Can America Be Safe? When The World Is In Chaos And No Rule Of Law?
مجیب خان
The day of September the 11th, he was one year old and was on baby formula. And American of the age of 20s and 30s were going Afghanistan and Iraq to fight the terrorists 'over there', so keep 'America safe here'. Now he is 19 years old, he entered a Synagogue with a semi-automatic rifle and killed one woman and injured three, in 19 years how he becomes a terrorist
جب بھی اسلامک ورلڈ نے عیسائوں کے
ساتھ خیر سگالی اور مفاہمت بڑھانے کے تعلقات کو اہمیت دی ہے۔ Vatican کے ساتھ قریبی رابطے قائم کرنے کی
کوشش کی ہے۔ دہشت گردی کا کوئی واقعہ ہو جاتا ہے۔ اور خیرسگالی اور مفاہمت دو قدم
آ گے بڑھنے کے بجاۓ دو قدم پیچھے چلی جاتی ہے۔ ایسا نظر آتا ہے کہ جیسے کوئی
پراسرار ہاتھ ہیں۔ جو مسلمانوں اور عیسائوں کے درمیان خیرسگالی دیکھنا نہیں چاہتے
ہیں۔ کہیں کسی چرچ میں دہشت گردی ہو جاتی ہے۔ یا کہیں مسجد میں فائرنگ ہو جاتی ہے۔
نیوزی لینڈ میں جمعہ کی نماز کے موقعہ پر ایک عیسائی دہشت گرد نے نمازیوں پر
فائرنگ کر دی اور پچاس کے قریب لوگ ماردئیے تھے۔ نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم Jacinda Ardern نے اپنی مسلم آبادی کے ساتھ مکمل
اتحاد اور یکجہتی کا اظہار کیا تھا۔ ان کے غم کو اپنا غم بنایا تھا۔ اور
50مسلمانوں کی ہلاکتوں پر قومی سوگ کا اعلان کیا تھا۔ وزیر اعظم Jacinda نے صورت حال کو جس طرح Handleکیا تھا اس سے مسلم ممالک
بہت متاثر ہوۓ تھے۔ عیسائوں کے بارے میں ان کی غلط فہمیاں دور ہوئی تھیں۔ پھر پوپ نے
پہلی مرتبہ خلیج کے عرب ملکوں کا دورہ کیا تھا۔ متحدہ عرب امارات میں پوپ کا بڑا
والہانہ استقبال کیا گیا تھا۔ امیر امارات نے پوپ کو متحدہ عرب امارات میں چرچ
تعمیر کرنے کے لیے زمین دینے کا اعلان کیا تھا۔ پوپ کے دورے کو انتہائی کامیاب
بنایا گیا تھا۔ مذاہب کے درمیان یہ ہم آہنگی کا آغاز تھا۔ عراق اور شام میں
عیسائوں کی عبادت گاہوں پر دہشت گردوں نے حملے کیے تھے۔ عیسائوں کو عرب سرزمین
چھوڑنے پر مجبور کیا جا رہا تھا۔ جس پر پوپ نے اپیل کی تھی کہ عیسائوں کو مشرق وسطی
سے نہیں نکالا جاۓ۔ پوپ کے اس دورے میں یہ غلط فہمی دور کی ہے
اور امیر امارات نے عرب سرزمین پر عیسائوں کو چرچ تعمیر کرنے کی پیشکش کی ہے۔ چرچ
کی سنگ بنیاد رکھنے کی تیاری ابھی پہلے مرحلے میں تھی کہ سری لنکا میں Easter Sunday کو کتھو لک چرچ میں عیسائی جب عبادت میں مصروف
تھے۔ ایک زبردست خود کش بم دھماکہ ہوا تھا۔ اس دھماکہ میں 357 عیسائی مارے گیے
تھے۔ جن میں عورتیں اور بچے بھی شامل تھے۔ یہ دھماکہ اتنا پاور فل تھا کہ ہر طرف
جسم کے ٹکڑے بکھرے ہوۓ تھے۔ جو بھی اس بربریت کے ذمہ دار تھے وہ انسان نہیں انسان
دشمن تھے۔ اسلامی ملکوں میں عیسائوں کے انتہائی مقدس تہوار پر سری لنکا میں چرچ
میں دہشت گردی کے واقعہ پر ہر ایک کو دکھ اور غصہ تھا۔ سری لنکا میں عیسائی اور
مسلمان اقلیت میں ہیں۔ اور ان میں دہشت گردی کا ایسا واقعہ پہلے کبھی نہیں ہوا
تھا۔ اور یہ خبریں بھی نہیں تھیں کہ سری
