Yesterday, Saddam Hussein Was A Danger, Today The
Iranian Regime Is A “Threat”, Will Turkey’s Erdogan Also Be A Threat Tomorrow?
Saudi Arabia, since The 1980s, from King Khalid to King Fahd to King Abdullah to King Salman we’re supporters
of America’s radical foreign policy; and financiers of all-American wars. Saudi
Arabia also supports and finances the radical, extremist Islamic organizations
in the Islamic World.
مجیب خان
Hiroshima-Nagasaki |
Hiroshima-Nagasaki |
Saudi-led airstrike wreak destruction in Sana |
Saudi-led coalition pounding of Shiite rebel forces, Sana |
Human destruction in Syria |
Syria, just like Hiroshima-Nagasaki |
سعودی کابینہ کے اجلاس کے بعد ایک
بیان میں کہا گیا ہے کہ "Kingdom کا اس میں یقین ہے کہ خطہ کے تمام لوگوں کو امن سے رہنے کا حق ہے
اور ایرانی بھی اس میں شامل ہیں، عالمی برادری تہر ان میں ایرانی حکومت کو انتشار اور تباہی پھیلانے سے روکنے کے لیے اس کے
خلاف سخت اقدام کرے۔ کابینہ نے علاقائی اور عالمی امور میں ہونے والی تبدیلیوں پر
رپورٹوں کا جائزہ لینے کے بعد سعودی شاہ نے 30 مئی کو GCC اور عرب رہنماؤں کی مکہ میں کانفرنس کا اعلان کیا ہے۔ شاہ کے اس
فیصلے سے اس کی عکاسی ہوتی ہے کہ Kingdom دوسرے ملکوں کے ساتھ
علاقہ کی سلامتی اور استحکام کے لیے کام کرنے میں خصوصی دلچسپی رکھتی ہے۔ سعودی
کابینہ نے عالمی برادری سے تہر ان میں حکومت کے خلاف سخت اقدام کرنے اور اپنی ذمہ
دار یوں کو پورا کرنے پر زور دیا ہے۔ ایران کو دنیا بھر میں دخل اندازی کرنے اور
اسے انتشار پھیلانے کی سرگرمیوں سے باز رکھا جاۓ۔' رمضان کے انتہائی مقدس اور اللہ
کی رحمتوں کے ماہ مقدس میں سعودی کابینہ نے عالمی برادری سے تہران میں حکومت کے
خلاف اپنے غضبناک اقدام نازل کرنے کا کہا ہے۔ تاہم ایران میں ایک اسلامی حکومت ہے۔
اور اس حکومت میں بھی بڑی پابندی سے روزے ر کھے جاتے ہیں۔ رمضان عبادتوں کا مہینہ
ہے۔ عالم اسلام پر اس برے وقت میں ایرانی خصوصی طور پر عالم اسلام کی سلامتی، امن،
استحکام، اور فلاح و بہبود کے لیے دعائیں مانگتے ہوں گے۔ بلاشبہ تہران میں یہ عالمی
کائنات کے مالک اللہ سے کہا جاتا ہو گا کہ ' اے اللہ انسانیت کی بقا اور سلامتی
میں تو اپنی ذمہ دار یاں پوری کر اور جن عرب رہنماؤں کی عقلوں پر دنیا کے آ قا ؤ ں
نے پردے ڈال دئیے ہیں۔ اور انہیں اپنے ہر طرف تیرے کلمہ گو دشمن نظر آ رہے ہیں۔ اے
