Who Is Destabilizing The Middle East?
مجیب خان
دو اسلامی ملکوں کے ساتھ یہ کیسا
مذاق ہے کہ عراق میں صد ام حسین کے بارے میں دنیا کو یہ بتایا جاتا تھا کہ وہ
ایٹمی ہتھیاروں کا خاتمہ کرنے کے عالمی سمجھوتہ پر عملدرامد نہیں کر رہے تھے۔ اور اس
لیے عراق پر بمباری کی جاتی تھی۔ اور عراق سے ایٹمی ہتھیاروں کا خاتمہ کرنے پر
عملدرامد کرایا جاتا تھا۔ لیکن اب ایران اپنے ایٹمی ہتھیاروں پر ہونے والے سمجھوتہ
پر مکمل عملدرامد کر رہا ہے۔ IAEA کے انسپکٹر ز دو
سال سے معاہدہ پر عملدرامد ہونے کی رپورٹیں سلامتی کونسل کو دے رہے ہیں۔ اور ان
رپورٹوں میں معاہدے کی خلاف ورزی کی کوئی رپورٹ نہیں ہے۔ یہ سمجھوتہ ایران نے
عالمی برادری پر مسلط نہیں کیا ہے۔ بلکہ عالمی طاقتوں جن میں امریکہ بھی شریک تھا۔
دو سال کے مذاکرات کے بعد عمل میں آیا تھا۔ اور پھر مذاکرات میں شریک ملکوں نے
سمجھوتہ پر دستخط کیے تھے۔ یورپی یونین کی خارجہ امور کی انچارج نے بھی معاہدہ پر
دستخط کیے تھے۔ سلامتی کونسل کے 15 اراکین نے سمجھوتہ کو منظور کیا تھا۔ اور اسے
ایک قانونی دستاویز بنایا تھا۔ ڈونالڈ ٹرمپ جو اس وقت صدارتی امیدوار تھے اور
بینجمن نتھن یا ہو اسرائیل کے وزیر اعظم تھے۔ دونوں نے اس سمجھوتہ کی مخالفت کی
تھی۔ ٹرمپ نے کہا تھا وہ اقتدار میں آنے کے بعد اس معاہدہ سے امریکہ کو نکالیں گے۔ اور ایران کے
ساتھ ایک نئے معاہدہ کے لیے مذاکرات پر زور دیں گے۔ ٹرمپ کے اس اعلان کا وزیر اعظم
نتھن نے خیر مقدم کیا تھا۔ اس کے بعد امریکہ کے انتخابات میں روسیوں کی Meddling ہوتی ہے۔ تاہم Robert Mueller یہ تعین نہیں کر سکے ہیں کہ یہ
روسی اسرائیل کے شہری تھے اور امریکہ میں بھی رہتے تھے یا صدر پو تن کے روس کے
شہری تھے۔ یہ فیصلہ انہوں نے کانگرس پر چھوڑ دیا ہے۔ بہرحال ایران کے ساتھ ایٹمی سمجھوتہ
کو برقرار رکھنے کا فیصلہ یورپ چین روس اور تمام اسلامی ملکوں سواۓ سعودی عرب اور
متحدہ عرب امارات کے ان ملکوں نے کر لیا ہے۔ دنیا کی عراق میں امریکہ کے Regime Change عزائم کی حمایت ایک بہت بڑا Blunder تھا۔ سیکرٹیری آف اسٹیٹ Mike Pompeo ٹرمپ انتظامیہ کی ایران میں Regime Change کی پالیسی کی حمایت کے لیے دنیا
کے کونے کونے میں بھاگتے پھر رہے ہیں۔ صدر روحانی نے یورپی
ملکوں کو 60روز دئیے ہیں کہ وہ ایران کے ساتھ اپنے Commitments پورے کریں ورنہ ایران بھی اس سمجھوتہ سے نکل جاۓ
گا۔
صدر
ٹرمپ نے 2015 میں جب ایران کے ایٹمی سمجھوتہ پر سخت تنقید کی تھی۔ اور یہ عہد کیا
تھا کہ اقتدار میں آنے کے بعد وہ سب سے پہلے ایران کے ایٹمی سمجھوتے کو Null and void کریں گے۔ اس وقت صدر ٹرمپ کے ذہن
میں مقصد انتخاب جیتنا تھا۔ لیکن انتخاب جیتنے کے بعد صدر ٹرمپ کو اسرائیل، سعودی
عرب اور متحدہ عرب امارات نے دبوچ لیا تھا اور صدر ٹرمپ سے ایران کے خلاف کچھ کرنے
پر زور دیا تھا۔ کھربوں ڈالر انہوں نے واشنگٹن میں لابیوں کو دئیے تھے۔ صدر ٹرمپ
