Thursday, April 11, 2019

Pakistan: Is The Accountability Process The Last Chapters Of Asif Zardari-Nawaz Sharif’s Politics?

Pakistan: Is The Accountability Process The Last Chapters Of Asif Zardari-Nawaz Sharif's Politics? 

مجیب خان
Prime Minister Imran Khan

Asif Zardari and son Bilawal Bhutto Zardari  

 Nawaz Sharf Three Times former Prime Minister 


   ہر سال پیپلز پارٹی ذوالفقار علی بھٹو کی برسی مناتی ہے۔ پارٹی کے کارکن جمع ہوتے ہیں۔ پارٹی کے رہنما زور دار تقریریں کرتے ہیں۔ پیپلز پارٹی جب اقتدار میں ہوتی ہے۔ لیڈروں کی تقریروں میں اتنا زور نہیں ہوتا ہے۔ صرف جذبات کا اظہار ہوتا ہے۔ بے نظیر بھٹو جب زندہ تھیں وہ بلاول کو گود میں لے کر بھٹو کے مقبرے پر آتی تھیں۔ اور بھٹو کی برسی پر کارکنوں سے خطاب کرتی تھیں۔ اب بلاول بھٹو زرداری کارکنوں سے خطاب کرتے ہیں۔ اور بھٹو کی برسی مناتے ہیں۔ ' بھٹو کل بھی زندہ تھا اور آج بھی زندہ ہے' کہ نعروں سے فضا گونج جاتی ہے۔ صرف ان نعروں نے پارٹی کو بھی زندہ رکھا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کی وجہ سے بلاول بھٹو زر داری بھی بڑے قد والوں کی سیاست میں شمار ہونے لگے ہیں۔ بھٹو کی 40ویں برسی پر بلاول زر داری کا یہ پہلا خطاب تھا جب پیپلز پارٹی اقتدار میں تھی اور نہ ہی جس پارٹی سے ان کا مک مکاؤ تھا وہ اقتدار میں تھی۔ بلکہ ایک تیسری پارٹی جس کا عوام سے مک مکاؤ تھا۔ پہلی مرتبہ اقتدار میں آئی تھی۔ عمران خان وزیر اعظم تھے۔ بھٹو کی جب 18ویں برسی تھی اس وقت سے عمران خان سیاسی جد و جہد کر رہے تھے۔ اس دوران عمران خان کو حکومت میں شامل ہونے کی متعدد بار پیشکش ہوئی تھی۔ وزیر اعظم بننے کی دعوت بھی دی گئی تھی۔ لیکن عمران خان کو اقتدار کی  ہوس نہیں تھی اور انہوں نے اپنی جد و جہد جاری رکھی تھی۔ 22سال کی جد و جہد کے بعد عمران خان اب اقتدار میں آۓ ہیں۔ اور انہوں نے دونوں پارٹیوں کے کرپشن کے خلاف احتساب کو اپنی حکومت کا پہلا مشن قرار دیا ہے۔ اور اس پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرنے کا عزم کیا ہے۔ پاکستان کے لوگوں کو ایک خوشحال ملک دینے کے لیے احتساب بہت انتہائی ضروری ہے۔ لوگوں نے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کو انہیں ایک خوشحال ملک دینے کے تین موقع دئیے تھے۔ لیکن ہر مرتبہ ان پارٹیوں کے لیڈروں نے اپنے خاندانوں کو خوشحال کر لیا اور لوگوں کو بدحال کر دیا تھا۔  
  بھٹو کی 40ویں برسی پر بلا و ل بھٹو زر داری نے جو تقریر کی تھی۔ اسے سن کر یہ تاثر مل رہا تھا کہ جیسے یہ تقریر ان کی عمر سے تین گنا بڑے نے لکھی تھی۔ بلا و ل زر داری 40سال آگے کی باتیں کرنے کے بجاۓ 40سال پیچھے کے پاکستان کی باتیں کر رہے تھے۔ وہ پاکستان ایک مختلف دنیا میں تھا۔ پاکستان میں لوگوں کی سوچ بہت مختلف تھی۔ لیکن آج دنیا اور لوگوں کی سوچ بدل گئی ہے۔ بلا و ل زر داری جب لندن میں زیر تعلیم تھے۔ اور اس وقت لندن میں بیٹھ کر پاکستان میں جو سیاسی تاریخ بن رہی تھی۔ جس طرح پیپلز پارٹی اقتدار میں آتی تھی اور کبھی نواز شریف کی مسلم لیگ اقتدار میں آتی تھی۔ اور پھر دونوں میں اقتدار کے ایوانوں میں دنگا فساد ہوتا تھا۔ اس کا بلا و ل زر داری نے کبھی ذکر نہیں کیا تھا۔ حالانکہ یہ تاریخ ان کی نگاہوں کے سامنے بن رہی تھی۔ بلا و ل زر داری نے عمران خان حکومت کے بارے میں کہا  ' تمہاری دم کون ہلا رہا ہے۔' بلا و ل زر داری کو شاید یہ معلوم نہیں ہے کہ جن کی جب کوئی دم ہلاتا ہے اس کا حکومت کرنے کا انداز مختلف ہوتا ہے۔ جیسے آصف علی زر داری کی حکومت تھی جس نے اپنے 60 ملین ڈالر سوئس بنک سے بحال کرانے کے بعد اپنی دم صدر بش کے ہاتھ میں دے دی تھی۔ اور دہشت گردی کی جنگ کو پاکستان کی جنگ بنانے کا وعدہ کیا تھا۔ صدر بننے کے بعد زر داری نے پہلے یہ کہا تھا کہ دہشت گردی ہماری جنگ نہیں ہے۔ پھر پاکستان میں تین چار دہشت گردی کے واقعات ہونے کے بعد بش انتظامیہ نے کہا اب مانتے ہو کہ یہ تمہاری جنگ ہے ۔ صدر زر داری نے کہا ہاں یہ ہماری جنگ ہے۔ اب اگر صدر زر داری نے اپنے 60ملین بحال کرانے کے لئے کوئی سمجھوتہ نہیں کیا ہوتا اور اپنی دم اپنے پاس ر کھی ہوتی تو صدر زر داری آستینیں چڑھا کر یہ کہتے کہ یہ ہماری جنگ نہیں لیکن ہم ان دہشت گردوں کو کچل دیں گے۔ جو دہشت گرد ہماری سر زمین پر قدم ر کھے گا وہ زندہ واپس نہیں جاۓ گا۔ اور اس کے ساتھ وہ پاکستان کی سرحدوں کو فوری طور پر سیل کرنے کا حکم دیتے۔ غیر ملکیوں کی پاکستان میں نقل و حرکت پر کڑی نظر رکھی جاتی۔ لیکن صدر زر داری نے پاکستان کی سرحدیں کھول دی تھیں۔ دہشت گرد بھارت سے آ رہے تھے۔ وسط ایشیا سے آ رہے تھے۔ اسرائیل سے بھی مختلف ملکوں کے پا سپورٹ پر آ رہے تھے۔ پاکستان میں دہشت گردوں کی جیسے گھمسان کی جنگ ہو رہی تھی۔ ہزاروں پاکستانی شہری اس دہشت گردی میں مارے گیے تھے۔ لاکھوں کا نقصان ہوا تھا۔ اسے کہتے ہیں دم ہلا کر کام لینا۔ اگر زر داری کی جگہ کوئی اور ہوتا تو وہ اپنے عوام اور ملک کو حفاظت سے اس خوفناک سازش سے نکال لیتا۔ اور دہشت گردی کو پاکستان کی جنگ بنانے والوں کے عزائم ناکام بنا دیتا۔ زر داری حکومت کرپشن کرنے میں بہت کامیاب تھا۔ لیکن سیاست اور حکومت میں زر داری ایک فیل نام ہے۔
   پیپلز پارٹی کا یہ المیہ ہے کہ یہ تین مرتبہ اقتدار میں آئی تھی۔ لیکن اقتدار میں اپنے کارنامہ عوام کو بتانے کے لئے اس کے پاس کچھ نہیں ہے۔ پیپلز پارٹی تقریباً  دس سال سے سندھ میں حکومت  میں ہے۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ اس کے لیڈر سندھ کے عوام کو اپنے کارنامہ نہیں بتا سکتے ہیں کہ انہوں نے سندھ میں کتنے نئے کارخانے اور فیکٹر یاں لگائی ہیں۔ سندھ میں کتنے ہزار لوگوں کو نوکریاں دی ہیں۔ سندھ کی زرعی پیداوار میں کس قدر اضافہ ہوا ہے۔ سندھ میں کرائمز میں کتنی کمی آئی ہے۔ ہسپتالوں کا نظام کتنا بہتر بنایا ہے۔ سندھ میں تعلیم کا معیار کتنا بہتر بنایا ہے۔ سندھ میں غربت کی شرح میں کتنی کمی ہوئی ہے۔ سندھ میں سڑکوں کا نظام بہتر بنایا ہے۔ لیکن پیپلز پارٹی کے ایسے کوئی کارنامے نہیں ہیں۔ اس لئے پارٹی کے لیڈر صرف Non sense باتیں کرتے ہیں۔ مہنگائی وفاقی حکومت کا ہی نہیں صوبائی حکومتوں کا مسئلہ بھی ہے۔ سبزی تر کاریاں پھل صوبوں میں کاشت ہوتے ہیں۔ ان کی قیمتوں کے تعین میں صوبائی حکومتوں کو اقدام کرنا چاہیے۔ صوبائی حکومتوں کو بھی مہنگائی کی روک تھام میں  ذمہ داری قبول کرنا چاہیے۔ صوبائی حکومتیں وفاق سے فنڈ ز بھی لے رہی ہیں۔ اور پھر وفاق سے یہ بھی توقع کرتی ہیں کہ وفاق ان کے صوبہ میں مہنگائی ختم کرے، لوگوں کو امن و امان دے، شہروں میں صاف ستھرائی کے کام کرے۔ اور پھر وہ اس کا کریڈٹ لیں۔ پیٹرول کی قیمت پر حکومت کا کنٹرول نہیں ہے اس کا تعلق عالمی مارکیٹ میں پیٹرول کی قیمتوں سے ہوتا ہے۔ جب تیل کا بیر ل اوپر جاتا ہے۔ دنیا میں ہر جگہ پیٹرول پمپ پر قیمت بدل جاتی ہے۔ اور جب پیٹرول کی قیمت گرتی ہے تو پیٹرول پمپ پر بھی قیمت کم ہو جاتی ہے۔ لیکن حکومت کا پیٹرول پر ٹیکس برقرار رہتا ہے اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی ہے۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ سیاسی پارٹیوں کے پڑھے لکھے ذمہ دار عوام کو Educate کرنے کے بجاۓ حکومت سے ان کی مخالفت براۓ مخالفت میں عوام کو Illiterate رکھنے کی باتیں کرتے ہیں۔ جیسے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی جب حکومتیں تھیں تو لوگوں کو انگریزوں کے دور کی قیمتوں پر ہر چیز ملتی تھی۔ اب  لوگوں کو لیڈروں کو Educate کیا جاۓ۔ ورنہ بلا و ل جیسے پڑھے لکھے جاہل ہوتے جا رہے ہیں۔ پاکستانی روپے کے مقابلے میں ڈالر اب بہت اوپر چلا گیا ہے۔ ڈالر 141 پر آ گیا ہے۔ لیکن یہ صرف پاکستان کا مسئلہ نہیں بلکہ دنیا کے لئے بھی یہ ایک مسئلہ ہے۔ ڈالر بہت زیادہ strong ہو گیا ہے۔ جس کی وجہ سے امریکہ کی ایکسپورٹ بہت مہنگی ہو گئی ہیں۔ اور امپورٹر امریکی اشیا امپورٹ نہیں کر رہے ہیں۔ امریکہ میں ایکسپورٹر بھی ڈالر strong ہونے سے پریشان ہیں۔ عالمی سیاسی اداروں میں Chaos اب عالمی مالیاتی نظام میں داخل ہو رہا ہے۔ ہر طرف غیریقینی ہے۔ کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ کب کیا ہو گا؟
  انتخابی مہم صرف 7ماہ قبل ختم ہوئی تھی۔ لیکن یہ بلا و ل زر داری کو کیا سوجھی تھی کہ اپنے حلقوں میں کام کرنے کے بجاۓ ٹرین پر چڑھ گیے اور لوگوں کو ٹرین کی بوگیوں پر چڑھ جانے کا کہا۔ یہ منظر دیکھ کر جیسے یہ تاثر پیدا ہو رہا تھا کہ بلا و ل زر داری کیا جلا وطنی سے واپس آۓ تھے۔ اس ٹرین سفر کا اور سندھ کے ہر شہر میں اسٹیشن پر لوگوں  کے یہ بڑے مجمع دکھانے کا مقصد کیا تھا؟ بلا و ل زر داری کے اس ٹرین سفر پر سندھ حکومت نے لاکھوں روپے خرچ کیے تھے۔ ان کی سیکورٹی کے لئے ہر اسٹیشن پر خصوصی پولیس لگائی گئی تھی۔ یہ اخراجات بھی سندھ حکومت نے ادا کیے تھے۔ یہ عوام کے فنڈ ز تھے۔ جو حکومت عوام پر خرچ کرنے کے بجاۓ لیڈر کے ٹرین سفر پر خرچ کر رہی تھی۔ اور لیڈر ہر جگہ اسٹیشن پر لوگوں سے مہنگائی کی بات کر رہا تھا۔ ادھر مسافروں کو خاصی پریشانی کا سامنا تھا۔ ان کی ٹرینیں لیٹ ہو رہی تھیں۔ لیڈر ائر  کنڈیشن بو گی میں سفر کر رہے تھے۔ اور عوام اسٹیشنوں پر لیڈر کی آمد کے انتظار میں گرمی سے پگل رہے تھے۔ پارٹی نے اپنے نئے نوجوان لیڈر کو اپنی پرانی سیاست کی بوتل میں ڈال دیا تھا۔
