Wednesday, May 1, 2019

Might Is Not Always Right


   Might Is Not Always Right
مجیب خان
President Bush has changed the regime in Iraq, President Obama has changed the regime in Libya and unsuccessful attempts of the regime change in Syria, now President Trump working hard to change the regime in Iran and Venezuela

[Sanctions have affected severely the health care system in Iran  [AP

America's sanctions war on Venezuela

Iranian people innocents victim of American sanctions

America's Sanctions making people more extremists




   بش اور اوبامہ انتظامیہ میں ہزاروں میل دور حکومتیں تبدیل کرنے کے لئے بھر پور فوجی طاقت  Preemptive حملوں کے لئے استعمال کی تھی۔ امریکہ کے لیے حکومتیں تبدیل کرنا تمام مسائل کا سب سے آسان حل تھا۔ لیکن یہ تجربہ خاصا مہنگا ثابت ہوا تھا۔ سرد جنگ ختم ہونے کے بعد امریکہ جنگوں کا Addicted ہو گیا ہے۔ دنیا کے لیے امریکہ کو جنگوں سے آزاد  کرنا ایک بڑا مسئلہ بن گیا ہے۔ حکومتیں تبدیل کرنے کی جنگ شروع کرنا بہت آسان ہوتا ہے۔ لیکن حکومتیں تبدیل ہونے کے بعد حالات جنگ دہشت گردی اور انتہا پسندی کو فروغ دیتے ہیں۔ صدر بش کے سیکرٹیری آف ڈیفنس ڈونالڈ رمز فیلڈ نے کہا تھا "ہم عراق میں سرجری کرنے جائیں گے اور سرجری کر کے واپس آ جائیں گے۔ بغداد میں لوگ ہمارا پھولوں سے استقبال کریں گے۔" لیکن لوگوں نے بغداد میں Roadside bombs سے استقبال کیا تھا۔ ہزاروں فوجی عراق میں مہلک ہتھیاروں سے نہیں، صرف Roadside bombs سے مارے گیے تھے۔ عراق پر امریکہ کے حملہ کو 16 سال ہو گیے ہیں۔ لیکن پریذیڈنٹ امریکہ اور دوسرے اعلی حکام  ابھی تک بغداد میں خفیہ طور سے جاتے ہیں۔ 16 سال سے عرب دنیا خطرناک حالات کا سامنا کر رہی ہے۔  امن کسی کا مستقبل نہیں ہے۔ ہر طرف غیریقینی حالات ہیں۔ اور استحکام Fragile ہے۔ امریکہ نے اپنے ساتھ عرب ملکوں کو بھی جنگوں کا Addicted کر دیا ہے۔ ایران نے اپنی 5ہزار سال کی تاریخ میں اتنی جنگیں نہیں لڑی ہوں گی کہ جتنی امریکہ نے اپنی 240 سال کی تاریخ میں جنگیں لڑی ہیں۔ صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے انتخابی مہم میں بش اور اوبامہ انتظامیہ کی حکومتیں تبدیل کرنے کے فیصلوں پر سخت تنقید کی تھی کہ حکومتیں تبدیل کرنے سے عراق اور لیبیا عدم استحکام ہوۓ ہیں۔ اور ISIS اور دوسرے دہشت گرد گروپوں کا فروغ ہوا ہے۔ نظریاتی Hawks اور Might is Right کو Democracy بتانے والوں نے بش انتظامیہ سے عالمی اسٹیج پر اسلامی دہشت گردی کو 50 سال کی جنگ بنانے اور عراق میں حکومت تبدیل کرنے کا کام لیا تھا۔ صدر اوبامہ سے لیبیا اور شام میں حکومتیں تبدیل کرنے اور دہشت گردی کا فروغ جاری رکھنے کا کام لیا تھا۔ اوبامہ انتظامیہ میں 16 انٹیلی جینس ایجنسیوں کو یہ معلوم نہیں تھا کہ ISIS کو کس نے بنایا تھا۔ کس ملک کی سر زمین پر ISIS کو منظم کیا گیا تھا۔ اور کتنے ملکوں نے ISIS کو Military Armored  اور Weapons کے لیے فنڈ ز فراہم کیے تھے۔ لیکن دنیا میں جہاں بھی دہشت گردی کا واقعہ ہوتا تھا امریکی میڈیا کو یہ پتہ چل جاتا تھا کہ یہ ISIS نے کرایا تھا۔ دنیا نے یہ ڈرامہ دیکھنے کے لیے سرد جنگ ختم نہیں کی تھی۔ اور اب یہ نظریاتی Hawks صدر ٹرمپ انتظامیہ میں گھس گیے ہیں۔ اور صدر ٹرمپ سے اپنے ایجنڈہ کے Part-3 پر عملدرامد کا کام لے رہے ہیں۔ ایران میں حکومت تبدیل کی جاۓ۔ اگر وہ یہ کہتے ہیں کہ ایران میں حکومت تبدیل کرنے کا ہمارا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔ تو جھوٹ بولتے ہیں۔ جیسے انہوں نے عراق کے بارے میں جھوٹ بولے تھے۔
