Monday, July 29, 2019

Prime Minister Imran Khan “There Is No Military Solution” President Donald Trump “Agree One Hundred Percent” That’s Why American People Put Donald Trump In The White House To Leash The Uncontrolled Warmongers



   Prime Minister Imran Khan “There Is No Military Solution” President Donald Trump “Agree One Hundred Percent” That’s Why American People Put Donald Trump In The White House To Leash The Uncontrolled Warmongers 
مجیب خان


President Donald Trump And Prime Minister Imran Khan In the Oval Office at the White House on
july22, 2019



Bishkek, Kyrgyzstan, SCO summit, Prime Minister Imran Khan  and President Vladimir Putin June 14, 2019 

Prime Minister Imran Khan and Chinese President Xi Jinping on the sidelines of the SCO summit in Bishkek Kyrgyzstan, June14,2019 


   کرغستان کے دارالحکومت Bishkek میں شہنگائی ملکوں کی تنظیم کے سربراہوں کی کانفرس کے تقریباً 3ہفتہ بعد اچانک یہ خبر آئی تھی کہ وزیر اعظم عمران خان 22 جولائی کو وائٹ ہاؤس میں صدر ٹرمپ سے ملاقات کریں گے۔ اس اچانک ملاقات کا ایجنڈہ کیا تھا۔ اس بارے میں کچھ نہیں بتایا گیا تھا۔ تاہم دونوں ملکوں کے رہنماؤں کے درمیان ملاقات کے ریڈار پر افغانستان آ گیا تھا۔ میرے خیال میں افغانستان سے زیادہ بعض دوسرے اہم موضوع بھی تھے۔ صدر ٹرمپ کی افغانستان میں بہت کم دلچسپی ہے۔ بش اور پھر اوبامہ کی افغان جنگ کو صدر ٹرمپ نے ابھی تک اپنی جنگ نہیں بنایا ہے۔ صدر ٹرمپ نے ابھی تک افغانستان کا دورہ بھی نہیں کیا ہے۔ صدر ٹرمپ افغانستان سے فوری طور پر فوجیں واپس بلانا چاہتے تھے۔ لیکن پینٹ گان میں جنرلوں اور ان کی پارٹی کے بعض سینیٹر ز  کے Objections پر صدر ٹرمپ نے کچھ اور وقت دینے کا فیصلہ کیا تھا۔ اور اب اس سال کے آخر تک افغانستان سے فوجیں واپس بلانے کا کام شروع ہو جاۓ گا۔ یہ امریکہ کی تاریخ کی سب سے طویل جنگ ہے۔ جو 19 سال بعد ناکام ہونے پر ختم ہو رہی ہے۔ صرف اس سال امریکہ کے 22 فوجی افغانستان میں ہلاک ہو چکے ہیں۔ صدر ٹرمپ کے لیے کمانڈر انچیف کی حیثیت سے ائیر پورٹ پر ان کے کفن وصول کرنا بڑا تکلیف دہ منظر ہوتا ہے۔ لہذا صدر ٹرمپ افغانستان سے فوجیں واپس بلانے میں بہت سنجیدہ ہیں۔
   پاکستان بھی افغانستان میں امن میں بہت سنجیدہ ہے۔ لوگوں کی لاشیں کابل کی سڑکوں پر پڑی ہوں یا پشاور کی سڑکوں پر پاکستان کے لیے یہ درد ناک منظر ہوتے ہیں۔ بش اور اوبامہ انتظامیہ نے پاکستان پر دو جنگیں مسلط کی تھیں۔ ایک القا عدہ کے خلاف دہشت گردی کی جنگ اور دوسری افغانستان میں امریکہ اور نیٹو فوجوں کے خلاف طالبان کی دہشت گردی کی جنگ تھی۔ اور پاکستان کی فوج نے بڑی بہادری سے دو جنگوں کا سامنا کیا تھا۔ اور اگر اس میں بھارت ایک Existential Enemy کو بھی شامل کر لیا جاۓ تو پاکستان کی فوج دو جنگیں پاکستان کی بقا کی اور ایک جنگ امریکہ کے لیے لڑ رہی تھی۔ وزیر اعظم عمران خان نے وائٹ ہاؤس میں یہ درست کہا کہ 'اس کے باوجود پاکستان کو یہ الزام دیا جاتا ہے کہ پاکستان نے کچھ نہیں کیا تھا۔' پاکستان نے افغانستان میں مداخلت بند کر دی ہے۔ طالبان افغانستان کا مسئلہ ہے۔ تاہم پاکستان نے طالبان کو امریکہ کے سامنے لا کر بھیٹا دیا ہے۔ جس کے لیے طالبان کبھی تیار نہیں تھے۔ سیکرٹیری آف اسٹیٹ Mike Pompeo نے زالمے خلیل  زاد کو جو خود بھی افغان ہیں۔ طالبان سے مذاکرات کرنے کے لیے امریکہ کا امن نمائندہ مقرر کیا ہے۔ زالمے خلیل زاد اور طالبان کے درمیان مذاکرات کے کئی راؤنڈ ہو چکے ہیں۔ اور امن کی سمت میں کچھ پیش رفت بھی ہوئی ہے۔ پاکستان بھی زالمے خلیل زاد سے رابطہ میں ہے۔ مذاکرات کے راستہ سے 15,000 پونڈ کے Daisy Cutter ہٹانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ صدر ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس میں وزیر اعظم عمران خان سے ملاقات میں پہلی بار افغانستان میں پاکستان کی سنجیدہ کوششوں کا اعتراف کیا ہے۔ اور اسے Appreciate بھی کیا ہے۔ صدر ٹرمپ  یہ بھی جانتے ہوں  گے کہ پاکستان اس سے زیادہ اور کچھ نہیں کر سکتا ہے۔
   دوسری طرف روس بھی افغانستان میں ایک سیاسی حل کے لیے  کوششیں کر رہا ہے۔ اس سال مئی میں عبدالغنی برادر کی قیادت میں طالبان کے وفد نے ماسکو میں افغان سیاسی رہنماؤں سے ملاقات کی تھی۔ طالبان رہنما ملا برادر نے افغانستان میں امن کے لیے اپنے پختہ عزم کا اظہار کیا تھا۔ اور اس کے لیے پہلا اقدام افغانستان سے غیر ملکی فوجوں کے انخلا کا مطالبہ تھا۔ ماسکو کانفرنس میں زیادہ بڑی تعداد اشرف غنی حکومت کے مخالفین سیاسی رہنماؤں کی تھی۔ جبکہ سابق افغان صدر حامد کر زئی 25رکنی افغانستان کی اعلی امن کونسل کے وفد میں شامل تھے۔ وفد میں افغانستان کے  سلامتی امور کے سابق مشیر حنیف ایتمار [Atmar]بھی شامل تھے۔ ملا برادر کو گزشتہ سال پاکستان نے زالمے خلیل زاد کی درخواست پر رہا کیا تھا۔ امریکہ کے ساتھ روس بھی افغانستان میں اپنی علیحدہ کوششیں کر رہا ہے۔ روس کے وزیر خارجہ Sergey Lavrov کانفرنس میں افغان گروپوں کے درمیان اختلافات ختم کرنے اور انہیں ایک مشترکہ امن ایشو پر مکمل اتفاق اور اس پر کام کرنے کے لیے تیار کر رہے تھے۔ روس نے بھی طالبان کے اس مطالبہ کی حمایت کی ہے کہ امن سمجھوتہ سے قبل امریکی فوجوں کو افغانستان سے جانا چاہیے۔ صدر ٹرمپ بھی روس کی ان کوششوں سے با خوبی آگاہ ہیں۔ ادھر افغانستان میں امریکی جنرل اسلام آباد آتے رہتے ہیں اور GHQ میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملتے رہتے ہیں۔ افغانستان میں امن کے لیے جاری ان کوششوں کے علاوہ صدر ٹرمپ اور وزیر اعظم عمران خان کے درمیان کیا نئی بات ہو سکتی تھی؟
  اس وقت اہم ایشو Geo Strategic Politics جس میں امریکہ کہاں ہے؟ پاکستان ترکی اور ایران سرد جنگ میں امریکہ کے انتہائی اہم قریبی اتحادی تھے۔ 70s کے آخر میں امریکہ نے ایران کھو دیا تھا۔ شاہ ایران کا زوال ہو گیا تھا۔ ایران میں اسلامی انقلاب آ گیا تھا۔ تقریباً 50 سال سے امریکہ کے ایران کے ساتھ معمول کے تعلقات بحال نہیں ہو سکے ہیں۔ اور اب بہت ہی خراب ہیں۔ سرد جنگ ختم ہونے کے بعد امریکہ کے پاکستان کے ساتھ تعلقات سرد ہو گیے تھے۔ امریکہ نے پاکستان پر ایٹمی ری پروسسنگ پلانٹ کے مسئلہ پر پاکستان پر اقتصادی بندشیں لگا دی تھیں۔ 9/11 کے بعد امریکہ نے پاکستان کے ساتھ نئے تعلقات کا آغاز کیا تھا۔ لیکن پھر افغانستان میں امریکہ کی مسلسل ناکامیوں کی بجلی پاکستان پر گرنے لگی تھی۔ امریکہ افغانستان میں طالبان کے خلاف جنگ ہار رہا تھا اور اس کا الزام پاکستان کو دیا جا رہا تھا۔ امریکہ اور پاکستان کے تعلقات ایک بار پھر Cold Mode میں آ گیے تھے۔ ترکی کے ساتھ امریکہ کے تعلقات شام کی خانہ جنگی میں امریکہ کی کرد و ں کی حمایت اور انہیں ہتھیاروں سے مسلح کرنے کی پالیسی کے نتیجہ میں خراب ہو گیے تھے۔ ترکی نیٹو کا رکن ہے۔ لیکن نیٹو ملک شام کی خانہ جنگی میں جیسے ترکی کی سلامتی اور استحکام کے مفاد کے خلاف کام کر رہے تھے۔ یہاں امریکہ کے ہر ایکشن کا فوری ری ایکشن ہو رہا تھا۔ شام کی جنگ  ترکی اور روس کو ایک دوسرے کے قریب لے آئی تھی۔ دونوں ملکوں کے مفادات ایک ہو گیے تھے۔ ترکی نے روس سے میزائل ڈیفنس سسٹم خریدنے کا معاہدہ کر لیا تھا۔ جس پر امریکہ اور نیٹو نے ترکی سے یہ معاہد منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ لیکن صدر طیب اردو گان نے ان کا مطالبہ ماننے سے انکار کر دیا تھا۔ روس کا یہ ڈیفنس سسٹم ترکی پہنچ گیا ہے۔ امریکہ نے ترکی پر اقتصادی بندشیں لگانے کا کہا تھا۔ لیکن ترکی نیٹو کا رکن ملک ہے۔ اور بہت اہم  ملک ہے۔ اور ترکی کے لیے روس کے ساتھ تعلقات خصوصی اہمیت اختیار کر رہے ہیں۔
   پاکستان کے چین کے ساتھ تعلقات ہمیشہ صدا بہار رہیں گے۔ دونوں ملکوں کے اقتصادی مفادات اور قومی سلامتی ایک دوسرے سے جوڑ گیے ہیں۔ اور ان کی بنیادیں بہت مضبوط ہیں۔ گزشتہ چند سالوں میں پاکستان روس تعلقات کو بھی فروغ ملا ہے۔ روس اور پاکستان میں ملٹری ٹو ملٹری تعلقات بحال ہوۓ ہیں۔ دونوں ملکوں کے درمیان مشترکہ فوجی مشقیں بھی ہوئی ہیں۔ حال ہی میں روس کے فوجی جنرلوں کا ایک وفد پاکستان آیا تھا۔ اور GHQ میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور دوسرے اعلی فوجی افسروں سے علاقائی صورت حال اور بعض دوسرے اہم امور پر تعاون کرنے پر تبادلہ خیال کیا تھا۔
   گزشتہ ماہ Bishkek کرغستان میں شہنگائی ملکوں کی تنظیم کے سربراہوں کی کانفرنس میں صدر پو تن کو وزیر اعظم عمران خان کے ساتھ بہت قریب ہوتے دیکھا تھا۔ کانفرنس کی ٹیبل پر بھی صدر پو تن وزیر اعظم عمران خان کے برابر بھیٹے تھے۔ جبکہ چین کے صدر شی وزیر اعظم عمران خان کے دوسری طرف برابر میں بھیٹے تھے۔ اور ان سے گفتگو کا سلسلہ بھی جاری تھا۔ پھر شہنگائی ملکوں کے رہنماؤں کے ڈنر کے دوران بھی صدر پو تن وزیر اعظم عمران خان کے برابر بھیٹے تھے۔ دونوں کے درمیان بات چیت جاری تھی۔ پھر شہنگائی کانفرنس کے شرکا کے گروپ فوٹو میں بھی وزیر اعظم عمران خان کے ایک طرف برابر میں صدر پو تن تھے اور دوسری طرف چین کے صدر شی تھے۔ یہاں بھی صدر پو تن اور وزیر اعظم عمران خان میں گفتگو جاری تھی۔ واشنگٹن میں کانفرنس کے اعلامیہ پر شاید اتنی توجہ نہیں دی گئی ہو گی کہ جتنی صدر پو تن اور وزیر اعظم عمران خان کے درمیان Interaction پر توجہ مرکوز ہو گی۔ بہرحال ترکی کو کھونے اور ایران سے خراب تعلقات کی صورت میں امریکہ کے لیے ایک اکلوتا پاکستان رہے گیا تھا۔ جسے دوبارہ امریکہ کے Orbit میں لایا جا سکتا تھا۔
  CPEC نے پاکستان کی اہمیت دگنی کر دی ہے۔ چین کے ساتھ روس کے CPEC میں آنے سے یہ اہمیت Triple ہو جاۓ گی۔ روس نے وسط ایشیا سے گیس پائپ لائن پاکستان میں لانے کا سمجھوتہ بھی کیا ہے۔ صدر ٹرمپ کی اس وقت اہم Priority امریکہ کو آئل اور گیس  برآمد کرنے میں پہلے مقام پر لانا ہے۔ اس لیے امریکہ نے روس پر بندشیں لگائی ہیں۔ اس لیے امریکہ نے ایران پر بندشیں لگائی ہیں۔ اس لیے امریکہ نے ونزویلا پر بندشیں لگائی ہیں۔ اور جو بھی ان ملکوں سے تیل خریدے گا ان پر بھی بندشیں لگانے کا کہا ہے۔ بھارت سعودی عرب کے علاوہ ایران سے بھی آئل خریدتا تھا۔ مودی حکومت کو یہ توقع تھی کہ صدر ٹرمپ ایران پر بندشوں سے بھارت کو مستثنی ر کھیں گے۔ اور بھارت ایران سے آئل برآمد کرتا رہے گا۔ لیکن صدر ٹرمپ نے اسے مستر د کر دیا اور بھارت سے امریکہ سے آئل بر آمد کرنے کا کہا ہے۔ اور اب سعودی عرب کے بعد امریکہ بھارت کو آئل بر آمد کر رہا ہے۔
