Israel Needs A New Leader And Party, Who Strongly Believe In Peace And Humanity, And Likud Is Not That Party
The Message For Arab League Is That The Era Of
Puppetism Is Gone
مجیب خان
Israel Prime Minister Benjamin Netanyahu and Palestinian President Mahmoud Abbas |
30th Arab League summit in Tunis, Tunisia on March 31, 2019 |
تونس میں عرب لیگ سربراہ اجلاس نے گو لان چوٹیوں پر اسرائیل کا قبضہ قانونی تسلیم کرنے کے فیصلہ کو مستر د کر دیا ہے۔ اور ٹرمپ انتظامیہ کی اسرائیل کے بارے میں پالیسیوں کو غیر منصفانہ اور تعصب پر مبنی قرار دیا ہے۔ اجلاس میں عرب رہنماؤں نے 2002 کے عرب لیگ اجلاس میں جو عرب امن منصوبہ تنازعہ کا حل پیش کیا تھا اسے دوہرایا ہے۔ جس میں اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لئے پہلے تمام عرب علاقوں سے اسرائیل کا فوجی قبضہ ختم کرنے اور اسرائیل سے 1967 کی جنگ سے قبل کی سرحدوں پر جانے کا کہا گیا تھا۔ اس میں گو لان چوٹیاں، مشرقی یروشلم، مغربی کنارے اور غازہ کی پٹی سے اسرائیلی فوجی قبضہ مکمل طور پر ختم کرنے پر زور دیا تھا۔ تونس میں عرب لیگ اجلاس میں شاہ سلمان نے کہا کہ وہ ایسے کسی بھی اقدام کو بالکل مستر د کرتے ہیں جس سے گو لان چوٹیوں پر شام کی خود مختاری متاثر ہوتی ہے۔ شاہ سلمان نے کہا "ہم ایک مرتبہ پھر اپنے اس فیصلے کی مکمل تصدیق کرتے ہیں کہ گو لان پر شام کی خود مختاری پر قبضہ کے کسی بھی اقدام کو مستر د کرتے ہیں۔ ہم شام کے بحران کے ایک ایسے سیاسی حل کی اہمیت پر زور دیتے ہیں۔ جس میں شام کی سلامتی، اتحاد اور خود مختاری کی ضمانت ہو گی۔ اور بیرونی مداخلت ختم کی جاۓ گی۔ " شاہ سلمان نے فلسطینیوں کی ایک آزاد ریاست کے قیام کے لئے سعودی عرب کی پوزیشن بھی ایک بار پھر واضح کی کہ یہ مغربی کنارے اور غازہ کی پٹی میں جس کا دارالحکومت مشرقی یروشلم ہو گا، قائم کی جاۓ گی۔" شاہ سلمان نے کہا " سعودی عرب کے لئے فلسطین ایشو ایک اہم ترجیح رکھتا ہے۔"
عرب لیگ کے سیکرٹیری جنرل Ahmed Aboul Ghiet نے کہا "امریکہ کا فیصلہ تمام عالمی کنونشن کے بر خلاف ہے۔" سیکرٹیری جنرل نے کہا " ترکی اور ایران نے بعض بحران بد سے بدتر کر دئیے ہیں۔ اور نئے مسائل پیدا کر دئیے ہیں۔" انہوں نے عرب رہنماؤں سے علاقائی مداخلت کے خلاف ایک متحد طاقت بن جانے کا کہا۔ عرب رہنماؤں کی یہ باتیں نئی نہیں ہیں۔ وہ خود اپنے لئے مسائل پیدا کرتے ہیں اور پھر دوسروں پر انگلیاں اٹھانے لگتے ہیں۔ عرب لیگ کے ہر اجلاس میں وہ ماضی کے اجلاس میں اپنے بیان دوہراتے ہیں۔ اور واپس اپنے گھروں کو چلے جاتے ہیں۔ لیکن اپنے فیصلوں پر کبھی عملدرامد نہیں کرتے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ عرب لیگ کے رکن ممالک ہیں جو ہزاروں میل دور مغربی ملکوں کو اپنے تنازعوں میں مداخلت کرنے کی دعوت دیتے ہیں۔ ان کی مداخلت کو Facilitate کرتے ہیں۔ کاش۔ عرب دنیا میں بادشاہتیں نہیں ہوتیں۔ اور اگر ڈکٹیٹر بھی ہوتے تب بھی شاید عرب دنیا کا سیاسی نقشہ مختلف ہوتا۔ بادشاہوں نے اپنے خطہ کو جنگوں کے لئے زر خیز بنایا ہے۔ عرب اسرائیل جنگ ابھی جاری تھی۔ لیکن بادشاہوں نے 10 اور نئی جنگیں گلے لگا لیں ہیں۔ ہتھیار فروخت کرنے والے ملک ان جنگوں کا خیر مقدم کرتے تھے۔ ہتھیار شاہ ایران کو نہیں بچا سکے تھے۔ ہتھیاروں نے عراق کو تباہ کر دیا ہے۔ سعودی عرب کھربوں ڈالر کے ہتھیار امریکہ سے خرید تا ہے۔ لیکن صدر ٹرمپ کہتے ہیں سعودی حکومت امریکہ کے بغیر سات دن سے زیادہ نہیں رہے سکتی ہے۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ عرب حکمرانوں کی جنگجو قبائیلی ذہنیت تبدیل نہیں ہو رہی ہے۔ عرب لیگ نے عرب عوام کے مفاد میں کیا کام کیے ہیں؟ عراق، لیبیا، شام، یمن، میں عرب لیگ کا کیا رول تھا؟ یہاں حالات کو عرب حکمرانوں اور عرب لیگ نے بد سے بد تر کیے ہیں۔ کبھی یہ یقین ہونے لگتا ہے کہ جیسے سازشیں اسلام کا چھٹا ستون ہے۔
یہ ایران تھا جس نے عراق میں صد ام حسین کے خلاف امریکہ کے حملہ کی مخالفت کی تھی۔ ایران عراق میں سنی حکومت کا خاتمہ نہیں چاہتا تھا۔ لیکن یہ خلیج کے سنی عرب حکمران تھے جو عراق میں صد ام حسین کی سنی حکومت ختم کرنے میں امریکہ کے ساتھ کھڑے تھے۔ اور اس کے ٹینکوں اور فوجی ٹرکوں میں پیٹرول بھر رہے تھے۔ عرب لیگ نے صدر قد ا فی کو اقتدار سے ہٹانے کی حمایت میں قرارداد منظور کی تھی۔ مڈل ایسٹ میں جو گیم ہو رہا تھا۔ کیا وہ اس کے دور رس اور خوفناک نتائج نہیں دیکھ رہے تھے۔ عراق پر حملہ اس وقت کیا گیا تھا کہ جب وسط ایشیا کا تیل عالمی مارکیٹ میں آنے لگا تھا۔ اور روس کے تیل اور گیس کی سپلائی یورپ میں شروع ہو گئی تھی۔ وہ دور اب ختم ہو رہا تھا کہ جب خلیج کے تیل پر امریکہ اور یورپ کی صنعتی ترقی کا انحصار تھا۔ اور خلیج کے استحکام کو بہت اہمیت دی جاتی تھی۔ لیکن اب خلیج صرف خلیج کے ملکوں کے لئے لائف لائن ہے۔ لیکن خلیج کو جنگوں، خانہ جنگوں اور شیعہ سنی محاذ آ رائی کی سیاست سے عدم استحکام کیا جا رہا ہے۔ عربوں کے دماغ میں یہ بیٹھا دیا ہے کہ ایران تمہارا ایک بڑا دشمن ہے۔ عرب حکمران اپنی عقل اس لئے استعمال نہیں کرتے ہیں کہ انہیں ڈر ہے اپنی عقل استعمال کرنے سے ان کے اقتدار خطرے میں آ جائیں گے۔
