Prime Minister Imran Khan “There Is No Military
Solution” President Donald Trump “Agree One Hundred Percent” That’s Why
American People Put Donald Trump In The White House To Leash The Uncontrolled
Warmongers
مجیب خان
President Donald Trump And Prime Minister Imran Khan In the Oval Office at the White House on july22, 2019 |
Bishkek, Kyrgyzstan, SCO summit, Prime Minister Imran Khan and President Vladimir Putin June 14, 2019 |
Prime Minister Imran Khan and Chinese President Xi Jinping on the sidelines of the SCO summit in Bishkek Kyrgyzstan, June14,2019 |
کرغستان کے دارالحکومت Bishkek میں شہنگائی ملکوں کی تنظیم کے سربراہوں کی کانفرس کے تقریباً 3ہفتہ
بعد اچانک یہ خبر آئی تھی کہ وزیر اعظم عمران خان 22 جولائی کو وائٹ ہاؤس میں صدر
ٹرمپ سے ملاقات کریں گے۔ اس اچانک ملاقات کا ایجنڈہ کیا تھا۔ اس بارے میں کچھ نہیں
بتایا گیا تھا۔ تاہم دونوں ملکوں کے رہنماؤں کے درمیان ملاقات کے ریڈار پر
افغانستان آ گیا تھا۔ میرے خیال میں افغانستان سے زیادہ بعض دوسرے اہم موضوع بھی
تھے۔ صدر ٹرمپ کی افغانستان میں بہت کم دلچسپی ہے۔ بش اور پھر اوبامہ کی افغان جنگ
کو صدر ٹرمپ نے ابھی تک اپنی جنگ نہیں بنایا ہے۔ صدر ٹرمپ نے ابھی تک افغانستان کا
دورہ بھی نہیں کیا ہے۔ صدر ٹرمپ افغانستان سے فوری طور پر فوجیں واپس بلانا چاہتے
تھے۔ لیکن پینٹ گان میں جنرلوں اور ان کی پارٹی کے بعض سینیٹر ز کے Objections پر صدر ٹرمپ نے کچھ اور وقت دینے کا فیصلہ کیا تھا۔ اور اب اس سال
کے آخر تک افغانستان سے فوجیں واپس بلانے کا کام شروع ہو جاۓ گا۔ یہ امریکہ کی
تاریخ کی سب سے طویل جنگ ہے۔ جو 19 سال بعد ناکام ہونے پر ختم ہو رہی ہے۔ صرف اس سال
امریکہ کے 22 فوجی افغانستان میں ہلاک ہو چکے ہیں۔ صدر ٹرمپ کے لیے کمانڈر انچیف کی
حیثیت سے ائیر پورٹ پر ان کے کفن وصول کرنا بڑا تکلیف دہ منظر ہوتا ہے۔ لہذا صدر
ٹرمپ افغانستان سے فوجیں واپس بلانے میں بہت سنجیدہ ہیں۔
پاکستان بھی افغانستان میں امن میں بہت سنجیدہ
ہے۔ لوگوں کی لاشیں کابل کی سڑکوں پر پڑی ہوں یا پشاور کی سڑکوں پر پاکستان کے لیے
یہ درد ناک منظر ہوتے ہیں۔ بش اور اوبامہ انتظامیہ نے پاکستان پر دو جنگیں مسلط کی
تھیں۔ ایک القا عدہ کے خلاف دہشت گردی کی جنگ اور دوسری افغانستان میں امریکہ اور
نیٹو فوجوں کے خلاف طالبان کی دہشت گردی کی جنگ تھی۔ اور پاکستان کی فوج نے بڑی
بہادری سے دو جنگوں کا سامنا کیا تھا۔ اور اگر اس میں بھارت ایک Existential Enemy کو بھی شامل کر لیا
جاۓ تو پاکستان کی فوج دو جنگیں پاکستان کی بقا کی اور ایک جنگ امریکہ کے لیے لڑ