اللہ ان کی عقلوں سے پردے ہٹا دے۔ بھٹکے حکمرانوں کو امن کا راستہ دیکھا۔ اور یہ GCC کے حکمران ہیں۔ جو Kingdom کی قیادت میں بھٹک گیے ہیں۔ ماہ
رمضان میں عالمی برادری سے کہتے ہیں کہ ایران دنیا بھر میں دخل اندازی کر رہا ہے۔
تباہیاں پھیلا رہا ہے۔ اور دنیا کے آ قا ؤ ں سے کہتے ہیں کہ اسے روکا جاۓ۔ یہ مکہ
اور مدینہ میں بیٹھے ہیں اور اللہ کا کلمہ پڑھ کر یہ خود بھی اسے روک سکتے ہیں۔
لیکن عالمی برادری کو یہ بتاتے ہیں کہ یہ امریکہ نہیں ایران ہے جو 9/11 کے بعد سے اسلامی ملکوں میں
مداخلت کر رہا ہے۔ حکومتیں تبدیل کر رہا ہے۔ اور مڈل ایسٹ کو اس نے عدم استحکام کر
دیا ہے۔ ہر اسلامی ملک انتشار کے حالات میں گھرا ہوا ہے۔ معیشتیں ان کی تباہ حال
ہیں۔ 4 اسلامی ملک بالکل تباہ ہو چکے ہیں۔ اور ایران کو تباہ کرنے کے لیے چھریاں
تیز ہو رہی ہیں۔ امریکہ کے مفادات خطرے میں ہیں۔ جیسے 300 ملین عرب لوگوں کی
زندگیوں کو کوئی خطرہ نہیں ہے؟
لیکن یہ ایران تھا جس نے عراق میں
ایک سنی حکومت کے خلاف بش انتظامیہ کے فوجی حملہ کی مخالفت کی تھی۔ جبکہ GCC کے سنی ملکوں نے عراق پر امریکی
فوجی حملہ کو Facilitate کیا تھا۔ یہ
ایران تھا جس نے لبنان کے علاقوں کو اسرائیلی فوجی قبضہ سے آزاد کرانے میں حزب
اللہ کی مدد کی تھی۔ ورنہ صدر ٹرمپ آج جنوبی لبنان پر اسرائیل کے قبضہ کو اس کی
سلامتی کے مفاد میں اس کا Sovereign حصہ قرار دے
دیتے۔ لبنانی آج ایران کے شکر گزار ہوں گے۔ جیسے اسرائیلی آج امریکہ کے ممنون ہیں
کہ عربوں کے علاقوں پر اس کا قبضہ اب اسرائیل کی نئی سرحدیں بن گئی ہیں۔ فلسطینیوں
کو بے گھر کر کے اس کی جگہ نئی یہودی بستیاں بھی عظیم تر اسرائیل کا حصہ بن گئی ہیں۔
بہرحال لبنان میں آج امن اور استحکام کے فروغ میں ایران کا ایک اہم رول ہے۔ شیعہ
سنی اور عیسائی حکومت میں ہیں۔ جمہوری آئینی اور قانونی ادارے نظام کو استحکام اور
عوام کے حقوق کا تحفظ کر رہے ہیں۔ اکثریت اور اقلیتیں مل کر حکومت کر رہی ہیں۔ جبکہ
اسرائیل کی
Pseudo Democracyمیں صرف یورپی
نسل کے یہودیوں کو حکومت کرنے کا حق ہے۔ GCC ملک سعودی عرب کی قیادت میں اگر خطہ میں بالخصوص عراق کے استحکام
میں سنجیدہ ہوتے تو یہ ایران کے ساتھ مل کر عراق کو خانہ جنگی سے بچاتے اور اسے استحکام
دینے کے اقدامات کرتے۔ لیکن GCC ملکوں نے
امریکہ، برطانیہ، فرانس اور اسرائیل کے ساتھ اتحاد میں شامل ہونے کو اہمیت دی تھی۔
جن کی ملٹری پاور مڈل ایسٹ کو ایک جنگ کے بعد دوسری جنگ سے Destabilize کر رہی تھی۔ GCC ملکوں نے شام کو تباہ کرنے کی جنگ