نے انتخابی مہم میں لابیوں کے بارے میں کہا تھا کہ واشنگٹن ان لابیوں کی وجہ سے کر
پٹ ہو گیا ہے اور وہ اپنی انتظامیہ میں لابیوں کو قریب نہیں آنے دیں گے۔ لیکن Russian Meddling Investigation Sword جو ان کے سر پر
لٹک رہی تھی اس کے دباؤ سے صدر ٹرمپ نے قومی سلامتی امور John Bolton کو دے دیا تھا۔ جان بولٹن National Security سے زیادہ International Insecurity Expert تھے۔ اور وہ
اپنے ساتھ جو ٹیم لاۓ تھے۔ ان کا مشن ایران میں Regime Change تھا۔ اور یہ ایران کے خلاف حالات
کو عراق کے راستہ پر لے جا رہے ہیں۔ اگر John Bolton اور Mike
Pompeo یہ کہتے ہیں کہ ایران میں Regime Change ہمارا مقصد نہیں ہے تو اس کا مطلب ہے کہ یہ ان کا بنیادی مقصد ہے۔
تاہم 2019 میں2003 کے حالات نہیں ہیں۔ 2001 سے قومی سلامتی Cabal نے جتنی جنگیں Forged کی ہیں۔ وہ سب جنگیں امریکہ نے ہاری ہیں۔ اور امریکہ ابھی تک ان
جنگوں میں پھنسا ہوا ہے۔ کھربوں ڈالر ان جنگوں میں پھونک دئیے ہیں۔ جنگوں کا نقصان
پورا کرنے کے لیے صدر ٹرمپ کو چین سے ٹریڈ وار کرنا پڑی ہے۔ اور Tariffs سے لاکھوں ڈالر امریکہ کے خزانہ میں
آ رہے ہیں۔John Bolton کی نظر ان
کھربوں ڈالروں پر ہے جنہیں وہ قومی سلامتی کے مفاد میں ایران کے خلاف جنگ میں
استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ ویسے بھی امریکہ کی معیشت بہت مضبوط ہے۔ یہ ایک اور نئی جنگ کا بوجھ اٹھا سکتی ہے۔ تاہم
مسئلہ یہ ہے کہ عراق، افغانستان، لیبیا اور شام کی جنگوں میں امریکہ کے جو اتحادی تھے
وہ سب ایران کے خلاف جنگ کی مخالفت کر رہے ہیں۔ اور امریکہ کے اتحادی بننے کے لیے
تیار نہیں ہیں۔ یہ اتحادی ایران کے ایٹمی سمجھوتہ پر عملدرامد سے بالکل مطمئن ہیں۔
اور اس سمجھوتہ میں انہیں کوئی Defects نظر نہیں آ رہے ہیں۔ سیکرٹیری آف اسٹیٹ Mike Pompeo ایران کے خلاف امریکہ کا کیس لے
کر یورپ کے جس ملک میں بھی جا رہے ہیں ہر یورپی ملک ان کے سامنے اپنا مفاد رکھ
دیتا ہے۔ صدر ٹرمپ اس کنفیوژن میں ہیں کہ اب کیا کریں۔ امریکہ دنیا میں ایران کے
مسئلہ پر تنہا نظر آ رہا ہے۔ اس تنہائی میں صدر ٹرمپ نے ایرانی رہنماؤں سے کہا کہ
وہ انہیں فون کریں۔ لیکن ایرانی رہنماؤں نے انہیں فون کرنے سے انکار کر دیا ہے۔
ٹرمپ
انتظامیہ کے لیے یہ صورت حال ایک ایسا ہی Debacle ہو گئی ہے کہ جیسے 1970s میں صدر کارٹر
نے ایران میں یرغمالی امریکی سفارت کاروں کی
رہائی کے لیے فوجی آپریشن کیا تھا۔ اور ہپاچی
ہیلی کاپٹر ایران کے قریب ریگستان میں دھنس گیا تھا۔ صدر کارٹر انتخاب ہار گیے
تھے۔ جان کیری نے کہا ہے کہ "ایرانی فون نہیں کریں گے۔" ان کا مطلب شاید
یہ تھا کہ ایرانی 2020 کے صدارتی انتخاب کے بعد فون کریں گے۔ ٹرمپ انتظامیہ کے لیے
ایران کا مسئلہ ایک Stalemate بن گیا ہے۔ قومی سلامتی امور کے
مشیر John Bolton اور سیکرٹیری
آف اسٹیٹ Mike Pompeo کی سمجھ میں
