Is President Trumps Trade War With Two Hundred American Companies Operating In China? And China Is Being Forced To Pay Their Corporate Tax In Terms Of Tariffs
China is buying up American companies |
The Biggest American Companies now owned by the Chinese |
Why has the California-based Company enjoyed remarkable Success in China |
US Tech Companies are a partner with Chinese Firms |
Walmart employs in China |
امریکہ کا Allies کے ساتھ تجارتی
خسارہ ہمیشہ ایک مسئلہ رہا ہے۔ 1980s میں امریکہ کو
جاپان سے تجارتی خسارہ کا اسی طرح کا سامنا تھا کہ جیسے آج امریکہ کو چین سے
تجارتی خسارہ کا سامنا ہے۔ لیکن فرق صرف یہ ہے کہ 35 سال قبل کی دنیا بہت مختلف تھی۔
امریکہ کے بڑے ٹریڈنگ پارٹنرصرف 7صنعتی
ملک تھے۔ اور جاپان ان میں سے ایک تھا۔ جاپان کی الیکٹرونک اشیا اور کاریں امریکہ
کی مارکیٹ پر چھائی تھیں۔ جاپان کے آ ٹو مینو فیکچر ز نے امریکہ کی آ ٹو صنعت کو تقریباً
دیوالیہ ہونے پر پہنچا دیا تھا۔ امریکہ میں ریگن انتظامیہ تھی۔ 1985 میں James Baker ریگن انتظامیہ میں سیکرٹیری خزانہ
تھے۔ امریکہ کی بڑی آ ٹو صنعت کے CEOs ریگن انتظامیہ پر جاپانی کاروں کی درآمد کے خلاف کچھ کرنے پر زور
دے رہے تھے۔ جاپانی کاروں پر بھاری Tariff لگانے کا مطالبہ کر رہے تھے۔ صدر ریگن نے آ ٹو انڈسٹری کو سرکاری
خزانہ سے اس طرح Bail out نہیں کیا تھا
کہ جس طرح 2010 میں صدر اوبامہ
نے آ ٹو انڈسٹری کو Bail out کیا تھا۔ امریکہ
کی بڑی آ ٹو کمپنیوں کے CEOs کے ایک وفد نے
سیکرٹیری خزانہ James Baker سے ملاقات کی
اور ان سے جاپانی کاروں کی درآمد روکنے اور ان پر بھاری Tariff لگانے کا مطالبہ کیا تھا۔ انہوں نے اپنے اس خدشہ کا
اظہار کیا کہ اگر جاپانی کاروں کی درآمد کے خلاف کچھ نہیں کیا گیا تو وہ بہت جلد Out of Business ہو جائیں گے۔ سیکرٹیری خزانہ James Baker نے بتایا وہ انہیں سنتے رہے اور
پھر ان سے کہا ' وہ جاپانی کاروں کی درآمد نہیں روکیں گے۔ انہیں جاپانی کاروں سے زیادہ
اچھی کاریں بنانا چاہیے۔ اور جاپانی کاروں سے Compete کرنا چاہیے۔' سیکرٹیری خزانہ James Baker نے یہ ایک امریکی چینل کے سنڈے
مارننگ شو میں بتایا تھا۔ 35 سال بعد آج بھی امریکہ کو جاپان سے تجارت میں خسارے
کا سامنا ہے۔ صدر ٹرمپ نے جاپان سے ایک Fair Trade سمجھوتہ کرنے پر زور دیا ہے۔ امریکی آ ٹو انڈسٹری کا کہنا ہے کہ امریکہ
میں لیبر بہت مہنگی ہے۔ اور وہ جاپانی لیبر سے مقابلہ نہیں کر سکتے ہیں۔ اس لیے وہ
اپنے آ ٹو پلانٹ چین، میکسیکو اور دوسرے مقامات پر لے گیے ہیں۔ تاہم جاپان کے بڑے
آ ٹو مینو فیکچرز کے کاروں کے پلانٹ اب امریکہ میں ہیں۔ اور یہ یہاں بھی اتنی ہی
اچھی کاریں بنا رہے ہیں جیسے یہ جاپان میں بناتے تھے۔ امریکہ میں یہ لیبر کو
امریکی قوانین کے مطابق تمام مراعات دیتے ہیں۔ اور آج بھی جاپانی کاریں امریکہ میں
سب سے زیادہ خریدی جاتی ہیں۔
دنیا کو امریکہ کے ساتھ Peace Deficit کا سامنا ہے۔ امریکہ کے دفاعی بجٹ کا دنیا کا کوئی
