Friday, July 5, 2019

Koreans Are Very Fortunate That Israel Is Not In Their Neighborhood



Koreans Are Very Fortunate That Israel Is Not In Their Neighborhood

Cubans Are Very Unfortunate That The Worlds Richest Country Is Their Close Neighbor Who Is Keeping Cubans Poor By Sanctions, Forever    

مجیب خان
President Donald Trump and North Korean Leader Kim Jong Un, walk on the North Korean side at the border

Cuba under the U.S. sanctions, who is suffering the most? People

U.S. sanctions put American telecoms firms off Cuba



   کوریا کے عوام بڑے خوش قسمت ہیں کہ اسرائیل ان کا ہمسایہ نہیں ہے۔ ورنہ  ایران کے ساتھ جو ہو رہا ہے وہ شمالی کوریا کے ساتھ ہو رہا ہوتا۔ صدر ٹرمپ کا شمالی کوریا کی سر زمین پر قدم رکھنے کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ جس طرح ایران کے مسئلہ پر صدر ٹرمپ اسرائیل اور سعودی عرب کی انگلیوں پر ناچ رہے ہیں۔ سعود یوں سے پیٹرو ڈالر لے رہے ہیں اور اسرائیلیوں کو سب کچھ دے رہے ہیں۔ لیکن ایسٹ ایشیا میں صدر ٹرمپ   Common Senseچین اور جنوبی کوریا کی سنتے ہیں۔ جو صدر ٹرمپ کو ڈائیلاگ اور پرامن طریقوں سے شمالی کوریا کا ایٹمی مسئلہ حل کرنے کا مشورہ دے رہے ہیں۔ ایسٹ ایشیا کو انتشار اور عدم استحکام کی سیاست سے دور رکھنا چاہتے ہیں۔ اپنے خطہ کے اقتصادی حالات میں یہ کسی قسم کا Disturbance نہیں چاہتے ہیں۔ مڈل ایسٹ میں امریکہ کی امن کوششوں نے سارے خطہ کا امن Derail کر دیا ہے۔ ایسٹ ایشیا کے رہنما اس لیے خاصے محتاط ہیں۔ اور شمالی کوریا کے ایٹمی پروگرام کے مسئلہ پر  مہذب رویہ اختیار کرنے پر زور دیتے ہیں۔ ہنوئی میں ٹرمپ-کم جونگ ان ملاقات جو کسی نتیجہ کے بغیر ختم ہو گئی تھی۔ علاقائی ممالک اسے پھر ایک Right track پر لے آئیں ہیں۔ صدر ٹرمپ جاپان G-20 ملکوں کے سربراہوں کی کانفرنس میں شرکت کرنے گیے تھے۔ کانفرنس کے دوران سائڈ لائن پر جنوبی کوریا، چین اور روس کے رہنماؤں سے ملاقات کے بعد صدر ٹرمپ نے جنوبی کوریا کے دورے میں DMZ پر شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ ان سے ملاقات کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ صدر ٹرمپ کا جنوبی کوریا کا دورہ پہلے سے طے تھا۔ صدر ٹرمپ امریکہ کے پہلے صدر تھے۔ جنہوں نے شمالی کوریا کی سرزمین پر قدم رکھا تھا۔ اور شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ ان سے ملاقات کی تھی۔ جو ایک گھنٹے جاری رہی تھی۔ صدر ٹرمپ ہنوئی ملاقات کے مقابلے میں شمالی کوریا کی سرزمین پر اس ملاقات سے زیادہ مطمئن اور پر امید تھے۔ اس طرح کی ملاقاتوں سے ہم آہنگی آتی ہے۔ ایک دوسرے کو سمجھنے کا بہتر موقعہ ملتا ہے۔ تنازعہ کے حل میں زمین ہموار ہو جاتی ہے۔ سمجھوتہ میں حائل رکاوٹیں دور ہو جاتی ہیں۔ سمجھوتے کی کامیابی میں شک و شبہات بھی دور ہو جاتے ہیں۔ شمالی کوریا کے ایٹمی مسئلہ کو حل کرنے میں صدر ٹرمپ ذاتی طور پر دلچسپی لے رہے ہیں۔ اور یہ ایک خوش آئند اقدام ہے۔