  CPEC منصوبہ اب ایک حقیقت بن گیا ہے۔ اس منصوبہ پر 60بلین ڈالر کا Price Tag ہے۔ اور یہ کوئی معمولی نوعیت کا انویسٹمینٹ نہیں ہے۔ بلاشبہ اس منصوبے کے بارے میں چین نے امریکی انتظامیہ کو آگاہ کیا ہو گا۔ جس کے بعد چین نے اس منصوبہ پر 60بلین ڈالر خرچ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ صدر ٹرمپ گوادر کی بندر گاہ میں امریکہ کے لیے راہداری دیکھ رہے ہیں۔ اور یہاں سے امریکہ کا آئل اور گیس  مشرق بعید میں پہنچ سکتا ہے۔ صدر ٹرمپ بزنس مین ہیں اور وہ بزنس نقطہ نظر سے پاکستان کو دیکھ رہے ہیں۔ یہ پس منظر ہے جس میں عمران خان کے وزیر اعظم بننے کے بعد خلیج کے رہنما پاکستان آۓ تھے۔ اور وزیر اعظم عمران خان کا بھی خلیج کے ملکوں میں بڑا والہانہ استقبال کیا گیا تھا۔ قطر نے پاکستان کے ساتھ 15سال کا LNG فراہم کرنے کا معاہدہ کیا ہے۔ سعودی عرب نے پاکستان کو تین سال کے لیے آئل کریڈٹ پر دینے کا وزیر اعظم عمران خان کے دورہ سعودی عرب کے دوران کہا تھا۔ لیکن وزیر اعظم عمران خان کے امریکہ روانہ ہونے سے صرف چند گھنٹے قبل کریڈٹ پر سعودی تیل کراچی پہنچا تھا۔ شاید کسی موقع پر ملٹری امداد کی طرح امریکہ آئل اور گیس بھی کریڈٹ پر دینے لگے گا۔
  وزیر اعظم عمران خان کے امریکہ دورہ پر ایک خبر یہ بھی تھی کہ صدر ٹرمپ نے وزیر اعظم عمران خان کو سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے کہنے پر یہ دعوت دی تھی۔ اس خبر کو Twist کیا گیا ہے۔ اور ولی عہد کو ٹرمپ عمران ملاقات کا کریڈٹ دینے کی کوشش کی ہے۔ صدر ٹرمپ آئندہ چند ماہ میں فلسطین اسرائیل تنازعہ پر ‘Deal of the century’ پیش کریں گے۔ جس کے مصنف صدر ٹرمپ کے داماد Jared Kushner ہیں۔ ولی عہد شہزادہ محمد نے اس پلان  کی حمایت ہے۔ بحرین نے بھی اس کی حمایت کی ہے۔ اور بحرین اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے کی تیاری کر رہا ہے۔ شاید، ولی عہد شہزادہ محمد نے Jared Kushner کو یہ تجویز دی ہو گی کہ اس پلان پر پاکستان کی حمایت بھی حاصل کی جاۓ۔ پاکستان ایک اہم اسلامی ملک ہے۔ اور اسلامک ورلڈ میں اس کی حمایت کا اچھا اثر ہو گا۔ صدر ٹرمپ ستمبر میں اسرائیل میں انتخاب کے بعد یہ پلان پیش کریں گے۔ صدر ٹرمپ کی وائٹ ہاؤس میں وزیر اعظم عمران خان سے ملاقات میں شاید اس پر بھی بات ہوئی ہو گی۔ صدر ٹرمپ نے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے کے لیے بھی کہا ہو گا۔
  لیکن ‘Deal of the century’ کی اسلامی دنیا میں پہلے ہی مخالفت میں آوازیں اٹھ رہی ہیں۔ توقع ہے کہ اسے اسلامی ملکوں کی بھاری اکثریت مستر د کر دے گی۔ کیونکہ یہ یکطرفہ پلان ہے۔ فلسطینیوں سے اس پلان کے بارے میں کوئی مشورہ نہیں کیا گیا ہے۔ یہ Bias پلان ہے جو فلسطینیوں پر مسلط کیا جا رہا ہے۔ صدر ٹرمپ نے پہلے ہی یروشلم اسرائیل کو دے دیا ہے۔ گولان کی چوٹیوں پر اسرائیل کا قبضہ قانونی قرار دے دیا ہے۔ جس امن پلان کو عالمی قوانین کی خلاف ورزیوں پر قانونی نقشہ دیا جا رہا ہے۔ اسے صرف وہ ہی اسلامی ممالک قبول کریں گے جن کے نزدیک عالمی قوانین کوئی اہمیت رکھتے ہیں۔ نہ ریاست کے قانون میں یقین رکھتے ہیں۔ جو انسانی حقوق کے سب سے بڑے Polluter ہیں۔ عمران خان نے قانون کی حکمرانی کے لیے ایک طویل جد و جہد کی ہے۔ خواہ یہ قانون کی حکمرانی ریاست کا نظام ہو۔ یا عالمی امور میں عالمی قوانین کو اہمیت دی جاۓ۔       
                                                                                              