رہی تھی۔ وزیر اعظم عمران خان نے وائٹ ہاؤس میں یہ درست کہا کہ 'اس کے باوجود پاکستان
کو یہ الزام دیا جاتا ہے کہ پاکستان نے کچھ نہیں کیا تھا۔' پاکستان نے افغانستان
میں مداخلت بند کر دی ہے۔ طالبان افغانستان کا مسئلہ ہے۔ تاہم پاکستان نے طالبان
کو امریکہ کے سامنے لا کر بھیٹا دیا ہے۔ جس کے لیے طالبان کبھی تیار نہیں تھے۔
سیکرٹیری آف اسٹیٹ Mike
Pompeo نے زالمے خلیل زاد کو جو
خود بھی افغان ہیں۔ طالبان سے مذاکرات کرنے کے لیے امریکہ کا امن نمائندہ مقرر کیا
ہے۔ زالمے خلیل زاد اور طالبان کے درمیان مذاکرات کے کئی راؤنڈ ہو چکے ہیں۔ اور
امن کی سمت میں کچھ پیش رفت بھی ہوئی ہے۔ پاکستان بھی زالمے خلیل زاد سے رابطہ میں
ہے۔ مذاکرات کے راستہ سے 15,000 پونڈ کے Daisy Cutter ہٹانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ صدر
ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس میں وزیر اعظم عمران خان سے ملاقات میں پہلی بار افغانستان میں
پاکستان کی سنجیدہ کوششوں کا اعتراف کیا ہے۔ اور اسے Appreciate بھی کیا ہے۔ صدر ٹرمپ یہ بھی جانتے ہوں گے کہ پاکستان اس سے زیادہ اور کچھ نہیں کر سکتا
ہے۔
دوسری طرف روس بھی افغانستان میں
ایک سیاسی حل کے لیے کوششیں کر رہا ہے۔ اس
سال مئی میں عبدالغنی برادر کی قیادت میں طالبان کے وفد نے ماسکو میں افغان سیاسی
رہنماؤں سے ملاقات کی تھی۔ طالبان رہنما ملا برادر نے افغانستان میں امن کے لیے
اپنے پختہ عزم کا اظہار کیا تھا۔ اور اس کے لیے پہلا اقدام افغانستان سے غیر ملکی
فوجوں کے انخلا کا مطالبہ تھا۔ ماسکو کانفرنس میں زیادہ بڑی تعداد اشرف غنی حکومت
کے مخالفین سیاسی رہنماؤں کی تھی۔ جبکہ سابق افغان صدر حامد کر زئی 25رکنی
افغانستان کی اعلی امن کونسل کے وفد میں شامل تھے۔ وفد میں افغانستان کے سلامتی امور کے سابق مشیر حنیف ایتمار [Atmar]بھی شامل تھے۔ ملا برادر کو گزشتہ سال پاکستان
نے زالمے خلیل زاد کی درخواست پر رہا کیا تھا۔ امریکہ کے ساتھ روس بھی افغانستان
میں اپنی علیحدہ کوششیں کر رہا ہے۔ روس کے وزیر خارجہ Sergey Lavrov کانفرنس میں افغان گروپوں کے
درمیان اختلافات ختم کرنے اور انہیں ایک مشترکہ امن ایشو پر مکمل اتفاق اور اس پر
کام کرنے کے لیے تیار کر رہے تھے۔ روس نے بھی طالبان کے اس مطالبہ کی حمایت کی ہے کہ
امن سمجھوتہ سے قبل امریکی فوجوں کو افغانستان سے جانا چاہیے۔ صدر ٹرمپ بھی روس کی
ان کوششوں سے با خوبی آگاہ ہیں۔ ادھر افغانستان میں امریکی جنرل اسلام آباد آتے
رہتے ہیں اور GHQ میں آرمی چیف
جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملتے رہتے ہیں۔ افغانستان میں امن کے لیے جاری ان کوششوں کے
علاوہ صدر ٹرمپ اور وزیر اعظم عمران خان کے درمیان کیا نئی بات ہو سکتی تھی؟