  پاکستان کے عوام نے لیڈروں کو تبدیل ہونے کے  بہت مواقع دئیے ہیں۔ لیکن لیڈروں نے عوام کو ہر مرتبہ صرف مایوس کیا ہے۔ جب کوئی پہلی مرتبہ غلطی کرتا ہے تو اسے یہ کہہ کر درگزر کر دیا جاتا ہے اب آئندہ ایسی غلطی مت کرنا۔ لیکن  دوسری مرتبہ وہ پھر وہ ہی غلطی کرتا ہے تو اس سے کہتے ہیں بڑے Idiot ہو تم نے پھر وہ  ہی غلطی کی ہے۔ اسے ہدایت کرتے ہیں کہ اب یہ غلطی مت کرنا۔ لیکن تیسری مرتبہ وہ پھر وہی  غلطی کرتا ہے تو اس سے کہتے ہیں بڑے Bastard ہو پھر وہی غلطی کی ہے۔ پاکستان میں لیڈر ہیں جو غلطیوں کی پیداوار ہیں۔ اس لئے غلطیوں سے سیکھتے نہیں ہیں۔ عوام انہیں ہر مرتبہ معاف کر دیتے ہیں۔ انہیں کندھوں پر اٹھا کر اقتدار کے ایوانوں میں چھوڑ آتے ہیں۔ پاکستان اس وقت جن مالی مصائب میں ہے یہ نواز شریف اور زر داری حکومت میں کرپشن کی قیمت ہے جو اب عوام ادا کر رہے ہیں۔ مہنگائی بھی اس کا ایک حصہ ہے۔ ٹیکس میں اضافہ ، قومی خزانہ سے جو دولت چوری کی گئی ہے۔ آخر اسے کہاں سے لایا جاۓ گا۔ اس کا بوجھ عوام پر پڑتا ہے۔ عوام اسے پورا کرتے ہیں۔ عوامی اداروں میں نقصانات، غبن اور کرپشن کے نتائج کا سامنا ہمیشہ عوام  کرتے ہیں۔
  40سال قبل جن سیاسی اور مذہبی جماعتوں نے جمہوریت کو Derail کیا تھا۔ ان میں ایک جمعیت علماۓ اسلام بھی تھی۔ جس کے قائد مولانا مفتی محمود تھے۔ جنہوں نے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو  انتخابات میں دھاندلیوں کے نام پر اقتدار سے ہٹانے کی تحریک شروع کی تھی۔ اور سارے پاکستان میں پہیہ جام کرایا تھا۔ مولانا مفتی محمود، مولانا مودودی، مولانا شاہ احمد نورانی، عبدالولی خان، نوابزادہ نصر اللہ خان اور چند دوسرے آئین اور جمہوریت تباہ کر کے اور ملک کا بیڑہ غرق کر کے دنیا سے گیے تھے۔ پاکستان کے  بچوں کو انہوں نے کوئی مستقبل نہیں دیا تھا۔ اب وزیر اعظم عمران خان کی حکومت میں پاکستان کے اچھے دن قریب آتے نظر آ رہے ہیں۔ تو مولانا فضل الرحمن اپنے باپ کے نقش قدم پر جا رہے ہیں۔ پہیہ جام کرنے کی بجاۓ ملین مارچ کرنا چاہتے ہیں۔ اور ملک کو پھر Derail کرنا چاہتے ہیں۔ مولانا کے ذہن میں کوئی شریفانہ خیال کبھی نہیں آتا ہے۔ ہمیشہ شر اور فساد پھیلانے کا موقعہ دیکھتے ہیں۔ لاہور میں مولانا فضل الرحمن کی صحافیوں سے گفتگو لوگوں نے ضرور دیکھی ہو گی۔ مولانا میں کیونکہ یہ Guilt ہے کہ ان کی کوئی Credibility نہیں ہے۔ اس لیے بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھ کر سیاسی گفتگو کرتے ہیں۔ اور نعوذ باللہ اللہ کی توہین کرتے ہیں کیونکہ اس کا نام لے کر جھوٹ بولتے ہیں۔ الزام تراشی کرتے ہیں۔ معاشرہ میں نفاق پھیلانے کی سیاست کرتے ہیں۔ اور لوگوں کو آپس میں لڑاتے ہیں۔  ہر وہ کام کرتے ہیں جس سے اسلام نے منع کیا ہے۔ مولانا فضل الرحمن اپنی جماعت کی تاریخ میں ایک اچھا کام بتائیں جو عوام اور بالخصوص اسلام کے مفاد میں کیا ہے؟                                                                                                                                                                                                                              

No comments:

Post a Comment