Thursday, July 25, 2019

What Is The Saudi King Giving To His Children And Grand Children; Weapons, Wars, Hatred And Tribalism?



What Is The Saudi King Giving To His Children And Grand Children; Weapons, Wars, Hatred And Tribalism?

 Saudi Arabia Can Become The Norway Of The Middle East; A Very Prosperous Country In The World, Rich In Oil And Gas, It’s Closed To $1 Trillion In Sovereign Funds, Are The Largest Funds In The Oil And Gas Producing Countries
مجیب خان
Saudi Arabia's King Salman bin Abdulaziz Al Saud with his son and Crown Prince Mohammed bin Salman 

President Trump agree to $100 billion arms deal for Saudi Arabia in the war in Yemen



   




  تقریباً 25سال قبل خلیج کی پہلی جنگ کے بعد سعودی عرب نے اپنی سرزمین پر پہلی بار امریکی فوجوں کو قیام کرنے کی سہولتیں دی تھیں۔ حکومت کے اس فیصلے پر سعود یوں کو غصہ تھا۔ اور تشویش بھی تھی۔ ا سا مہ بن لادن جو سعودی شہری تھا۔ افغانستان کو کمیونسٹ فوجوں سے آزاد کرانے کے بعد ابھی سعودی عرب پہنچا تھا کہ اس نے سعودی عرب میں امریکی فوجوں کو دیکھا تو اسے  غصہ آ گیا کہ وہ ایک اسلامی افغانستان میں غیر ملکی فوجی قبضہ کے خلاف جہاد کرنے گیے تھے۔ اور اب اس کے ملک میں غیر ملکی فوجیں بھیٹی ہوئی تھیں۔ یہ دیکھ کر بن لادن نے افغان  جنگ کے جہادیوں سے سعودی عرب سے غیر ملکی  فوجوں کو نکالنے کے لیے جہاد کرنے کا کہا تھا۔ جس پر سعودی حکومت نے  ا سا مہ بن لادن کو ملک بدر کر دیا تھا۔ اس کے بعد کے واقعات عرب عوام بالخصوص اور دنیا بالعموم کے علم میں ہیں۔ یہ بادشاہوں کا خطہ ہے۔ اور یہاں حالات میں مثبت تبدیلی کبھی نہیں آتی ہے۔ اور یہ اس کا ثبوت ہے کہ سعودی شاہ نے 25 سال بعد ایک بار پھر 500 امریکی فوجوں کو سعودی عرب میں قیام کرنے کی اجازت دی ہے۔ یہ فیصلہ کیوں ضروری تھا۔ سعودی حکومت نے اس کی وضاحت نہیں کی ہے۔ حالانکہ صرف چند ہفتوں قبل صدر ٹرمپ نے کہا تھا کہ امریکہ کی 5ہزار فوجیں عراق میں ہیں اور یہ یہاں سے علاقہ میں ایران  کی  سرگرمیوں کو واچ کریں گی۔ اور عراق سعودی عرب سے دور نہیں ہے۔ جبکہ بحرین، کویت، قطر، ا و مان میں امریکہ کے فوجی اڈے ہیں۔ جہاں طیارہ بردار بحری بیڑے کھڑے ہیں۔ اور ایران کا گھراؤ کیے ہوۓ ہیں۔  دنیا کے کسی خطہ میں اتنی بڑی تعداد میں غیرملکی فوجی سرگرمیاں نہیں ہیں کہ جتنی بادشاہوں کے خطہ میں ہیں۔ یہاں امریکہ کے علاوہ برطانیہ اور فرانس کے طیارہ بردار بیڑے بھی کھڑے ہیں۔ بادشاہوں کو بیویاں رکھنے کا شوق سمجھ میں آتا ہے۔ لیکن اپنے خطہ میں بادشاہوں کا غیر ملکی فوجوں کو جمع کرنے کا شوق سمجھ میں نہیں آتا ہے۔ سعودی عرب نے اسلامی ملکوں کی بھی فوج قائم کی ہے۔ جو سعودی عرب میں ہیں۔ پاکستان آرمی کے سابق چیف جنرل راحیل شریف اسلامی فوج کی کمانڈ کر رہے ہیں۔ پھر سعودی عرب کی اپنی ایک قومی فوج بھی ہے۔ جس کے لیے سعودی حکومت امریکہ برطانیہ فرانس جرمنی اور اسپین سے کھربوں ڈالر کے ہتھیار ہر سال خریدتی ہے۔ سعودی عرب کے  بجٹ کا ایک بڑا حصہ دفاع اور مغربی ملکوں سے ہتھیاروں کو خریدنے پر خرچ ہوتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود بادشاہ Kingdom کو اتنا زیادہ Vulnerable سمجھتے ہیں کہ اب 500 امریکی فوجی بلاۓ ہیں۔ سعودی بہت Naive ہیں۔ انہیں شاید یہ معلوم نہیں ہے کہ ڈیڑھ لاکھ امریکی فوج 19 سال میں افغانستان کو سلامتی امن اور استحکام نہیں دے سکی ہے۔ اس سے کیا سبق لیا جاۓ؟ جب سے مڈل ایسٹ میں ہتھیاروں کی فروخت بڑھتی جا رہی ہے۔ ہر طرف غیر ملکی فوجی اڈے تعمیر ہو رہے ہیں۔ اس خطہ میں ہر ملک کی سلامتی خطرے میں ہے۔ عدم استحکام، انتشار لڑائیاں اور جنگیں اس خطہ میں نسلوں کا مستقبل ہے۔
  سعودی عرب کی خطہ میں امن اور استحکام کے لیے اتنی کوششیں نہیں ہیں کہ جس قدر سعودی حکومت ہتھیاروں اور جنگوں پر خرچ کرتی ہے۔ یہ سعودی پالیسی ہے جو سلامتی اور استحکام کے خطرے پیدا کر رہی ہے۔ اور خلیج کے دوسرے ملکوں کو بھی اس میں گھسیٹ رہی ہے۔ سعودی عرب خلیجی ریاستوں کا فوجی اتحاد  یمن میں جنگ نہیں جیت سکا ہے۔ تقریباً 4سال ہو گیے ہیں۔ سعودی قیادت میں اتحاد کو یمن میں ایک انچ بھی کامیابی نہیں ہوئی ہے۔  صرف املاک تباہ اور بے گناہ شہریوں کو ہلاک کیا ہے۔ جبکہ امریکہ برطانیہ اور فرانس سعودی قیادت میں اتحاد کے پشت پر تھے۔ انہیں ہتھیار فراہم کرنے میں دیر نہیں کرتے تھے۔ لیکن خلیجی اتحاد یمن فتح نہیں کر سکا۔ ہوتی بڑی بہادری سے مقابلہ کر رہے ہیں۔ ان کی پشت پر صرف چند ملکوں کی Moral support ہے۔ شام میں حکومت کے خلاف دہشت گردوں کی خانہ جنگی میں سعودی عرب خلیجی ملکوں کے ساتھ امریکہ کی قیادت میں انتہا پسند باغیوں کی حمایت کر رہا تھا۔ امریکہ انہیں تربیت اور ہتھیار دے رہا تھا۔ خلیجی ملک فنڈ ز فراہم کر رہے تھے۔ اب اپنے خطہ میں خلیجی ملک کتنی جنگیں لڑ رہے تھے۔ ایک جنگ یہ یمن میں لڑ رہے تھے۔ ایک جنگ یہ شام میں لڑ رہے تھے۔ ایک جنگ یہ ISIS سے لڑ رہے تھے۔ ایک جنگ لیبیا میں لڑی جا رہی تھی۔ اور یہ بادشاہوں کا خطہ تھا۔ شام کی فوج نے بڑی بہادری سے انتہا پسند باغیوں اسلامی دہشت گردوں اور ISIS کا مقابلہ کیا تھا۔ اپنے ملک کا دفاع کیا تھا۔ اور آخر میں انہیں فتح ہوئی تھی۔ امریکہ کی قیادت میں خلیجی ملکوں کے اتحاد کی یہاں بھی بری طرح شکست ہوئی تھی۔ صدر اسد نے کہا تھا کہ وہ شام کے تمام علاقے آزاد کرائیں گے۔ اور انہوں نے یہ پورا کر کے دکھایا ہے۔ تاہم آخر میں روس اور ایران نے شام کی مدد کی تھی۔ لیکن شام کی فتح ہوئی تھی۔
  سعودی عرب اور خلیجی ملکوں کو کبھی کسی جنگ میں فتح نہیں ہوئی ہے۔ عراق میں انہیں امریکہ اور برطانیہ نے شکست دی ہے۔ شام میں بھی سعودی عرب اور اس کے خلیج کے اتحادی ناکام ہوۓ ہیں۔ یمن میں یہ ہو تیوں  کو شکست نہیں دے سکے ہیں۔ سوڈان میں سعودی عرب کے ایک قریبی اتحادی صدر عمر بشیر  کی حکومت ختم ہو گئی ہے۔ ترکی کے ساتھ سعودی عرب نے تعلقات خراب کر لیے ہیں۔ ایران سے سعود یوں کی جنگ چل رہی ہے۔ قطر سے سعودی عرب نے تعلقات منقطع کر لیے ہیں۔ اسلامی دنیا کے غیر عرب ممالک Sideline پر ہو گیے ہیں۔ اور سعودی عرب کے Behavior پر حیران ہیں کہ اس کا End کہاں ہو گا؟ ہمسائیوں کے ساتھ محاذ آرا ئی، جنگیں، کھربوں ڈالر ہتھیاروں پر برباد ہو رہے ہیں۔ یہ حالات اس خطہ کی سلامتی استحکام اور امن کے لیے ایک مسلسل خطرہ بنے ہوۓ ہیں۔
  33 سالہ ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان  ابن سعود عبدالعزیز کی دوسری نسل سے ہیں۔ ابن سعود کی پہلی نسل سے بادشاہت اب دوسری نسل کو منتقل ہونے جا رہی ہے۔ ولی عہد شہزادہ محمد کا 21ویں صدی کا Vision جیسے ابن سعود کا Tribal vision ہے۔ جسے ولی عہد Revive کر رہے ہیں۔ اپنے ایک مخالف جمال کشوگی کو ولی عہد  نے قبائلی ذہنیت سے راستہ سے ہٹایا ہے۔ یمن کے خلاف جنگ شروع کی ہے۔ شیعہ سنی کی 1400 سو سال پرانی جنگ کا فیصلہ کرنے کا عزم کیا ہے۔ اور اس ذہنیت سے ایران کو دشمن قرار دیا ہے۔ جبکہ سنی ترکی کے بارے میں ولی عہد کے خیالات یہ ہیں کہ سلطنت عثمانیہ میں ترکوں نے عربوں کا قتل عام کیا تھا۔ ابن سعود عبدالعزیز کی دوسری نسل کے یہ خیالات سعودی عرب کو آگے کی طرف لے جانے اور ایک نئی تاریخ بنانے کے بجاۓ سعودی عرب کو ماضی کی تاریخ کا قیدی بناۓ ہوۓ ہیں۔ ابن سعود کی پہلی نسل کے بادشاہوں نے 80سال میں حاصل کچھ نہیں کیا ہے بلکہ کھویا زیادہ ہے۔ سعودی بادشاہوں نے مغربی طاقتوں کی سیاست کا اتحادی بن کر اپنی دولت برباد کی ہے۔ خطہ میں Turmoil فروغ دیا ہے۔ سعودی قیادت نے اپنے ملک کو ترقی دی ہے اور نہ ہی خطہ کے دوسرے ملکوں کو ترقی کرنے دی ہے۔ اس خطہ کو Chaos میں رکھنے کی پالیسیاں اختیار کی ہیں۔ اور اب اپنے ہمسایہ ملکوں کو تباہ و برباد کر کے سعودی عرب کو ترقی دینے کا خواب دیکھا ہے۔ سعودی عرب اگر بڑی طاقتوں کی خطہ میں اسرائیل کے Behalf پر جنگوں اور ہتھیاروں کی فروخت کا مارکیٹ بنانے کی سیاست سے اپنے آپ کو دور رکھتا تو آج سعودی عرب بھی مڈل ایسٹ کا Norway ہوتا ہے۔ Norway بھی سعودی عرب کی طرح آئل، گیس اور مدنیات سے مالا مال ہے۔ Norway کا شمار دنیا کے بڑے پیٹرولیم ایکسپورٹر ز میں ہوتا ہے۔ آئل پروڈکشن تقریباً  50 فیصد ہے۔ پیٹرولیم کے شعبہ میں شاندار ترقی سے Norway دنیا کا سب زیادہ خوشحال ترین ملک ہے۔ دولت مند معیشت کی وجہ سے معیار زندگی بھی بہت بلند ہے۔ دنیا کے دوسرے ملکوں کے مقابلے میں یہاں بیروزگاری کی شرح بہت کم ہے۔ Norway کے شہریوں کے لیے Free Health Care کا نظام ہے۔ شرح اجرت بہت زیادہ ہے۔ جس کی وجہ سے لوگوں کی قوت خرید بھی بہت ہے۔ حکومت تعلیم پر بھی بہت زیادہ خرچ کرتی ہے۔ جس کے نتیجہ میں آبادی انتہائی پڑھی لکھی، دولت مند اور تعلیم یافتہ ہے۔ اس وقت دنیا میں Norway کا سب سے بڑا Sovereign Wealth Fund ہے۔ جو تقریباً ایک ٹیریلین ڈالر کے قریب ہے۔ جبکہ سعودی عرب کا Sovereign Wealth Fund $675 billion ہے۔ سعودی بادشاہوں نے اپنے ملک کا Sovereign Wealth Fund ہتھیاروں اور جنگوں میں Invest کرنے پر فوقیت دی ہے۔ سعودی عرب میں بے روز گاری تقریباً 12 فیصد ہے۔ غربت بھی بہت زیادہ ہے۔ تعلیم یافتہ لوگوں کا فقدان ہے۔ جنگیں سعودی معاشرے میں جہالت کی علامت ہیں۔                 

