America’s Unilateral Sanctions’ Regime, Directly And Indirectly, Hurting Many
Countries In The World
In A Free Market Economy, The Dollar-Dominant World Economy Is A Concept of Controlling The Economy
In A Free Market Economy, The Dollar-Dominant World Economy Is A Concept of Controlling The Economy
مجیب خان
The U.S. sanction against North Korea |
The U.S. sanctions against Iran 'companies doing Business with Iran will be barred from the United States |
The U.S. sanction against Venezuela |
During the sanctions regime, Iraqis had to hold the funeral processions for their children almost daily |
ہلری کلنٹن جب سیکرٹیری آف اسٹیٹ
تھیں انہوں نے بتایا کہ 'وہ دنیا میں جہاں بھی جاتی ہیں۔ اور جب ان سے علاقائی اورعالمی
مسائل پر بات کرتی ہوں تو وہ کہتے ہیں کہ آپ تو ڈوب رہے ہو اور ہمیں بھی ساتھ لے کر ڈوبو
گے۔' Rex Tillerson بہت مختصر عرصہ
سیکرٹیری آف اسٹیٹ تھے۔ Rex
Tillerson دنیا میں جہاں بھی گیے ہوں گے امریکہ کے بارے میں
شاید انہیں بھی ایسے ہی خیالات سننے کا سامنا ہوا گا۔ صدر ٹرمپ کے برسراقتدار آنے
سے امریکہ کے بارے میں دنیا کی اس سوچ میں کوئی نمایاں تبدیلی نہیں آئی ہے۔ دنیا غیر
ملکی سرزمین پر امریکہ کے 800 فوجی اڈوں اورRegime Sanctions کے درمیان
سینڈوچ بنی ہوئی ہے۔ صدر ٹرمپ دنیا کے مفاد میں نہیں، بلکہ America First کے مفاد میں ملکوں، سیاسی
شخصیتوں، لیڈروں، خود مختار ملکوں کے فوجیوں ان کے قومی سلامتی اداروں کے اہل
کاروں، غیر ملکی کمپنیوں اور ان کمپنیوں کے CEOs کو ایگزیکٹو آرڈر جاری کر کے Sanctions کرتے ہیں۔ لیکن صدر ٹرمپ نے
ہتھیار بنانے اور فروخت کرنے والی کمپنیوں کو Sanctions سے Exempt رکھا ہے۔ تاکہ جو ممالک حالت جنگ میں ہیں انہیں ہتھیاروں کی
بنیادی ضرورت کی فراہمی جاری رہے گی۔ لیکن جن ملکوں کے ساتھ سیاسی اختلافات ہیں۔
انہیں بنیادی انسانی ضرورتوں سے اس وقت تک محروم رکھا جاۓ گا کہ جب تک وہ اپنا Behavior امریکہ کے مفاد میں تبدیل نہیں
کریں گے۔ 19 سال قبل دہشت گردوں کے خلاف جو جنگ بش انتظامیہ میں شروع ہوئی تھی۔ جس
میں معروف دہشت گردوں کو پکڑنے کے لیے لاکھوں ڈالر دینے کا اعلان کیا جاتا تھا۔
دہشت گردوں کے خلاف وہ جنگ اب ایران کے خلاف جنگ بن گئی ہے۔ اور اب ملا عمر کی جگہ
آیت اللہ خمینائی کا نام امریکہ کی فہرست میں آ گیا ہے۔ اور القا عدہ کے کارکنوں
کی جگہ ایران کی کابینہ کے وزرا، ایران کے
انقلابی گارڈ ز، ایرفورس، نیوی کے افسر جنہوں نے امریکہ سے ہزاروں میل دور اپنے
گھر کے دروازے پر 2سو ملین ڈالر کا ڈرون گرایا تھا۔ انہیں خطرناک لوگوں میں شامل
کیا گیا ہے۔ القا عدہ نے نیویارک میں و ر لڈ ٹریڈ
سینٹر گراۓ تھے۔ اس لیے یہ خطرناک
لوگ تھے۔ اور ان سے جنگ کی تھی۔
عراق پر Sanctions اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے
لگائی تھیں۔ لیکن امریکہ نے ان پر انتہائی سختی سے عملدرامد کرایا تھا۔ اور سلامتی