میں کس مقصد سے حصہ لیا تھا؟ سعودی کابینہ کے اجلاس میں یہ کہا ہے کہ ایران دنیا
کو عدم استحکام کرنے کی سرگرمیوں میں ملوث ہے۔ لیکن حقائق یہ بتاتے ہیں کہ اس خطہ
کو اسرائیل اور دنیا کو امریکہ کے بغیر کوئی عدم استحکام کرنے کی طاقت نہیں رکھتا
ہے۔ Hiroshima Nagasaki اور Syria اس کے ثبوت ہیں۔ GCC ملکوں نے امریکہ اور اسرائیل کے ساتھ اتحاد میں شام کے ایک داخلی سیاسی
انتشار میں مداخلت کی پھر اسے ایک خوفناک خانہ جنگی کا گھڑ بنایا
اور اس سے دنیا کو عدم استحکام کرنے کی کوشش کی تھی۔ فرانس، برطانیہ، بلجیم،
ڈنمارک، اسپین میں بموں کے دھماکہ ہونے لگے تھے۔ شام کی خانہ جنگی کے شعلوں نے
یورپ کو لپیٹ میں لے لیا تھا۔ دہشت گردی کے خلاف جو جنگ جارج بش نے شروع کی تھی وہ
دراصل دہشت گردی کو فروغ دینے کی جنگ ثابت ہو رہی تھی۔ GCC ملکوں کی دولت اس جنگ میں رول ادا کر رہی تھی۔ یہ ملک شام کے
لوگوں کی آزادی کی حمایت کن چہروں سے کر رہے تھے۔ جبکہ ان کے اپنے ملکوں میں لوگوں
کو کوئی سیاسی آزادی نہیں تھی۔ ان کے ہزاروں شہری جیلوں میں اذیتوں کا سامنا کر
رہے تھے۔ سعودی حکومت نے پہلے 150 اور حال ہی میں 37 لوگوں کے صرف حکومت کی مخالفت
کرنے پر گلے کاٹ کر موت کی سزائیں دی ہیں۔ سعودی حکومت، اسرائیل اور امریکہ آج
ایران کے خلاف جو پراپگنڈہ کر رہے ہیں۔ دنیا کے 6بلین لوگ جن میں ایک بلین سے
زیادہ مسلمان بھی ہیں اس پر بالکل یقین
نہیں کرتے ہیں۔
دنیا میں جو Genuine Human Beings ہیں جب وہ شام میں انسانیت کی
تباہی اور اس ملک کی بربادی دیکھتے ہیں تو ان کی آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں۔ یہ
دیکھ کر انہیں دہشت گردوں اور دہشت گردوں کے خلاف باتیں کرنے والوں میں کوئی فرق نظر
نہیں آتا ہے۔ دونوں سے انہیں نفرت ہونے لگتی ہے۔ ان کی نگاہوں میں دونوں انسانیت
کے دشمن ہیں۔ یہ Senseless
Human ہیں۔ شام ایک قدیم اسلامی تاریخ کا نگینہ تھا۔ اسلام کے عظیم
پیغمبروں کے یہاں مقبرے ہیں۔ اسلام کی یہاں عظیم یاد گاريں ہیں۔ یہاں عیسائوں کی
ایک ہزار سال کی تاریخ ہے۔ ان کے مقدس مقامات ہیں۔ اس شام کو تعلیم یافتہ ملکوں نے
جاہلوں کے ساتھ مل کر تباہ کیا ہے۔ تاریخ انہیں شاید کبھی معاف نہیں کرے گی۔ ان
ملکوں نے لیبیا کو Destabilize کیا ہے۔ لیبیا
کے لوگوں کا امن استحکام اور اقتصادی خوشحالی تہس نہس کر دی ہے۔ لیبیا کے بچوں کا
مستقبل تاریک کر دیا ہے۔ ہتھیار ان کے ہاتھوں میں دے دئیے ہیں اور دنیا سے کہا جا
رہا ہے کہ ہم دہشت گردوں سے لڑ رہے ہیں۔ یہ وہ حقائق ہیں جو سعودی کابینہ کے اس بیان کی
