John Bolton “No Doubt that North Korea has
violated the United Nations resolutions”
But the World has no doubt that America has also violated the United Nations’
resolutions on Iran nuclear deal
مجیب خان
Paul Wolfowitz Lead Architect of regime change in Iraq |
Bernard Henri Levy organizer of regime change in Libya |
Working hard for regime change in Iran |
John Bolton Under Secretary of State Arms control and International security in Bush administration |
قومی سلامتی کے مشیر John Bolton نے جاپان میں شمالی کوریا کے Short range ballistic missile تجربہ پر کہا
ہے کہ "یہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کی خلاف ورزی ہے۔"
یہ بیان دے کر انہوں نے دنیا میں امریکہ کا مذاق بنایا ہے۔ کیونکہ خود امریکہ نے
ایران کے ایٹمی سمجھوتہ پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کی Gross violations کی ہے۔ سلامتی کونسل کے 15 اراکین
نے اس سمجھوتہ کی حمایت میں قرار داد منظور کی تھی۔ اور اسے ایک قانونی مسودہ
بنایا تھا۔ امریکہ کی سابق انتظامیہ نے بھی اس سمجھوتہ پر دستخط کیے تھے۔ لیکن John Bolton جس انتظامیہ کا حصہ ہیں۔ اس نے
اقوام متحدہ کے قانون کی خلاف ورزی کی ہے۔ اور ایران ایٹمی سمجھوتہ کے قانونی
دستاویز کو ماننے سے انکار کر دیا ہے۔ ایران پر صدر ٹرمپ نے اپنی اقتصادی بندشیں
لگائی ہیں۔ اور دنیا کو دھونس اور دھم کیوں سے ان اقتصادی بندشوں کا پابند بنایا
جا رہا ہے۔ جو عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ ایک مسئلہ کا جب پرامن حل ہو گیا تھا
تو ٹرمپ انتظامیہ اس مسئلہ کو اب فوجی طاقت سے حل کرنا چاہتی ہے۔ دنیا میں Donald Trump, Johan Bolton, Benjamin
Netanyahu, Saudi King جنہیں ایران کے ایٹمی سمجھوتہ میں خامیاں نظر آ رہی ہیں۔ جبکہ
امریکہ کے 3 ہزار سے زیادہ سائنسدانوں نے اس سمجھوتہ کی حمایت کی ہے۔ یہ چار افراد
اکثریت کے فیصلے نہیں مانتے ہیں۔ جو جمہوریت میں بنیادی اصول ہیں۔ اور یہ بھی
جمہوریت کے قانون کی خلاف ورزی ہے۔ ایران کے لوگوں کو B-52 اور دوسرے خوفناک ہتھیاروں کی نقل و حرکت سے خوفزدہ کرنا، Threat کرنا اقوام متحدہ کے قانون کی
خلاف ورزی ہے۔ عالمی قوانین کو By Pass کرنے کا سلسلہ 9/11 کی آ ڑ میں قومی
سلامتی کے نام پر کیا جا رہا ہے۔ سابقہ دو انتظامیہ میں عالمی قوانین کی خلاف
ورزیوں کی ایک لمبی فہرست ہے۔ اقوام متحدہ کے سابق سیکرٹیری جنرل قو فی عنان مرحوم
نے بش انتظامیہ کے عراق کے خلاف بھر پور فوجی طاقت استعمال کرنے کو غیر قانونی اقدام
کہا تھا۔
ہر امریکی انتظامیہ نے مڈل ایسٹ کے
تنازعوں کو پیچیدہ سے پیچیدہ تر بنایا ہے۔ اور پھر انہیں فوجی طاقت سے حل کرنے کا
