Thursday, February 21, 2019

What Will Be Future Of Middle East, When America Going Home, Saudi Arabia Going East Via Pakistan And Arabs Are Dividing That Which Direction They Go

   What Will Be Future Of Middle East, When America Going Home, Saudi Arabia Going East Via Pakistan And Arabs Are Dividing That Which Direction They Go
مجیب خان
Pakistan's Prime minister Imran Khan welcome Saudi Arabia's Crown Prince Mohammed Bin Salman arrival at Nur Khan air base in Rawalpindi, Feb 19, 2019   

Prime Minister Narendra Modi received at the airport in New Delhi Saudi Crown Prince Mohammed Bin Salman, Feb 20, 2019  

Turkey-Iran strategic cooperation, Iranian President Hassan Rouhani shakes hand with Turkish President Recep Tayyip Erdogan, in Ankara




   ایران کو تنہا کرنے کی کوششوں میں اسرائیل کے ساتھ امریکہ اور امریکہ کے ساتھ سعودی عرب کے شامل ہونے سے خلیج کے ملکوں میں یہ احساس بڑھ رہا تھا کہ ایران کے بجاۓ جیسے وہ تنہا ہوتے جا رہے تھے۔ ایران کا اثر و رسوخ  روکنے کے لئے اسے تنہا کیا جا رہا تھا۔ لیکن پھر گردن گھمائی تو یہ نظر آیا کہ ترکی کا اثر و رسوخ بڑھ رہا تھا۔ یہ دیکھ کر اسرائیل نے اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کی مہم شروع کر دی۔ وزیر اعظم نتھن یا ہو نے ا و مان کے امیر کے محل کا دروازہ کھٹکھٹایا تھا۔ وار سا پولینڈ میں امریکہ کی مڈل ایسٹ امن اور استحکام کانفرنس میں وزیر اعظم نتھن یا ہو عرب وزراۓ خارجہ کے ساتھ ایک ہی ٹیبل پر بیٹھے تھے۔ یہ ایران سے خطرہ تھا جس نے  انہیں ایک ٹیبل پر سر جوڑ کر بیٹھا یا تھا۔ یہ دیکھ کر عرب عوام میں شدید رد عمل ہوا تھا۔ عرب حکومتوں کو گالیاں پڑ رہی تھیں۔ عرب عوام پہلے اسرائیلی رہنماؤں کو فلسطینیوں کے ساتھ ایک ٹیبل پر بیٹھ کر تنازعوں کا تصفیہ چاہتے ہیں۔ عرب حکومتوں اور غیر عرب حکومتوں کی سوچ میں یہ فرق ہے۔ جو عرب سڑکوں پر عوام کی سوچ سے قریب ہے۔ جسے عرب حکمران اور اسرائیل ان کا بڑھتا ہوا اثر و رسوخ دیکھتے ہیں۔ حالانکہ تاریخ  یہ بتاتی ہے کہ جو حق کی بات کرتے ہیں اثر و رسوخ ہمیشہ ان کا ہوتا ہے۔
  گزشتہ ماہ ایران کے صدر حسن روحانی کا ترکی کا دورہ بہت کامیاب تھا۔ دونوں ملکوں نے شام میں استحکام اور اس کے جلد تعمیر نو پر اتفاق کیا تھا۔ اس کے علاوہ دونوں ملکوں میں اقتصادی اور تجارتی تعلقات کو فروغ دینے کے معاہدہ ہوۓ تھے۔ دونوں ملکوں نے تجارت 100بلین ڈالر پر لے جانے کا عزم  کیا تھا۔ ایران کے صدر حسن روحانی کے ترکی کے کامیاب دورے کے بعد پاکستان کے وزیر اعظم  عمران خان صدر طیب اردو گان کی خصوصی دعوت پر ترکی آۓ تھے۔ دونوں رہنماؤں نے علاقائی صورت حال پر گفتگو کی تھی۔ عالم اسلام کو جن مسائل کا سامنا ہے اس پربھی بات ہوئی تھی۔ دونوں ملکوں میں اقتصادی اور تجارتی تعلقات کو فروغ دینے کے معاہدے ہوۓ تھے۔ ترکی نے پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے کا معاہدہ بھی کیا تھا۔ ترکی، ایران اور پاکستان اس خطہ کے غیر عرب بڑے ملک ہیں۔ ترکی اور ایران کے ساتھ سعودی عرب کے تعلقات انتہائی کشیدہ ہیں۔ سعودی عرب ایران کے خلاف اسرائیل کے موقف کی حمایت کرتا ہے۔ جبکہ ترکی کے بارے میں شہزادہ محمد بن سلمان کے یہ خیالات تھے کہ سلطنت عثمانیہ میں ترکوں نے عربوں کا قتل عام کیا تھا۔ لیکن پھر جمال کشو گی کے بہیمانہ قتل سے سعودی عرب کی ساکھ بری طرح خراب ہو ئی تھی۔ دوسری طرف یمن جنگ میں بے گناہ شہریوں کی بڑھتی ہوئی ہلاکتوں پر سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی مذمت بڑھ رہی تھی۔ ان پر جنگی جرائم کرنے کے الزامات لگ رہے تھے۔ اور ان سے  یمن جنگ بند کرنے کی آوازوں میں اضافہ ہو رہا تھا۔ یمن جنگ کسی مقصد کے بغیر شروع کی تھی اور کسی نتیجہ پر پہنچے بغیر ختم کرنا پڑ رہی تھی۔ سعودی عرب کی قیادت میں GCC ملک اسلامی ملکوں، یورپی ملکوں میں تنہا ہو رہے تھے۔ اسلامی دنیا میں ان کے بارے میں راۓ عامہ خلاف ہوتی جا رہی تھی۔ ادھر امریکہ میں بھی راۓ عامہ اور کانگریس میں سعودی عرب کی مخالفت بڑھ گئی تھی۔ اسرائیل میں نتھن یا ہو حکومت سعودی عرب کی پشت پر تھی۔ وزیر اعظم نتھن یا ہو کے خلاف کرپشن کے کیس تیار ہیں۔ اور اسرائیلی پولیس نے اپنی تحقیقاتی رپورٹ میں ان پر کرپشن کا مقدمہ چلانے کا کہا ہے۔ اسرائیل میں انتخابات اپریل میں ہو رہے ہیں۔ وزیر اعظم نتھن یا ہو 12 سال سے اقتدار میں ہیں۔ اور اس انتخاب میں وہ ہارنے کی پوزیشن میں ہیں۔ اور اگر وہ انتخاب ہار جاتے ہیں تو اسرائیل میں جیسے انقلاب ایران آ گیا ہے۔ اسرائیل میں حیرت انگیز تبدیلی آۓ گی۔
  خطہ کی اس صورت حال کے پس منظر میں سعودی عرب کی قیادت میں GCC ملکوں نے پاکستان کا رخ کیا ہے۔ جہاں چین کے 65بلین ڈالر کے CPEC منصوبہ دراصل پاکستان کی اہمیت اجاگر کرنے میں Investment ہے۔ جیسا کہ ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے یہ اعتراف کیا ہے کہ " مشرق میں یہ ان کا پہلا دورہ ہے۔ اور ہمیں یقین ہے کہ پاکستان مستقبل میں ایک انتہائی اہم ملک بننے جا رہا ہے۔ بلاشبہ ہم بھی اس کا حصہ بننا چاہتے ہیں۔ پاکستان 2030 میں چین اور بھارت کے بعد تیسری بڑی معیشت ہو گا۔" جبکہ ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کا 2030 تک سعودی عرب کو ایک جدید صنعتی ریاست بنانے کا پلان ہے۔ پاکستان میں یہ Political idiots ہیں جو خلیج سے آنے والے شہزادوں اور امیر کے دوروں کو Cash Trap Pakistan” کے کشکول میں Cash ڈالنے آ رہے ہیں، کہتے ہیں۔ یہ ایسے کہتے ہیں کہ جیسے وہ اس ملک کا حصہ نہیں ہیں۔ بہرحال پاکستان کے لئے ایران اور ترکی بھی بہت اہم ہیں۔ ترکی اسلامی ملکوں میں ایک بڑی معیشت ہے۔ ایران کو ایک بڑی معیشت بننے سے روکا جا رہا ہے۔ امریکہ اسرائیل اور سعودی عرب نے اس کی معیشت کے آ گے اقتصادی بندشوں کے Barricade لگا دئیے ہیں۔ امریکہ اور یورپ میں اسرائیل پر ان کے شہریوں نے اپنی اقتصادی بندشیں اسرائیلی اشیا کا بائیکاٹ کرنے کی صورت میں لگائی ہیں۔ اور یہ مہم پھیلتی جا رہی ہے۔ امریکی سینیٹ میں اسرائیلی اشیا کا بائیکاٹ کرنے کے خلاف قانون کا مسودہ دو مرتبہ پیش کیا گیا تھا۔ لیکن یہ منظور نہیں ہو سکا کہ یہ بنیادی شہری آزادی کے منافی تھا۔