لنکا سے نوجوان مسلمان شام داعش کے ساتھ اسلامی ریاست کے لیے لڑنے گیے تھے۔ بلاشبہ
سری لنکا کی حکومت کو اس واقعہ کی تحقیقات کرنا چاہیے۔ اور اس میں ملوث لوگوں کو
عبرت ناک سزائیں دی جائیں۔ انتہا پسندی اور دہشت گردی سے مسلم ملکوں میں ہر ایک
تنگ ہے۔ اس کے پیچھے جو ہاتھ ہیں اور جو اسے زندہ ر کھے ہوۓ ہیں انہیں بے نقاب کیا جاۓ۔ مالی معاونت کے
بغیر کوئی کام نہیں ہوتا ہے۔ اگر ISIS اس واقعہ کی ذمہ دار ہے تو بتایا جاۓ کہ ISIS کی فنڈنگ کون کر رہا ہے؟
ایک سال میں کیلیفورنیا میں Synagogue میں دہشت گردی کا دوسرا واقعہ ہے۔
جس میں ایک عورت ہلاک اور تین افراد زخمی ہوۓ ہیں۔ جبکہ گزشتہ سال اکتوبر میں Pittsburgh میں Synagogue میں دہشت گرد نے 11 افراد ہلاک
کیے تھے۔ اور متعدد لوگ زخمی ہوۓ تھے۔ تشویش کی بات ہے کہ کیلیفورنیا میں حملہ آور
19 سال کا تھا۔ یعنی 9/11 کو حملہ آور
صرف ایک سال کا تھا اور Baby
formula پر تھا۔ اس کا نام John Earnest بتایا ہے۔ صدر جارج ڈبلو بش کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اس کی
پرورش ہوئی تھی۔ جسے صدر اوبامہ نے بھی جاری رکھا تھا۔ صدر بش نے پہلے افغانستان
اور پھر عراق ہزاروں امریکی فوجی بھیجے تھے۔ جن میں ایک بڑی تعداد 20s اور 30s کی عمروں کے تھے۔ اور یہ سب وہاں دہشت گردوں کا خاتمہ کرنے گیے
تھے۔ تاکہ یہاں امریکہ کو Safe رکھا جاۓ اور
ان سے وہاں لڑا جاۓ۔ اور John
Earnest جیسے ہزاروں بچوں کی پرورش Safe ماحول میں ہو سکے۔ اس مشن میں ہزاروں امریکی فوجیوں نے افغانستان
اور عراق میں امریکہ کو صرف محفوظ رکھنے میں اپنی جانیں دی ہیں۔ لیکن نظر یہ آ رہا
ہے کہ امریکی فوجیوں کے اپنی جانیں دینے کے باوجود امریکہ محفوظ نہیں ہے۔ John Earnest جو 9/11 کو 1 سال کا تھا اور اب 19 سال کا ہے اور اس نے Synagogue میں Semiautomatic Rifles سے حملہ کیا ہے۔ اس
نے Baby Bottle چھوڑ کر Rifles اٹھائی ہے اور ایک عورت اور تین
افراد کو زخمی کر دیا۔ یہودی بچے خوفزدہ ہے۔ اگر امریکہ محفوظ نہیں ہے تو وہ بھی
محفوظ نہیں ہیں۔ جب دنیا محفوظ نہیں ہے تو امریکہ بھی محفوظ نہیں ہو گا۔ مسئلہ یہ
ہے کہ امریکہ کے لیڈروں کی سوچ میں تضاد ات بہت ہیں۔ ایک طرف ان کا کہنا ہے کہ
دہشت گردوں سے ان کی سرزمین پر لڑا جاۓ گا۔ تاکہ یہاں امریکہ کو محفوظ رکھا جاۓ۔
پھر دوسری طرف وہ یہ کہتے ہیں کہ یہ گلو بل ورلڈ ہے۔ دنیا کی سرحدیں سکڑ گئی ہیں۔
ملکوں کا انحصار ملکوں پر بڑھ گیا ہے۔ مڈل ایسٹ میں تیل کی سپلائی کم ہونے سے
امریکہ پر اس کے اثرات ہوں گے۔ لیکن دہشت گردوں سے وہاں لڑنے سے یہاں امریکہ محفوظ
رہے گا؟ یہ کیسی منطق ہے؟
ایک بچہ جو 9/11 کو ایک سال کا تھا۔ وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں 19 سال کا ہو
جاتا ہے اور پھر دہشت گرد بن جاتا ہے۔ یہ کیسے ہوا ہے؟ شاید صدر بش اور صدر اوبامہ
کے اعلی سیکورٹی حکام یہ بتا سکتے ہیں۔ یہ ایک ہی بچہ نہیں ہے بلکہ ایسے سینکڑوں
بچے ہیں جنہوں نے اسکولوں، کالجوں میں دہشت گردی کی ہے۔ اور درجنوں بچے اور لوگ ہلاک
کیے تھے۔ دہشت گردی کے خلاف ایک طویل جنگ نے امریکہ میں بھی دہشت گرد پیدا کیے ہیں۔
