Nationalism Texas Brand ‘Wanted Dead Or Alive, Rather We Fight Here, Rather We Fight Over There'
They Went To Afghanistan And Iraq To Leash Islamic Extremists,
They Unleashed White Supremacists, New Nazis, And Other Like-Minded Groups
مجیب خان
امریکہ Internationalism سے اب نیشنلزم کی طرف آ رہا ہے۔ صدر ٹرمپ معیشت اور تجارت میں زیادہ نیشلسٹ ہوتے جا رہے ہیں۔ نیشنلزم پر بحث جاری ہے۔ White Supremacists, Ku Klux Klan اور دوسرے گروپ نیشلسٹ ہو رہے ہیں۔ سرد جنگ میں نیشنلزم کو امریکہ میں سوشلزم اور کمیونزم کی طرح سمجھا جاتا تھا۔ عرب نیشلسٹ، افریقی نیشلسٹ، لا طین امریکہ میں نیشلسٹ امریکہ کے کبھی دوست نہیں تھے۔ مغربی یورپ میں نیشلسٹ رجحان رکھنے والی سیاسی پارٹیوں کو حکومت میں آنے سے روکا جاتا تھا۔ سرد جنگ میں نیشلسٹ تحریک کسی مذہبی عقیدہ یا فرقہ کے خلاف نہیں تھی۔ بلکہ یہ تحریک ایشیا، افریقہ اور لا طین امریکہ میں نوآبادیاتی اور سامراجی ملکوں کے تسلط کے خلاف تھی۔ سامراجی اور نوآبادیاتی ملکوں کی Proxies حکومتوں سے نیشلسٹوں کی لڑائی رہتی تھی۔ امریکہ کی تاریخ میں اب پہلی بار لفظ نیشنلزم سیاست میں داخل ہو رہا ہے۔ تاہم یہ نیشنلزم ایشیا، افریقہ اور لا طین امریکہ میں نیشلسٹ تحریک سے مختلف ہو گا۔ صدر ٹرمپ اور ان گروپوں کے امیگریشن کے مسئلہ پر یکساں خیالات ہیں۔
Washington become refugees manufacturing factory and refugees distribution center, America will take 5million Syrian refugees, Germany will take 2million, one million France, one million Britain, one million Italy, and rest will take care European Union
امریکہ پر اسلامی دہشت گردوں کے 9/11 حملہ کے بعد پہلا شدید رد عمل مسلمانوں کے خلاف تھا۔ امریکی عوام کو ان پر غصہ تھا اور ماحول میں کشیدگی محسوس کی جا رہی تھی۔ صدر بش نے 9/11 کے بعد پہلے اسے Crusade کا آغاز کہا تھا۔ لیکن پھر اسے اسلامی دہشت گردوں کے خلاف جنگ قرار دیا تھا۔ صدر بش نے کہا' وہ ہماری آزادی اور ترقی سے نفرت کرتے ہیں۔ اور ان سے یہاں لڑنے کے بجاۓ ان کی سرزمین پر لڑا جاۓ گا۔ اور ان کا مکمل خاتمہ کیا جاۓ گا۔' صدر بش نے کہا ' ٹیکساس میں اسے Wanted dead or alive کہا جاتا ہے۔' صدر بش اور ان کی کابینہ کے اعلی حکام نے اسلامی دہشت گردی کے خلاف جس لہجہ سے بیانات دئیے تھے ان سے امریکی عوام میں مسلمانوں سے نفرت بڑھنے لگی تھی۔ اس کے نتیجہ میں بعض جگہوں پر مسلمانوں پر حملہ بھی ہوۓ تھے۔ یہ صورت قابو سے باہر ہوتا دیکھ کر صدر بش نے اپنا لہجہ بدل دیا اور یہ کہا کہ اسلام ایک پرامن مذہب ہے۔ اور سارے مسلمان دہشت گرد نہیں ہیں۔ لیکن جو فوجی افغانستان اور پھر عراق گیے تھے۔ وہ اس Mind set کے ساتھ گیے تھے کہ انہیں اسلامی دہشت گردوں کا مکمل خاتمہ کرنا تھا۔ حالانکہ 9/11 کی دہشت گردی میں افغان اور طالبان شامل نہیں تھے۔ انہوں نے کسی امریکی شہری کو ہلاک نہیں کیا تھا۔ امریکہ سے ان کی کوئی لڑائی نہیں تھی۔ امریکہ سے ان کے صرف اختلافات تھے۔ لیکن افغانستان پر حملہ میں ان کے ساتھ انتہائی غیر انسانی سلوک کیا گیا تھا۔ بلگرام نظر بندی کیمپ میں انہیں اذیتیں دی جاتی تھیں۔ ازبک وار لارڈ عبدالرشید دوستم طالبان سے سخت نفرت کرتا تھا۔ طالبان پختون تھے۔ بش انتظامیہ نے اس سے طالبان کا مکمل صفایا کرنے کا کام لیا تھا۔ اسے اس کام کے لئے ڈالروں سے بھرے بریف کیس دئیے تھے۔ اس کے حکم پر ایک ہزار طالبان کابل سے پکڑے تھے۔ اور انہیں اس کے علاقہ کی جیل لے جانے کا حکم دیا تھا۔ ایک ہزار طالبان کو Container میں بند کر دیا تھا۔ جو راستہ میں سخت گرمی ہوا اور پانی نہیں ہونے سے Container میں مر گیے تھے۔ جنہیں Garbage کی طرح ایک بڑے گڑھے میں Dump کر دیا تھا۔ یہ امریکہ کی فوجی موجودگی میں ہو رہا تھا۔ ازبک وار لارڈ دوستم طالبان کے خلاف جنگ میں امریکہ کا قریبی اتحادی تھا۔ افغانستان میں ایسے بے شمار واقعات تھے۔ جو صرف اس نفرت پر تھے کہ امریکہ پر 9/11 کا حملہ ہوا تھا۔ امریکی فوجیوں کو افغانستان نفرت کے اس پیغام کے ساتھ بھیجا تھا۔ یہ 20s اور 30s کی عمروں کے تھے۔ ریگن انتظامیہ میں افغانستان میں کمیونسٹ فوجوں کے خلاف عرب اسلامی دنیا کے نوجوان جہادیوں کو یہ پیغام دیا تھا کہ کمیونسٹ فوجیں افغانستان میں اسلام تباہ کر رہی تھیں۔ اور افغانستان کو ایک کمیونسٹ ریاست بنایا جا رہا تھا۔ افغانستان میں جنگ ختم ہونے کے بعد یہ جہادی Islamic Radical ہو گیے تھے۔ بڑے بش اس وقت صدر ریگن کے نائب صدر تھے۔ جہادیوں کے لئے ان کا یہ پیغام تھا کہ ' وہ حق پر ہیں اور خدا ان کے ساتھ ہے۔' جو حق پر تھے اور خدا ان کے ساتھ تھا' وہ سب گوتانوموبے میں Transport کر دئیے گیے تھے۔
افغانستان کے بعد پھر عراق میں صد ام حسین کے خلاف نفرت پھیلانے کا مشن شروع ہو گیا تھا۔ امریکی فوجیوں کو یہ پیغام دیا جا رہا تھا کہ صد ام حسین انتہائی خطرناک ڈکٹیٹر ہیں اور اگر ان کا خاتمہ نہیں کیا گیا تو صد ام حسین کے مہلک ہتھیار امریکہ کے شہروں پر گرنے لگے گے۔ عراق میں صد ام حسین سے نفرت پھر عراقی شہریوں سے نفرت میں بدل گئی تھی۔ ابو غریب غریب جیل میں عراقیوں کے ساتھ جو شرم ناک سلوک کیا گیا تھا وہ اس نفرت کا نتیجہ تھا۔ جن امریکی فوجیوں نے ابو غریب جیل میں عراقیوں کے ساتھ یہ شرم ناک سلوک کیا تھا۔ وہ 20s اور 30s کی عمروں کے تھے۔ یہ نفرت اتنی زیادہ تھی کہ انہوں نے صد ام حسین کی Underwear میں تصویر بنائی تھی اور پھر عراقی شہریوں کی تذلیل کرنے کے لئے اسے عالمی اخبارات میں شائع کرنے کے لئے ریلیز کیا تھا۔ حالانکہ صد ام حسین نے امریکہ کے خلاف کچھ نہیں کیا تھا۔ امریکہ سے کبھی جنگ نہیں کی تھی۔ صد ام حسین عرب نیشلسٹ تھے۔ اور دوسرے عرب اور فلسطینی قوم پرستوں کے ساتھ ان کی یکجہتی تھی۔ فلسطینیوں کے ساتھ اسرائیلی بر تاؤ پر صد ام حسین اسی طرح بیان دیتے تھے جیسے آج ترکی کے صدر اردو گان اسرائیل کی شدید لفظوں میں مذمت کرتے ہیں۔ صد ام حسین سے سعودی عرب اور خلیج کے حکمرانوں کی دشمنی بھی ایسی ہی تھی جیسے آج سعودی عرب کو قطر سے دشمنی ہو گئی ہے۔ صد ام حسین نے سعودی شاہ سے کبھی ایسے نہیں کہا تھا کہ جو صدر ٹرمپ نے کہا ہے کہ وہ ان کے بغیر 7 دن سے زیادہ Survive نہیں کر سکتے ہیں۔ عراق پر حملہ سے آخر کس نے کیا حاصل کیا ہے؟
صدر جارج ڈبلو بش نے Timothy McVeigh کی سزاۓ موت پر عملدرامد کے سرٹیفکیٹ پر دستخط کیے تھے۔ بڑے بش نے پہلی خلیج جنگ میں جو فوجی بھیجے تھے۔ Timothy McVeigh ان میں شامل تھا۔ اس وقت یہ 20s میں تھا۔ خلیج کی جنگ سے واپس آنے کے بعد اس کی سوچ اور رویہ تبدیل ہو گیا تھا۔ اور وہ بھی حکومت کے مخالف گروپوں سے مل گیا تھا۔ صدر بش اور ان کی قومی سلامتی امور کی ٹیم نے یہ نہیں سوچا تھا کہ افغانستان اور عراق سے واپس آنے کے بعد یہ فوجی کہیں Timothy McVeigh کی Legacy نہیں بن جائیں۔ امریکہ میں Past کو Cover up کیا جاتا ہے اور Present کو Focus کیا جاتا ہے اور Future کے بارے میں کہا جاتا ہے will see what happened۔ سابقہ انتظامیہ کسی کے سامنے جوابدہ نہیں ہے۔ سابقہ انتظامیہ کے غیر ذمہ دارا نہ فیصلوں کا الزام Social Media کو دینا سب سے آسان جواب ہے۔ حالانکہ Social Media ایک کھلی کتاب کی طرح ہے۔ سب یہ دیکھ سکتے ہیں کہ Social Media میں کیا ہو رہا ہے۔ لیکن بند کمروں کے پیچھے کیا ہو رہا یہ کوئی نہیں دیکھ سکتا ہے۔
No comments:
Post a Comment