  صدر ٹرمپ ایران میں حکومت تبدیل کرنے کے لیے فوج کو استعمال کرنے سے گریز کر رہے ہیں۔ ایران پر امریکہ کا Preemptive حملہ عراق، لیبیا اور شام کے حالات سے زیادہ خوفناک ثابت ہو گا۔ اور جس طرح کیلیفورنیا میں آگ کے شعلہ پھیلتے ہیں یہاں صورت حال اسی طرح قابو سے باہر ہو جاۓ گی۔ ونزویلا میں ٹرمپ انتظامیہ اپنی بھر پور اکنامک پاور سے حکومت کو گرانے کے لیے تمام ہتکھنڈے استعمال کر رہی ہے۔ ہوا اور پانی کے علاوہ زندگی کی تمام ضروریات پر اقتصادی بندشیں لگا دی ہیں۔ امریکہ کی اقتصادی بندشیں لوگوں کو غریب کر رہی ہیں۔ اور انتظامیہ اس کا الزام ونزویلا حکومت کو دے رہی ہے۔ صدر ٹرمپ نے اپنے حلف داری کی تقریب سے خطاب میں دنیا کے ملکوں کو یہ پیغام دیا کہ 'امریکہ اب ان کے داخلی معاملات میں مداخلت نہیں کرے گا۔' لیکن صدر ٹرمپ نے سب سے پہلے ونزویلا میں اپوزیشن لیڈر  Juan Guaidoکو ونزویلا کا Legitimate صدر تسلیم کر لیا تھا۔ اور اب یہ کہا جا رہا ہے کہ Hemispheres کے 56 ملکوں نے اپوزیشن لیڈر  کو ونزویلا کا Legitimate صدر تسلیم کیا ہے۔ لیکن مسٹر پریذیڈنٹ دنیا کے 190 ملک عربوں کے علاقوں پر اسرائیل کے فوجی قبضہ کوIllegitimate  تسلیم کرتے ہیں۔ لیکن صدر ٹرمپ دنیا کے واحد لیڈر ہیں جنہوں نے عربوں کے علاقوں پر اسرائیل کے قبضہ کو قانونی قرار دے دیا ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ ایران کے ایٹمی پروگرام پر عالمی سمجھوتہ کی سلامتی کونسل کے 15 اراکین نے توثیق کی ہے اور دنیا نے اس سمجھوتہ کو ایک قانونی دستاویز تسلیم کیا تھا۔ امریکہ نے بھی اس دستاویز پر دستخط کیے تھے۔ لیکن اسرائیلی وزیر اعظم اور امریکہ کے صدر نے اس سمجھوتہ کو ماننے سے انکار کر دیا تھا۔ اور اب صدر ٹرمپ ان کے سیکرٹیری آف اسٹیٹ اور قومی سلامتی امور ک مشیر دنیا سے  ونزویلا میں اپوزیشن لیڈر کو اس ملک کا قانونی صدر تسلیم کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ حالانکہ اقوام متحدہ کا ایک Law of Sovereignty ہے۔ سرد جنگ ختم ہونے کے بعد خصوصیت یہ سے دیکھا جا رہا ہے کہ امریکہ مسلسل عالمی قوانین کی خلاف ورزیاں کر رہا ہے۔ امریکہ کے یورپی اتحادیوں نے اس سے منہ موڑ لیا ہے۔ لیکن پھر روس اور چین جب ایسی خلاف ورزی کریں گے۔ تو ان کے خلاف Rule of Law کا ہتھیار نکل آۓ گا۔ یہ سرد جنگ تھی جس نے امریکہ کو World Order میں رکھا تھا۔ سرد جنگ ختم ہونے سے امریکہ اس World Oder سے آزاد ہو گیا ہے۔ اور دنیا کو اپنے Orders کا پابند بنایا جا رہا ہے۔ اور اس مقصد میں اقتصادی بندشوں کو نیوکلیر ہتھیار کی طرح استعمال کیا جا رہا ہے۔