  اسرائیل اگر کوریا کا ہمسایہ ہوتا تو صدر ٹرمپ کیا اس آزادی سے کم جونگ ان سے ان کی سرزمین پر ملاقات کرنے جا سکتے تھے۔ بلکہ ان سے شمالی کوریا کی فوج اور لیڈروں کو بھی Sanction کرنے کا کہا جاتا۔ اسرائیل نے ایران ایٹمی سمجھوتے پر صدر ٹرمپ سے امریکہ کا Commitment ختم کرایا تھا۔ اور اب اسرائیل دنیا سے یہ کہہ رہا ہے کہ ایران نے سمجھوتہ کی خلاف ورزی کی ہے۔ اور اب یورپ اپنا Commitment پورا کرے اور ایران پر اقتصادی بندشیں لگائی جائیں۔ اسرائیل کی اس Crook Politics نے دنیا کو جنگوں کے عذاب میں لٹکا رکھا ہے۔ پہلے ٹرمپ انتظامیہ سے یہ عالمی سمجھوتہ ختم کرایا جس پر اوبامہ انتظامیہ نے دستخط کیے تھے۔ امریکہ کی Credibility damage کی تھی۔ اور اب  اسرائیل دنیا سے کہتا ہے کہ ایران سمجھوتے کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔ جبکہ اسرائیل نے اس سمجھوتے کو قبول ہی نہیں کیا تھا۔ پھر یہ ٹرمپ انتظامیہ تھی جس نے ایران سمجھوتے کی خلاف ورزی کر کے یہ راستہ ایران کو بھی دکھایا ہے۔ اسرائیلی لیڈروں کے غیر ذمہ دارا نہ بیانات نے ایک تنازعہ حل ہو جانے کے بعد اس تنازعہ سے پھر نئے تنازعہ پیدا کر دئیے ہیں۔ اسرائیل کی یہ کوئی نئی سیاست نہیں ہے۔ فلسطینیوں کے ساتھ ہر امن سمجھوتہ کو اسرائیل نے سبوتاژ کیا ہے۔ پھر یہ کہا ہے کہ فلسطینیوں میں کوئی لیڈر نہیں جس سے امن کے لیے مذاکرات کیے جائیں۔ اور اب امریکہ کے ذریعہ فلسطینی قیادت پر اسرائیل کے ساتھ مذاکرات کرنے کے لیے دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔ ایک تنازعہ کے اندر اتنے زیادہ تنازعہ پیدا کر کے انہیں اس قدر الجھا دیا ہے۔ کہ انہیں سلجھانے میں برسوں لگ جائیں گے۔ صدر ٹرمپ کو ایسٹ ایشیا کے ملکوں سے سیکھنا چاہیے کہ کس طرح یہ ملک شمالی کوریا کے مسئلہ پر Nonsense نہیں صرف To the point بات کرتے ہیں۔ اور مسئلہ کا حل Simple رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
  صدر ٹرمپ ہزاروں میل دور کمیونسٹ شمالی کوریا کی سر زمین پر کم جونگ ان سے ملنے گیے تھے۔ لیکن فلو ریڈ ا سے تقریباً  90 میل کے فاصلے پر کیوبا کی طرف اس لئے دیکھنا پسند نہیں ہے کہ کیوبا ایک کمیونسٹ ملک ہے۔ جبکہ ایسٹ ایشیا میں تمام کمیونسٹ ملکوں سے امریکہ کے تجارتی اور سفارتی تعلقات ہیں۔ امریکی کمپنیوں نے ان ملکوں میں Invest کیا ہے۔ امریکہ میں کمیونسٹ ملکوں میں بننے والے جوتے اور کپڑے پہنے جاتے ہیں۔ لیکن صدر ٹرمپ نے کیوبا پر یہ کہہ کر 60سال پرانی بندشیں اپنے ایگزیکٹو آرڈر سے بحال کی ہیں کہ کیوبا ایک کمیونسٹ ملک ہے۔ صدر ٹرمپ نے یہ فیصلہ Miami سے ری پبلیکن پارٹی کے سینیٹر اور کانگریس مین کے کہنے پر لگائی ہے- جو کیوبن نژاد ہیں۔ اور انتہائی تنگ نظر اور قدامت پسند ہیں۔ میرا اکثر فلو ریڈا جانا ہوتا ہے۔ کبھی میں Fort Lauderdale International Airport سے جاتا ہوں اور کبھی Miami Inter national Airport سے جانا ہوں۔ صدر اوبامہ کے آخری دنوں میں امریکہ سے کیوبا کے لئے پروازیں بحال ہو گئی تھیں۔ اور مجھے یہ دیکھ کر بڑی حیرت ہوئی کہ Miami سے Havana جانے کے لیے ایرپورٹ پر لوگوں کا بڑا ہجوم تھا۔ امریکہ کی ہر ایرلائن United, American, Delta, Blu Jet, Spirit سب وقفہ وقفہ سے Havana جانے کے لیے تیار تھیں۔ امریکی کیوبن  60سال بعد اپنے وطن کی سرزمین پر قدم رکھنے کے لیے بہت خوش تھے۔ جیسے شمالی اور جنوبی کوریا کے لوگ تعلقات بحال ہونے اور ایک دوسرے کے ملک میں سفر کرنے سے خوش ہوتے ہیں۔ اور برسوں بعد اپنے بچھڑے رشتہ داروں کو گلے لگاتے ہیں۔ آج کی دنیا میں People to People تعلقات حکومتوں کے درمیان تعلقات سے زیادہ Productive ہوتے ہیں۔ جس طرح Miami میں Little Havana ہے۔ اسی طرح Chicago میں ایک Little Warsaw ہے۔ کمیونزم سے آزادی کے بعد ایک بڑی تعداد امریکی نژاد Polish کی شکاگو سے Poland چلی گئی تھی۔ شکاگو میں جن کے کاروبار تھے۔ انہوں نے اپنے آبائی وطن میں Invest کرنے کو اہمیت دی تھی۔ ان کے کاروبار امریکہ میں بھی ہیں اور Poland میں بھی ہیں۔ People to People تجارتی اور ثقافتی سرگرمیاں دونوں ملکوں کو ایک دوسرے کے قریب لے آئی ہیں۔ گزشتہ ماہ پولینڈ کے صدر امریکہ آۓ تھے۔ صدر ٹرمپ نے پولینڈ کے ساتھ امریکہ کے تعلقات کو خصوصی اہمیت دی تھی۔
  صدر ٹرمپ کے کیوبا پر بندشیں بحال کرنے سے Miami میں کیوبن کی اکثریت خوش نہیں ہوئی ہو گی۔ ویسے بھی صدر ٹرمپ کے Spanish People کے خلاف خیالات سے بھی Spanish سوچ میں سیاسی تبدیلی آ رہی ہے۔ اور Miami کے Cubans کا رجحان ڈیمو کریٹس کی طرف بڑھ  رہا ہے۔ کیوبا کے خلاف امریکہ کی 60سال بندشوں کی پالیسی Havana میں سیاسی تبدیلی نہیں لا سکی ہے۔ کمیونسٹ حکومت سرد جنگ ختم ہونے کے بعد روس کی امداد کے بغیر امریکہ کی دشمنی کے ساتھ  برقرار ہے۔ اور یہ کیوبا کی کامیابی کی شاندار مثال ہے۔ حقیقت تسلیم کرنا بھی عظیم ہونا ہوتا ہے۔ واشنگٹن میں 18ویں اور 19ویں صدی کی یہ سوچ 21ویں میں Out dated ہے کہ حکومتوں کے خلاف اقتصادی بندشیں لگانے سے ان کے عوام پھر حکومت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں گے اور حکومت گر جاۓ گی۔ امریکہ نے ایرانی عوام کی جمہوریت کا تختہ الٹ کر ان پر شاہ کی آمریت مسلط کی تھی۔ امریکہ نے شاہ کے خلاف کامیاب انقلاب کے بعد اسے ناکام بنانے کے لیے عراق سے ایران پر حملہ کرایا تھا۔ اس جنگ میں امریکہ اسرائیل سعودی عرب اور امارات نے صد ام حسین کی مدد کی تھی۔ پھر ایرانی عوام نے دیکھا کہ کس طرح امریکہ نے عراق، لیبیا اور شام تباہ کیے ہیں۔ ایرانی عوام ایران کو اس طرح تباہ ہوتا دکھانا نہیں چاہتے ہیں۔ انہوں نے اپنے دشمن پہچان لیے ہیں۔                                                                                                                                     

No comments:

Post a Comment