What Is The Saudi King Giving
To His Children And Grand Children; Weapons, Wars, Hatred And Tribalism?
Saudi Arabia Can Become The Norway Of The
Middle East; A Very Prosperous Country In The World, Rich In Oil And Gas, It’s
Closed To $1 Trillion In Sovereign Funds, Are The Largest Funds In The Oil And
Gas Producing Countries
مجیب خان
Saudi Arabia's King Salman bin Abdulaziz Al Saud with his son and Crown Prince Mohammed bin Salman |
President Trump agree to $100 billion arms deal for Saudi Arabia in the war in Yemen |
تقریباً 25سال قبل خلیج کی پہلی جنگ
کے بعد سعودی عرب نے اپنی سرزمین پر پہلی بار امریکی فوجوں کو قیام کرنے کی
سہولتیں دی تھیں۔ حکومت کے اس فیصلے پر سعود یوں کو غصہ تھا۔ اور تشویش بھی تھی۔ ا
سا مہ بن لادن جو سعودی شہری تھا۔ افغانستان کو کمیونسٹ فوجوں سے آزاد کرانے کے
بعد ابھی سعودی عرب پہنچا تھا کہ اس نے سعودی عرب میں امریکی فوجوں کو دیکھا تو
اسے غصہ آ گیا کہ وہ ایک اسلامی افغانستان
میں غیر ملکی فوجی قبضہ کے خلاف جہاد کرنے گیے تھے۔ اور اب اس کے ملک میں غیر ملکی
فوجیں بھیٹی ہوئی تھیں۔ یہ دیکھ کر بن لادن نے افغان جنگ کے جہادیوں
سے سعودی عرب سے غیر ملکی فوجوں کو نکالنے
کے لیے جہاد کرنے کا کہا تھا۔ جس پر سعودی حکومت نے ا سا مہ بن لادن کو ملک بدر کر دیا تھا۔ اس کے
بعد کے واقعات عرب عوام بالخصوص اور دنیا بالعموم کے علم میں ہیں۔ یہ بادشاہوں کا
خطہ ہے۔ اور یہاں حالات میں مثبت تبدیلی کبھی نہیں آتی ہے۔ اور یہ اس کا ثبوت ہے
کہ سعودی شاہ نے 25 سال بعد ایک بار پھر 500 امریکی فوجوں کو سعودی عرب میں قیام
کرنے کی اجازت دی ہے۔ یہ فیصلہ کیوں ضروری تھا۔ سعودی حکومت نے اس کی وضاحت نہیں
کی ہے۔ حالانکہ صرف چند ہفتوں قبل صدر ٹرمپ نے کہا تھا کہ امریکہ کی 5ہزار فوجیں
عراق میں ہیں اور یہ یہاں سے علاقہ میں ایران کی سرگرمیوں
کو واچ کریں گی۔ اور عراق سعودی عرب سے دور نہیں ہے۔ جبکہ بحرین، کویت، قطر، ا و مان
میں امریکہ کے فوجی اڈے ہیں۔ جہاں طیارہ بردار بحری بیڑے کھڑے ہیں۔ اور ایران کا گھراؤ
کیے ہوۓ ہیں۔ دنیا کے کسی خطہ میں اتنی
بڑی تعداد میں غیرملکی فوجی سرگرمیاں نہیں ہیں کہ جتنی بادشاہوں کے خطہ میں ہیں۔
یہاں امریکہ کے علاوہ برطانیہ اور فرانس کے طیارہ بردار بیڑے بھی کھڑے ہیں۔
بادشاہوں کو بیویاں رکھنے کا شوق سمجھ میں آتا ہے۔ لیکن اپنے خطہ میں بادشاہوں کا
غیر ملکی فوجوں کو جمع کرنے کا شوق سمجھ میں نہیں آتا ہے۔ سعودی عرب نے اسلامی
ملکوں کی بھی فوج قائم کی ہے۔ جو سعودی عرب میں ہیں۔ پاکستان آرمی کے سابق چیف
جنرل راحیل شریف اسلامی فوج کی کمانڈ کر رہے ہیں۔ پھر سعودی عرب کی اپنی ایک قومی
فوج بھی ہے۔ جس کے لیے سعودی حکومت امریکہ برطانیہ فرانس جرمنی اور اسپین سے
کھربوں ڈالر کے ہتھیار ہر سال خریدتی ہے۔ سعودی عرب کے بجٹ کا ایک بڑا حصہ دفاع اور مغربی ملکوں سے
ہتھیاروں کو خریدنے پر خرچ ہوتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود بادشاہ Kingdom کو اتنا زیادہ Vulnerable سمجھتے ہیں کہ اب 500 امریکی فوجی
بلاۓ ہیں۔ سعودی بہت Naive ہیں۔ انہیں
شاید یہ معلوم نہیں ہے کہ ڈیڑھ لاکھ امریکی فوج 19 سال میں افغانستان کو سلامتی
