Opponents Of President Bush’s Iraq War, We’re Unpatriotic,
Opponents Of President Obama’s Syrian War, We’re Pro Moscow, Opponents Of
President Trump’s Policies Are Hate-America
Gang Of Four Congress Women,
In A Strong Democratic System, Why Is President Trump Irritating Their Critical
Views?
President Trump Is Very
Impressed with Benjamin Netanyahu’s Closed-Mindedness, But Perhaps Not
Impressed With Benjamin Franklin’s Open-Mindedness, Who Said “CRITICS ARE OUR
FRIENDS, THEY SHOW US OUR FAULTS”
America’s Critics-Free
Support Of Israel, Brought State Of Israel Today At A Dead End
مجیب خان
Rep. Rashida Tlaib, Rep. Ayanna Pressley, Rep. Ilhan Omar, Rep. Alexander Ocasio-Cortez |
President Donald Trump addresses a campaign rally in North Carolina, July 18, 2019 |
صدر ٹرمپ ‘Gang of Four Ladies’ جو اراکین کانگریس ہیں۔ انتظامیہ پر ان کی سخت تنقید اور بیانات
سے بہت Offended ہوۓ ہیں۔ اور
صدر ٹرمپ نے ان سے کہا ہے "اگر انہیں امریکہ پسند نہیں ہے۔ امریکہ سے انہیں
نفرت ہے۔ وہ امریکہ سے چلی جائیں۔" حالانکہ انہوں نے امریکہ کے خلاف باتیں
نہیں کی تھیں۔ ان کی مخالفت اور تنقید صدر ٹرمپ کی پالیسیاں تھیں۔ امریکہ سے نفرت
یا پسند اور ناپسند ہونے سے اس کا کوئی تعلق نہیں تھا۔ صدر ٹرمپ کی امیگریشن
پالیسی، انسانی حقوق سے لاتعلق ہونے، ایران پالیسی، War on Trade شروع کرنے اور اسرائیل کا
فلسطینیوں کے خلاف غیر انسانی سلوک، اسرائیل کو صرف White Jews نسل کی ریاست بنانے، سیاہ فام آ فریقی
یہودیوں کے ساتھ نسل پرست رویہ اختیار کرنے پر اسرائیلی حکومت کی مذمت کی تھی۔ اس
پر سخت تنقید کی تھی۔ صدر ٹرمپ اسرائیل کے خلاف ان کے بیانات سے بہت زیادہ Irritate ہوۓ تھے۔ صدر ٹرمپ نے 4 خاتون
اراکین کانگریس کو Anti-Israel اور
Anti-Semitics ہونے کے لیبل
لگا دئیے۔ جیسے امریکہ میں اسرائیل کے خلاف کچھ کہنا بہت بڑا جرم ہے۔ حالانکہ
اسرائیلی اخبارات میں، اداریوں Op-Ed مضامین میں اسرائیل کی پالیسیوں پر تنقید ہوتی ہے۔
جسے امریکہ میں Anti-Israel بلکہ Anti-Semitics کہا جاتا ہے۔ صدر ٹرمپ نے خاتون
اراکین کانگریس کے بیانات پر Over
react کیا ہے۔ اور اسرائیل کے Behalf پر شدید رد عمل کرتے ہوۓ امریکی شہری کانگریس رکن خواتین سے کہا کہ وہ واپس اپنے ملک
جائیں۔ جس طرح صدر ٹرمپ کو امریکی عوام نے منتخب کیا ہے اسی طرح ان 4 خواتین کو بھی
امریکی عوام نے رکن کانگریس منتخب کیا ہے۔ صدر ٹرمپ کو اسرائیلی سیاست کو امریکہ
کی داخلی سیاست سے علیحدہ رکھنا چاہیے تھا۔ اسرائیل کے خلاف دنیا بھر میں باتیں ہو
رہی ہیں۔ اس کے ذمہ دار اسرائیل کے لیڈر ہیں اور وہ خود اس کا جواب دیں گے۔ اسرائیل
کی وکالت کرنا امریکہ کے پریذیڈنٹ کے فرائض میں نہیں ہے۔
9/11 کے بعد سے یہ
خصوصی طور پر نوٹ کیا جا رہا ہے کہ امریکہ میں Narrow Mindedness بڑھتا جا رہا ہے۔
