اور ان کی بیگم کا کھلے دل سے خیر مقدم کیا تھا۔ ان کی آؤ بھگت کی تھی۔ اسلامی تعلیمات میں اسے Show your Greatness’ کہتے ہیں۔ امریکہ ایک Great Nation ہے لیکن ٹرمپ انتظامیہ اور ان کے سیکرٹیری آف اسٹیٹ نے ایران کے سلسلے میں انتہائی Mean ہونے کا ثبوت دیا ہے۔ وزیر اعظم نتھن یا ہو جس طرح اومان گیے تھے اسی طرح وہ ایران بھی جا سکتے تھے۔ انہیں ایران سے جو شکایتیں تھیں اس پر ڈائیلاگ ہو سکتے تھے۔ امن استحکام، سلامتی اور انسانی بقا کے لئے مخالفین کے دروازے پر دستک دینا عظیم رہنما ہونے کا ثبوت ہے۔                    

No comments:

Post a Comment