مشرقی ایشیا حالانکہ ان کے لئے ایک بہترین مثال ہے۔ جہاں اسلامی ملک، عیسائی ملک، بدھ پرست ملک، کمیونسٹ اور سوشلسٹ سب اقتصادی ترقی کے ایک ہی Ship پر سوار ہیں۔ اگر کسی ایک نے بھی Ship میں سوراخ کیا تو سب غرق ہو جائیں گے۔ ASEAN ان کی تنظیم ہے جس میں ایک مشترکہ اقتصادی اور تجارتی پالیسی بنائی جاتی ہے۔ اور پھر تمام ملک اس پر عمل کرتے ہیں۔ اقتصادی ترقی انسانیت کی بقا کا سوال ہے۔ مذہب اور عقیدے سے اس کا تعلق نہیں ہوتا ہے۔ مغربی ایشیا میں اس ماڈل کو اختیار کیا جا سکتا ہے۔ یہاں زیادہ تر اسلامی ملک ہیں۔ جب ہر عقیدے اور فرقہ کے ملک ایک Ship پر آ جائیں گے تو ایران پھر Ship میں سوراخ کیوں کرے گا۔ وہ خود بھی غرق ہو جاۓ گا۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ بیرونی طاقتیں یہ نہیں چاہتی ہیں۔ اور عرب اپنی عقل استعمال نہیں کر سکتے ہیں۔ لہذا مڈل ایسٹ یوں ہی انتشار اور مذہبی فرقہ پرستی کی آگ میں سلگتا رہے گا۔
بش انتظامیہ میں یہ لیکوڈ پارٹی تھی جس نے چیرمین یا سر عرفات سے کوئی مذاکرات نہیں کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ اور چیرمین یا سر عرفات کو عالمی دہشت کہا تھا۔ اور فلسطینیوں سے ایک نئی قیادت کو آگے لانے کا کہا تھا۔ جس کے ساتھ امن مذاکرات کرنے کا کہا تھا۔ صدر جارج بش نے لیکوڈ پارٹی کی حکومت کے اس فیصلہ کی مکمل حمایت کی تھی۔ اور چیرمین یا سر عرفات سے تمام تعلقات ختم کر لئے تھے۔ اور مذاکرات کے دروازے بھی بند کر دئیے تھے۔ حالانکہ یہ لیکوڈ پارٹی تھی جس نے اوسلو امن سمجھوتہ قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ وزیر اعظم اسحاق رابن کو فلسطینیوں کے ساتھ اوسلو امن سمجھوتہ کرنے پر قتل کر دیا تھا۔ اور یہ بنجیمن نتھن یا ہو تھے جنہوں نے فلسطینیوں سے مذاکرات کرنے سے انکار کیا تھا۔ اور اب ٹرمپ انتظامیہ نے فلسطینیوں کی امداد اس لئے بند کر دی ہے کہ وہ وزیر اعظم نتھن یا ہو سے مذاکرات نہیں کر رہے ہیں۔ اور جب تک فلسطینی مذاکرات کی ٹیبل پر نہیں آتے ہیں ان کے ساتھ تمام تعلقات منقطع رہیں گے۔ جبکہ فلسطینیوں کا موقف جائز ہے۔ انہیں ایک ایسی اسرائیلی حکومت سے بالکل مذاکرات نہیں کرنا چاہیں جو فلسطینیوں کے حقوق تسلیم نہیں کرتی ہے۔ امن میں ایمان نہیں رکھتی ہے اور فلسطینیوں کے ساتھ تنازعہ کو جنگ سے حل کرنے میں یقین رکھتی ہے۔ لیکوڈ پارٹی اور وزیر اعظم نتھن یا ہو نے میڈرڈ معاہدہ، اوسلو معاہدہ، شرم الشیخ سمجھوتہ، کیمپ ڈیوڈ معاہدہ اور فلسطینیوں کے ساتھ ایک درجن سے زیا دہ معاہدوں کو ختم کیا ہے، ان پر عملدرامد نہیں کیا ہے۔ حقائق کے اس پس منظر میں فلسطینیوں کو ایک نئی پارٹی اور صرف اس کی قیادت سے مذاکرات کرنے کی شرط رکھنا چاہیے۔ اور اس سے پیچھے نہیں ہٹانا چاہیے۔ صدر ٹرمپ چین سے Fair Trade کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ لیکن سعودی عرب اور خلیج کے ملک امریکہ سے کھربوں ڈالر کا اسلحہ خرید رہے ہیں۔ امریکہ میں کھربوں ڈالر Invest کر رہے ہیں۔ امریکہ میں ہزاروں نئے Jobs create کر رہے ہیں۔ لیکن عرب اسرائیل تنازعہ میں امریکہ انہیں Fair Deal نہیں دے رہا ہے۔ امریکہ ان کے ساتھ openly unfair ہے۔ اور underneath biased ہے۔
No comments:
Post a Comment