Thursday, June 6, 2019

What Are The Achievements Of The Organization Of Islamic Cooperation? While There Is No Cooperation Among Them




   What Are The Achievements Of The Organization Of Islamic Cooperation? While There Is No Cooperation Among Them  

The World Should Reject President Trump’s Pro-Benjamin Netanyahu Peace Plan
مجیب خان

The Leaders of the Organization of Islamic Cooperation member states at the14th OIC Makkah Summit, May 30, 2019 

The opening session of the Islamic Summit in Lahore, Pakistan on Feb 23, 1974, AP Photo




   مکہ اسلامی سربراہ کانفرنس کے ہنگامی انعقاد کا مقصد کیا تھا؟ یہ کانفرنس ماہ رمضان کے بعد بھی ہو سکتی تھی۔ جبکہ کانفرنس کے ایجنڈہ میں کوئی اہم ہنگامی نکات بھی نہیں تھے۔ شاہ سلمان، ان کے وزیر خارجہ، متحدہ عرب امارات کے حکمران اور بعض دوسرے رہنما مڈل ایسٹ کے سیاسی حالات پر جن خیالات کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ انہیں مکہ کانفرنس میں دوہرایا گیا تھا۔ ایران کو خصوصی طور سے فوکس کیا گیا تھا۔ اور فلسطین کے تنازعہ کو ثانوی درجہ دیا تھا۔ شاہ سلمان نے عالمی برادری سے کہا کہ "وہ ایران کی علاقائی مداخلت اور اس کی خطرناک پالیسیوں کو روکے۔ ایرانی حکومت کا رویہ اور علاقائی سلامتی کو ایران سے خطرہ عالمی اصولوں کے لیے ایک کھلا چیلنج ہے۔" اس صورت حال سے عالمی برادری با خوبی آگاہ تھی۔ ایران کے رویہ کو تبدیل کرنے اور اسے یہ پالیسیاں ترک کرنے کے مقصد سے عالمی طاقتوں نے دو سال کے کٹھن مذاکرات کے بعد ایران کو نیو کلیر ہتھیار بنانے سے روکا تھا۔ اور ایران کے ایٹمی پروگرام کو منجمد کرنے پر سمجھوتہ کیا تھا۔ جو علاقائی امن اور استحکام کے فروغ میں ایک انشورنس پالیسی تھی۔ ایران کو کچھ دے کر بہت کچھ لے لیا تھا۔ سعودی شاہ علاقہ میں جن خطروں اور مداخلت کا سبب  ایران کو بتا رہے ہیں۔ وہ دراصل امریکہ برطانیہ اور فرانس کی ملٹری اور سیاسی مداخلت ہے۔ ہر طرف حکومتوں کے ہاتھوں میں ان ملکوں کے بنے  ہتھیار ہیں۔ ہر طرف ان کے فوجی اڈے ہیں۔ طیارہ بردار بحری بیڑے دندناتے پھر رہے ہیں۔ یہ علاقہ کی سلامتی اور استحکام کے لیے خطرہ ہیں۔ یہاں لوگ اس خوف سے آرام کی نیند سو سکتے ہیں اور نہ ہی دن میں انہیں سکون نصیب ہے۔ اوپر سے ان پر ڈکٹیٹروں کے نظام کی گھٹن ہے۔ یہ حکمران باتیں بہت کرتے ہیں لیکن کرتے کچھ نہیں ہیں۔ خلیج کے بادشاہوں کو امریکہ سے زیادہ معقول مشورہ بلکہ امریکہ کے صدر کو بھی روس کے وزیر خارجہ Sergey Lavrov نے  دیا ہے کہ ' ایران کو بھی سنا جاۓ۔' اللہ نے شاید روس کے وزیر خارجہ کے ذریعہ سعودی شاہ کو یہ یاد دلایا ہے کہ رسول اللہ صلعم نے کیا فرمایا تھا کہ جب دو مسلمان بھائیوں کے درمیان اختلاف یا تنازعہ پیدا ہو جاۓ تو تم ان میں مصالحت کراؤ۔ دونوں کو بیٹھا ؤ، دونوں کا موقف سنو۔ اور پھر ان میں مصالحت کراؤ۔  سعودی شاہ نے مکہ میں اس اسلامی تعلیم کو نظر انداز کر دیا تھا۔ ایران کو اسلامی سربراہ کانفرنس میں شرکت کی دعوت نہیں دی۔ لیکن آج کی دنیا میں عالمی برادری جو صرف امریکہ ہے اس سے ایران کے خلاف سخت کاروائی کرنے کے لیے کہا جا رہا تھا۔