تائید نہیں کرتے ہیں کہ ایران دنیا کو Destabilize اور Destroy کر رہا ہے۔ صدر
ٹرمپ کہتے ہیں ایران دنیا کا ایک انتہائی Dangerous ملک ہے۔ B-52 امریکہ کے پاس
ہے، Daisy Cutter Bomb امریکہ کے پاس
ہیں، ایٹم بم امریکہ کے پاس ہے، 30ہزار سے زیادہ Nuclear Weapons امریکہ کے پاس ہیں۔ لیکن ایران
دنیا کا ایک انتہائی خطرناک ملک ہے۔ کوئی جاہل انسان یہ سنے گا تو قہقہہ لگاۓ گا۔
دنیا میں امریکہ نے ہتھیاروں کا استعمال سب سے زیادہ کیا ہے یا ایران نے؟ ایرانی
ملاؤں نے صرف ایک جنگ عراق سے لڑی تھی جو ان پر مسلط کی گئی تھی۔ اور انقلاب ایران
کے ابتدائی دنوں میں ان کے انقلاب کو ناکام بنانے کے لیے شروع کی گئی تھی۔ یہ جنگ
9 سال جاری رہی تھی۔ ایک ملین سے زیادہ ایرانی اس جنگ میں مارے گیے تھے۔ ایران میں
مردوں کی قلت ہو گئی تھی۔ ایرانی عورتوں کو شادی کے لیے مرد نہیں تھے۔ لیکن ان
حالات میں بھی انقلاب ایران نے Survive کیا تھا۔ اور اس جنگ کے بعد ایران کبھی جنگ نہیں کرنا چاہتا ہے۔
امریکہ کے ویت نام جنگ میں 60ہزار فوجی مارے گیے تھے۔ جبکہ کوریا کی جنگ میں بھی بڑی
تعداد میں امریکی مارے گیے تھے۔ لیکن امریکہ نے جنگوں کو ترک نہیں کیا ہے۔ امریکہ
کا ہر صدر دنیا میں کہیں نہ کہیں جنگ ضرور کرے گا۔ ورنہ اسے امریکہ کی قومی سلامتی
اسٹبلیشمنٹ کمزور اور نامرد صدر سمجھتی ہے۔ اس لیے امریکہ کے صدر کو قومی سلامتی
کے مفاد میں کہیں نہ کہیں مہم جوئیاں ضرور کرنا پڑتی ہیں۔ Fake Enemy Invent کیے جاتے ہیں۔ امریکی میڈیا جنگ
کا ماحول بناتا ہے۔ اور امریکہ کے مفادات کے دشمنوں کے خلاف جنگ شروع ہو جاتی ہے۔
ایسی ہی ایک Fake war امریکہ نے سعودی عرب کو مصروف رکھنے کے لیے یمن میں دی ہے۔ اور اس
سے امریکہ برطانیہ فرانس اور اسرائیل کھربوں ڈالر بنا رہے ہیں۔ یمن کی جنگ ایران
نے سعودی عرب کو نہیں دی ہے۔ یہ جنگ صدر اوبامہ
سعودی بادشاہ کو دے کر گیے ہیں۔ امریکہ تقریباً 17سال سے یمن میں القا عدہ
کے خلاف آپریشن کر رہا تھا۔ سی آئی اے،
اسپیشل فورسز ز کی کاروائیاں ہو ری تھیں۔ ڈرون حملہ بھی ہو رہے تھے۔ 2015 میں
اوبامہ انتظامیہ نے یمن میں علی عبداللہ صالح حکومت کو 500ملین ڈالر سے زیادہ کا
اسلحہ دیا تھا۔ یہ اسلحہ یمن میں سعودی عرب کے ساتھ ہو تیوں کی جنگ شروع ہونے سے
کچھ ماہ قبل غائب ہو گیا تھا۔ پینٹ گان کے حکام کو یہ خدشہ تھا کہ یہ ہتھیار ہو تیوں
اور القا عدہ کے ہاتھوں میں پہنچ جائیں گے۔ بلاشبہ ہوتی ان ہتھیاروں سے سعودی عرب
سے لڑ رہے ہیں۔ علی عبداللہ صالح خود بھی ہوتی تھے۔ امریکہ اور اسرائیل میں امن کے