جبکہ دنیا میں دہشت گردی کا فروغ ہوا ہے۔ جن ملکوں اور خطوں میں Regime change کیے ہیں۔ اس سے خطوں اور ملکوں کے
حالات بہتر نہیں ہوۓ ہیں۔ افغانستان میں 9/11 کو جو بچے ایک سال کے تھے۔ آج وہ سب 19 سال کے ہیں اور طالبان بن
گیے ہیں۔ ان سے پہلے جو 19 سال کے تھے وہ بھی طالبان بن گیے تھے۔ اور ان سے پہلے
جو 19سال کے تھے وہ مجاہدین تھے۔ اور سوویت فوجوں کے خلاف لڑ رہے تھے۔ افغان بچوں
کو صرف جنگوں اور جہاد کی تعلیم دی گئی ہے۔ عراق ایک تعلیم یافتہ اور مہذب ثقافتی
معاشرہ تھا۔ اینگلو امریکہ نے عراق پر صد ام حسین سے نفرت میں حملہ کر کے اس ملک
میں جہالت کی تاریکی پھیلا دی۔ تعلیمی ادارے تباہ کر دئیے۔ جتنے 19 سال کے عراقی
تھے انہیں دہشت گردی کے راستہ پر ڈال دیا۔ ایک جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی تھی۔ امریکی
فوجیں عراق کی سر زمین پر تھیں کہ انہیں ایک نئی جنگ ISIS کے خلاف دے دی۔ 19سال کے عراقی بچے اسکول جانے کے بجاۓ ISIS میں چلے گیے تھے۔ یا ISIS کے خلاف لڑنے لگے تھے۔ اسی طرح
شام میں بھی تمام اسکول اور کالج تباہ کر دئیے ہیں۔ شام کو ISIS کے خلاف جنگ میں آ گے کر دیا ہے۔ اور تعلیم کے شعبہ
میں شام کو 50 سال پیچھے کر دیا ہے۔ یہ ہی حال لیبیا کا بھی کیا ہے۔ 8سال سے 19سال
کے بچوں کے ہاتھوں میں مشین گنیں ہیں۔ لیبیا میں کہیں دہشت گردی ہو رہی ہے اور
کہیں گھمسان کی خانہ جنگی ہو رہی ہے۔ اب ان حالات کا الزام بش انتظامیہ، اوبامہ
انتظامیہ، برطانیہ، فرانس، یورپی یونین اور نیٹو کو دینے کے بجاۓ ان کا Media سوشل میڈیا Social
Media کو دیتا ہے۔ اسرائیلی حکومت نے مقبوضہ فلسطین میں 19سال کے بچوں کے
لیے یہ نظام بنایا ہے کہ وہ اسرائیل پر پتھر پھنکتے رہا کریں۔ اسرائیلی حکومت حماس
اور حزب اللہ کو اس کا الزام دیتی رہے گی۔ امریکہ اور یورپ ان کے خلاف کاروائیاں
کریں گے۔ اور پھر اقتصادی بندشوں سے ان کا
گلا گھونٹ دیا جاۓ گا۔ جو اس وقت ایران کے ساتھ ہو رہا ہے۔
حالیہ چند سالوں میں دنیا بھر میں جس
تیزی سے Anti-Semitism بڑھ رہا ہے۔ اس
کی ذمہ دار اسرائیلی حکومت ہے۔ اسرائیلی Warmongers کی واشنگٹن میں انتہا پسندوں سے Marriage ہے۔ وزیر اعظم نتھن یا ہو اور Cabal خود Iron Dome میں بیٹھے ہیں۔
اور اپنی Anti-Peace پالیسیوں سے
دنیا بھر میں یہودیوں کی زندگیوں کے لیے خطرے پیدا کر رہے ہیں۔ اور پھر انہیں بھی
اپنے ایجنڈہ کی تکمیل میں Exploit کر رہے ہیں۔
دنیا بھر میں پہلی مرتبہ لوگوں کو Social Media کے ذریعہ اسرائیل کو سمجھنے کا موقعہ ملا ہے۔ ورنہ
70سال سے انہیں یہ نہیں معلوم تھا کہ فلسطینی بھی عیسائی ہیں۔ اور فلسطینی مسلمان
اور عیسائی اپنی آزادی اور حقوق کے لیے جد و جہد کر رہے ہیں۔ حزب اللہ اور حما س یہاں
عیسائوں کے ساتھ ہیں۔ Social
Media نے Arab-Israel
Conflict کے بارے میں دنیا بھر کے لوگوں کو Educate کیا ہے۔ ان کی Education کو اسرائیل اور امریکہ اپنی قومی سلامتی کے لیے خطرہ کہتے ہیں۔
اور اب اسرائیل نے Social
Media میں Regime
Change کی پراپگنڈہ مہم شروع کر دی ہے۔ دنیا میں مسئلہ حل کرنے کے بجاۓ
واشنگٹن مسئلہ پیدا کرنے میں اسرائیل کی مدد کر رہا ہے۔ اور یہ ایک المیہ ہے۔
No comments:
Post a Comment