Tuesday, February 5, 2019

President Trump’s First Two Years Investigation On Russian Connection, Will Next Two Years Of Trump’s Presidency Be A Tough Tussle With Establishment?

President Trump’s First Two Years Investigation On Russian Connection, Will Next Two Years Of Trump’s Presidency Be A Tough Tussle With Establishment?

مجیب خان
President Trump meeting with intelligence Chiefs in the oval office

US military presence in the Middle East, Persian Gulf

Bahrain host the U.S. Navy's 5th Fleet 


   امریکہ کے انٹیلی جینس اداروں کے سربراہوں نے سینیٹ کی انٹیلی جینس کمیٹی میں اپنے سالانہ "عالمی خطروں پر جائزے" میں اہم عالمی ایشو ز پر صدر ٹرمپ کے موقف سے اختلاف کیا ہے۔ اور ISIS اور شمالی کوریا کو دنیا کے لئے بدستور بڑے خطرے بتاۓ ہیں۔ جبکہ ایران کے بارے میں کہا ہے کہ ' ایران ایٹمی سمجھوتہ پر مکمل عملدرامد کر رہا ہے۔ اور سمجھوتہ کی خلاف ورزیاں ہونے کی کوئی رپورٹ نہیں ہے۔' نیشنل انٹیلی جینس ڈائریکٹر Dan Coats نے کمیٹی کو بتایا کہ ISIS شام میں دوبارہ ابھرے  گی۔ اور یہ پھر دہشت گردی کرے گی۔ شمالی کوریا کے بارے میں کہا ہے کہ ' شمالی کوریا میں ایٹمی پروگرام پر  خفیہ سرگرمیاں جاری ہیں۔ اور شمالی کوریا ایٹمی پروگرام سے دستبردار نہیں ہو گا۔ عالمی خطروں پر انٹیلی جینس کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ امریکہ کی ٹریڈ پالیسیوں اور Unilateralism سے جو مسٹر ٹرمپ کا America First اپر و چ ہے۔ اس سے امریکہ کا روايتی اتحاد تناؤ میں ہے۔ اور غیر ملکی پارٹنر نئے تعلقات کی تلاش میں ہیں۔ روس اور چین میں قریبی تعلقات آج 1950s کی سطح پر آ گیے ہیں۔ نیشنل انٹیلی جینس ڈائریکٹر کے ساتھ سی آئی اے کی ڈائریکٹر، ڈائریکٹر اف ڈیفنس انٹیلی جینس اور ڈائریکٹر ایف بی آئی بھی شامل تھے۔ جنہوں نے سینیٹ کی انٹیلی جینس کمیٹی کو عالمی خطروں کے بارے میں اپنے جائزہ سے آگاہ کیا تھا۔ کانگرس میں پہلے ہی صدر ٹرمپ کے شام اور افغانستان سے فوجیں واپس بلانے کے فیصلے کی  مخالفت ہو رہی تھی۔ تاہم یہ ایک حقیقت ہے کہ جہاں بھی امریکی فوج گئی ہے یا جہاں بھی فوجی اڈے قائم کیے گیے ہیں وہاں دہشت گردی کا فروغ ہوا ہے۔ جہاں بھی جنگ کو طول دیا گیا ہے۔ وہاں دہشت گردی کو بھی ایک لمبی زندگی ملی ہے۔
  بش انتظامیہ میں افغان جنگ کی پلاننگ اس طرح کی گئی تھی کہ طالبان کا جب مکمل خاتمہ ہو جاۓ گا تب جنگ بھی ختم ہو جاۓ گی۔ حالانکہ  سینیٹ میں ویت نام جنگ کے Veterans بھی تھے۔ انہوں نے بش انتظامیہ کو یہ یاد نہیں دلایا تھا کہ ویت نام میں کمیونسٹوں کا مکمل خاتمہ ہونے سے پہلے امریکی فوجوں کو ویت نام چھوڑ کر جانا پڑا تھا۔ لہذا افغان جنگ کو ویت نام جنگ نہیں بنایا جاۓ۔ لیکن افغان جنگ جاری رکھنے کا اصل مقصد اس جنگ کو پھیلانا تھا۔ طالبان کو اقتدار سے ہٹانے کے بعد افغان مسئلہ کے سیاسی حل کے بے شمار سنہری مواقع تھے۔ طالبان انتہائی کمزور تھے۔ افغان عوام میں وہ حمایت کھو چکے تھے۔ اور ان کی تحریک بھی انتشار کا شکار تھی۔ اور اس وقت وہ سیاسی حل چاہتے تھے۔ لیکن بش انتظامیہ کا پیغام یہ تھا کہ طالبان سے کوئی مذاکرات نہیں ہوں گے۔ ان کا مکمل خاتمہ کیا جاۓ گا۔ اب 19 سال سے طالبان کا مکمل خاتمہ کرنے کی جنگ نے طالبان کو زیادہ مضبوط کر دیا ہے۔ افغانستان میں امریکہ کی فوجی موجودگی کے 19 سال کا جائزہ لینے کے بعد کوئی یہ وثوق سے نہیں کہہ سکتا ہے کہ اب 19 ماہ میں افغانستان کے مسئلہ کو فوجی حملوں سے حل کر لیا جاۓ گا۔ افغان جنگ کے اس پس منظر میں صدر ٹرمپ کا افغانستان سے فوجوں کے انخلا کا فیصلہ درست ہے کہ اب افغانوں کو اپنے ملک کو 30 سال کی جنگ سے نکالنے کے لئے خود بھی کوششیں کرنا چاہیں۔ پھر حقیقت یہ ہے کہ طالبان امریکی فوجوں کی موجودگی میں دوبارہ ابھرے ہیں اور مضبوط ہوۓ ہیں۔ امریکی فوجوں کی موجودگی نے انہیں لڑنے کا جذبہ دیا ہے۔ اور امریکی فوجوں کی موجودگی میں طالبان افغانستان میں نصف سے زیادہ حصہ پر قابض ہیں۔ یہ بش انتظامیہ کی افغان جنگ کی پلاننگ کے نتائج ہیں۔
  افغان جنگ دو سال بعد ابھی کسی نتیجہ پر نہیں پہنچی تھی کہ عراق جنگ شروع کر دی تھی۔ عراق محاذ پر جنگ کے حقائق یہ بتاتے ہیں کہ افغانستان سے غیر ملکی جہادی اور دہشت گرد بھاگ کر عراق آ گیے تھے۔ افغانستان انہوں نے طالبان کے سپرد کر دیا تھا اور خود عراق محاذ سنبھال لیا تھا۔ عراق میں افغانستان سے زیادہ دہشت گردوں کے حملے ہو رہے تھے۔ القا عدہ کے علاوہ نئے دہشت گرد گروپ وجود میں آ گیے تھے۔ عراق جنگ کی پلاننگ افغان جنگ سے بھی زیادہ بدتر تھی۔ افغانستان 1980s سے حالات جنگ میں تھا۔ لیکن عراق کو امریکہ کے حملہ نے صرف چند ماہ میں اس مقام پر پہنچا دیا تھا جہاں 25 سال سے افغانستان تھا۔ بموں کے دھماکے افغانستان میں ہو رہے تھے۔ بموں کے دھماکے اب عراق میں بھی ہو رہے تھے۔ امریکہ کی فوجیں افغانستان میں تھیں اور عراق میں بھی تھیں۔
  عراق شام لیبیا وہ ملک تھے جہاں القا عدہ  ISIS اور اسلامی انتہا پسندی نام کی کوئی شہ نہیں تھی۔ ان ملکوں بالخصوص شام اور لیبیا نے 9/11 کے بعد دہشت گردوں کے خلاف مہم میں امریکہ سے مکمل تعاون کیا تھا۔ امریکہ کی اس مہم میں اس کی مدد بھی کی تھی۔ لیکن پھر امریکہ نے ان ملکوں کو تباہ کرنے میں دہشت گردوں کی مدد کیوں کی تھی؟ انہیں اسلامی دہشت گرد دئیے تھے۔ دراصل مقصد دہشت گردی پھیلانا تھا۔ اور پھر دنیا کو یہ بتانا تھا کہ امریکہ اور اس کے اتحادی دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑ رہے ہیں۔ امریکی فوجیں عراق میں تھیں۔ خلیج میں امریکہ کے فوجی اڈے تھے۔ 9/11 کے بعد عرب دنیا میں امریکہ کی انٹیلی جینس ایجنسیاں سب سے زیادہ سرگرم تھیں۔ لیکن ان کے واچ میں ISIS کے 30ہزار لشکر کو کس نے اور کہاں منظم کیا تھا؟ یہ سوال سینیٹ کی انٹیلی جینس کمیٹی کو انٹیلی جینس اداروں کے سربراہوں سے کرنے چاہیے تھے۔ لیکن جیسے یہ انتظامیہ کا اتنا خفیہ منصوبہ تھا کہ اسے Don’t ask Don’t tell سمجھا گیا تھا۔ اسرائیلی حکومت کو شام میں ایران کی فوجی موجودگی پر شدید پریشانی ہے۔ لیکن شام اور عراق کے ایک بہت بڑے حصہ پر ISIS کی اسلامی ریاست قائم کرنے کے دعووں پر کوئی تشویش نہیں تھی۔ اسرائیل کی خفیہ ایجنسی مو ساد نے بھی یہ نہیں بتایا تھا کہ ISIS کے در پردہ کون سے ملک تھے۔ کون انہیں فنڈ ز فراہم کر رہا تھا۔ جبکہ شام اور عراق میں ایران کی فوجیں صرف ISIS کا خاتمہ کرنے میں شام اور عراق کی مدد کر رہی تھیں۔ اور ایران کی مدد سے شام اور عراق نے ISIS سے اپنے علاقہ آزاد کر آۓ  تھے۔ اس وقت شام میں ایران کی موجودگی کا مقصد بھی وہ ہی تھا جو امریکہ کے انٹیلی جینس اداروں کے سربراہوں نے سینیٹ کی انٹیلی جینس کمیٹی کو اپنے جائزہ میں بتایا تھا کہ امریکی فوجوں کے شام سے انخلا کے بعد ISIS شام اور عراق میں دوبارہ ابھر آۓ گی۔ اس انٹیلی جینس جائزہ کی روشنی میں اسرائیلی وزیر اعظم Netanyahu، قومی سلامتی امور کے مشیر John Bolton سیکرٹیری آف اسٹیٹ Mike Pompeo کے شام اور عراق میں ایران کے رول سے نفرت کو ISIS سے Sympathy دیکھا جاۓ گا۔ انہوں نے ابھی تک دنیا کو یہ نہیں بتایا ہے کہ ISIS کو فنڈ ز اور Logistics کون فراہم کر رہا ہے؟ صدر ٹرمپ نے CBS سے انٹرویو میں کہا ہے " امریکی فوجیں عراق میں رہیں گی اور یہاں سے وہ ایران کو واچ کریں گی"۔ امریکی فوجیں 2003 سے عراق میں ہیں۔ ان کی موجودگی میں عراق میں ISIS پیدا ہوئی ہے۔ ایران یہاں ہزاروں سال سے ہے۔ اور ایران میں اسلامی انقلاب کو 40 سال ہو گیے ہیں۔ لیکن ایران نے القا عدہ، طالبان اور ISIS جیسی تنظیمیں عرب اسلامی دنیا میں پیدا نہیں کی تھیں۔ جو Facts ہیں وہ Facts ہیں۔ Nonsense باتیں یا بیانات Facts نہیں ہوتے ہیں۔ اور Facts یہ ہیں کہ 2003 سے عرب اسلامی دنیا میں Mishmash ہے۔ خلیج میں امریکہ کے فوجی اڈے کس مقصد کے لئے ہیں؟ ایران کو ان فوجی اڈوں سے بھی واچ کیا جا سکتا ہے۔ عرب دنیا میں پہلے ہی آزادی نہیں ہے۔ ہر طرف ڈکٹیٹر ہیں جو امریکہ کے اسپیشل اتحادی ہیں۔ مڈل ایسٹ میں ہر جگہ امریکہ کے فوجی اڈوں سے لوگوں کا دم گھٹنے لگے گا۔
  با ظاہر یہ نظر آ رہا ہے کہ صدر ٹرمپ کے اقتدار کے پہلے دو سال 2016 کے انتخابات میں روس کی مداخلت اور Collusion پر تحقیقات میں گزرے ہیں اور آئندہ دو سال خارجہ  اور  ڈیفنس  اسٹبلیشمنٹ سے سخت Tussle  میں گزریں گے۔ اس کا آغاز ہو گیا ہے اور اس کی کچھ جھلکیاں بھی نظر آ رہی ہیں۔ امریکہ کے انٹیلی جینس اداروں کے سربراہوں نے 'عالمی خطروں' پر سینیٹ کی انٹیلی جینس کمیٹی کے سامنے جو جائزہ پیش کیا ہے۔ وہ امریکہ کے خارجہ اور ڈیفنس اسٹبلیشمنٹ کے موقف کی ترجمانی کرتا ہے۔ شاید اس لئے صدر ٹرمپ نے انٹیلی جینس سربراہوں کے جائزہ سے اتفاق نہیں کیا ہے۔ اور انہیں دوبارہ اسکول جانے کا کہا ہے۔ صدر ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم  اسٹبلیشمنٹ کے خلاف چلائی تھی۔ اور لوگوں نے اس لئے صدر ٹرمپ کو ووٹ دئیے تھے۔ اور لوگ اب صدر ٹرمپ سے اسٹبلیشمنٹ کی پالیسیاں تبدیل کرنے کی توقع کر تے ہیں۔ صدر ٹرمپ اس لئے بھی محتاط ہیں کہ عراق کے خلاف اسٹبلیشمنٹ نے انٹیلی جینس اداروں کو Manipulate کیا تھا۔ اور پھر عراق میں ہزاروں لوگوں کی ہلاکتوں کے بعد یہ اعتراف کیا گیا تھا کہ عراق کے بارے میں انٹیلی جینس کی رپورٹیں غلط تھیں۔ اس اعتراف سے عراق میں جو مر گیے تھے وہ زندہ نہیں ہو سکتے تھے۔ اور جو امریکی فوجی اپنے جسم کے اجزا کھو چکے تھے وہ اجزا ان کے جسم میں واپس نہیں آ سکتے تھے۔ صدر بش یہ کہہ کر بے گناہ ہو گیے تھے کہ انہیں عراق کے بارے میں یہ رپورٹیں انٹلی جینس نے دی تھیں۔ لیکن پھر اسٹبلیشمنٹ کی تجویز پر صدر بش نے سی آئی اے ڈائریکٹر کو امریکہ کا سب سے بڑا اعزاز بھی دیا تھا۔ صدر ٹرمپ اسٹبلیشمنٹ سے ٹکر لینے میں کس حد تک جائیں گے۔ صدر ٹرمپ کی Legacy کا انحصار اس پر ہے۔                                                               

No comments:

Post a Comment