لیے اتنے Experts نہیں ہیں۔ لیکن
جنگیں شروع کرنے کے لیے سازشیں کرنے کے Experts کی ایک فوج ہے۔ عالمی میڈیا پر ان کا کنٹرول ہے۔ عراق کی مثال
دنیا کے سامنے ہے کہ اس ملک میں تباہی پھیلانے کی جنگ کے لیے میڈیا کے ذریعہ کس قدر
جھوٹ بولا گیا تھا۔ دنیا میں یمنی ہو تیوں کی حمایت ہر وہ ملک کرے گا جن کے دل میں
غریب انسانیت کا درد ہے۔ اور ایران بھی ان میں شامل ہے۔ اس کے علاوہ سعودی،
اسرائیلی اور امریکہ جو کہتے ہیں وہ سب Myth ہے۔ امریکہ اور اسرائیل نے 1980s میں ایران اور عراق جنگ میں دونوں ملکوں کو 9سال تک ہتھیار فروخت
کیے تھے۔ اور اس جنگ سے کھربوں ڈالر کا کاروبار کیا تھا۔ اگر امریکہ اور اسرائیل
نے اس وقت عراق اور ایران کو ہتھیار فروخت کیے تھے تو اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ
یہ اب سعودی عرب اور یمن میں ہو تیوں کو بھی ہتھیار دے رہے ہیں۔ سیکرٹیری آف اسٹیٹ
Mike Pompeo کے پاس یہ اطلاع
آ گئی تھی کہ ونزویلا میں Maduro ملک
چھوڑ کر جانے کے لیے طیارے میں سوار ہو گیے تھے۔ لیکن روس نے انہیں جانے سے روکا تھا اور وہ
طیارے سے اتر آۓ تھے۔ لیکن Mike Pompeo سی آئی اے کے ڈائریکٹر تھے لیکن انہیں ایک تو یہ نہیں معلوم تھا
کہ ISIS کو کس نے بنایا تھا؟ اور کون اسے
فنڈ ز دے رہا تھا؟ دوسرے ایران کس راستہ سے ہو تیوں کو ہتھیار پہنچا رہا تھا؟ اور
500ملین ڈالر کی مالیت کے ہتھیار جو یمن میں غائب ہوۓ تھے وہ کہاں ہیں؟ یہ امریکی
عوام کے ٹیکس کے ڈالر تھے۔ یہ ان زخمی امریکی فوجیوں پر خرچ کیے جا سکتے تھے جو
عراق اور افغان جنگ میں زخمی ہوۓ ہیں اور ابھی تک زیر علاج ہیں۔
اور اب یہ کہا جا رہا ہے کہ ایران دنیا کے لیے
انتہائی خطرناک ہے۔ آج Social
Media کی دنیا میں لوگوں کو یہ بتایا جا رہا ہے۔ لوگ آج لیڈروں سے زیادہ
Smart ہیں۔ دنیا کے لیے ایران اتنا بڑا
مسئلہ نہیں ہے۔ دنیا کے امن اور استحکام کے لیے مسئلہ امریکہ ہے کہ کسی طرح دنیا اس کی ہتھیاروں اور جنگوں کے نشہ کی
عادت کو ختم کرے اور کس طرح اسے پرامن انسان بنانے کے لیے Rehabilitate کیا جاۓ؟؟؟ ہر وقت ہر جگہ چھوٹی
چھوٹی باتوں پر بڑے بڑے خوفناک ہتھیار لے کر امریکہ آ جاتا ہے۔ آج کے حالات میں پلٹ
کر 50سال پہلے کی دنیا دیکھی جاۓ تو کمیونسٹ خاصے معقول جمہوری ذہن کے نظر آتے
ہیں۔ امریکہ نے آج اپنے جمہوری انسانی اخلاقی قانون کی بالا دستی، انسانی حقوق کے
کپڑے اتار دئیے ہیں۔ اور عدی امین کی فوجی وردی میں B-52 اڑانے شروع
کر دئیے ہیں۔ اور اس Endeavor میں
سعودی عرب ان کا بنک ہے۔
No comments:
Post a Comment