Monday, April 15, 2019

Anti-Peace Coalition Back In Power In Israel

Anti-Peace Coalition Back In Power In Israel

Despite President Trump’s Full Support, Bibi Netanyahu Couldn’t Win The Elections With Landslide

مجیب خان
President Donald Trump's campaign for Prime Minister Netanyahu, Billboard in Tel Aviv 

Labor party which had signed the Oslo Peace agreement with Palestinians, it's Prime Minister had given his life for Peace, completely wiped out from Israel's politics

 

  صدر ٹرمپ نے اسرائیل کے انتخابات میں وزیر اعظم نتھن یا ہو کی Landslide victory کے لئے ان کی بھر پور مدد کی تھی۔ صدر ٹرمپ نے وزیر اعظم نتھن یا ہو کو یروشلم اسرائیل کا دارالحکومت بنانے کے لئے دیا تھا۔ تاکہ اسرائیلی خوش ہو کر وزیر اعظم نتھن یا ہو کو ووٹ دیں گے۔ صدر ٹرمپ نے گولا ن کی زر خیز چوٹیوں پر اسرائیل کا غیر قانونی قبضہ ختم کر کے اسے اسرائیل کا قانونی علاقہ تسلیم کیا تھا۔ کاش صد ام حسین زندہ ہوتے اور یہ دیکھتے کہ امریکہ نے ان کے کویت پر فوجی قبضہ کو غیر قانونی قرار دیا تھا۔ اور پھر ان کے ملک پر حملہ کیا تھا اور کویت کو آزاد کرایا تھا۔ لیکن اب امریکہ عربوں کے علاقوں پر اسرائیل کے فوجی قبضہ کو اس کا جائز حق تسلیم کر رہا ہے۔ صدر ٹرمپ نے صرف وزیر اعظم نتھن یا ہو کے مطالبہ پر ایران کا ایٹمی سمجھوتہ بھر پور عالمی مخالفت کے باوجود ختم کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ صدر ٹرمپ نے عالمی امن پر وزیر اعظم نتھن یا ہو کے مطالبہ کو اہمیت دی تھی۔ اور ایران کے ایٹمی سمجھوتہ سے امریکہ کو علیحدہ کر لیا تھا۔ اسرائیل میں انتخابات سے صرف چند روز قبل صدر ٹرمپ نے ایران کی سیکورٹی کے ادارے  کو عالمی دہشت گرد تنظیم قرار دیا تھا۔ جس پر وزیر اعظم نتھن یا ہو نے صدر ٹرمپ کا شکر یہ ادا کیا تھا۔ امریکہ میں اکثر پریذیڈنٹ ایسے احمقانہ فیصلے کرتے ہیں جو دنیا کے لئے ایک نئی مثال بن جاتے ہیں۔ صدر ٹرمپ نے وزیر اعظم نتھن یا ہو کے مطالبوں اور مشوروں کو اپنی مڈل ایسٹ پالیسی کا کار نر اسٹون بنایا ہے۔ وزیر اعظم نتھن یا ہو اور لیکوڈ پارٹی صدر ٹرمپ کے ان اقدامات سے بہت خوش تھے۔ اور انہیں صدر ٹرمپ پر یہ اعتماد ہے کہ وہ انہیں 3ہزار سال قبل مڈل ایسٹ کا جو نقشہ تھا وہ  دیں گے۔
  لیکن اسرائیل میں انتخابات کے جو نتائج آۓ ہیں۔ وہ صدر ٹرمپ کے لئے بڑے embarrassing ہیں۔ وائٹ ہاؤس میں انتہائی مقبول وزیر اعظم نتھن یا ہو اسرائیل میں Landslide victory حاصل نہیں کر سکے تھے۔ اپنے حریف کے مقابلے میں انہیں صرف ایک نشست کی برتری ملی ہے۔ Blue and White جو بالکل ایک نئی پارٹی ہے اور انتخابات سے صرف چند ماہ قبل وجود میں آئی ہے۔ اس نے Knesset میں 35 نشستیں حاصل کی ہیں۔ جبکہ Four Terms Prime minister کی لیکوڈ پارٹی نے صرف 36 نشستیں حاصل کی ہیں۔ Knesset کی 120 نشستیں ہیں۔ اور دونوں پارٹیاں حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ تاہم لیکوڈ پارٹی چھوٹی پارٹیوں کے ساتھ ، جو اسرائیلی طالبان ہیں اور مختلف نظریاتی اور مذہبی دھڑوں میں تقسیم ہیں۔ ان پارٹیوں نے پانچ سات نشستیں حاصل کی ہیں، حکومت بناۓ گی۔ پہلے بھی لیکوڈ نے ان پارٹیوں کے ساتھ مخلوط حکومت بنائی تھی۔ نتھن یا ہو حکومت نے مقبوضہ فلسطینی علاقوں جو نئی بستیاں تعمیر کی ہیں اور وہاں جن یہودیوں کو آباد کیا ہے۔ وہ یا تو کٹر مذہبی ہیں اور یا فلسطینیوں سے سخت نفرت کرتے ہیں۔ اور آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کے سخت خلاف ہیں۔ لیکوڈ پارٹی نے ایک تنازعہ کے اندر نیا تنازعہ کھڑا کر کے پرانے تنازعہ کو اور زیادہ پیچیدہ  بنا دیا ہے۔ انتخابات کے بعد اسرائیل میں حکومت کا جو ڈھانچہ بن رہا ہے۔ اس میں صدر ٹرمپ کا مڈل ایسٹ پلان Doomed to fail نظر آ رہا ہے۔ نئی یہودی بستیوں میں آباد کاروں نے وزیر اعظم نتھن یا ہو کے اس وعدہ پر ووٹ دئیے ہیں کہ وہ اقتدار میں آنے کے بعد مغربی کنارے کو اسرائیل میں شامل کر لیں گے۔ وزیر اعظم نتھن یا ہو شاید مخلوط حکومت بنا لیں گے۔ لیکن وزیر اعظم پھر ہر پارٹی کے سیاسی اور نظریاتی ایجنڈہ کے قیدی رہیں گے۔ اور اگر وزیر اعظم کسی ایک پارٹی کے ایجنڈہ کے خلاف جاتے ہیں تو اس  صورت میں ان کی حکومت ختم ہو جاۓ گی۔ صدر ٹرمپ کے لئے بھی اپنے مڈل ایسٹ پلان کی مخلوط  حکومت میں شامل ہر پارٹی کی حمایت حاصل کرنا انتہائی مشکل ہو گا۔ اسرائیلی طالبان اور افغان طالبان دونوں اب ایک ہی Page پر ہیں۔
  افغانستان میں امن کے لیے طالبان سے مذاکرات Headache بنے ہوۓ ہیں۔ اور اسرائیلی طالبان فلسطینیوں کو امن دینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ان کا امن منصوبہ صرف عظیم تر اسرائیل ہے۔ گزشتہ سال اسرائیلی Knesset نے یہ قانون منظور کیا ہے کہ اسرائیل صرف یہودی ریاست ہو گی۔ اور اس قانون کے تحت فلسطینی مسلم اور عیسائی دوسرے درجہ کے شہری ہوں گے۔ دراصل جنوبی افریقہ کی نسل پرست حکومت کے قانون پر یہودی مذہب کا لیبل لگا کر اسے اسرائیل میں نافذ کیا گیا ہے۔ یہ خبر بھی ہے کہ انتخابات میں فلسطینیوں کو جو اسرائیلی شہری تھے۔ انہیں ووٹ ڈالنے سے روک دیا تھا۔ اسرائیل کی 6.3 ملین کی آبادی میں 20فیصد فلسطینی ہیں۔ اسرائیلی جمہوریت میں فلسطینیوں کے مساوی حقوق نہیں ہیں۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ امریکہ اور مغربی ملکوں نے جو فلسطینی اسرائیل کے شہری ہیں۔ اسرائیل سے انہیں مساوی حقوق دینے کی کبھی بات نہیں کی ہے۔ لیکن یہ امریکہ اور اسرائیل کی مشترکہ قدریں ہونے پر فخر کرتے ہیں۔
  جس طرح 2016 کے صدارتی انتخابات میں ڈیمو کریٹک پارٹی کی صدارتی امیدوار ہلری کلنٹن کے خلاف سوشل میڈیا کے ذریعہ Fake خبریں پھیلائی گئی تھیں۔ انہیں بدنام کیا گیا تھا۔ اور ووٹر ز کو گمراہ کیا تھا۔ بالکل اسی طرح اسرائیل میں لیکوڈ پارٹی نے بنجیمن نتھن یا ہو کے مخالف امیدوار کے خلاف جھوٹا، بدنام کرنے اور لوگوں کو گمراہ کرنے کی مہم سوشل میڈیا پر چلائی تھی۔ Blue and White پارٹی کے امیدوارBenny Gantz کے بارے میں یہ پراپگنڈہ کیا گیا کہ وہ Arabist ہیں اور فلسطینیوں کے ساتھ ان کا گٹھ جوڑ ہے۔ فلسطینی انہیں منتخب کرنا چاہتا ہیں۔ یہ Typical Right wingers Mentality ہے۔ "صد ام حسین مڈل ایسٹ پر کنٹرول کرنا چاہتے ہیں" بن لادن ہماری قدروں کو تباہ کرنا چاہتا ہے۔" لیکن عراق لیبیا شام کی قدریں کس نے تباہ کی ہیں۔ جہاں سنی، شیعہ اور عیسائی صدیوں سے ساتھ  رہ رہے تھے۔ اور ان کے درمیان کوئی مذہبی فرقہ پرستی نہیں تھی۔ سرد جنگ میں یہ اپنے سیاسی مخالفین پر کمیونسٹ اور سوشلسٹ ہونے کے لیبل لگاتے تھے۔ اور ووٹروں کو گمراہ کرتے تھے۔ ان کی سیاست صرف جھوٹ پر ہوتی ہے۔
  لیکوڈ پارٹی تقریباً  دس سال سے Bunch of Ultra-Right and Extreme Religious Parties   کے ساتھ مل کر حکومت کر رہی ہے۔ ان سب کا مشترکہ دشمن فلسطینی ہیں۔ وزیر اعظم نتھن یا ہو ان جماعتوں کو Appeased کر رہے ہیں۔ اور امریکہ نتھن یا ہو کو Appeased کر رہا ہے۔ حالانکہ Appeasement سے اسرائیل Down fall  کی طرف جا رہا ہے۔ حال ہی میں جو سروے آیا ہے اس کے مطابق امریکہ میں پہلی مرتبہ اسرائیل کی حمایت گری ہے۔ نتھن یا ہو حکومت کے دس سالوں میں ان کی Anti-Peace پالیسیوں کے نتیجہ میں دنیا میں Anti-Semitism کا فروغ ہوا ہے۔ اسرائیل کے خلاف BDS movement شروع ہوئی ہے۔ اس کا الزام امریکہ اور یورپ میں دوسروں کو دینے کے بجاۓ انگلی پہلے لیکوڈ پارٹی کی حکومت پر اٹھائی جاۓ جو مڈل ایسٹ میں Anti-Peace اور Pro War پالیسیوں کو فروغ دے رہی ہے۔