تنقید جو جمہوری معاشروں کو روشن رکھتی ہے۔ وہ تاریک بنتی جا رہی ہے۔ امریکہ کی
پالیسیوں پر جو تنقید کرتے ہیں۔ انہیں Hate America سمجھا جاتا ہے۔ صدر جارج بش کی انتظامیہ
میں جمہوری قدریں بہت گر گئی تھیں۔ صدر بش کی جنگجو نہ پالیسیوں پر جو تنقید کرتے
تھے۔ انہیں Unpatriotic کہا گیا تھا۔
جنہوں نے صدر بش کی عراق جنگ کی مخالفت کی تھی۔ انہیں بھی Unpatriotic کہا تھا۔ صدر بش کی جنگجو نہ
پالیسیوں کے نتائج آج کیا ثابت کر رہے ہیں کہ جنہوں نے جنگوں کی مخالفت کی تھی وہ Patriot تھے؟ یا وہ Unpatriotic تھے جو امریکہ کو جنگوں میں لے گیے
تھے؟ یہ جنگیں امریکہ کے لیے صرف تباہی لائی تھیں۔ جو امریکہ کو جنگوں میں لے گیے
تھے۔ وہ سب چلے گیے ہیں لیکن امریکہ ابھی تک ان کی جنگوں سے نہیں نکل سکا ہے۔ جنگوں
کے زخم ابھی تک نہیں بھرے ہیں۔ کھربوں ڈالر ان جنگوں پر خرچ کیے تھے۔ لیکن امریکہ
ان کی جنگیں ہار گیا ہے۔ جنہوں نے صدر بش کو امریکہ کے مفاد میں یہ مشورہ دیا تھا
کہ طالبان سے مذاکرات کیے جائیں۔ اور افغان مسئلہ کو جلد حل کر لیا جاۓ۔ لیکن صدر
بش نے انہیں اہمیت دی تھی جو جنگیں فروغ دینے کی باتیں کر رہے تھے۔ 18سال بعد اب ان
طالبان سے مذاکرات کیے جا رہے ہیں۔ جنہیں بش انتظامیہ نے گو تا نو مو بے میں نظر بند
کیا تھا۔ اور ان سے مذاکرات کرنے کو مستر د کر دیا تھا۔ National Security Establishment کے سامنے
افغانستان میں سو ویت فوجوں کی شکست تھی۔ لیکن اس سے بھی کچھ نہیں سیکھا تھا۔ جو افغانستان
کو نیٹو کا ویت نام بنانا چاہتے تھے۔ وہ اس میں کامیاب ہوۓ تھے۔
اوبامہ انتظامیہ میں جو شام کی داخلی خانہ جنگی میں امریکہ کے ملوث ہونے
اور ‘Assad
has to go’ پالیسی کے خلاف تھے۔ انہیں Pro-Moscow کہا گیا تھا۔ امریکہ کے واچ میں شام میں انسانی
تباہی پھیلائی جا رہی تھی۔ شام کھنڈرات بن رہا تھا۔ عورتیں بچے بوڑھے نوجوان Mediterranean میں ڈوب رہے تھے۔ دہشت گردی کو
فروغ دیا جا رہا تھا۔ یورپ بھر میں خود کش بموں کے حملہ ہو رہے تھے۔ لوگ افغانستان
میں مر رہے تھے۔ لوگ عراق میں مر رہے تھے۔ لوگ لیبیا میں مر رہے تھے۔ لو گ پاکستان
میں مر رہے تھے۔ لوگ فرانس میں مر رہے تھے۔ لوگ بلجیم میں مر رہے تھے۔ لوگ ڈ نما رک میں مر رہے تھے۔ لو گ امریکہ میں مر رہے تھے۔ دنیا
انسانی خون سے سرخ ہو رہی تھی۔ جنگوں سے بھاگ کر پناہ لینے والوں کا یورپ کی
سرحدوں پر ایک سو نامی کا منظر تھا۔ صدر اوبامہ کا شام میں Adventure Pro Moscow تھا؟ یا جو صدر اوبامہ کی شام کے
خلاف پالیسی کی مخالفت کر رہے تھے وہ Pro-Moscow تھے؟ لیبیا
کو عدم استحکام کرنے کے نتائج ہیں جو یورپ میں Political upheaval میں دیکھے جا رہے ہیں۔ روس اور چین نے تین مرتبہ
شام کے مسئلہ پر امریکہ کی قرار داد کو سلامتی کونسل میں ویٹو کیا تھا۔ لیکن صدر
اوبامہ ‘Assad
has to go’ پالیسی میں رد و بدل کرنے کے لیے تیار نہیں تھے۔ صدر اوبامہ کی
شام پالیسی کی سب سے بڑی Casualty ترکی
ہے۔ جو روس کے Orbit میں آ گیا ہے۔ نیٹو سے دور ہو گیا
