Sunday, April 21, 2019

America’s Role In The Post-Cold War World, Arrogant, Irresponsible, Ill- advice, Improvident


  America’s Role In The Post-Cold War World, Arrogant, Irresponsible, Ill- advice, Improvident
مجیب خان
Central American migrants walking to the U.S Oct 21, 2018

Venezuela refugees trying to cross into Colombia

Syrian refugees march toward Greece's border

Syrian refugees in Lebanon



  اس وقت دنیا میں ہر طرف جو Humanitarian crisis ہے اسے اگر امریکہ کی عالمی پالیسیوں کا سبب بتایا جاۓ تو یہ مبالغہ آ رائی نہیں ہو گی۔ یہ  امریکہ کی  قیادت کے غیر ذمہ دار ا نہ  اور Il-advised فیصلوں کے نتائج ہیں۔ دنیا کی واحد طاقت کی ذمہ دار یاں  سنبھالنے کا امریکہ کو کوئی تجربہ  نہیں تھا۔ سرد جنگ اچانک ختم ہو گئی تھی۔ امریکہ کی انٹیلی جینس ایجنسیوں کو بھی یہ یقین نہیں تھا کہ سوویت ایمپائر جلد collapse ہونے والی تھی۔ عالمی قیادت کی ذمہ دار یاں امریکہ کے کندھوں پر آ گئی تھیں۔۔ امریکہ میں لیڈروں نے عالمی قیادت کی ذمہ دار یاں سنبھالنے کے لیے کوئی home work نہیں کیا تھا۔ دونوں بڑی پارٹیوں کے پاس امریکہ دنیا کی واحد طاقت کا کوئی vision نہیں تھا۔ دونوں پارٹیوں کا cold war vision تھا۔ اور یہ cold war revive کرنے کی پالیسیوں پر عمل پیرا تھیں۔ سرد جنگ ختم ہونے کے بعد امریکہ میں جو لیڈر اقتدار میں تھے اس نے سرد جنگ کی پالیسیوں کا تسلسل برقرار رکھا تھا۔ ملٹری اتحاد، ہتھیاروں کا فروغ، جنگیں تلاش کرنے کی پالیسیاں جاری رکھی تھیں۔ سرد جنگ کی وجہ سے جن علاقائی تنازعوں کو حل نہیں کیا گیا تھا۔ اور جو عالمی امن اور استحکام کے لیے مسلسل خطرہ بنے ہوۓ تھے۔ امریکی قیادت نے ان کے حل میں لا پرواہی برتی تھی۔ اتفاق سے سرد جنگ ختم ہونے کے وقت یہ جارج ایچ بش تھے۔ جو سرد جنگ کے آخری hawkish صدر رونالڈ ریگن کے نائب صدر تھے۔ 1970s میں سرد جنگ کی کشیدگی جب زوروں پر تھی جارج ایچ بش اس وقت سی آئی اے کے ڈائریکٹر تھے۔ ایشیا، افریقہ اور لا طین امریکہ میں بائیں بازو کے خلاف دائیں بازو کی جنگیں patronize کرنے کا انہیں خاصا تجربہ تھا۔ 1990s میں سوویت قیادت نے سرد جنگ ختم کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ مشرقی یورپ سوویت orbit سے آزاد ہو گیا تھا۔ جرمنی یونائڈڈ ہو گیا تھا۔ وسط ایشیا کی ریاستوں کو بھی آزادی مل گئی تھی۔ لیکن صدر جارج ایچ بش نے امریکہ کو سرد جنگ سے آزاد نہیں کیا تھا۔ صدر بش نے سرد جنگ ختم ہونے کے بعد ایک نئی دنیا shape دینے میں کوئی نئے اقدامات تجویز نہیں کیے تھے۔ امریکہ کی خارجہ اور ڈیفنس پالیسیوں میں کوئی تبدیلی نہیں کی تھی۔ اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ اور پینٹاگان میں جیسے سرد جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی تھی۔ نیٹو ملٹری پیکٹ کو برقرار رکھا تھا۔ بلکہ مشرقی یورپ کے ملکوں کو بھی نیٹو میں شامل کرنے کے منصوبے بن رہے تھے۔ صدر بش کا ' امریکہ دنیا کی واحد سپر پاور' بننے کا کوئی نیا vision نہیں تھا۔ بلکہ ان کے سامنے موضوع  یہ تھا کہ سوویت یونین کے بغیر امریکہ کا survival کیسے ہو گا؟ سرد جنگ کی جگہ گرم جنگ کے محاذ کہاں کھولے جا سکتے ہیں؟ امریکہ کا survival صرف فوجی مہم جوئیوں میں دیکھا جا رہا تھا۔
  امریکہ کے ساتھ جنہوں نے 50سال سرد جنگ لڑی تھی اور سوویت یونین کو شکست دی تھی۔ سرد جنگ ختم ہونے کے بعد ان کے ساتھ امریکہ کا رویہ بدل گیا تھا، یہ تعلقات ایسے نہیں تھے جیسے نازی جرمنی کے خلاف جنگ جیتنے کے بعد امریکہ کے یورپی اتحادیوں کے ساتھ تھے۔ سوویت یونین کے خلاف جنگ میں ایشیا، افریقہ اور لا طین امریکہ کے ملک میدان جنگ بناۓ گیے تھے۔ یہاں لوگوں نے زبردست قربانیاں دی تھیں۔ سرد جنگ نے ان ملکوں کو غریب رکھا تھا۔ امریکہ کے صرف یورپی اتحادی مالدار اور خوشحال تھے۔ لیکن سرد جنگ میں  ہر براعظم میں امریکہ کے اتحادی غربت میں غرق تھے۔ انہوں نے صرف ایک خوشحال مستقبل کے لیے امریکہ کوسرد جنگ جیت کر دی تھی۔ لیکن امریکہ نے ان ملکوں کے لوگوں کا شکر یہ تک ادا نہیں کیا تھا۔ ان ملکوں کے ساتھ جنگ جیتنے کا جشن بھی نہیں منایا تھا۔ بلکہ سوویت یونین کو شکست دینے کا سارا کریڈٹ امریکہ نے خود لے لیا تھا۔ اور ایشیا، افریقہ اور لا طین امریکہ میں اپنے اتحادیوں سے منہ موڑ لیا، جیسے ان کے لیے یہ پیغام تھا کہ GO TO HELL۔
  صدر بش نے سرد جنگ ختم ہونے کے بعد ایشیا، افریقہ اور لا طین امریکہ میں اقتصادی اور معاشرتی تعمیر نو کے منصوبوں کو اس طرح فوری اہمیت نہیں دی تھی کہ جیسے نازی جرمنی کے خلاف جنگ ختم ہونے کے بعد امریکہ نے یورپ کی تعمیر نو کے منصوبوں کو فوری اہمیت دی تھی۔ بلکہ مشرقی یورپ کے ملکوں کی جو سوویت یونین کے orbit میں تھے، ان کی تعمیر نو بھی یورپ میں امن اور استحکام کے لیے اہم سمجھا تھا۔ افغانستان سرد جنگ کی ایک عبرتناک مثال ہے۔ سوویت یونین کے خلاف فیصلہ کن جنگ افغانستان میں لڑی گئی تھی۔ ریگن انتظامیہ نے افغان مجاہدین کی حمایت کی تھی۔ انہیں ہر طرح کی امداد دی تھی۔ نائب صدر جارج بش افغان مجاہدین کے ساتھ کھڑے ہونے میں فخر محسوس کرتے تھے۔ ان کے حوصلے بلند کرنے افغان پاکستان سرحد پر مجاہدین سے ملاقاتیں کرتے تھے۔ لیکن سوویت یونین کو جب افغانستان میں شکست ہو گئی تھی۔ جارج بش امریکہ کے صدر تھے۔ پھر سرد جنگ بھی ختم ہو گئی تھی۔ صدر بش نے افغان مجاہدین کے ان رہنماؤں کو جو صدر ریگن کے وائٹ ہاؤس میں ان سے ملاقاتیں کرنے آتے تھے، انہیں سوویت فوج کی شکست پر وائٹ ہاؤس میں استقبالیہ تک نہیں دیا تھا۔ انہوں نے جو قربانیاں دی تھیں اس پر انہیں خراج تحسین بھی پیش نہیں کیا۔ اسی طرح ایشیا، افریقہ اور لا طین امریکہ میں دائیں بازو کی جو پارٹیاں امریکہ کی اتحادی تھیں اور سوویت یونین کی حامی جماعتوں سے لڑ رہی تھیں۔ سرد جنگ ختم ہونے کے بعد امریکہ نے انہیں بھی بالکل فراموش کر دیا تھا۔ انہیں خوشحال مستقبل دینے کے بجاۓ امریکہ انہیں تاریکیوں میں چھوڑ کر چلا گیا تھا۔ سرد جنگ  ختم ہونے سے امریکہ کو یہ آزادی ملی تھی کہ بش انتظامیہ نے سب سے پہلے پا نا مہ پر حملہ کیا تھا۔ اور امریکی فوجیں صدارتی محل میں داخل ہو گئی تھیں اور ایک sovereign ملک کے صدر Manuel Noriega کو گن پوائنٹ پر پکڑ کر فلوریڈا لے آئی تھیں۔ یہ امریکہ کی گرم جنگوں کی ابتدا تھی۔ پا نا مہ پر 1989 میں حملہ کیا تھا۔ 1991 میں خلیج کی پہلی جنگ عراق کے خلاف لڑی گئی تھی۔ اس کے بعد سے جنگوں کا ایک نا ختم ہو والا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔
 امریکہ نے 7ٹیریلین ڈالر مڈل ایسٹ میں Regime change جنگوں پر خرچ کیے تھے۔ یہ 7ٹیریلین اگر امریکہ کے Backyard میں ترقیاتی اقتصادی منصوبوں میں Invest کیے جاتے تو آج صدر ٹرمپ Wall build کرنے کی بحث میں وقت برباد نہیں کرتے۔ سرد جنگ ختم ہونے کے بعد ایشیا، افریقہ اور لا طین امریکہ کو نئی جنگیں دینے کے بجاۓ یورپ کی طرح ان ملکوں کی تعمیر نو کی جاتی تو امریکہ کی 24 گھنٹے قومی سلامتی کے خطروں کی لاحق پریشانی بڑی حد تک دور ہو جاتی۔ لیکن امریکہ کے لیڈروں کو ہزاروں میل دور پہاڑوں، دروں اور ریگستانوں کی دھول میں قومی سلامتی کے خطرے دکھائی دے رہے تھے۔ سرد جنگ میں ایشیا افریقہ اور لا طین امریکہ میں جن مجاہدین کو تربیت اور ہتھیار دئیے گیے تھے۔ سرد جنگ ختم ہونے کے بعد وہ سب بیروزگار ہو گیے تھے۔ ان کی زندگیوں میں سرد جنگ ختم ہونے سے کوئی فرق نہیں آیا تھا۔ وہ پہلے بھی غریب اور بیروزگار تھے۔ اور سرد جنگ ختم ہونے کے بعد بھی غریب اور بیروزگار تھے۔ بلکہ دہشت گردی کے نام پر نئی جنگوں کا جو سلسلہ شروع ہوا تھا۔ اس سے ان کا امن بھی چلا گیا تھا۔ امریکہ کو جو کام کرنے چاہیے تھے وہ کام نہیں کیے اور جو کام نہیں کرنا چاہیے تھے وہ کام کیے تھے۔ امریکہ Venezuela کی اندرونی سیاست میں مداخلت کر رہا ہے۔ لیکن مشرقی یورپ میں پولینڈ اور ہنگری جمہوریت کی پٹری سے اترتے جا رہے ہیں۔ یہاں امریکہ کی کوئی سیاسی مداخلت نہیں ہے؟
 ?Who is responsible for The Human destruction in Syria  
                    

No comments:

Post a Comment