Friday, July 19, 2019

Opponents Of President Bush’s Iraq War, We’re Unpatriotic, Opponents Of President Obama’s Syrian War, We’re Pro Moscow, Opponents Of President Trump’s Policies Are Hate-America



 Opponents Of President Bush’s Iraq War, We’re Unpatriotic, Opponents Of President Obama’s Syrian War, We’re Pro Moscow, Opponents Of President Trump’s Policies Are Hate-America
    
Gang Of Four Congress Women, In A Strong Democratic System, Why Is President Trump Irritating Their Critical Views?
President Trump Is Very Impressed with Benjamin Netanyahu’s Closed-Mindedness, But Perhaps Not Impressed With Benjamin Franklin’s Open-Mindedness, Who Said “CRITICS ARE OUR FRIENDS, THEY SHOW US OUR FAULTS”

America’s Critics-Free Support Of Israel, Brought State Of Israel Today At A Dead End
مجیب خان
Rep. Rashida Tlaib, Rep. Ayanna Pressley, Rep. Ilhan Omar, Rep. Alexander Ocasio-Cortez
 
 

President Donald Trump addresses a campaign rally in North Carolina, July 18, 2019


   صدر ٹرمپ ‘Gang of Four Ladies’ جو اراکین کانگریس ہیں۔ انتظامیہ پر ان کی سخت تنقید اور بیانات سے بہت Offended ہوۓ ہیں۔ اور صدر ٹرمپ نے ان سے کہا ہے "اگر انہیں امریکہ پسند نہیں ہے۔ امریکہ سے انہیں نفرت ہے۔ وہ امریکہ سے چلی جائیں۔" حالانکہ انہوں نے امریکہ کے خلاف باتیں نہیں کی تھیں۔ ان کی مخالفت اور تنقید صدر ٹرمپ کی پالیسیاں تھیں۔ امریکہ سے نفرت یا پسند اور ناپسند ہونے سے اس کا کوئی تعلق نہیں تھا۔ صدر ٹرمپ کی امیگریشن پالیسی، انسانی حقوق سے لاتعلق ہونے، ایران پالیسی، War on Trade شروع کرنے اور اسرائیل کا فلسطینیوں کے خلاف غیر انسانی سلوک، اسرائیل کو صرف White Jews نسل کی ریاست بنانے، سیاہ فام آ فریقی یہودیوں کے ساتھ نسل پرست رویہ اختیار کرنے پر اسرائیلی حکومت کی مذمت کی تھی۔ اس پر سخت تنقید کی تھی۔ صدر ٹرمپ اسرائیل کے خلاف ان کے بیانات سے بہت زیادہ Irritate ہوۓ تھے۔ صدر ٹرمپ نے 4 خاتون اراکین کانگریس کو Anti-Israel اور Anti-Semitics ہونے کے لیبل لگا دئیے۔ جیسے امریکہ میں اسرائیل کے خلاف کچھ کہنا بہت بڑا جرم ہے۔ حالانکہ اسرائیلی اخبارات میں، اداریوں Op-Ed مضامین میں اسرائیل کی پالیسیوں پر تنقید ہوتی ہے۔ جسے امریکہ میں Anti-Israel بلکہ Anti-Semitics کہا جاتا ہے۔ صدر ٹرمپ نے خاتون اراکین کانگریس کے بیانات پر Over react کیا ہے۔ اور اسرائیل کے Behalf پر شدید رد عمل کرتے ہوۓ امریکی شہری  کانگریس رکن خواتین سے کہا کہ وہ واپس اپنے ملک جائیں۔ جس طرح صدر ٹرمپ کو امریکی عوام نے منتخب کیا ہے اسی طرح ان 4 خواتین کو بھی امریکی عوام نے رکن کانگریس منتخب کیا ہے۔ صدر ٹرمپ کو اسرائیلی سیاست کو امریکہ کی داخلی سیاست سے علیحدہ رکھنا چاہیے تھا۔ اسرائیل کے خلاف دنیا بھر میں باتیں ہو رہی ہیں۔ اس کے ذمہ دار اسرائیل کے لیڈر ہیں اور وہ خود اس کا جواب دیں گے۔ اسرائیل کی وکالت کرنا امریکہ کے پریذیڈنٹ کے فرائض میں نہیں ہے۔
  9/11 کے بعد سے یہ خصوصی طور پر نوٹ کیا جا رہا ہے کہ امریکہ میں Narrow Mindedness بڑھتا جا رہا ہے۔ تنقید جو جمہوری معاشروں کو روشن رکھتی ہے۔ وہ تاریک بنتی جا رہی ہے۔ امریکہ کی پالیسیوں پر جو تنقید کرتے ہیں۔ انہیں Hate America سمجھا جاتا ہے۔ صدر جارج بش کی انتظامیہ میں جمہوری قدریں بہت گر گئی تھیں۔ صدر بش کی جنگجو نہ پالیسیوں پر جو تنقید کرتے تھے۔ انہیں Unpatriotic کہا گیا تھا۔ جنہوں نے صدر بش کی عراق جنگ کی مخالفت کی تھی۔ انہیں بھی Unpatriotic کہا تھا۔ صدر بش کی جنگجو نہ پالیسیوں کے نتائج آج کیا ثابت کر رہے ہیں کہ جنہوں نے جنگوں کی مخالفت کی تھی وہ Patriot تھے؟ یا وہ Unpatriotic تھے جو امریکہ کو جنگوں میں لے گیے تھے؟ یہ جنگیں امریکہ کے لیے صرف تباہی لائی تھیں۔ جو امریکہ کو جنگوں میں لے گیے تھے۔ وہ سب چلے گیے ہیں لیکن امریکہ ابھی تک ان کی جنگوں سے نہیں نکل سکا ہے۔ جنگوں کے زخم ابھی تک نہیں بھرے ہیں۔ کھربوں ڈالر ان جنگوں پر خرچ کیے تھے۔ لیکن امریکہ ان کی جنگیں ہار گیا ہے۔ جنہوں نے صدر بش کو امریکہ کے مفاد میں یہ مشورہ دیا تھا کہ طالبان سے مذاکرات کیے جائیں۔ اور افغان مسئلہ کو جلد حل کر لیا جاۓ۔ لیکن صدر بش نے انہیں اہمیت دی تھی جو جنگیں فروغ دینے کی باتیں کر رہے تھے۔ 18سال بعد اب ان طالبان سے مذاکرات کیے جا رہے ہیں۔ جنہیں بش انتظامیہ نے گو تا نو مو بے میں نظر بند کیا تھا۔ اور ان سے مذاکرات کرنے کو مستر د کر دیا تھا۔ National Security Establishment کے سامنے افغانستان میں سو ویت فوجوں کی شکست تھی۔ لیکن اس سے بھی کچھ نہیں سیکھا تھا۔ جو افغانستان کو نیٹو کا ویت نام بنانا چاہتے تھے۔ وہ اس میں کامیاب ہوۓ تھے۔