نہیں آ رہا ہے کہ ایران کو ایک دوسرا عراق کس طرح بنایا جاۓ۔ کبھی یہ کہتے ہیں کہ
ایران مڈل ایسٹ کو Destabilize کر رہا ہے۔
کبھی کہتے ہیں ایران حزب اللہ کی پشت پنا ہی کر رہا ہے۔ کبھی کہتے ہیں ایران
ہوتیوں کی مدد کر رہا ہے۔ کبھی کہتے ایران شام میں مداخلت کر رہا ہے۔ کبھی کہتے
ہیں ایران عراق میں مداخلت کر رہا ہے۔ صدر ٹرمپ نے ایرانی انقلابی گارڈ ز کو شاید
اس لیے دہشت گرد قرار دیا ہے کہ اس نے عراق اور شام میں ISIS سے ان کے علاقہ آزاد کرانے میں کیوں مدد کی تھی۔ یہ ایران نہیں
تھا جس نے عراق پر حملہ کر کے اس ملک کو Destabilize کیا تھا۔ عراق میں انارکی پھیلائی تھی۔ عراق کی
پہلی جنگ کے بعد صدر جارج ایچ بش نے عراق میں صرف سنی علاقوں پر No fly zone کی پابندی لگائی تھی۔ اور شیعہ
علاقوں کو اس سے مستثنی رکھا تھا۔ لیکن ایران نے اس سے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا
تھا۔ ایران عراق میں شیعاؤں کو حکومت میں نہیں لایا تھا۔ یہ صدر بش تھے جنہوں نے
شیعہ سنی فرقہ کی بنیاد پر عراق کو جمہوریت دی تھی۔ اور سنیوں کو جمہوریت سے محروم
رکھا تھا۔ شام کو صدر اوبامہ نے Destabilize سعود یوں اور اسرائیل کے ساتھ مل کر کیا تھا۔ اوبامہ انتظامیہ کے
واچ میں شام کو کھنڈرات بنایا گیا تھا۔ 6
سال تک صدر اوبامہ نے شام میں Regime Change انتہا پسند عناصر کی سرپرستی کی تھی۔ صدر اوبامہ ہزاروں شامی
خاندانوں کو بے گھر کر کے چلے گیے۔ اب اگر ایران روس اور ترکی کے ساتھ مل کر شام
میں امن اور استحکام میں مدد کر رہا ہے تو امریکہ کو اس پر اس لیے اعتراض ہے کہ یہ اسرائیل کو پسند نہیں ہے۔
اسرائیل نے شام کو عدم استحکام کرنے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا۔ گو لان کے قریب
اسلامی انتہا پسندوں کو ہتھیار فروخت کیے تھے۔ شام کی خانہ جنگی سے اسرائیل نے
لاکھوں ڈالر بناۓ تھے۔ لیکن شام میں خانہ جنگی کے Consequences اسرائیل کو پسند نہیں ہیں۔
اسرائیل نے اسے روکا کیوں نہیں تھا؟ اسرائیل نے شام میں بمباری کر کے ایران کے بہت
سے فوجی ہلاک کیے تھے۔ لیکن ایران نے اس کا جواب نہیں دیا تھا۔ ایران نے صرف شام میں
امن اور استحکام کے لیے اسے برداشت کیا تھا۔ اور اسرائیل سے اپنے فوجیوں کی
ہلاکتوں کا انتقام نہیں لیا تھا۔
سیکرٹیری آف اسٹیٹ Mike Pompeo نے پچھلے ماہ عرب ملکوں کا دورہ
کیا تھا۔ اور وہ حزب اللہ کے خلاف اپنا کیس لے کر بیر و ت حکومت سے بات کرنے گیے
تھے۔ انہیں شاید یہ نہیں معلوم تھا کہ حزب اللہ ایران کے نہیں، لبنان کے شہری تھے۔
لبنان کی حکومت کے صدر اور وزیر اعظم نے انہیں بتایا کہ حزب اللہ لبنان کے شہری
ہیں۔ عوام انہیں منتخب کرتے ہیں۔ حزب اللہ کے کابینہ میں وزیر ہیں۔ اور اس کا
لبنان کے استحکام اور امن میں ایک اہم رول ہے۔ سیکرٹیری آف اسٹیٹ لبنان کی حکومت
کی یہ وضاحت سن کر خاموشی سے واپس آ گیے۔ لیکن دنیا کی سمجھ میں ابھی تک یہ نہیں