  امریکہ کی تین انتظامیہ جارج ڈبلو بش، بر اک اوبامہ اور اب ڈونالڈ ٹرمپ اسرائیل میں لبرل سیاست کو تباہ کرنے کی پالیسی کو فروغ دے رہے ہیں۔ لبرل جمہوریت کا تصور اسرائیل میں ختم ہو گیا ہے۔ جس کا نتیجہ ہے کہ مغربی لبرل جمہوری قدریں ختم ہوتی جا رہی ہیں۔ ترکی اور یورپ کے مختلف ملکوں میں مغربی لبرل جمہوری قدروں کا خاتمہ دیکھا جا رہا ہے۔ اسرائیل میں لیبر پارٹی جس نے فلسطینیوں کے ساتھ امن سمجھوتہ کیا تھا اور فلسطینیوں کی خود مختار ریاست کی حمایت کی تھی۔ لیبر پارٹی کے وزیر اعظم Yitzhak Rabin جنہوں نے امن کے لیے اپنی جان دی تھی۔ اس پارٹی کا وجود تقریباً  ختم ہو گیا ہے۔ اس انتخاب میں لیبر پارٹی نے صرف 6 نشستیں حاصل کی ہیں۔ ہم سب با خوبی جانتے ہیں کہ ایران دنیا میں کہا کھڑا ہے۔ لیکن دنیا کو اس پر توجہ دینا چاہیے کہ اسرائیل دنیا کو کدھر لے جا رہا ہے۔                                                                                                                                                                          

No comments:

Post a Comment