راستہ اختیار کیا ہے۔ اور حالات اور زیادہ خراب کیے ہیں۔ یہ پالیسی ہتھیار بنانے
والی کمپنیوں کے مفاد میں ہو سکتی ہے۔ لیکن اس خطہ کے لوگوں کے مفاد میں نہیں ہے۔
عراق میں مہلک ہتھیاروں کو تباہ کرنے اور صد ام حسین کا اقتدار ختم کرنے کے بعد
امریکہ نے عراق کی تعمیر نو کرنے کے بجاۓ اسے سب سے پہلے کھربوں ڈالر کے نئے ہتھیار فروخت کیے تھے۔ عراق میں شیعہ اور
سنی ملیشیا بناۓ تھے۔ انہیں بھی لاکھوں ڈالر کے ہتھیار دئیے تھے۔ John Bolton بش انتظامیہ میں Arms control and International security
affairs کے Under
Secretary of State تھے۔ لیکن انہوں نے مڈل ایسٹ میں Arms control اور Security کے سلسلے میں کیا کیا تھا۔ دنیا میں امریکہ کے علاوہ کسی ملک کے
پاس 18سال تک جنگ لڑنے کے وسائل ہیں اور نہ خزانہ میں کھربوں ڈالر ہیں۔ صدر قد ا فی
نے اپنے ملک کو تباہی سے بچانے اور امن و استحکام کے لیے اپنے تمام مہلک ہتھیاروں
کو امریکہ کے حوالے کر دیا تھا۔ لیکن ایک دوسرے صدر نے Bunch of NATO ملکوں کے ساتھ لیبیا پر بمباری کر
کے ریاست گرا دی۔ لیبیا کے ٹکڑے کر دئیے۔ 8سال ہو رہے ہیں لیبیا ابھی تک ایک ملک
بن سکا ہے نہ ہی لیبیا میں امن ہے اور استحکام ہے۔ امریکہ کے صدر فرانس کے صدر
برطانیہ کے وزیر اعظم لاکھوں بے گناہ لوگوں کی زندگیاں تباہ کر کے چلے گیے۔ ایران
نے اپنے ایٹمی پروگرام پر سمجھوتہ اپنے عوام کی بقا سلامتی اور استحکام کے لیے کیا
تھا۔ اپنے نیو کلیر پاور پلانٹ بند کر دئیے تھے۔ امریکہ کے ایک نئے صدر آۓ انہوں
نے کہا مجھے ایران کا ایٹمی سمجھوتہ پسند نہیں ہے اور میں اس سمجھوتہ کو نہیں
مانتا ہوں۔ اس سمجھوتہ پر دنیا نے اپنے دو قیمتی سال لگاۓ تھے۔ انہوں نے قلم
اٹھایا اور ایران پر انتہائی ظالمانہ اقتصادی بندشیں لگا دی ہیں۔ اور اب اس کا
انتظار ہے کے ریاست پہلے گرتی ہے یا Regime پہلے گرتا ہے۔ اور اگر دونوں میں سے کوئی نہیں گرتا ہے تو امریکی فوجیں
تیار کھڑی ہیں۔ عراق میں بھی امریکہ نے یہ ہی کیا تھا۔ 9سال عراق پر انسانی تاریخ
کی انتہائی بدترین اقتصادی بندشیں لگائی تھیں۔ اور پھر انتظار کیا تھا کہ عراقی
ریاست پہلے گرتی ہے یا صد ا م حسین حکومت گرتی ہے لیکن جب دونوں ہی نہیں گرے تو
امریکہ نے فوجی طاقت استعمال کی اور دونوں ہی گرا دئیے تھے۔ کس امریکی انتظامیہ نے
کب مڈل ایسٹ میں اچھے فیصلے کیے ہیں؟ صدر ٹرمپ جس قلم سے ایران کے خلاف اقتصادی
بندشوں کے احکامات جاری کر رہے ہیں۔ اسی قلم سے صدر ٹرمپ مڈل ایسٹ کو نیو کلیر ہتھیاروں سے صاف خطہ بھی
قرار دے سکتے ہیں۔ مڈل ایسٹ کے تمام رہنما اس کے حق میں ہیں اور اس کا ایک عرصہ سے
مطالبہ بھی کر رہے ہیں۔ لیکن امریکہ کا یہاں مفاد ہتھیاروں کی مارکیٹ ہے۔ یہاں