ملک مقابلہ نہیں کر سکتا ہے۔ سرد جنگ ختم ہونے کے بعد امریکہ کو سب سے پہلے دنیا
میں Fair Trade فروغ دینے پر
توجہ دینا چاہیے تھی۔ امریکہ کا تجارتی خسارہ ختم کرنا چاہیے تھا۔ امریکہ کو عالمی
معیشت کا انجن کہا جاتا تھا لیکن امریکہ کی معیشت قرضوں میں دبی ہوئی تھی۔ معیشت کو پہلے اس سے
آزاد کرنا چاہیے تھا۔ جو امریکہ کی معاشی سلامتی کو پہلی ترجیح دیتے تھے۔ اور امریکہ
کو 21ویں صدی کی اقتصادی طاقت بنانا چاہتے تھے۔ انہیں 9/11 کے بعد پیچھے کر دیا گیا تھا۔ اور سیکورٹی Hawks اور Regime
change warmongers کا امریکہ کی خارجہ اور ڈیفنس پالیسی پر قبضہ ہو گیا تھا۔ انہوں
نے امریکہ کی خارجہ پالیسی کو Economic policy سے Disconnect کر دیا تھا۔ اس
کی تیاری انہوں نے 1990s سے کی تھی۔ NAFTA سے اس کی ابتدا ہوئی تھی۔ نئے Free Trade Zone تجویز کیے جا رہے
تھے۔ تاکہ نا ختم ہونے والی جنگوں کے باوجود عالمی معیشت میں استحکام رکھا جا سکے۔
صدر جارج ایچ بش انتظامیہ میں پا نا مہ پر Preemptive حملہ اور اس کے بعد خلیج کی پہلی
جنگ سے یہ واضح ہو رہا تھا کہ مستقبل امن کا نہیں جنگوں کا ہو گا۔ امریکہ کو چیلنج
کرنے والی اب کوئی طاقت نہیں تھی۔ امریکہ جہاں اور جب محسوس کرے گا Preemptive حملے کرے گا۔ مڈل ایسٹ میں تیسری
عالمی جنگ ہونے کی پیشن گوئی 70s کی جا رہی تھی۔
مڈل ایسٹ کے تیل اور گیس پر مغربی صنعتی ملکوں کا انحصار اب ختم ہو گیا ہے۔ جب تک
یہاں ان کی اقتصادی ترقی اور خوشحالی کا انحصار تھا۔ انہوں نے یہاں استحکام کو
اہمیت دی تھی۔۔ لیکن جوں ہی وسط ایشیا کا تیل مارکیٹ میں آنا شروع ہو گیا تھا۔ اسی
روز مڈل ایسٹ میں پہلی بڑی جنگ کا میدان عراق کو بنانے کی تیاری کر لی تھی۔ مڈل
ایسٹ کو انہوں نے اپنے ہتھیاروں کی انڈسٹری کے لیے ایک Permanent war zone بنایا تھا۔ امریکہ کو انہوں نے اس
Zone میں مصروف رکھا تھا۔
امریکہ کی سپریم کورٹ کا جیسا کہ یہ
فیصلہ ہے کہ کارپوریشن بھی انسان کی طرح ہیں۔ اور انسان کو جب حالات خوفزدہ نظر
آتے ہیں۔ وہ وہاں سے Migrate ہونے لگتے ہیں۔
اور جہاں حالات انہیں پر امن نظر آتے ہیں وہاں پناہ لینے لگتے ہیں۔ انسانوں کی طرح
کارپوریشن بھی امن اور معاشی وجوہات کی وجہ سے Migrate کرنے پر مجبور ہو جاتی ہیں۔ امریکہ سے سرمایہ اور کارپوریشنوں کا Migrations 1990s سے آغاز ہوا تھا۔ انسان جب ایک
مقام سے دوسرے مقام Migrate کرتے ہیں تو
اسے بحران کہا جاتا ہے۔ لیکن جب کارپوریشن Migrate کرتی ہیں تو اسے Globalization کہا گیا تھا۔ امریکی کمپنیاں اپنا سرمایہ لے کر میکسیکو چلی گئی
تھیں۔ کچھ کمپنیاں جنوب مشرقی ایشیا کے ملکوں میں چلی گئی تھیں۔ اس وقت امریکہ کی تقریباً
200 سے زیادہ کمپنیاں چین میں ہیں۔ امریکہ
کی تمام بڑی آ ٹو کمپنیوں کے CEOs جو
35 سال قبل سیکرٹیری خزانہ سے جاپانی کاروں کی درآمد پر پابندی لگانے کے مطالبہ کر
رہے تھے۔ 35 سال بعد وہ تمام آ ٹو کمپنیاں چین میں منافع بخش کاروبار کر رہی ہیں۔
ایک ماہ میں صرف ایک آ ٹو کمپنی کی ایک لاکھ سے زیادہ کاریں فروخت ہوتی ہیں۔ چین
نے Walmart کو آج 500 بلین
