Elections In Israel And India: Both Countries Need New Leaders
Bibi Netanyahu’s 4380 Days In Government, Killing Palestinians, War In The Region, No Peace, Even No Effort To Make Peace With Palestinian Women And Children
مجیب خان
Prime Minister Netanyahu is greeted by prime Minister Modi in India, January 14, 2018 |
A Palestinian woman argues with Israeli soldiers |
Indian Army, Kashmir, and war with unarm Peoples |
Prime Minister Modi with Israeli Prime Minister Netanyahu, Olga beach in northern Israel, July 2017 |
اسرائیل میں اپریل میں اور بھارت میں مئی میں انتخابات ہوں گے۔ اسرائیل میں وزیر اعظم نتھن یا ہو 12 سال سے اقتدار میں ہیں۔ اور وزیر اعظم نر یندر مودی اپنے اقتدار کی میعاد پوری کر رہے ہیں۔ وزیر اعظم مودی Rigid ہندو انتہا پسند ہیں۔ وزیر اعظم نتھن یا ہو Rigid انتہا پسند یہودی ہیں۔ اور دونوں کی سیاست میں مذہبی Rigidity بہت نمایاں ہے۔ اپنے سیاسی تنازعوں کو اپنی مذہبی نظریاتی سیاست میں دیکھتے ہیں۔ اس لئے ان تنازعوں کو حل کرنے میں بھٹکے ہوۓ ہیں۔ اسرائیلی حکومت میں مذہبی انتہا پسندی بہت گہری ہے۔ جبکہ مودی حکومت میں ہندو انتہا پسندی کو فروغ مل رہا ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ یہ ان حالات میں ہو رہا ہے کہ جب اسلامی ملکوں میں سیاست سے مذہبی انتہا پسندی کا Purge ہو رہا ہے۔ اور اپنے معاشرے دوسرے مذاہب کے لئے کھولے جا رہے ہیں۔ لیکن اسرائیلی وزیر اعظم کا دعوی ہے کہ اسرائیل صرف یہودی ریاست ہے۔ جبکہ وزیر اعظم نریندر مودی بھارت کی 70 سال کی سیکولر جمہوری ثقافت تباہ کر کے بھارت کو 21 ویں صدی کی ہندو انتہا پسندوں کی ریاست بنانا چاہتے ہیں۔
وزیر اعظم نتھن یا ہو 12 سال سے حکومت میں ہیں۔ لیکن امن کے لئے انہوں نے کیا کیا ہے؟ وزیر اعظم نتھن یا ہو نے اپنے اقتدار کے 4380 دن فلسطینیوں سے صرف جنگ کی ہے۔ ان پر بم گراۓ ہیں۔ انہیں گولیاں ماری ہیں۔ انہیں ہلاک کیا ہے۔ انہیں مجبور کیا ہے کہ وہ فلسطین سے چلیں جائیں۔ ان کے گھروں پر بلڈ وزر چلائیں ہیں۔ ان کی زمینوں پر قبضہ کیا ہے۔ انہیں گھروں سے بید خل کیا ہے۔ فلسطینیوں کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم رکھا ہے۔ وزیر اعظم نتھن یا ہو نے اپنی ان پالیسیوں سے ثابت کیا ہے کہ اسرائیل ایک Apartheid ریاست ہے۔ اور اس لئے اسرائیل صرف ایک یہودی ریاست ہے۔ Please اسے Anti-semitism نہیں کہا جاۓ۔ یہ نتھن یا ہو حکومت کے 12 سال دور اقتدار میں ہونے والے واقعات کی تفصیل ہے۔ اسرائیل کے ہمسایہ میں عرب حکومتوں کے دور میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے بارے میں مغربی میڈیا میں رپورٹیں آتی تھیں۔ صد ام حسین حکومت کے بارے میں امریکہ کا دعوی تھا کہ صد ام حسین کی پالیسیاں خطہ کے لئے خطرہ بن رہی تھیں۔ صد ام حسین مشرق وسطی پر اپنا کنٹرول قائم کرنا چاہتے تھے۔ اور پھر صد ام حسین کو اقتدار سے ہٹایا گیا تھا۔ لیکن اب دیکھا یہ جا رہا ہے کہ صد ام حسین کا اقتدار ختم ہونے سے جو خلا آیا تھا۔ اسے اسرائیل کی خطرناک پالیسیوں نے پر کیا ہے۔ اور اب یہ نتھن یا ہو حکومت کی پالیسیاں ہیں جو 12 سال سے اس خطہ کو Destabilize کر رہی ہیں۔ اور مشرق وسطی کو اسرائیل کے حلقہ اثر میں لانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔
مصر میں جمہوری حکومت کے آنے سے وزیر اعظم نتھن یا ہو کو یہ پریشانی ہو گئی تھی کہ Islamists اسرائیل کے گرد اقتدار میں آ رہے تھے۔ لیکن پھر یہ ہی وزیر اعظم نتھن یا ہو تھے جنہوں نے شام میں حکومت کے خلاف اسلامی انتہا پسندوں کی حمایت کی تھی۔ انہیں ہتھیار بھی دئیے تھے۔ وزیر اعظم نتھن یا ہو Side line پر کھڑے ہو کر شام کھنڈرات بنتا دیکھتے رہے۔ پھر اسلامی دہشت گردوں کے خلاف جب روس اور ایران آ گے آۓ تو وزیر اعظم نتھن یا ہو واویلا کرنے لگے تھے۔ شور مچانے لگے کہ ایرانی فوجیں شام میں اپنے فوجی اڈے قائم کر رہی تھی۔ اور اسرائیل اس کی اجازت نہیں دے گا۔ لیکن اسرائیل نے غیر ملکی جہادیوں کو شام میں حکومت پر حملے کرنے کی اجازت دے دی تھی۔ دوسری طرف امریکہ حما س اور حزب اللہ کو اسرائیل پر حملے کرنے کے نتیجہ میں دہشت گرد تنظیمیں قرار دے رہا تھا۔ اسرائیل، امریکہ، سعودی عرب اور خلیج کی حکومتیں شام میں اسلامی دہشت گردی پھیلا رہے تھے۔ اور الزام ایران کو دیتے تھے۔ ان ملکوں نے صد ام حسین کو دنیا میں تمام خرابیوں کے اتنے زیادہ الزام دئیے تھے۔ جو بعد میں سب جھوٹ ثابت ہوۓ تھے۔ اس لیے اب ان کے الزامات کو کوئی نہیں مانتا ہے۔ دنیا اب صرف Facts دیکھتی ہے۔ اور Facts ان کے خلاف ہیں۔
صدر ٹرمپ نے نتھن یا ہو کی لیڈر شپ کی بہت تعریف کی ہے۔ اور نتھن یا ہو کو Tough, Smart, Strong لیڈر کہا ہے۔ اور وزیر اعظم کی حیثیت سے انہوں نے شاندار کام کیے ہیں۔ صدر ٹرمپ نے انتخابات میں ان کی کامیابی کی امید کا اظہار کیا ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ صدر ٹرمپ نے ایک ایسے اسرائیلی وزیر اعظم کے کاموں کو شاندار کہا ہے جس نے 12 سال میں فلسطینیوں سے امن کی کوئی بات نہیں کی ہے اور خود بھی امن کے لئے کچھ نہیں کیا ہے۔ فلسطینیوں کے خلاف بھر پور فوجی طاقت کا استعمال کیا ہے۔ ہزاروں فلسطینی مار دئیے ہیں۔ اور صدر ٹرمپ نے وزیر اعظم نتھن یا ہو کی لیڈر شپ کی تعریف کی ہے اور انہیں شاندار کام کرنے پر خراج تحسین پیش کیا ہے۔ صدر ٹرمپ سے پہلے سابق صدر جارج ڈبیلو بش نے ایک دوسرے اسرائیلی وزیر اعظم ایرئیل شرون کو Man of Peace کہا تھا۔ صدر بش سے پوچھا جاۓ کہ ایرئیل شرون نے امن کے لیے کیا کام کیے تھے؟ صدر ٹرمپ نے کہا ہے ' نتھن یا ہو نے وزیر اعظم کی حیثیت سے شاندار کام کیے ہیں۔' لیکن یہ نہیں بتایا کہ کیا شاندار کام کیے ہیں؟ کیا فلسطینیوں کو امن سے محروم رکھنا شاندار کام ہے؟ وزیر اعظم نتھن یا ہو 12 سال سے جن پالیسیوں کو فروغ دے رہے تھے۔ وہ اب Back fire ہو رہی ہیں۔ ان سے Anti-Semitism بڑھا ہے۔ ان سے اسرائیل کے خلاف BDS تحریک کا آغاز ہوا ہے۔ ایران نے اسرائیل کو اتنا نقصان نہیں پہنچایا ہے کہ جتنا وزیر اعظم نتھن یا ہو کی حکومت سے اسرائیل کو نقصان پہنچا ہے۔ یہ فیصلہ اب اسرائیلی عوام کو کرنا ہے کہ ایک Iron fist لیڈر کی قیادت کیا ان کے مفاد میں ہے؟
بھارت میں وزیر اعظم نریندر مودی کا DNA اسرائیلی وزیر اعظم نتھن یا ہو کے DNA سے مختلف نہیں ہے۔ وزیر اعظم نتھن یا ہو فلسطینیوں سے نفرت کرتے ہیں۔ اور وزیر اعظم مودی کشمیریوں سے نفرت کرتے ہیں جو مسلمان ہیں۔ وزیر اعظم مودی نے کچھ دن قبل کہا ہے کہ ' ہم گھروں میں گھس کر مارتے ہیں۔' انہوں نے یہ بالکل درست کہا ہے۔ جب وہ گجرات کے وزیر اعلی تھے ان کی جماعت کے انتہا پسند ہندوؤں نے مسلمانوں کو ان کے گھروں میں گھس کر مارا تھا۔ اور اب 5 سال سے ان کے اقتدار میں بھارتی فوج کشمیریوں کو ان کے گھروں میں گھس کر مار رہی ہے۔ اور وہ دنیا کی ایک بڑی جمہوریت کے لیڈر بنے بیٹھے ہیں۔ انہوں نے یہ نہیں سیکھا ہے کہ جمہوریت میں عوام کے ساتھ کیسے کام کیا جاتا ہے؟ اور تنازعوں کو کیسے حل کیا جاتا ہے۔ چین کے لیڈر بھارتی لیڈروں کو اب یہ سیکھا رہے کہ صرف ڈائیلاگ سے مسائل حل ہوتے ہیں۔ اور ڈائیلاگ کرو۔ تمہارا دشمن اگر تم سے نفرت کرتا ہے اور تم اس سے صرف محبت کا اظہار کرو گے تو تمہارے آدھے مسائل وہیں حل جائیں گے۔ نریندر مودی کی قیادت بھارت کی جمہوریت پر ایک سیاہ داغ ہے۔ 5 سال میں وہ کشمیریوں کو امن نہیں دے سکے ہیں۔ اپنے ہمسایہ میں انہوں نے پاکستانیوں کی نیندیں حرام کر ر کھی ہیں۔ بھارت اور اسرائیل میں اب لیڈروں کو تبدیل کرنا ضروری ہو گیا ہے۔ معقول دماغ کے لیڈروں کو اقتدار میں لایا جاۓ جو دشمنوں سے ڈائیلاگ کرنا اور ان کے ساتھ رہنا سمجھتے ہوں۔
No comments:
Post a Comment