  امریکہ داخلی معاملات میں جمہوری ہے لیکن عالمی امور میں امریکہ ڈکٹیٹر ہے۔ اپنی فوجی اور اکنامک پاور کو انتہائی Ruthlessly استعمال کر رہا ہے۔ دنیا کے 190 ملکوں پر امریکہ اپنے فیصلے مسلط کر رہا ہے۔ انہیں دھونس دھمکیاں اور بلیک میل کیا جا رہا ہے۔ دنیا کے 185 ملکوں کے ایران میں اپنے مفادات ہیں۔ اس کے ساتھ ان کے سفارتی تعلقات ہیں۔ ان ملکوں سے یہ کہا جا رہا ہے کہ وہ ایران سے کاروبار کریں یا امریکہ سے تجارت کریں۔ تیسری دنیا میں ڈکٹیٹر سیاسی لیڈروں سے ایسی باتیں کرتے ہیں کہ یا تو وہ سیاست کریں اور جیل جانے کے لیے تیار ہو جائیں۔ یا ڈکٹیٹر سے تعاون کریں اور خوشحال رہیں۔
   ایران کے خلاف ٹرمپ انتظامیہ کی چھریاں تیز ہو گئی ہیں۔ 2مئی سے امریکہ کی ایران کے تیل پر مکمل پابندی عمل میں آ جاۓ گی۔ صدر ٹرمپ نے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کو تیل کی پیداوار میں فوری اضافہ کرنے کا حکم دیا ہے۔ تاکہ عالمی مارکیٹ میں تیل کی کمی سے قیمت کو بڑھنے سے روکا جاۓ۔ ادھر 28 اپریل سے ونزویلا کے تیل پر بھی مکمل پابندی شروع ہو گئی ہے۔ اور 30 اپریل کو ونزویلا میں Maduro حکومت کا تختہ الٹنے کی Fake News دنیا کو دی گئی ہیں۔ تاکہ عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں میں استحکام رہے۔ روس نے کہا ہے ایران کے خلاف یہ امریکہ کی اقتصادی بندشیں ہیں۔ صدر پو تن نے کہا انہیں امید ہے ایران واشنگٹن کی انہیں تیل برآمد کرنے سے روکنے کی کوششوں کے  باوجود تیل کی برآمدات جاری ر کھے گا۔ چین نے امریکہ کا فیصلہ قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ اور ایران سے تیل کی درآمد  جاری رکھنے کا کہا ہے۔ ترکی نے کہا ہے کہ وہ ایران سے تیل خریدتا رہے گا۔ بھارت میں مودی حکومت نے صدر ٹرمپ سے ایران سے تیل خریدنے کو جاری رکھنے کی اجازت مانگی ہے۔ یورپی یونین نے یورپ کی کمپنیوں سے کہا ہے کہ وہ ایران کے ساتھ اپنا کاروبار جاری رکھیں انہیں امریکہ کی بندشوں سے مکمل تحفظ فراہم کیا جاۓ گا۔ ایران نے کہا ہے کہ ایران کے تیل فروخت کرنے پر مکمل پابندی کی صورت میں ایران NPT معاہدہ سے علیحدہ ہو جاۓ گا۔ اور آ بناۓ حرموز کی ناکہ بندی کر دے گا۔ اگر آ بناۓ حرموز سے ایران کا تیل نہیں جا سکتا ہے تو کسی بھی ملک کو اسے استعمال نہیں کرنے دیا جاۓ گا۔
  1973 میں سعودی عرب نے امریکہ کے خلاف تیل کا ہتھیار استعمال کیا تھا۔ اور امریکہ کو تیل فراہم کرنے کا بائیکاٹ کیا تھا۔ سعودی عرب نے یہ فیصلہ 1973 کی عرب اسرائیل جنگ کے نتیجہ میں کیا تھا۔ اور اب اسرائیل کی ایران سے کشیدگی کے نتیجہ میں امریکہ نے ایران پر تیل برآمد کرنے پر مکمل پابندی لگائی ہے۔ امریکہ نے 45 سال میں اسرائیل کا تنازع حل نہیں   کیا ہے۔ اور اس تنازعہ کی وجہ سے لوگوں کی زندگیاں Miserable بنی ہوئی ہیں۔ صدر ٹرمپ نے صرف اسرائیل کے لیے اس سمجھوتہ کو مستر د کیا ہے اور اب دنیا کا وقت برباد  کر رہے ہیں۔ صدر بش عراق میں اور صدر اوبامہ لیبیا اور شام کو برباد کر کے گیے ہیں۔ انہوں نے 16 سال دنیا کا وقت برباد کیا تھا۔ اور کچھ حاصل نہیں ہوا ہے۔ صرف ایک نسل کا مستقبل تاریک کیا ہے۔ انسانیت کو گہرے زخم دئیے ہیں۔ صرف ایک فیصد کا مستقبل روشن ہے اور یہ خوشحال ہے۔ آخر دنیا کب تک اسے برداشت کرے گی؟                                                                                                                                          

No comments:

Post a Comment