Friday, April 26, 2019

One Is A Real Estate Tycoon And The Other Is Cricketer, How Do They Do In Politics And Running The Government?

One Is A Real Estate Tycoon And The Other Is Cricketer, How Do They Do In Politics And Running The Government?

مجیب خان

 

  امریکہ میں ایک روایتی اسٹیبلشمنٹ پریذیڈنٹ ٹرمپ کے حکومت کرنے کے طریقہ کار کو ابھی تک نہیں سمجھ سکی ہے۔ اور پاکستان میں پروفیشنل سیاسی لیڈروں کو عمران خان کے حکومت کرنے کا انداز سمجھ میں نہیں آ رہا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ ڈونالڈ ٹرمپ نے کبھی سیاست کی تھی۔ اور نہ ہی عمران خان کا سیاسی بیک گراؤنڈ ہے۔ صدر ٹرمپ انتہائی کامیاب بزنس مین ہیں۔ ایک عرصہ تک وہ امریکی چینل NBC پر Realty Show کے نام سے اپنا ایک پروگرام کرتے تھے۔ ڈونالڈ ٹرمپ نے جب یہ دیکھا کہ عوام میں دونوں بڑی پارٹیوں کی ساکھ گرتی جا رہی تھی۔ دونوں پارٹیاں امریکہ کو مسلسل نا ختم ہونے والی جنگوں میں لے جا رہی تھیں۔ امریکی عوام کے کھربوں ڈالر ان جنگوں پر برباد کیے جا رہے تھے۔ امریکہ کا قرضہ 20ٹیریلین ڈالر پر پہنچ گیا تھا۔ اور یہ بڑھتا جا رہا تھا۔ عوام میں دونوں پارٹیوں کی ان پالیسیوں کی وجہ سے خاصی بے چینی تھی۔ صدر ٹرمپ کی سیاست میں آمد جیسے یہ امریکی اسپرنگ تھا۔ ڈونالڈ ٹرمپ ایک تجربہ کار بزنس مین لیکن نا تجربہ کار سیاسی لیڈر تھے جو ری پبلیکن پارٹی کے اسٹیج پر 17 سیاسی  پروفیشنل کی  صف میں کھڑے ہوۓ تھے۔ اور پھر انہوں نے رفتہ رفتہ 17 سیاسی پروفیشنل کی وکٹیں گرا دی تھیں۔ اور سیاسی میدان میں اپنے مخالف کے چیلنج کا مقابلہ کرنے  تنہا کھڑے تھے۔ ڈونالڈ ٹرمپ نے صدارتی انتخابی مہم خود چلائی تھی۔ اور ری پبلیکن پارٹی کی تاریخ میں ایسی انتخابی مہم پہلے کبھی نہیں دیکھی گئی تھی۔ اس کا اعتراف پارٹی کے سینیئر رہنماؤں نے بھی کیا تھا۔
  ڈونالڈ ٹرمپ 1980s میں پہلی بیوی سے طلاق کے بعد بالکل دیوالیہ ہو گیے تھے۔ اس کے بعد ڈونالڈ ٹرمپ نے اپنے آپ کو دوبارہ build کیا تھا۔ کچھ ہی عرصہ میں بزنس پھر Boom کرنے لگا۔ 1980s میں ABC ٹی وی کے پروگرام 20/20 میں Barbara Walters سے انٹرویو میں ڈونالڈ ٹرمپ نے بتایا کہ وہ بزنس میں اب بہت کامیاب تھے۔ ان کا بزنس فروغ کر رہا تھا۔ اس کی وجہ ڈونالڈ ٹرمپ نے یہ بتائی تھی کہ اب وہ روزانہ صبح 7 بجے آفس جاتے ہیں اور تمام پروجیکٹ خود دیکھتے ہیں۔ اور پھر مینجر ز اور سپر وائزر ز کو ہدایات دیتے اور پروجیکٹ وقت پر مکمل کیے جاتے ہیں۔ ڈونالڈ ٹرمپ نے کہا کہ پہلے انہوں نے اپنا بزنس مینجر ز پر چھوڑ دیا تھا۔ اس پر بہت کم توجہ دیتے تھے۔ اور خود دنیا میں گھومتے پھرتے تھے۔ لیکن اب وہ خود بزنس کو دیکھتے ہیں۔ اس لئے بزنس کامیاب ہے۔