اس وقت اہم ایشو Geo Strategic Politics جس میں امریکہ کہاں
ہے؟ پاکستان ترکی اور ایران سرد جنگ میں امریکہ کے انتہائی اہم قریبی اتحادی تھے۔ 70s کے آخر میں امریکہ نے ایران کھو
دیا تھا۔ شاہ ایران کا زوال ہو گیا تھا۔ ایران میں اسلامی انقلاب آ گیا تھا۔ تقریباً
50 سال سے امریکہ کے ایران کے ساتھ معمول کے تعلقات بحال نہیں ہو سکے ہیں۔ اور اب
بہت ہی خراب ہیں۔ سرد جنگ ختم ہونے کے بعد امریکہ کے پاکستان کے ساتھ تعلقات سرد
ہو گیے تھے۔ امریکہ نے پاکستان پر ایٹمی ری پروسسنگ پلانٹ کے مسئلہ پر پاکستان پر
اقتصادی بندشیں لگا دی تھیں۔ 9/11 کے بعد امریکہ
نے پاکستان کے ساتھ نئے تعلقات کا آغاز کیا تھا۔ لیکن پھر افغانستان میں امریکہ کی
مسلسل ناکامیوں کی بجلی پاکستان پر گرنے لگی تھی۔ امریکہ افغانستان میں طالبان کے
خلاف جنگ ہار رہا تھا اور اس کا الزام پاکستان کو دیا جا رہا تھا۔ امریکہ اور
پاکستان کے تعلقات ایک بار پھر Cold Mode میں آ گیے تھے۔ ترکی کے ساتھ امریکہ کے تعلقات شام کی خانہ جنگی
میں امریکہ کی کرد و ں کی حمایت اور انہیں ہتھیاروں سے مسلح کرنے کی پالیسی کے
نتیجہ میں خراب ہو گیے تھے۔ ترکی نیٹو کا رکن ہے۔ لیکن نیٹو ملک شام کی خانہ جنگی
میں جیسے ترکی کی سلامتی اور استحکام کے مفاد کے خلاف کام کر رہے تھے۔ یہاں امریکہ
کے ہر ایکشن کا فوری ری ایکشن ہو رہا تھا۔ شام کی جنگ ترکی اور روس کو ایک دوسرے کے قریب لے آئی تھی۔
دونوں ملکوں کے مفادات ایک ہو گیے تھے۔ ترکی نے روس سے میزائل ڈیفنس سسٹم خریدنے
کا معاہدہ کر لیا تھا۔ جس پر امریکہ اور نیٹو نے ترکی سے یہ معاہد منسوخ کرنے کا
مطالبہ کیا تھا۔ لیکن صدر طیب اردو گان نے ان کا مطالبہ ماننے سے انکار کر دیا
تھا۔ روس کا یہ ڈیفنس سسٹم ترکی پہنچ گیا ہے۔ امریکہ نے ترکی پر اقتصادی بندشیں
لگانے کا کہا تھا۔ لیکن ترکی نیٹو کا رکن ملک ہے۔ اور بہت اہم ملک ہے۔ اور ترکی کے لیے روس کے ساتھ تعلقات خصوصی
اہمیت اختیار کر رہے ہیں۔
پاکستان کے چین کے ساتھ تعلقات ہمیشہ صدا بہار
رہیں گے۔ دونوں ملکوں کے اقتصادی مفادات اور قومی سلامتی ایک دوسرے سے جوڑ گیے
ہیں۔ اور ان کی بنیادیں بہت مضبوط ہیں۔ گزشتہ چند سالوں میں پاکستان روس تعلقات کو
بھی فروغ ملا ہے۔ روس اور پاکستان میں ملٹری ٹو ملٹری تعلقات بحال ہوۓ ہیں۔ دونوں
ملکوں کے درمیان مشترکہ فوجی مشقیں بھی ہوئی ہیں۔ حال ہی میں روس کے فوجی جنرلوں
کا ایک وفد پاکستان آیا تھا۔ اور GHQ میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور دوسرے اعلی فوجی افسروں سے
علاقائی صورت حال اور بعض دوسرے اہم امور پر تعاون کرنے پر تبادلہ خیال کیا تھا۔