  سعودی عرب اور خلیج کے ملک اب مشرق کا رخ کر رہے ہیں۔ اسرائیل عربوں کی طرف دوستی کا ہاتھ  بڑھا رہا ہے۔ مڈل ایسٹ اور پاکستان نصف بلین لوگوں کی مارکیٹ ہے۔ اسرائیل اس مارکیٹ میں داخل ہونے کا راستہ دیکھ رہا ہے۔ 2022 میں امریکہ کی اسرائیل کو 3بلین ڈالر کی امداد بند ہو جاۓ گی۔ اس کا قانون کانگریس نے کلنٹن انتظامیہ میں منظور کیا تھا۔ مڈل ایسٹ کے تیل اور گیس پر امریکہ کا انحصار بھی ختم ہو گیا ہے۔ امریکہ کا اس وقت جاپان اور جنوبی کوریا سے جو تجارتی خسارہ ہو رہا ہے۔ اس کے لئے صدر ٹرمپ نے جاپان اور جنوبی کوریا سے آئل صرف امریکہ سے خریدنے کی Condition ر کھی ہے۔ تاکہ اس سے امریکہ کا تجارتی خسارہ کم ہوتا جاۓ گا۔ اب آئل اور گیس کا کیا مستقبل ہو گا؟ اس بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا ہے۔ مڈل ایسٹ آئل کے دو بڑے گاہک اب صرف امریکہ سے آئل کے خریدار بن گیے ہیں۔ سعودی عرب نے اپنے آئل کی معیشت کو صنعتی اور ٹیکنالوجی کی معیشت میں منتقل کرنے کے عمل کا آغاز کر دیا ہے۔ اس عمل کے تکمیل کے لئے 2030 ٹارگٹ ہے۔ یہ 2019 ہے اور اس ٹارگٹ کو حاصل کرنے کے لئے سعودی عرب کے پاس صرف گیارہ سال ہیں۔ جبکہ یمن کی جنگ کو 6 سال ہو رہے ہیں۔
  اسلام آباد میں وزیر اعظم عمران خان اور ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے درمیان ملاقات کے بعد ایک بیان میں دنیا بھر میں مسلمانوں کے ساتھ سلوک کا ذکر کیا گیا ہے۔ لیکن مسلمان ملک مسلمان ملکوں سے جو سلوک کر رہے ہیں اس پر کچھ نہیں کہا گیا ہے۔ شام میں مسلمانوں کے ساتھ مسلمان ملکوں نے کیا سلوک کیا ہے؟ کس طرح مسلم ملکوں کو تباہ کیا گیا ہے۔ یہ بھی دنیا  میں مسلمانوں کے ساتھ اس سلوک کا حصہ ہونا چاہیے۔ یہ کتنے افسوس کی بات ہے کہ سعودی عرب کے خارجہ امور کے وزیر مملکت عادل الجبیر نے اسلام آباد میں پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے ساتھ پریس کانفرنس میں ایران کو دنیا بھر میں دہشت گردی کا سرغنہ ایک ایسے موقعہ پر کہا ہے کہ جب صرف چند روز قبل دہشت گردوں نے ایران کے فوجیوں کی بس پر حملہ کر کے اس کے 27 فوجی ہلاک کر دئیے تھے۔ اور ایرانی قوم اس کا سوگ منا رہی تھی۔ لیکن سعودی وزیر عادل الجبیر ایران کو دنیا میں دہشت گردی کا سرغنہ بتا رہے تھے۔ اور ایران پر دہشت گردی کے الزامات کی ایک لمبی فہرست بیان کر رہے تھے۔ اسلام میں الزام تراشی کرنا بھی گناہ میں شمار ہوتا ہے۔ ایرانی عوام امریکہ-اسرائیل کی اقتصادی بندشوں کی وجہ سے انتہائی مشکل حالات کا سامنا کر رہے ہیں۔ اسلام مشکل وقت میں لوگوں کی مدد کرنے اور ان کے ساتھ ہمدردی کرنے کا درس دیتا ہے۔
  صدر ٹرمپ اپریل میں اسرائیل میں انتخابات کے بعد فلسطین تنازعہ کا حل ایک ایسے مڈل ایسٹ میں پیش کریں گے جسے امریکہ کی سیاست نے عرب اور غیر عرب میں تقسیم کر دیا ہے۔ اور عرب عرب میں بھی شدید اختلافات ہیں۔ یہ حل بلاشبہ تل ابیب میں تیار کیا گیا ہے۔ اور یہ یکطرفہ حل سمجھا جاۓ گا۔ فلسطینیوں کو اس میں شامل نہیں کیا گیا ہے۔ لیکن یہ فلسطینیوں کے مقدر کے بارے میں ہے۔ جس پر صدر ٹرمپ کے دستخط  کی مہر ہو گی۔ اور اسے پھر فلسطینیوں پر مسلط کیا جاۓ گا۔ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، بحرین، ا و مان، سوڈان اسے تسلیم کر لیں گے۔ عراق شام لبنان یمن لیبیا اسے قبول نہیں کریں گے۔ مصر اور ا ر دن کے اس پر شاید کچھ تحفظات ہوں گے۔ قطر ترکی ایران انڈونشیا ملائشیا اور پاکستان فلسطینیوں کے فیصلہ کی حمایت کریں گے۔ اسلامی ملکوں کو آئندہ چند ماہ میں انتہائی اہم فیصلے کرنا ہیں۔               

                                                                                         

No comments:

Post a Comment