   مکہ اسلامی سربراہ کانفرنس ایران کے ساتھ تمام اختلافات پر افہام و تفہیم  کے لیے ایک بہترین پلیٹ فارم ہو سکتا تھا۔ اسلامی ملکوں کے سربراہوں کو ایران کا موقف  بھی سننے کا موقعہ ملتا۔ سعودی عرب اور خلیج کے حکم رانوں کو وہ برسوں سے سن رہے تھے۔ عرب لیگ کی ہر سربراہ کانفرنس میں انہیں سنتے تھے۔ لیکن ہر کانفرنس کے اعلامیہ میں صرف عالمی برادری سے ایران کے خلاف کاروائی کرنے کا کہا جاتا تھا۔ کیا ایک ایسی قیادت واقعی اسلامی ملکوں کے مفاد میں مخلص ہو سکتی ہے؟ 1980s سعودی شاہ نے ریگن انتظامیہ کی درخواست پر افغانوں کے مختلف گروپوں میں جو افغانستان میں کمیونسٹ فوجوں کے خلاف لڑ رہے تھے، اختلافات ختم کرانے اور متحد رکھنے کے لیے انہیں مکہ میں جمع کیا تھا۔ ان کے درمیان اختلافات ختم کراۓ تھے۔ مکہ کی اسلامی سربراہ کانفرنس میں اسی طرح ایران اور خلیج کے بادشاہوں کے درمیان اختلافات بھی ختم کراۓ جا سکتے تھے۔ اور اس خطہ میں استحکام اور امن کے لیے مل کر کام کرنے کا آغاز کیا جاتا۔ ایران نے خلیج کے ملکوں کے ساتھ Non-aggression pact کرنے کی تجویز بھی دی تھی۔ روس کے وزیر خارجہ نے اس سمجھوتہ میں مدد کرنے کا کہا تھا۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ سعودی حکومت خود کچھ کرنا نہیں چاہتی ہے۔ امریکہ اور اسرائیل کی ایران کے ساتھ تقریباً 4دہائیوں سے Tussle جاری ہے۔ انہوں نے خلیج کی حکومتوں کو بھی اس Tussle میں شامل کر لیا ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ ایران کے خلاف ملٹری ایکشن کی طرف بڑھ رہی تھی۔ اور اس مقصد سے قومی سلامتی امور کے مشیر John Bolton مکہ کانفرنس سے چند ہفتہ قبل خلیج کے ملکوں کا دورہ کر رہے تھے۔
  سعودی عرب نے اس کی تیل پائپ لائن بم سے اڑانے اور خلیج میں اس کے دو آئل ٹینکر ز پر حملہ کا الزام ایران کو دیا تھا۔ اور امریکہ نے اس سعودی الزام کی تصدیق کرتے ہوۓ کہا کہ یہ حملے ایران نے کیے تھے۔ اور اس کے پاس ثبوت ہیں۔ تاہم قومی سلامتی امور کے مشیر John Bolton نے یہ ثبوت عالمی برادری کو نہیں دکھاۓ تھے۔ لیکن صرف الزام کی بنیاد پر ایران کے خلاف فوجی کاروائی کرنے کا کہا جا رہا تھا۔ ایرانی اتنے احمق نہیں تھے کہ وہ سعودی عرب اور خلیج میں تیل کی تنصیبات پر حملے کرتے اور امریکہ کو فوجی کاروائی کرنے کا موقعہ دیتے۔ ایرانی اپنے آپ کو جتنا زیادہ مظلوم ثابت کر رہے تھے۔ دنیا کی ہمدردیاں اور حمایت ایران کے ساتھ بڑھتی جا رہی تھیں۔ امریکہ اسرائیل اور سعودی عرب دنیا میں تنہا ہوتے جا رہے  تھے۔ سیکرٹیری آف اسٹیٹ Mike Pompeo اور قومی سلامتی امور کے مشیر John Bolton ایران کا کیس لے کر دنیا میں جہاں بھی جا رہے تھے۔ امریکہ کو تنہا دیکھ رہے تھے۔ دنیا میں صرف چند ملکوں کے علاوہ کوئی ایسا ملک  نہیں تھا جس نے ایران ایٹمی سمجھوتہ سے صدر ٹرمپ کے علیحدگی اختیار کرنے کے  فیصلے کی مذمت نہیں کی ہو گی۔