گزشتہ ماہ Bishkek کرغستان میں شہنگائی ملکوں کی تنظیم کے سربراہوں کی کانفرنس میں
صدر پو تن کو وزیر اعظم عمران خان کے ساتھ بہت قریب ہوتے دیکھا تھا۔ کانفرنس کی
ٹیبل پر بھی صدر پو تن وزیر اعظم عمران خان کے برابر بھیٹے تھے۔ جبکہ چین کے صدر
شی وزیر اعظم عمران خان کے دوسری طرف برابر میں بھیٹے تھے۔ اور ان سے گفتگو کا
سلسلہ بھی جاری تھا۔ پھر شہنگائی ملکوں کے رہنماؤں کے ڈنر کے دوران بھی صدر پو تن
وزیر اعظم عمران خان کے برابر بھیٹے تھے۔ دونوں کے درمیان بات چیت جاری تھی۔ پھر
شہنگائی کانفرنس کے شرکا کے گروپ فوٹو میں بھی وزیر اعظم عمران خان کے ایک طرف
برابر میں صدر پو تن تھے اور دوسری طرف چین کے صدر شی تھے۔ یہاں بھی صدر پو تن اور
وزیر اعظم عمران خان میں گفتگو جاری تھی۔ واشنگٹن میں کانفرنس کے اعلامیہ پر شاید
اتنی توجہ نہیں دی گئی ہو گی کہ جتنی صدر پو تن اور وزیر اعظم عمران خان کے درمیان
Interaction پر توجہ مرکوز
ہو گی۔ بہرحال ترکی کو کھونے اور ایران سے خراب تعلقات کی صورت میں امریکہ کے لیے
ایک اکلوتا پاکستان رہے گیا تھا۔ جسے دوبارہ امریکہ کے Orbit میں لایا جا سکتا تھا۔
CPEC نے پاکستان کی اہمیت دگنی کر دی ہے۔ چین کے ساتھ روس کے CPEC میں آنے سے یہ اہمیت Triple ہو جاۓ گی۔ روس نے وسط ایشیا سے
گیس پائپ لائن پاکستان میں لانے کا سمجھوتہ بھی کیا ہے۔ صدر ٹرمپ کی اس وقت اہم Priority امریکہ کو آئل اور گیس برآمد کرنے میں پہلے مقام پر لانا ہے۔ اس لیے
امریکہ نے روس پر بندشیں لگائی ہیں۔ اس لیے امریکہ نے ایران پر بندشیں لگائی ہیں۔
اس لیے امریکہ نے ونزویلا پر بندشیں لگائی ہیں۔ اور جو بھی ان ملکوں سے تیل خریدے
گا ان پر بھی بندشیں لگانے کا کہا ہے۔ بھارت سعودی عرب کے علاوہ ایران سے بھی آئل
خریدتا تھا۔ مودی حکومت کو یہ توقع تھی کہ صدر ٹرمپ ایران پر بندشوں سے بھارت کو
مستثنی ر کھیں گے۔ اور بھارت ایران سے آئل برآمد کرتا رہے گا۔ لیکن صدر ٹرمپ نے
اسے مستر د کر دیا اور بھارت سے امریکہ سے آئل بر آمد کرنے کا کہا ہے۔ اور اب
سعودی عرب کے بعد امریکہ بھارت کو آئل بر آمد کر رہا ہے۔
CPEC منصوبہ اب ایک حقیقت بن گیا ہے۔ اس منصوبہ پر 60بلین ڈالر کا Price Tag ہے۔ اور یہ کوئی معمولی نوعیت کا
انویسٹمینٹ نہیں ہے۔ بلاشبہ اس منصوبے کے بارے میں چین نے امریکی انتظامیہ کو آگاہ
کیا ہو گا۔ جس کے بعد چین نے اس منصوبہ پر 60بلین ڈالر خرچ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
صدر ٹرمپ گوادر کی بندر گاہ میں امریکہ کے لیے راہداری دیکھ رہے ہیں۔ اور یہاں سے
امریکہ کا آئل اور گیس مشرق بعید میں پہنچ
سکتا ہے۔ صدر ٹرمپ بزنس مین ہیں اور وہ بزنس نقطہ نظر سے پاکستان کو دیکھ رہے ہیں۔