کونسل میں جب بھی عراق پر سے یہ Sanctions ہٹانے کی درخواست کی جاتی تھی۔ امریکہ اسے ویٹو کر دیتا تھا۔ بش
انتظامیہ کے حملہ سے پہلے عراق پر 9سال اقتصادی بندشوں کی وجہ سے معیشت اور معاشرت
تباہ ہو چکے تھے۔ فوجی حملے نے انسانیت اور Infrastructure تباہ کیے تھے۔ امریکہ کے عراق میں
جو سفیر 70s اور80s میں تھے۔ انہوں نے یہ اعتراف کیا
تھا کہ صد ام حسین ڈکٹیٹر تھے لیکن ان کے دور میں عراق نے اقتصادی ترقی کی تھی۔
عراق میں Infrastructure تعمیر کیا تھا۔
ہسپتال، کالج، یونیورسٹیاں بنائی تھیں۔ انجنیئر، ڈاکٹر ز، سائنسدان اور ماہر تعلیم
پیدا کیے تھے۔ عراق کی ایک Rich ثقافت
اور تعلیمی معاشرہ تباہ کیا گیا ہے۔ تاریخ انہیں شاید کبھی معاف نہیں کرے گی۔ اسی
طرح شام اور لیبیا تباہ کیے ہیں۔ ان ملکوں نے ترقی کی تھی۔ لوگ تعلیم یافتہ تھے۔
لہذا ان ملکوں کو سب سے پہلے تباہ کیا ہے۔ یہاں جاہلوں اور انسانی ترقی کے دشمنوں
کو اپنی جہالت پھیلانے کے موقعہ فراہم کیے ہیں۔
صدر ٹرمپ نے اقوام متحدہ کو By Pass کر دیا ہے اور اپنا
ایک علیحدہ International
Sanction Regime قائم کر لیا ہے۔ اور اس Sanction Regime کے ذریعہ ملکوں اور حکومتوں کو Bully کیا جا رہا ہے۔ حالانکہ صدر ٹرمپ نے صدارتی حلف برداری کے موقعہ پر خطاب میں کہا تھا
کہ اب کسی ملک کو Bully نہیں کیا جاۓ
گا۔ ہر ملک اپنے مفاد میں فیصلے کرنے میں آزاد ہو گا۔ اور امریکہ ان کے امور میں
مداخلت نہیں کرے گا۔ لیکن Bully
کرنے کی ثقافت بدستور جاری
ہے۔ بلکہ یہ اور زیادہ بڑھ گئی ہے۔ قوموں کے آز ادانہ فیصلوں میں مداخلت بھی جاری
ہے۔ ترکی نے روس سے S-400 میزائل ڈیفنس
سسٹم خریدنے کا فیصلہ کیا۔ ٹرمپ انتظامیہ نے ترکی کے اس فیصلے کی مخالفت کی تھی۔
اور معاہدے کو منسوخ کرنے کے لیے بھر پور دباؤ ڈالا
تھا۔ ترکی نیٹو کا رکن ہے۔ اور ترکی پر Sanction کرنے کی دھمکیاں تک دی تھیں۔ ترکی کی حکومت نے روس کے ساتھ یہ
معاہدہ منسوخ کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ اور یہ اعلان کیا کہ S-400 سسٹم آئندہ ماہ کے وسط میں Deliver کیا جاۓ گا۔ ترکی نے نیٹو کے دوسرے ملکوں کے لیے بھی
روس سے ہتھیاروں کو خریدنے کا دروازہ کھول دیا ہے۔ نیٹو کے لیے ترکی ایک بہت اہم
ملک ہے۔ اور نیٹو ترکی کو کھونا نہیں چاہتا ہے۔ ترکی صدر اوبامہ کی شام پالیسی کی پہلی Casualty تھا۔
شام کی خانہ جنگی ایک انتہائی Complex خانہ جنگی تھی۔ بیک وقت کئی خانہ
جنگی ہو روہی تھیں۔ ایک خانہ جنگی اسد حکومت کے خلاف ہو رہی تھی۔ دوسری خانہ جنگی
القا عدہ اور مختلف مذہبی انتہا پسند گروپوں کے درمیان ہو رہی تھی۔ جبکہ تیسری
خانہ جنگی ISIS کے خلاف ہو رہی
تھی۔ اوبامہ انتظامیہ GCC ملکوں کے ساتھ
اتحاد میں اسد حکومت کے خلاف مذہبی انتہا پسند گروپوں کی پشت پنا ہی کر رہی تھی۔
ترکی کی حکومت بھی ان کی حمایت کر رہی تھی۔ دوسری طرف اوبامہ انتظامیہ نے ایک دوسرا
محاذ ISIS کے خلاف کھولا