ہے۔ امریکی کانگریس کی 4 خاتون اراکین کی باتوں سے امریکہ کی صحت خراب نہیں گی۔
لیکن جس طرح سابق دو انتظامیہ اور اب ٹرمپ انتظامیہ میں National Security Establishment کے
واچ میں امریکہ کے مفادات کو نقصان پہنچا ہے۔ دوسروں پر Hate-America اور Unpatriotic ہونے کے لیبل لگانے سے پہلے اس کا
احتساب ہونا چاہیے۔
اسرائیل پر تنقید کرنا Anti-Semitic نہیں ہے۔ یہ Democratic Politics ہے۔ دنیا اگر امریکہ کی پالیسیوں
اور فیصلوں پر تنقید کرتی ہے۔ تو اسرائیل کو تنقید سے کیوں Exempted رکھا جا
رہا ہے۔ حقیقت میں یہ امریکہ کی 70-65 سال
کی اسرائیل کے بارے میں پالیسیاں ہیں جو
اب Anti-Israel اور Anti-Semitic کی صورت میں سامنے آ رہی ہیں۔ امریکہ نے ہر
اسرائیلی پالیسی کی ہمیشہ حمایت کی ہے۔ اسرائیل کی کسی پالیسی کی کبھی مذمت نہیں
کی ہے۔ اسرائیلی فوج نے اگر نہتے فلسطینی عورتوں اور بچوں کو ہلاک کیا تھا۔ تو
امریکی ترجمان کا یہ بیان ہوتا تھا کہ Israel has a right to defend itself ۔
ہر اسرائیلی جارحیت کے خلاف جب بھی سلامتی کونسل میں مذمت کرنے کی قرار داد پیش کی
گئی تھی۔ امریکہ نے ہمیشہ اسے ویٹو کیا تھا۔ اور اس طرح امریکہ اسرائیلی جارحیت کی حوصلہ افزائی کرتا تھا۔
امریکہ کی اس پالیسی کا یہ نتیجہ ہے کہ اسرائیل آج ایک Sick State ہے اور Dead End پر کھڑا ہے۔ امریکہ اگر اسرائیل کی غلط اور خطرناک پالیسیوں کی
سخت لفظوں میں مذمت کرتا اور انہیں Criticize کرتا تو اسرائیل آج ضرور ایک بہت مختلف ملک ہوتا۔
جس طرح سعودی حکومت کی پالیسیوں پر امریکہ اور یورپ میں شدید رد عمل ہوتا تھا۔ ان
پر حکومت کی سطح پر سخت تنقید ہوتی تھی۔ اس کے نتیجہ میں سعودی حکومت کے رویہ میں کچھ
Flexibility آتی تھی۔ اور
سعودی عرب اب Islamism کو برقرار
رکھتے ہوۓ Modernism کی طرف آ رہا
ہے۔ تاہم Political Freedom ابھی ایک مسئلہ
ہے۔ عورتوں کے حقوق کا سعودی حکومت نے اعتراف کیا ہے۔ لیکن اسرائیلی حکومت فلسطینی
عورتوں اور
Black Jews کو حقوق دینے کے لیے تیار نہیں
ہے۔ سعودی عرب جس بند نظام سے نکل رہا ہے۔ اسرائیل اس بند نظام میں جانے کی طرف
بڑھ رہا ہے اور اپنے ساتھ صدر ٹرمپ اور Evangelical Christians کو بھی اس نظام
میں آنے کے لیے گھسیٹ رہا ہے۔ خدا امریکہ
کو اس نظام میں جانے سے روکے۔ آمین
کیونکہ 70سال میں امریکہ اور یورپ کی
حکومتوں نے اسرائیل کی عالمی قوانین اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کی کبھی
کھل کر مذمت نہیں کی ہے۔ نہ ہی اسرائیلی پالیسیوں پر کبھی سخت تنقید کی ہے۔ لہذا
امریکہ اور یورپ کے لوگ اب اسرائیل کی ان پالیسیوں پر سخت تنقید کر رہے ہیں۔ اسرائیل
کے خلاف Boycott, Divestment
and Sanctions {BDS} تحریک کالجوں اور یونیورسٹیوں سے شروع ہوئی ہے۔ اس کا Anti-Semitics سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ دنیا میں
لاکھوں یہودی اسرائیلی حکومت کی پالیسیوں سے اختلاف کرتے ہیں۔ State of Israel پر تنقید نہ ہونے سے ریاست کمزور
ہو رہی ہے۔
No comments:
Post a Comment