یہ پس منظر ہے جس میں عمران خان کے وزیر اعظم بننے کے بعد خلیج کے رہنما پاکستان
آۓ تھے۔ اور وزیر اعظم عمران خان کا بھی خلیج کے ملکوں میں بڑا والہانہ استقبال
کیا گیا تھا۔ قطر نے پاکستان کے ساتھ 15سال کا LNG فراہم کرنے کا معاہدہ کیا ہے۔ سعودی عرب نے پاکستان کو تین سال کے
لیے آئل کریڈٹ پر دینے کا وزیر اعظم عمران خان کے دورہ سعودی عرب کے دوران کہا
تھا۔ لیکن وزیر اعظم عمران خان کے امریکہ روانہ ہونے سے صرف چند گھنٹے قبل کریڈٹ
پر سعودی تیل کراچی پہنچا تھا۔ شاید کسی موقع پر ملٹری امداد کی طرح امریکہ آئل
اور گیس بھی کریڈٹ پر دینے لگے گا۔
وزیر اعظم عمران خان کے امریکہ دورہ
پر ایک خبر یہ بھی تھی کہ صدر ٹرمپ نے وزیر اعظم عمران خان کو سعودی ولی عہد
شہزادہ محمد بن سلمان کے کہنے پر یہ دعوت دی تھی۔ اس خبر کو Twist کیا گیا ہے۔ اور ولی عہد کو ٹرمپ عمران ملاقات کا کریڈٹ دینے کی
کوشش کی ہے۔ صدر ٹرمپ آئندہ چند ماہ میں فلسطین اسرائیل تنازعہ پر ‘Deal of the century’ پیش کریں گے۔
جس کے مصنف صدر ٹرمپ کے داماد Jared Kushner ہیں۔ ولی عہد شہزادہ محمد نے اس پلان کی حمایت ہے۔ بحرین نے بھی اس کی حمایت کی ہے۔
اور بحرین اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے کی تیاری کر رہا ہے۔ شاید، ولی
عہد شہزادہ محمد نے Jared
Kushner کو یہ تجویز دی ہو گی کہ اس پلان پر پاکستان کی حمایت بھی حاصل کی
جاۓ۔ پاکستان ایک اہم اسلامی ملک ہے۔ اور اسلامک ورلڈ میں اس کی حمایت کا اچھا اثر
ہو گا۔ صدر ٹرمپ ستمبر میں اسرائیل میں انتخاب کے بعد یہ پلان پیش کریں گے۔ صدر
ٹرمپ کی وائٹ ہاؤس میں وزیر اعظم عمران خان سے ملاقات میں شاید اس پر بھی بات ہوئی
ہو گی۔ صدر ٹرمپ نے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے کے لیے بھی کہا ہو
گا۔
لیکن ‘Deal of the century’ کی اسلامی دنیا میں پہلے ہی مخالفت میں آوازیں اٹھ رہی ہیں۔ توقع
ہے کہ اسے اسلامی ملکوں کی بھاری اکثریت مستر د کر دے گی۔ کیونکہ یہ یکطرفہ پلان
ہے۔ فلسطینیوں سے اس پلان کے بارے میں کوئی مشورہ نہیں کیا گیا ہے۔ یہ Bias پلان ہے جو فلسطینیوں پر مسلط کیا
جا رہا ہے۔ صدر ٹرمپ نے پہلے ہی یروشلم اسرائیل کو دے دیا ہے۔ گولان کی چوٹیوں پر
اسرائیل کا قبضہ قانونی قرار دے دیا ہے۔ جس امن پلان کو عالمی قوانین کی خلاف
ورزیوں پر قانونی نقشہ دیا جا رہا ہے۔ اسے صرف وہ ہی اسلامی ممالک قبول کریں گے جن
کے نزدیک عالمی قوانین کوئی اہمیت رکھتے ہیں۔ نہ ریاست کے قانون میں یقین رکھتے
ہیں۔ جو انسانی حقوق کے سب سے بڑے Polluter ہیں۔ عمران خان نے قانون کی حکمرانی کے لیے ایک طویل جد و جہد کی
ہے۔ خواہ یہ قانون کی حکمرانی ریاست کا نظام ہو۔ یا عالمی امور میں عالمی قوانین کو
اہمیت دی جاۓ۔