  اوبامہ انتظامیہ میں جو  شام کی داخلی خانہ جنگی میں امریکہ کے ملوث ہونے اور ‘Assad has to go’ پالیسی کے خلاف تھے۔ انہیں Pro-Moscow  کہا گیا تھا۔ امریکہ کے واچ میں شام میں انسانی تباہی پھیلائی جا رہی تھی۔ شام کھنڈرات بن رہا تھا۔ عورتیں بچے بوڑھے نوجوان Mediterranean میں ڈوب رہے تھے۔ دہشت گردی کو فروغ دیا جا رہا تھا۔ یورپ بھر میں خود کش بموں کے حملہ ہو رہے تھے۔ لوگ افغانستان میں مر رہے تھے۔ لوگ عراق میں مر رہے تھے۔ لوگ لیبیا میں مر رہے تھے۔ لو گ پاکستان میں مر رہے تھے۔ لوگ فرانس میں مر رہے تھے۔ لوگ بلجیم میں مر رہے تھے۔  لوگ ڈ نما رک  میں مر رہے تھے۔ لو گ امریکہ میں مر رہے تھے۔ دنیا انسانی خون سے سرخ ہو رہی تھی۔ جنگوں سے بھاگ کر پناہ لینے والوں کا یورپ کی سرحدوں پر ایک سو نامی کا منظر تھا۔ صدر اوبامہ کا شام میں Adventure Pro Moscow تھا؟ یا جو صدر اوبامہ کی شام کے خلاف پالیسی کی مخالفت کر رہے تھے وہ Pro-Moscow  تھے؟ لیبیا کو عدم استحکام کرنے کے نتائج ہیں جو یورپ میں Political upheaval   میں دیکھے جا رہے ہیں۔ روس اور چین نے تین مرتبہ شام کے مسئلہ پر امریکہ کی قرار داد کو سلامتی کونسل میں ویٹو کیا تھا۔ لیکن صدر اوبامہ ‘Assad has to go’ پالیسی میں رد و بدل کرنے کے لیے تیار نہیں تھے۔ صدر اوبامہ کی شام پالیسی کی سب سے بڑی Casualty ترکی ہے۔ جو روس کے Orbit  میں آ گیا ہے۔ نیٹو سے دور ہو گیا ہے۔ امریکی کانگریس کی 4 خاتون اراکین کی باتوں سے امریکہ کی صحت خراب نہیں گی۔ لیکن جس طرح سابق دو انتظامیہ اور اب ٹرمپ انتظامیہ میں National Security Establishment کے واچ میں امریکہ کے مفادات کو نقصان پہنچا ہے۔ دوسروں پر Hate-America  اور Unpatriotic ہونے کے لیبل لگانے سے پہلے اس کا احتساب ہونا چاہیے۔
  اسرائیل پر تنقید کرنا Anti-Semitic نہیں ہے۔ یہ Democratic Politics ہے۔ دنیا اگر امریکہ کی پالیسیوں اور فیصلوں پر تنقید کرتی ہے۔ تو اسرائیل کو تنقید سے کیوں Exempted  رکھا جا رہا ہے۔ حقیقت میں یہ امریکہ کی 70-65  سال کی  اسرائیل کے بارے میں پالیسیاں ہیں جو اب Anti-Israel اور Anti-Semitic  کی صورت میں سامنے آ رہی ہیں۔ امریکہ نے ہر اسرائیلی پالیسی کی ہمیشہ حمایت کی ہے۔ اسرائیل کی کسی پالیسی کی کبھی مذمت نہیں کی ہے۔ اسرائیلی فوج نے اگر نہتے فلسطینی عورتوں اور بچوں کو ہلاک کیا تھا۔ تو امریکی ترجمان کا یہ بیان ہوتا تھا کہ  Israel has a right to defend itself ۔ ہر اسرائیلی جارحیت کے خلاف جب بھی سلامتی کونسل میں مذمت کرنے کی قرار داد پیش کی گئی تھی۔ امریکہ نے ہمیشہ اسے ویٹو کیا تھا۔ اور اس  طرح امریکہ  اسرائیلی جارحیت کی حوصلہ افزائی کرتا تھا۔ امریکہ کی اس پالیسی کا یہ نتیجہ ہے کہ اسرائیل آج ایک Sick State ہے اور Dead End پر کھڑا ہے۔ امریکہ اگر اسرائیل کی غلط اور خطرناک پالیسیوں کی سخت لفظوں میں مذمت کرتا اور انہیں Criticize کرتا تو اسرائیل آج ضرور ایک بہت مختلف ملک ہوتا۔ جس طرح سعودی حکومت کی پالیسیوں پر امریکہ اور یورپ میں شدید رد عمل ہوتا تھا۔ ان پر حکومت کی سطح پر سخت تنقید ہوتی تھی۔ اس کے نتیجہ میں سعودی حکومت کے رویہ میں کچھ Flexibility آتی تھی۔ اور سعودی عرب اب Islamism کو برقرار رکھتے ہوۓ Modernism کی طرف آ رہا ہے۔ تاہم Political Freedom ابھی ایک مسئلہ ہے۔ عورتوں کے حقوق کا سعودی حکومت نے اعتراف کیا ہے۔ لیکن اسرائیلی حکومت فلسطینی عورتوں اور  Black Jews کو حقوق دینے کے لیے تیار نہیں ہے۔ سعودی عرب جس بند نظام سے نکل رہا ہے۔ اسرائیل اس بند نظام میں جانے کی طرف بڑھ رہا ہے اور اپنے ساتھ  صدر ٹرمپ اور Evangelical Christians کو بھی اس نظام میں آنے کے لیے  گھسیٹ رہا ہے۔ خدا امریکہ کو اس نظام میں جانے سے روکے۔ آمین
  کیونکہ 70سال میں امریکہ اور یورپ کی حکومتوں نے اسرائیل کی عالمی قوانین اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کی کبھی کھل کر مذمت نہیں کی ہے۔ نہ ہی اسرائیلی پالیسیوں پر کبھی سخت تنقید کی ہے۔ لہذا امریکہ اور یورپ کے لوگ اب اسرائیل کی ان پالیسیوں پر سخت تنقید کر رہے ہیں۔ اسرائیل کے خلاف Boycott, Divestment and Sanctions {BDS} تحریک کالجوں اور یونیورسٹیوں سے شروع ہوئی ہے۔ اس کا Anti-Semitics سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ دنیا میں لاکھوں یہودی اسرائیلی حکومت کی پالیسیوں سے اختلاف کرتے ہیں۔ State of Israel پر تنقید نہ ہونے سے ریاست کمزور ہو رہی ہے۔