بادشاہوں کو دشمن بنا کر دینا اور جنگیں Arrange کرنا سب سے آسان کام ہے۔ صدر ٹرمپ نے جاپان میں کہا
ہے " وہ صرف یہ چاہتے ہیں کہ ایران نیو کلیر ہتھیار نہیں بناۓ۔" لیکن
دوسری طرف واشنگٹن میں صدر ٹرمپ نے سعودی عرب کو نیو کلیر پاور پلانٹ فروخت کرنے
کا اعلان کیا ہے۔ امریکہ کی یہ پالیسیاں دنیا کے لیے مسئلے پیدا کر رہی ہیں۔ شاہ
ایران کے دور میں قومی سلامتی امور کے مشیر ہنری کیسنگر تھے۔ جنہوں نے اپنی
انتظامیہ سے ایران کو 4 نیو کلیر پاور پلانٹ فروخت کرنے کی درخواست کی تھی۔ لیکن
شاہ ایران کے زوال کے بعد آیت اللہ خمینی نے نیو کلیر پاور پلانٹ بند کرنے کا حکم
دیا تھا۔ لیکن ریگن انتظامیہ نے سعودی عرب اور خلیج کے ملکوں کے ساتھ ایران کے
اسلامی انقلاب کو سبوتاژ کرنے کی سازش کی تھی اور صد ام حسین کو ایران سے جنگ کرنے
کے لیے استعمال کیا تھا۔ اس سے قبل امریکہ نے 1950s میں ایران میں ڈاکٹر مصدق کی منتخب جمہوری حکومت کا
تختہ الٹ کر شاہ کی آمریت بحال کی تھی۔ ایران کی انقلابی حکومت نے اپنے اطراف
دشمنوں اور سازشوں کا جال دیکھ کر نیو کلیر پاور پلانٹ کے دروازے کھولنے کا فیصلہ
کیا تھا۔ اور اب تیسری بار ایران میں حکومت کا تختہ الٹنے کی سازش کی جا رہی ہے۔
لیکن اس کے باوجود ایران کے سپریم رہنما آیت اللہ خمینائی نے نیو کلیر ہتھیار بنانے
اور رکھنے کے خلاف فتوی دیا ہے۔
بش انتظامیہ میں عراق میں Regime change کے Lead architect ڈپٹی سیکرٹیری ڈیفنس Paul Wolfowitz تھے۔ جنہوں نے انتظامیہ اور کانگرس
میں عراق کے خلاف ملٹری ایکشن کو بڑے Aggressively Push کیا تھا۔
عراق پر حملہ کرو مہم میں Paul Wolfowitz ڈرائیونگ سیٹ پر تھے۔ جبکہ انتظامیہ، کانگرس، مختلف لابیوں کے War mongers اور میڈیا ان کے پیچھے تھا۔ عوام
کی راۓ عامہ کی حمایت کے لیے 9/11 کو Ruthlessly exploit کیا گیا تھا۔ Paul Wolfowitz اپنے عراق مشن میں کامیاب ہو گیے
تھے۔ صدر بش نے عراق پر Preemptive حملہ کیا تھا۔
اور صد ام حسین کو اقتدار سے ہٹا دیا تھا۔ صدر بش اب عراق کے بھی صدر ہو گیے تھے۔ تاہم
امریکہ کا عراق پر حملہ اقوام متحدہ کی تمام قراردادوں کی خلاف ورزی تھی۔ اقوام
متحدہ کی سلامتی کونسل کی کسی قرارداد میں صد ام حسین کو اقتدار سے ہٹانے کا نہیں
کہا گیا تھا۔ امریکہ Rule of
Law اگر میں اپنے رول ماڈل ہونے کا ثبوت دیتا۔ تو شاید آج شمالی کوریا بھی اس
مثال کی پیروی کرتا۔
لیبیا میں قد ا فی حکومت کے خلاف
اقوام متحدہ کے کس قانون کے تحت کاروائی کی گئی تھی؟ صدر قد ا فی نے اپنے ملک کو
تمام مہلک ہتھیاروں سے خالی کر دیا تھا۔ قد ا فی حکومت کے خلاف اپوزیشن کا احتجاج