  امریکہ کو اس عالمی راۓ عامہ کا سامنا ہے اور صدر ٹرمپ اس ماہ کے آخر میں اسرائیل فلسطین تنازعہ پر اپنا منصوبہ عرب اسلامی ملکوں کو دیں گے۔ مکہ کانفرنس جس عجلت میں بلائی گئی تھی۔ اور کانفرنس میں فلسطین اور عربوں کے علاقوں پر اسرائیل کے غیر قانونی فوجی قبضہ کو فوکس کرنے کے بجاۓ توجہ ایران پر مرکوز رکھنے کی کوشش کی گئی تھی۔ لیکن پھر یہ تاثر پیدا ہو رہا تھا کہ جیسے مکہ کانفرنس کا مقصد 57 اسلامی ملکوں کے سربراہوں کے صدر ٹرمپ کے اسرائیل فلسطین تنازعہ کے حل کے بارے میں منصوبہ پر ان کے خیالات اور تاثرات حاصل کرنا تھا۔ اور پھر صدر ٹرمپ کو اس کی رپورٹ دینا تھا۔ تاکہ جن اسلامی ملکوں کی انہیں سخت مخالفت کا سامنا ہو گا۔ صدر ٹرمپ ان اسلامی ملکوں کو پہلے سے اپنے منصوبہ کی حمایت پر آمادہ کریں۔ تاہم متحدہ عرب امارات کے محمد بن زید النہان اور بحرین کے امیر  اسرائیل کے ساتھ  تعلقات بحال کرنے کے لیے تیار ہیں۔ دراصل یہ وہ ملک ہیں جن کی وجہ سے اسرائیل فلسطین تنازعہ کا 70سال میں حل نہیں ہو سکا ہے۔ اسرائیل کو پھیلنے کا موقعہ دیا گیا ہے۔ اور اب خلیج کے ملکوں کا کہنا ہے کہ امریکہ اور اسرائیل جو دے رہے ہیں وہ قبول کر لو۔ فلسطینی چیرمین یا سر عرفات کی قیادت میں متحد اور منظم تھے۔ اوسلو امن معاہدے کے بعد مغربی کنارے اور غازہ میں فلسطینیوں کی عبوری حکومت قائم ہوئی تھی۔ فلسطینیوں کے دو گروپ بن گیے تھے ان میں جھڑپیں ہونے لگی تھیں۔ حما س کو وجود میں لانے میں خلیج کے ملکوں کا رول تھا۔ Divide and Rule اسرائیل کی توسیع پسند پالیسیوں کے لیے Bonanza ثابت ہوئی تھی۔ یہ ایک طرح سے اسرائیل کی بہت بڑی مدد تھی۔ اسرائیل کو یہ کہنے کا موقعہ مل گیا تھا کہ فلسطینی کیونکہ متحد نہیں ہیں لہذا ان سے ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام پر بات نہیں ہو سکتی ہے۔
  اور اب 16 سال سے جنگوں نے مڈل ایسٹ کو عدم استحکام اور عربوں کو اتنا کمزور کر دیا ہے کہ وہ اپنے آپ کو امریکہ کے رحم و کرم پر  زندہ سمجھتے ہیں۔ صدر ٹرمپ اسے اسرائیل فلسطین تنازعہ کے حل میں ایک Golden opportunity دیکھ رہے ہیں۔ مقبوضہ یروشلم اور گولا ن کی چوٹیاں صدر ٹرمپ نے پہلے ہی اسرائیل کی Sovereignty قرار دے دئیے ہیں۔ اسرائیل فلسطین تنازعہ کا جو منصوبہ صدر ٹرمپ دینے جا رہے ہیں۔ اس کے بارے میں یہ خبریں ہیں کہ غازہ کو مصر کے حوالے کرنے کا منصوبہ ہے۔ جبکہ مغربی کنارے میں آباد فلسطینیوں کو ار دن کی انتظامیہ میں دیا جاۓ گا۔ اور جو فلسطینی عرب ملکوں میں مہاجرین کیمپوں میں ہیں ان سے انہیں شہریت دینے کا کہا جاۓ گا۔ اس کے عوض امریکہ ار دن کو 50 بلین ڈالر امداد دے گا۔ اگر یہ صدر ٹرمپ کا مڈل ایسٹ منصوبہ ہے۔ تو یہ دراصل اسرائیل کو 70 سال کی Headache سے نکال کر اسے مصر اور ار دن کے لیے Headache بنانا ہو گا۔