ڈالر کی کمپنی بنا دیا ہے۔ امریکہ کی پہلی Trillion Dollar کمپنی Apple بھی چین میں کاروبار کرنے کے نتیجہ میں اس مقام پر آئی ہے۔ KFC Restaurants چین میں بہت مقبول ہیں۔ اور کمپنی
نے اب چین میں 20,000 نئے ریستوران کھولنے
کا اعلان کیا ہے۔ چین میں کمر شیل ائیر کرفٹ مارکیٹ میں Boeing کے 50% حصہ ہے۔ امریکہ
کے محکمہ خزانہ کے مطابق امریکہ نے 55 بلین ڈالر بناۓ تھے۔ جس میں 2017 سے 19.9
بلین کا اضافہ ہوا ہے۔ ابھی تک چین میں امریکی کمپنیوں کے دیوالیہ ہونے کی کوئی
خبر نہیں ہے۔ کوئی ایک کمپنی بھی چین چھوڑ کر جانے کے لیے تیار نہیں ہے۔ امریکہ
میں گزشتہ 20برس میں تقریباً 15 فیصد نئے Millionaires کا اضافہ ہوا تھا۔ ایک چینی ٹیکسی ڈرائیور نے امریکن سے پوچھا جو
بیجنگ ایرپورٹ سے اپنے گھر جا رہا تھا، کہ تم چین میں کتنے عرصہ میں Millions بنا لو گے اور امریکہ میں تم کو Millions بنانے میں کتنا عرصہ لگے گا؟ اس
امریکی کا جواب تھا میں چین میں 5سال میں Millions بنا لوں گا۔ اور امریکہ میں مجھے 12سال لگے گے۔ یہ 18سال قبل مجھے
اس امریکی نے بتایا تھا۔
اس میں شبہ نہیں ہے کہ چین کی
اقتصادی اور شاندار صنعتی ترقی سے دنیا کے ہر کونے میں عام لوگوں کو زبردست فائدہ
پہنچے ہیں۔ چین میں جہاں 600ملین لوگ غربت سے نکل کر مڈل کلاس میں آۓ ہیں۔ وہاں
ایشیا بالخصوص افریقہ میں بھی ایک بڑی تعداد کو غربت سے نجات ملی ہے۔ یہاں ترقیاتی
کام ہوۓ ہیں۔ چین کی مدد سے Infrastructures تعمیر ہوۓ ہیں۔
تجارتی اور کاروباری سرگرمیوں میں تیزی آئی ہے۔ چین نے 2008 کے اقتصادی بحران کے
نتیجے میں امریکہ میں مڈل کلاس کو تباہ ہونے سے بچایا تھا۔ ورنہ تو اس اقتصادی
بحران میں مڈل کلاس Wiped out ہو گئی تھی۔
چین نے امریکہ کی 22 ٹیریلین ڈالر قرضوں میں ڈوبی معیشت کو سہرا دیا ہے۔ اور
امریکہ کے Treasury میں چین نے
بھاری انویسٹ کیا ہے۔
ہمارے سامنے 7بڑے صنعتی ملکوں کی مثال بھی ہے۔
جنہوں نے سرد جنگ کی آ ڑ میں ایشیا، افریقہ اور لا طین امریکہ کے ملکوں پر فوجی ڈکٹیٹر
ز اور فاشسٹ حکومتیں مسلط کی تھیں۔ انہیں Allies بنایا تھا۔ ان کے ذریعے لوٹ کھسوٹ کا نظام فروغ دیا تھا۔ اور پھر
ان کے قدرتی وسائل کا خوب استحصال کیا تھا۔ 7 بڑے صنعتی ملکوں نے انہیں لوٹا تھا
اور فوجی ڈکٹیٹروں اور فاشسٹ حکومتوں نے اپنے عوام کی دولت کو کھسوٹا تھا۔ سرد جنگ
میں امریکہ اور مغرب کے جتنے Allies تھے وہ سب تباہ
حال ہیں۔ انہوں نے کسی ایک ملک کو بھی اقتصادی ترقی میں آ گے آنے کا موقع نہیں دیا
تھا۔ عراق لیبیا اور شام میں جہاں تھوڑی بہت اقتصادی ترقی ہوئی تھی اور اقتصادی
استحکام تھا ان پر7بڑے صنعتی ملکوں نے بمباری کر کے کھنڈرات بنا دیا۔ سرد جنگ میں
امریکہ کے ایشیا افریقہ اور لا طین امریکہ کے جتنے Allies تھے۔ سرد جنگ ختم ہونے کے بعد ان کے عوام ابھی تک غریب ہیں۔ اور اب
وہ Dollar a day’ ‘ پر امریکی کمپنیوں
کے لیے کام کر رہے ہیں۔ صدر ٹرمپ نے Fair Trade کے لیے Trade War شروع کی ہے۔ لیکن Fair [labor] wages کے لیے War کون شروع کرے گا؟
No comments:
Post a Comment