آتا ہے کہ امریکہ کا ہر سیکرٹیری آف اسٹیٹ عربوں سے اسرائیل کے تحفظات پر بات کرتا
ہے لیکن اسرائیل سے اسے یہ کہنے کی جرات نہیں ہوتی ہے کہ اب بہت ہو گیا ہے اور
اسرائیل کو اب خطہ کے حقائق تسلیم کرنا چاہیے اور ان حقائق کے ساتھ رہنا سیکھنا
چاہیے۔ لیکن امریکہ کی ہر انتظامیہ کی مڈل ایسٹ پالیسی میں معقولیت کا فقدان ہوتا
ہے۔ اور اپنی نامعقولیت سے وہ عربوں کو قائل کرتے ہیں۔ عرب حکمران اسے بڑے غور سے
سنتے ہیں۔ اور انہیں اس میں اپنا مفاد نظر آتا ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ ٹرمپ
انتظامیہ لبنان کی حکومت کو کھربوں ڈالر کا اسلحہ دے رہی ہے۔ اور سیکرٹیری آف
اسٹیٹ کو حزب اللہ کی حمایت کرنے پر ایران کو دہشت گردوں کی فہرست میں رکھنے کا
کہا ہے۔
دنیا
میں جو معقول ذہن ہیں ان سے یہ سوال ہے کہ ایران کے لیے مڈل ایسٹ کو Destabilize کرنے میں کیا Opportunities ہو سکتی ہیں؟ صرف برطانیہ نے یمن
سے جنگ سعودی حکومت کو 60بلین پوںڈ کا اسلحہ فروخت کیا ہے جبکہ امریکہ اور فرانس بھی
سعودی عرب کو کھربوں ڈالر کا اسلحہ فروخت کر رہے ہیں۔ ایران کا عربوں کو یہ معقول مشورہ
ہے کہ اسلحہ پر کھربوں ڈالر برباد مت کریں یہ کھربوں ڈالر اس خطہ کی تعمیر اور
ترقی اور عوام کے حالات بہتر بنانے میں استعمال کریں آئیں ہمارے ساتھ مل کر انسانیت
کے لیے کچھ اچھے کام کریں۔ ایران کی ان باتوں کو ہر انتظامیہ میں ایران کی دہشت
گردوں کی حمایت کرنا دیکھا جاتا ہے۔ کسی ملک کو اپنے ہمسایہ میں رونما ہونے والے
سیاسی واقعات پر بولنے اور حصہ لینے سے نہیں روکا جا سکتا ہے۔ سیاسی ایشو ز سیاسی
طریقوں سے حل ہوتے ہیں۔ ایران کے ایٹمی پروگرام کو علاقہ کے سیاسی حالات سے نہیں جوڑا
جا سکتا ہے۔ امریکہ نے یہ عراق میں صد ام حسین حکومت کے ساتھ بھی کیا تھا۔ عراق سے
صرف مہلک ہتھیاروں کو ختم کرنے کا کہا گیا تھا۔ لیکن عراق کے خلاف سیاسی اختلافات پر
غیر قانونی حملہ کر کے حکومت تبدیل کی گئی تھی۔ اور اب ایران کے خلاف بھی اس پالیسی کو استعمال کیا جا
رہا ہے۔
صدر ٹرمپ اب چین کے ساتھ ایک Fair Trade Deal کے لیے گزشتہ سال سے مذاکرات کر
رہے ہیں۔ صدر ٹرمپ کا کہنا ہے کہ چین کے ساتھ Fair Trade نہ ہونے کی وجہ سے امریکہ کو
کھربوں ڈالروں کا Trade
Deficit کا سامنا ہو رہا ہے۔ Trade Deal کے لیے صرف Trade Issues پر مذاکرات ہو رہے ہیں۔ صدر ٹرمپ
ان کے قومی سلامتی امور کے مشیر اور سیکرٹیری آف اسٹیٹ نے ان مذاکرات میں سیاسی
ایشو ز کو شامل نہیں کیا ہے۔ چین کی خطہ میں سرگرمیوں اور روس کے ساتھ اس کے عالمی
رول کو Trade deal مذاکرات کا حصہ
نہیں بنایا ہے۔ اسی طرح ایران کا ایٹمی ہتھیاروں پر سمجھوتہ بھی ہوا تھا۔ علاقائی
سیاست علاقائی ہے۔ اور ایران پر علاقائی سیاست میں حصہ لینے پر امریکہ کی بندشیں
ایسی ہیں جیسے سعودی عرب میں یا مصر میں سیاست میں حصہ لینے پر بندشیں ہیں۔
No comments:
Post a Comment