  اس ماہ بحرین میں فلسطینی علاقوں میں ترقیاتی کاموں کے لیے کھربوں ڈالر جمع کرنے کے لیے کانفرنس ہو گی۔ صدر ٹرمپ نے مالدار عرب ملکوں سے فنڈ ز دینے کے لیے کہا ہے۔ اس مقصد میں امریکہ کا عہد اور مالدار عربوں کے وعدے صرف Paper پر ہوں گے۔ ان پر عملدرامد کی کوئی ضمانت نہیں ہے۔ کھربوں ڈالروں کے ترقیاتی منصوبوں کے خواب دیکھا کر یہ فلسطینیوں کو Trap کرنے کا منصوبہ ہے۔ جس  طرح امریکہ اور مغربی طاقتوں نے ایران سے اس کے کھربوں ڈالر بحال کرنے اور اس پر سے اقتصادی بندشیں ختم کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ اور ایران سے اس کے ایٹمی سمجھوتہ پر دستخط  کرا لیے تھے۔ پھر ایک دوسری انتظامیہ  نے اس سمجھوتہ کو ماننے سے انکار کر دیا اور ایران پر تمام اقتصادی بندشیں دوبارہ بحال کر دی تھیں۔ ایران پر اب امریکہ کی سخت ترین بندشیں لگی ہوئی ہیں۔ اور یورپ سے امریکہ ایران کے ایٹمی سمجھوتہ پر عملدرامد بھی کروا رہا ہے۔ اسی طرح مصر اسرائیل کے درمیان کیمپ ڈیوڈ معاہدہ ہوا تھا۔ اس معاہدہ پر صرف اسرائیل کے مفاد کی حد تک عملدرامد  کرایا گیا تھا۔ حالانکہ صدر سادات نے صرف اس شرط پر معاہدہ پر دستخط کیے تھے کہ اسرائیل فلسطینیوں سے ان کی آزاد ریاست کے قیام پر مذاکرات کرے گا۔ ورنہ مصر اس معاہدہ کو Terminate کر دے گا۔ اس سمجھوتہ کے کچھ ماہ بعد صدر انور سادات کو قتل کر دیا  تھا۔ حسینی مبارک مصر کے نئے رہنما تھے۔ مصر کو 1.3 بلین ڈالر امداد دے کر انہیں کیمپ ڈیوڈ معاہدہ کا پابند رکھا تھا۔ لیکن اس معاہدہ پر مکمل عملدرامد نہیں کرایا گیا تھا۔ اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان Madrid معاہدہ  ہوا تھا۔ اس کے بعد اوسلو امن معاہدہ ہوا تھا۔ امریکہ نے ان معاہدوں پر عملدرامد کی ضمانت لی تھی اور ان معاہدوں پر دستخط بھی کیے تھے۔ فلسطینیوں کو اس Hope پر رکھا تھا کہ there’s a light at the end of the tunnel فلسطینی بچے 26 سال کے ہو گیے ہیں لیکن  at the end of the tunnel they are looking Israeli Tanks and Army ہر امریکی انتظامیہ نے ان معاہدوں کے ساتھ  وہ ہی کیا تھا جو صدر ٹرمپ نے ایران ایٹمی سمجھوتہ کے ساتھ کیا ہے۔ صدر ٹرمپ فلسطینیوں کی امداد بند کر کے  دولت مند عربوں کی امداد سے فلسطینیوں کی اقتصادی ترقی کے جس منصوبہ کی باتیں کر رہے ہیں۔ وہ صرف کاغذ پر ہیں۔ صدر ٹرمپ چلے جائیں گے۔ اسرائیل میں کوئی نیا Benjamin Netanyahu ہو گا اور وہ فلسطینیوں کی اقتصادی ترقی کو 10ہزارکی بلندی سے بمباری کر کے اسی طرح تباہ کر دے گا۔ جیسے اوسلو معاہدے کے بعد یورپی یونین کے فنڈ ز سے تعمیر نو کے کام ایرپورٹ  اور بندر گاہ اسرائیل نے بمباری کر کے تباہ کیے تھے۔ اسرائیل فلسطین تنازعہ پر اقوام متحدہ کی قراردادوں پر اسی طرح عملدرامد ہونا چاہیے جیسے امریکہ نے عراق کے مسئلہ پر اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عملدرامد کرایا تھا۔ اسرائیل کو 1967 کی سرحدوں پر جانا چاہیے۔ دنیا  میں اسے مثال نہیں بنایا جاۓ کہ اسرائیل نے 50 سال پہلے جنگ میں جن علاقوں پر قبضہ کیا تھا 50 سال بعد وہ اسرائیل کے Sovereign حصہ ہو گیے ہیں۔                                                                                            


No comments:

Post a Comment