لیبیا کا داخلی مسئلہ تھا۔ جیسے فرانس میں تقریباً 4ماہ سے مظاہرے ہو رہے ہیں۔
پیرس میں زندگی مفلوج ہو گئی ہے۔ لیکن یہ فرانس کا داخلی مسئلہ ہے۔ اور اس میں کس
طرف سے بھی مداخلت نہیں کی جا رہی ہے۔ لیکن فرانس کے ایک شہری Bernard Henri Levy کا حکومت میں اتنا زیادہ اثر و رسوخ تھا کہ لیبیا میں قد ا فی حکومت کو ختم کرنے میں اس کا رول
تھا۔ Levy نے قد ا فی
حکومت کے مخالفین کی صدر Nicolas Sarkozy سے ملاقات کر آئی اور صدر Sarkozy سے اپوزیشن کی حمایت کرنے کا کہا
تھا۔ صدر Sarkozy نے قد ا فی کے
مخالف اپوزیشن کو مشورہ دیا کہ وہ ایک National Libyan Council بنائیں۔ فرانس
کونسل کو لیبیا کی نئی حکومت تسلیم کر لے گا۔ لیبیا کی اپوزیشن
کونسل نے فرانس کی اس مکمل حمایت پر لیبیا کے Total Crude Oil کا 35 فیصد فرانس کو دینے کا وعدہ
کیا تھا۔ Bernard Henri Levy نے صدر Sarkozy سے لیبیا میں قد ا فی حکومت کو
اقتدار سے ہٹانے کے لیے لابی کی تھی۔ [اس وقت Venezuela میں ٹرمپ انتظامیہ نے اسی پلان کے
تحت Maduro حکومت کو
اقتدار سے ہٹانے کے لیے اپوزیشن لیڈر کو Venezuela کا قانونی صدر قرار دیا ہے۔ اور یورپی ملکوں نے بھی اسے قبول کر لیا
ہے۔] صدر Sarkozy نے اس مشن میں برطانیہ
کے وزیر اعظم David Cameron کی
حمایت حاصل کر لی تھی۔ وزیر اعظم David Cameron نے صدر اوبامہ کو لیبیا میں Regime Change کرنے کے مشن کی قیادت کرنے کا کہا۔
صدر اوبامہ نے امریکہ کی قومی سلامتی کے مفاد میں ایک غیر قانونی مشن کو قانونی
ثابت کرنے کی دلیلیں دینا شروع کر دیں تھیں۔ چند ہی ہفتوں میں امریکہ کے B-52 ، برطانیہ اور
فرانس کے طیاروں سے بم برسنے لگے تھے۔ ان کی اس بمباری کا مقصد صدر قد ا فی کو
لیبیا میں Genocide سے روکنا تھا۔
دنیا کے لیے B-52 طیاروں کی
بمباری سے Genocide کو روکنے کی یہ
ایک نئی ایجاد تھی۔ حالانکہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی کسی قرار داد میں یہ
نہیں کہا گیا تھا کہ 3 ویٹو پاور لیبیا پر بمباری کر کے قد ا فی حکومت کا خاتمہ کر
دیں۔ اب 8سال سے لیبیا میں مغربی طاقتوں کے ہتھیاروں سے Genocide ہو رہا ہے۔ بے گناہ لوگ Wholesales سے مر رہے ہیں۔ صدر اوبامہ، صدر Sarkozy ، وزیر اعظم David Cameron اپنے گھروں کو چلے گیے ہیں۔ Bernard Henri Levy لیبیا کے حالات میں اپنا نیا فلسفہ
ایجاد کر رہے ہیں۔ John Bolton شمالی کوریا کے
میزائل تجربہ کو اقوام متحدہ کی قرار دادوں کی خلاف ورزی کہتے ہیں۔ لیکن عراق
لیبیا یمن شام فلسطین ایران اقوام متحدہ کی قرار دادوں، اقوام متحدہ کے قوانین،
اقوام متحدہ کے Nation States اصولوں کی
مسلسل خلاف ورزیوں کی مثالیں ہیں۔ John Bolton اب ایران میں Regime change مشن پر ہیں۔
No comments:
Post a Comment