  ڈونالڈ ٹرمپ اس بیک گراؤنڈ کے ساتھ وائٹ ہاؤس میں آۓ ہیں۔ انتظامیہ کے ہر محکمہ کو خود دیکھتے ہیں۔ محکموں سے متعلق کسی بھی ایشو پر Tweet کرتے ہیں۔ اور محکمہ کے سیکرٹیری کو By Pass کر دیتے ہیں۔ تقریباً ڈھائی سال میں صدر ٹرمپ نے اپنی کابینہ میں کئی مرتبہ رد و بدل کیا ہے۔ سیکرٹیری آف اسٹیٹ Rex Tillerson کو ایک Tweet کے ذریعہ بر طرف کر دیا تھا۔ اٹرنی جنرل Jeff Session کے خلاف صدر ٹرمپ نے کئی مرتبہ Tweet کیے تھے۔ بلا آخر اٹرنی جنرل کو استعفا دینا پڑا تھا۔ دو مرتبہ سیکرٹیری آف Home Land Security تبدیل کیے ہیں۔ کابینہ میں اکثر تبدیلیاں کرنا پڑتی ہیں۔ اور یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ اور نہ ہی اس پر تشویش ہونا چاہیے۔ لیکن میڈیا کابینہ میں تبدیلیوں کو سنسنی خیز بنا دیتا ہے۔ کابینہ میں تبدیلیاں انتظامیہ کی کارکردگی کو موثر بنانے کا عمل ہے۔
  جس طرح ڈونالڈ ٹرمپ نے ٹرمپ ایمپائر بنائی ہے۔ اسی طرح وہ امریکن ایمپائر کی تعمیر نو کرنا چاہتے ہیں۔ عمران خان کر کٹر ہیں۔ پاکستان کی کرکٹ ٹیم کے کپتان تھے۔ اور اپنی ٹیم کو ور لڈ کپ چمپین بنایا تھا۔ اسی طرح عمران خان پاکستان کی قیادت کرنا چاہتے ہیں۔ اور پاکستان کو اقتصادی ترقی میں چمپین بنانا چاہتے ہیں۔ عمران خان کی زندگی دنیا کی چوٹی کی کرکٹ ٹیموں کے چیلنج قبول کرنے میں گزری ہے۔ اور انہوں نے بڑی کامیابی سے ان کے چیلنجوں کا مقابلہ کیا تھا۔ عمران خان پہلی مرتبہ اقتدار میں آۓ ہیں۔ اور پہلے ہی دن عمران خان سے پاکستان کو در پیش Chronic Challenges قبول کرنے کا کہا گیا ہے۔ جس میں قرضوں میں ڈوبی معیشت، بھارت کی قیادت کی آنکھوں میں پاکستان سے نفرت کا خون، انسانیت کی دشمن دہشت گردی، یہ چند بڑے چیلنج ہیں۔ جبکہ دو بڑی نا معقول جماعتوں کی چوری اور سینہ زوری  کی سیاست بھی ایک چیلنج ہے۔ ان پارٹیوں کو چیلنج قبول کرنے کی عادت نہیں ہے۔ یہ صرف Easy Money کی عادی ہیں۔ 2008 میں آصف علی زر داری جب اقتدار میں آۓ تھے۔ اس وقت انہیں بڑھتی ہوئی دہشت گردی ایک چیلنج نظر آئی تھی۔ لہذا صدر زر داری نے اس چیلنج کو قبول کرنے کے بجاۓ گھبرا کر اسے چیف اف آرمی جنرل کیانی کو دے دیا تھا کہ جنرل کیانی دہشت گردوں کے خلاف جب چاہیں اور جہاں چاہیں کاروائی کریں۔ انہیں اس کے لیے مکمل اختیار دے دیا تھا۔ اور اس اعلامیہ کے ساتھ صدر زر داری اور ان کی حکومت تمام چیلنجوں سے بری الذ مہ ہو گئی تھی۔ اس وقت پاکستان کی معیشت بھی اتنی خراب نہیں تھی۔ پاکستان پر قرضوں کا بوجھ بھی اتنا زیادہ نہیں تھا۔ اس لیے زر داری حکومت نے پاکستان کی معیشت کو اور زیادہ بہتر بنانا بھی ضروری نہیں سمجھا تھا۔ امریکہ سے جو امداد مل رہی تھی اسے پاکستان کا بجٹ Finance کرنے میں استعمال کیا جا رہا تھا۔ اس لیے ٹیکس وصول کرنے پر بھی زیادہ زور نہیں دیا گیا تھا۔ ایکسپورٹ کے بجاۓ ہر چیز امپورٹ کرنے کی پالیسی کو اہمیت دی جا رہی تھی۔ بجلی کا بحران پیدا کر کے فیکٹر یاں اور کارخانے بند کروا دئیے تھے۔ حفیظ شیخ کو صدر زر داری نے وزیر خزانہ بنایا تھا۔ جو بجٹ بنانے میں صدر زر داری کا دماغ استعمال کرتے تھے۔ کیونکہ جو بجٹ انہوں نے پاکستان کو دئیے تھے ان سے یہ نظر نہیں آتا تھا کہ وہ London School of Economic  کے PhD تھے۔ ان بجٹ کے تحت پاکستان میں کوئی ترقیاتی کام ہوۓ تھے اور نہ ہی پرانے منصوبے مکمل کیے تھے۔ ایکسپورٹ بڑھانے کی باتیں بہت ہوتی تھیں۔ لیکن ایکسپورٹ بڑھانے کے لیے فیکٹر یاں اور صنعتیں بند پڑی تھیں۔ کراچی جہاں سے ایکسپورٹ جاتی تھیں۔ وہاں روزانہ ہڑتالیں ہوتی تھیں۔ وزیر خزانہ ایک ایسی حکومت کا خزانہ سنبھالے ہوۓ تھے۔ ہاں وزیر خزانہ حفیظ شیخ سے صدر زر داری کے بنک فراڈ اور جعلی بنک اکاؤٹنس کے بارے میں بھی پوچھا جاۓ۔ کیونکہ بنک، مالیاتی اداروں کی سرگرمیاں اور لاکھوں ڈالروں کی نقل و حرکت وزارت خزانہ کے واچ میں آتی ہیں۔ کیا حفیظ شیخ کو جو اس وقت وزارت خزانہ میں بیٹھے ہوۓ تھے زر داری کی ان سرگرمیوں کا علم تھا یا انہوں نے اس سے منہ موڑ لیا تھا۔ وزیر اعظم عمران خان نے حفیظ شیخ کو اپنی حکومت میں وزارت خزانہ کا مشیر نامزد کیا ہے۔ وزیر اعظم نے مشیر نامزد کرنے سے پہلے ان کا انٹرویو کیا ہو گا۔ اور سابقہ حکومت میں ان کی کارکردگی کے بارے میں بھی ضرور پوچھا ہو گا۔ ڈاکٹریٹ کی ڈگری کسی شخص کو ‘Most Valuable Person’ نہیں بنا دیتی ہے۔ بلکہ معیشت کی ترقی میں اس کے فیصلے اور رول اسے ‘Most Valuable Person’ بناتے ہیں۔ لیکن زر داری جیسے نااہلوں کی حکومت میں قابل اہل لوگ بھی نااہل بن کر حکومت سے باہر آۓ تھے۔ اس حکومت کے وزیر داخلہ رحمان ملک کی کارکردگی پر -F Grade دیا جاۓ گا۔
  وزیر اعظم عمران خان نے 8 ماہ میں اپنی کابینہ میں تبدیلیاں کی ہیں اور بعض وزرا کو ہٹایا ہے ان کی جگہ مشیر نامزد کیے ہیں۔ وزیر اعظم یہ تبدیلیاں کرنے کا مکمل اختیار رکھتے ہیں۔ کرکٹ کا کپتان جب یہ دیکھتا ہے کہ با لر کی ہر بال پر چھکے لگ رہے تھے تو کپتان با لر بدل دیتا ہے۔ کیونکہ اس کے ذہن میں صرف جیتنا ہوتا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے دیکھا کہ کابینہ کے بعض وزرا کی با لنگ سے مولانا فضل الرحمان بھی چھکے لگا رہے تھے۔ تو ان کے لیے کابینہ میں تبدیلیاں ضروری ہو گئی تھیں۔ قومی اسمبلی میں تحریک انصاف کے اراکین بھی کابینہ کا حصہ ہیں۔ انہیں ایک ٹیم کی طرح کام کرنا ہے۔ صرف اسی صورت میں تحریک انصاف پاکستان کو اقتصادی اور سیاسی مسائل سے نکالنے میں کامیاب ہو گی۔ اور اسے نواز شریف کی ن لیگ اور زر داری کی پیپلز پارٹی کو 12 وکٹوں سے شکست دینا ہے۔ تاہم جو یہ باتیں کر رہے ہیں کہ عمران خان کو حکومت کرنے کا تجربہ نہیں ہے۔ ان میں معلومات کا فقدان ہے۔ روس کے صدر ویلا دیمیر پوتن کو بھی حکومت کرنے کا تجربہ نہیں تھا۔ لیکن انہوں نے روس کو سرد جنگ کے ملبہ سے نکال کر دنیا کے اسٹیج پر کھڑا کر دیا ہے۔ فرانس کے صدر Emmanuel Macron بنک میں کام کرتے تھے۔ انہیں بھی حکومت کرنے کا تجربہ نہیں تھا۔ لیکن وہ اب فرانس کے صدر ہیں اور اپنے ملک کے لیے اور عوام کے لیے دن رات محنت کر رہے ہیں۔ جرمن چانسلر Angela Merkel مشرقی جرمنی میں پیدا ہوئی تھیں اور کمیونسٹ نظام میں ان کی پرورش ہو‏ ئی تھی۔ لیکن اب وہ ایک متحدہ اور جمہوری جرمنی میں 14 سال سے چانسلر ہیں۔ اور جرمنی کو انہوں نے یورپ کی ایک بڑی معیشت بنا دیا ہے۔ اور یورپی یونین میں بھی وہ اہم رول ادا کر رہی ہیں۔                 
        

No comments:

Post a Comment