Saturday, June 22, 2019

Israel, Saudi Arabia, John Bolton, And Mike Pompeo Want Iran To Live In The Region As Afghan Women Lived Under A Taliban Controlled




   Israel, Saudi Arabia, John Bolton, And Mike Pompeo Want Iran To Live In The Region As Afghan Women Lived Under A Taliban Controlled Region 
مجیب خان





    یہ اسرائیل کے وزیر اعظم بنجمن نتھن یا ہو تھے۔ جن کے بھر پور دباؤ میں صدر ٹرمپ نے ایران سمجھوتہ سے دستبردار ہونے کا فیصلہ کیا تھا۔ اور امریکہ کے دوستوں اور اتحادیوں کی مخالفت لی ہے۔ وزیر اعظم تتھن یا ہو صدر ٹرمپ کے اس فیصلے سے بہت خوش ہوۓ ہیں۔ لیکن امریکہ کے اتحادی اور دوست صدر ٹرمپ کے فیصلے سے بالکل خوش نہیں ہیں۔ صدر ٹرمپ Russian Meddling کی دلدل سے ابھی نکلنے کی کوشش کر رہے تھے کہ اب صدر ٹرمپ ایران کے ساتھ ایک غیر ضروری تنازعہ میں پھنس گیے تھے۔ با ظاہر یہ Russian Meddling  مسئلہ سے زیادہ پیچیدہ اور مشکل صورت حال ہے۔ اس صورت حال سے نکلنے کے تمام راستے بھی با ظاہر بند ہیں۔ ایران کے خلاف فوجی کاروائی امریکہ کے لیے ایران کے ایٹمی مسئلہ سے بھی زیادہ بڑا  مسئلہ بن جاۓ گا۔ وزیر اعظم نتھن یا ہو جو ایران ایٹمی سمجھوتہ ختم کرنے کے لیے دنیا میں شور مچا رہے تھے۔ اب خاموش ہیں۔ ایران کے خلاف بولنے کے لیے سعود یوں اور اماراتیوں کو فرنٹ لائن پر کھڑا کر دیا ہے۔ وزیر اعظم نتھن یا ہو ایک Failed Leader ہیں۔ فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے بے گھر کرنا، ان کی زمینوں پر قبضہ کرنا، نئی یہودی بستیاں آباد کرنا، مشرق وسطی میں Upheaval وزیر اعظم نتھن یا ہو کی کامیابیاں ہیں۔ اور اب وہ ایران کو عراق، لیبیا اور شام بنانا چاہتے ہیں۔ امریکہ کے صدر ایک Blunder کے بعد دوسرا Blunder کر رہے ہیں۔ عراق صدر بش کا Blunder تھا۔ لیبیا اور شام صدر اوبامہ کے Blunders ہیں۔ صدر ٹرمپ کا Blunder ایران ایٹمی سمجھوتہ سے دستبردار ہونے کا فیصلہ ہے۔ اور دنیا امریکہ کے Blunders کی بھاری قیمت ادا کر رہی ہے۔ لاکھوں لوگوں کی زندگیاں برباد ہو گئی ہیں۔ اقتصادی تباہی علیحدہ ہوئی ہے۔ یورپ امریکہ کے Blunders میں اتحادی تھا۔ یورپ میں Nationalist اور Populist کی تحریک امریکہ کے Blunders کا نتیجہ ہے۔
   خلیج اومان میں ایک جاپانی کمپنی کے آئل ٹینکر میں جب دھماکہ کی خبر آئی تھی۔ جاپان کے وزیر اعظم Abe اس وقت تہران میں تھے۔ ان کا رد عمل بہت سرد تھا۔ جاپان میں لوگوں کے ذہنوں میں سب سے پہلے Pearl Harbor آیا تھا کہ  اب ایران پر ایٹم بم گریں گے۔ شاید اس لیے آئل ٹینکر کمپنی کے مالک نے ٹوکیو میں ایک ہنگامی پریس کانفرنس میں یہ وضاحت کی کہ امریکہ کی آئل ٹینکر میں Mines  کے دھماکے ہونے کی خبر غلط ہے۔ یہ کوئی Objects تھا جو اوپر سے آیا تھا اور اس سے شپ میں Hole ہوا تھا۔ جاپانی اس سے بھی باخبر تھے کہ سعودی عرب- متحدہ عرب امارت کے ساتھ یمن کی جنگ خلیج اومان سے زیادہ دور نہیں تھی۔ لیکن کیونکہ Warmongers کے Radar پر صرف ایران تھا۔ Houthis سعودی عرب پر حملے کر رہے تھے۔ ان کے راکٹ اور میزائل سعودی آئل پائپ لائن تباہ کر رہے تھے۔ سعودی عرب میں ایرپورٹ پر راکٹ برسا رہے تھے۔ وہ اپنی جنگ کو پھیلا رہے تھے اور متحدہ عرب امارات کے قریب لا رہے تھے۔ ایران سے پہلے Houthis خلیج اومان کا ٹریفک درہم برہم کرنا چاہتے تھے۔ Houthis ان کے Radar سے غائب تھے۔ اور وہ جو کچھ کر رہے تھے۔ وہ ایران کے اکاؤنٹ میں جا رہا تھا۔ Houthis سعودی عرب پر حملے کر رہے تھے لیکن الزام ایران کو دیا جاتا تھا۔ حالانکہ ایرانی اپنے Survival کی جنگ لڑ رہے تھے۔ اور دنیا کو یہ بتایا جا رہا تھا کہ ایران Houthis کی مدد کر رہا تھا۔
  سیکرٹیری آف اسٹیٹ Mike Pompeo نے کہا ' امریکہ خلیج میں آزاد ا نہ شپنگ  کا دفاع کرے گا۔ ہمارے اتحادی اور دوست جاپان جنوبی کوریا چین ملیشیا خلیج کے تیل پر انحصار کرتے ہیں۔ اور ہم خلیج اومان کا تحفظ کریں گے۔' صدر ٹرمپ نے انتخابی مہم میں یہ زور دے کر کہا تھا کہ امریکہ دنیا میں پولیس مین نہیں ہو گا۔ دوسرے ملکوں کو اب آ گے آنا چاہیے۔ چین سے اس وقت امریکہ کی ٹریڈ وار ہو رہی ہے۔  پھر امریکہ  چین کو دوست اور اتحادی نہیں بلکہ Adversary میں شمار کرتا ہے۔ لیکن خلیج اومان میں امریکہ چین کے مفادات کا تحفظ کر رہا ہے۔ یہ Contradiction ہے یا Puzzle عالمی برادری یہ بتا سکتی ہے۔ ایران کے خلاف یہ مہم دراصل اسرائیل کی ہے۔ مڈل ایسٹ کو پہلے شیعہ سنی میں تقسیم کیا گیا ہے۔  اور اب سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات اس مہم کا حصہ بن گیے ہیں۔ خلیج بہت بڑا خطہ نہیں ہے۔ یہاں چھوٹی آبادی کی چھوٹی ریاستیں ہیں۔ تیل اور قدرتی گیس کی دولت سے مالا مال ہیں۔ یہ ریاستیں بھی سوئزرلینڈ اور ناروے کی طرح اقتصادی طور پر خوش حال اور ترقی یافتہ ہو سکتی تھیں۔ لیکن ایک تو یہاں قبائلی کلچر ہے۔ اور دوسرے یہ بڑی طاقتوں کے ساتھ Political activist  ہو گئی ہیں۔ اگر یہ ریاستیں بڑی طاقتوں کی سیاست سے اپنے آپ کو دور رکھیں اور خطہ کے ہر ملک کے ساتھ دوستانہ تعلقات اور تجارت کو فروغ دیں تو اس میں ان کی بہترین سلامتی ہے۔ یہاں امریکہ کے فوجی اڈوں کی ضرورت نہیں ہے۔ 40سال سے یہاں امریکہ کے فوجی اڈے ہیں۔ لیکن 40 سال سے یہ خطہ میدان جنگ بنا ہوا ہے۔ یہاں امن ہے اور نہ ہی استحکام ہے۔ آج ایران کے خلاف جو باتیں کی جا رہی ہیں 2003 میں عراق کے خلاف بھی بالکل یہ ہی باتیں کی جا رہی تھیں۔ کہ صد ام حسین امریکہ کے اتحادیوں اور دوستوں کے لیے ایک بہت بڑا خطرہ بن گیے تھے۔ اور پھر امریکہ نے عراق پر حملہ کر کے اس خطرے کو ختم کیا تھا۔ اور اب 16 سال بعد امریکہ کے دوستوں اور اتحادیوں کو ایران سے خطرہ  ہو گیا ہے۔ امریکہ اب اپنے اتحادیوں اور دوستوں کو اس خطرے سے بچانے کے لیے ایران کے خلاف فوجی کاروائی کرنے کی تیاری کر رہا ہے۔ حالانکہ ایران نے اپنے نیو کلیر پروگرام پر صرف اس خطہ کے امن اور استحکام کے مفاد میں سمجھوتہ کیا تھا۔ لیکن فساد پرست ایران کا ایٹمی سمجھوتہ مستر د کر کے اس خطہ کو پھر Square one پر لے آئیں ہیں۔ انہوں نے اس سمجھوتہ کو نتائج دینے کا موقع تک نہیں دیا تھا۔ دنیا میں امریکی صدر سے زیادہ طاقتور اسرائیلی وزیر اعظم نتھن یا ہو ہیں جنہوں نے امن کا ہر سمجھوتہ سبوتاژ کیا ہے۔ اور ایران کا ایٹمی سمجھوتہ ختم کرایا ہے۔ اور امریکہ کو ایک نئی جنگ کے محاذ پر کھڑا کر دیا ہے۔ امریکہ میں جو بچے 2001 میں پیدا ہوۓ تھے وہ اب 19 سال کے ہو گیے ہیں۔ انہیں ایران میں Regime change کی جنگ کے لیے بھیجنے کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔ عراق میں صد ام حسین کی حکومت سے امریکہ کے اتحادیوں اور دوستوں کو جو خطرہ تھا اسے ختم کرنے بھی امریکہ سے 19 اور 20 کی عمروں کے فوجی گیے تھے۔ افغانستان میں امریکہ کے 19 اور 20 کی عمروں کے فوجی اس لیے کامیاب نہیں ہو سکے ہیں  کیونکہ وہاں انہیں 19 اور20کی عمروں کے طالبان سے سامنا تھا۔ بہرحال جنگوں سے خطرات کا خاتمہ کرنے سے پھر نئے خطروں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اسرائیل 70 سال سے اپنی بقا اور سلامتی کے خطروں کا خاتمہ کرنے کی جنگ لڑ رہا ہے۔ اور یہ اسی طرح آئندہ 70 سال تک جنگ لڑتا رہے گا؟ امریکہ کو اس سے سبق سیکھنا اور بچنا چاہیے تھا۔ امریکہ افغانستان میں 19سال سے جنگ لڑ رہا ہے۔ عراق میں جنگ ابھی مکمل طور پر ختم نہیں ہوئی ہے۔ عراق کی جنگ کو 16 سال ہو گیے ہیں۔ لیبیا میں جنگ کو 8 سال ہو گیے ہیں۔ اور وہاں جنگ ابھی جاری ہے۔ شام میں جنگ کو 8 سال ہو گیے ہیں اور وہاں بھی جنگ ابھی جاری ہے۔ سعودی عرب کے لیے یمن کی جنگ افغانستان میں امریکہ کی جنگ کی طرح بن گئی ہے۔ اگر یہ جنگ 6 سال میں ختم نہیں ہو سکی ہے تو آئندہ 6سال بھی سعودی عرب کے اسی جنگ میں گزریں گے؟ یہ امریکہ اور اسرائیل کا مشرق وسطی میں Constructive Role ہے۔ دوسروں کو الزامات دینے کی بجاۓ پہلے اپنے Behavior کو دیکھنا چاہیے۔ آج کی دنیا ماضی کی  Closed Book  دنیا کی طرح نہیں ہے۔ آج دنیا کے کونے کونے میں Facts بچوں کے سامنے ہیں کہ کون ان کا مستقبل تاریک بنا رہا ہے۔ سیکرٹیری آف اسٹیٹ Mike Pompeo  فلوریڈا میں سینٹرل کمانڈ کے ہیڈ کوارٹر میں پریس سے گفتگو میں ایران کو مڈل ایسٹ کے حالات کا ذمہ دار بتا رہے تھے کہ ایران 40 سال سے مڈل ایسٹ میں ہر جگہ مداخلت کر رہا ہے'۔ اسکول کے بچوں نے Google کر کے دیکھا تو 40سال سے مڈل ایسٹ میں ہر جگہ انہیں امریکہ کے فوجی اڈے نظر آۓ۔ اب تو بچوں کو دنیا میں حالات کے بارے میں جھوٹ بولنا بھی نہیں سکھایا جا سکتا ہے۔ دنیا طالبان کو نئی دنیا میں لانے کی کوششیں کر رہی ہے۔ لیکن امریکہ کی Mind Set Establishment  ابھی تک پرانی دنیا میں ہے اور صرف جنگوں کی باتیں کر رہی ہے۔ یہاں تک کے اس نے دنیا میں معاشی مسائل کا حل بھی Economic war میں دیکھا ہے۔ حالانکہ Rich and Poor میں بھی Economic war سرد جنگ کے دور سے جاری ہے۔ اسے بھی حل کیا جاۓ۔                  

1 comment:

  1. Netanyahu has guided Modi also to follow its footsteps to devour Kashmir but ground realities are entirely different there from Middle East so Modi has landed India in a quagmire which will trigger disintegration of India.. The same is likely to happen with America if Trump goes by the advice of Natanyahu to attack Iran

    ReplyDelete