تھا۔ جس میں شام اور ترکی کے کرد و ں کو ISIS سے لڑنے کے لیے تربیت اور اسلحہ دیا جا رہا تھا۔ ترکی کے کرد و ں
کی تنظیم کو ترکی نے دہشت گرد قرار دیا تھا۔ اور اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے بھی اسے دہشت
گرد وں کی فہرست میں شامل کیا تھا۔ اس اثنا میں ترکی میں بموں کئی دھماکے ہوۓ تھے
جن میں 2سو سے زیادہ ترک مارے گیے تھے۔ صدر اردگان نے ان بموں کے دھماکوں پر کہا
کہ امریکہ نے ہماری کمر میں چھرا گھونپا ہے۔ اس کے بعد امریکہ اور ترکی کے تعلقات
میں گہری ڈاریں پڑ گئی تھیں۔ پھر ترک فوج نے بھی اردگان حکومت کے خلاف بغاوت کر دی
تھی۔ آگے پیچھے یہ واقعات ترکی کو امریکہ سے دور کرتے گیے۔ اور اب ٹرمپ انتظامیہ
سابقہ انتظامیہ کی غلط پالیسیوں کو Sanctions Regime سے درست کرنے کی پالیسی اختیار کر رہی ہے۔
Sanctions Regime کا اطلاق اب بھارت پر بھی ہو رہا ہے۔ اور ٹرمپ انتظامیہ بھارت پر
بھی یہ دباؤ ڈال رہی ہے کہ وہ روس سے S-400 میزائل ڈیفنس سسٹم نہیں خریدے۔ اس کے علاوہ بھارت نے روس سے اسلحہ
خریدنے کے جو معاہدے کیے انہیں بھی منسوخ کرنے کا کہا جا رہا ہے۔ صدر ٹرمپ کے
ایگزیکٹو آرڈر کی وجہ سے بھارت اب ایران سے تیل بھی نہیں خرید سکتا ہے۔ جس کی وجہ
سے بھارت کی معیشت پر اس کے منفی اثرات ہو رہے ہیں۔ ایران کو اقتصادی بندشوں میں جکڑ
کر امریکہ صورت حال سے فائدہ اٹھا رہا ہے اور
بھارت سے یہ کہا جا رہا ہے کہ وہ امریکہ سے تیل خریدے۔ چاہ بہار کی بندر گاہ جو
ایران اور بھارت کا ایک مشترکہ پروجیکٹ ہے۔ یہ بھی امریکہ کی سخت اقتصادی بندشوں
کی زد میں ہے۔
جرمن حکومت نے روس کے ساتھ تیل اور
گیس پائپ لائن کا سمجھوتہ کیا ہے جس پر جرمنی میں امریکہ کے سفیر نے جرمن حکومت کو
یہ دھمکی دی ہے کہ اس سمجھوتہ کو منسوخ کیا جاۓ ورنہ جرمنی پر بندشیں لگائی جائیں
گی۔ صدر ٹرمپ نے بھی ایک بیان میں کہا ہے کہ جرمنی نیٹو کا رکن ہے۔ اور جرمنی روس
کے ساتھ تیل اور گیس پائپ لائن کا معاہدہ منسوخ کرے۔ ٹرمپ انتظامیہ کے پہلے ہی
جرمنی کے ساتھ سرد تعلقات ہیں۔ دوسری طرف ٹرمپ انتظامیہ کی یورپی یونین کے ساتھ
بھی ٹریڈ وار جاری ہے۔ امریکہ کو یورپی یونین سے بھی تجارت میں کھربوں ڈالر کا خسارہ
ہو رہا ہے۔ صدر ٹرمپ نے یورپی یونین میں شامل بعض ملکوں پر Tariff لگانے کا
اعلان کیا ہے۔ ایران پر عائد اقتصادی بندشوں سے یورپی یونین کے ملک بھی متاثر ہو رہے
ہیں۔ ایران کے ساتھ یورپی یونین کی کھربوں ڈالر کی تجارت بند ہو گئی ہے۔
یہ عالمی مالیاتی نظام امریکہ کا ہے۔
عالمی تجارت صرف ڈالر میں ہوتی ہے۔ ڈالر کی اجارہ داری ہے۔ اکثر ڈالر میں اتار اور
چڑھاؤ کی وجہ سے ملکوں کی معیشت نقصانات سے دوچار ہو جاتی ہے۔ ان کی درآمدات اور
برآمدات متاثر ہوتی ہیں۔ امریکہ کی چین کے ساتھ ٹریڈ وار سے عالمی معیشت میں مندی آ
رہی ہے۔ اس وقت Dollar
dominated world economy صرف امریکہ کے سیاسی مفاد میں کام کر رہی ہے۔ دنیا
جیسے اس معیشت کا حصہ نہیں ہے۔
No comments:
Post a Comment