امن اور استحکام نہیں دے سکی ہے۔ اس سے کیا سبق لیا جاۓ؟ جب سے مڈل ایسٹ میں
ہتھیاروں کی فروخت بڑھتی جا رہی ہے۔ ہر طرف غیر ملکی فوجی اڈے تعمیر ہو رہے ہیں۔
اس خطہ میں ہر ملک کی سلامتی خطرے میں ہے۔ عدم استحکام، انتشار لڑائیاں اور جنگیں
اس خطہ میں نسلوں کا مستقبل ہے۔
سعودی عرب کی خطہ میں امن اور
استحکام کے لیے اتنی کوششیں نہیں ہیں کہ جس قدر سعودی حکومت ہتھیاروں اور جنگوں پر
خرچ کرتی ہے۔ یہ سعودی پالیسی ہے جو سلامتی اور استحکام کے خطرے پیدا کر رہی ہے۔
اور خلیج کے دوسرے ملکوں کو بھی اس میں گھسیٹ رہی ہے۔ سعودی عرب خلیجی ریاستوں کا
فوجی اتحاد یمن میں جنگ نہیں جیت سکا ہے۔ تقریباً
4سال ہو گیے ہیں۔ سعودی قیادت میں اتحاد کو یمن میں ایک انچ بھی کامیابی نہیں ہوئی
ہے۔ صرف املاک تباہ اور بے گناہ شہریوں کو
ہلاک کیا ہے۔ جبکہ امریکہ برطانیہ اور فرانس سعودی قیادت میں اتحاد کے پشت پر تھے۔
انہیں ہتھیار فراہم کرنے میں دیر نہیں کرتے تھے۔ لیکن خلیجی اتحاد یمن فتح نہیں کر
سکا۔ ہوتی بڑی بہادری سے مقابلہ کر رہے ہیں۔ ان کی پشت پر صرف چند ملکوں کی Moral support ہے۔ شام میں حکومت
کے خلاف دہشت گردوں کی خانہ جنگی میں سعودی عرب خلیجی ملکوں کے ساتھ امریکہ کی
قیادت میں انتہا پسند باغیوں کی حمایت کر رہا تھا۔ امریکہ انہیں تربیت اور ہتھیار
دے رہا تھا۔ خلیجی ملک فنڈ ز فراہم کر رہے تھے۔ اب اپنے خطہ میں خلیجی ملک کتنی
جنگیں لڑ رہے تھے۔ ایک جنگ یہ یمن میں لڑ رہے تھے۔ ایک جنگ یہ شام میں لڑ رہے تھے۔
ایک جنگ یہ ISIS سے لڑ رہے تھے۔
ایک جنگ لیبیا میں لڑی جا رہی تھی۔ اور یہ بادشاہوں کا خطہ تھا۔ شام کی فوج نے بڑی
بہادری سے انتہا پسند باغیوں اسلامی دہشت گردوں اور ISIS کا مقابلہ کیا تھا۔ اپنے ملک کا دفاع کیا تھا۔ اور آخر میں انہیں
فتح ہوئی تھی۔ امریکہ کی قیادت میں خلیجی ملکوں کے اتحاد کی یہاں بھی بری طرح شکست
ہوئی تھی۔ صدر اسد نے کہا تھا کہ وہ شام کے تمام علاقے آزاد کرائیں گے۔ اور انہوں
نے یہ پورا کر کے دکھایا ہے۔ تاہم آخر میں روس اور ایران نے شام کی مدد کی تھی۔ لیکن
شام کی فتح ہوئی تھی۔
سعودی عرب اور خلیجی ملکوں کو کبھی کسی
جنگ میں فتح نہیں ہوئی ہے۔ عراق میں انہیں امریکہ اور برطانیہ نے شکست دی ہے۔ شام
میں بھی سعودی عرب اور اس کے خلیج کے اتحادی ناکام ہوۓ ہیں۔ یمن میں یہ ہو تیوں کو شکست نہیں دے سکے ہیں۔ سوڈان میں سعودی عرب
کے ایک قریبی اتحادی صدر عمر بشیر کی
حکومت ختم ہو گئی ہے۔ ترکی کے ساتھ سعودی عرب نے تعلقات خراب کر لیے ہیں۔ ایران سے
سعود یوں کی جنگ چل رہی ہے۔ قطر سے سعودی عرب نے تعلقات منقطع کر لیے ہیں۔ اسلامی
دنیا کے غیر عرب ممالک Sideline پر ہو گیے ہیں۔
اور سعودی عرب کے Behavior پر حیران ہیں
کہ اس کا End کہاں ہو گا؟ ہمسائیوں
کے ساتھ محاذ آرا ئی، جنگیں، کھربوں ڈالر ہتھیاروں پر برباد ہو رہے ہیں۔ یہ حالات
اس خطہ کی سلامتی استحکام اور امن کے لیے ایک مسلسل خطرہ بنے ہوۓ ہیں۔
33 سالہ ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان
ابن سعود عبدالعزیز کی دوسری نسل سے ہیں۔
ابن سعود کی پہلی نسل سے بادشاہت اب دوسری نسل کو منتقل ہونے جا رہی ہے۔ ولی عہد
شہزادہ محمد کا 21ویں صدی کا Vision جیسے ابن سعود
کا Tribal vision ہے۔
جسے ولی عہد Revive کر رہے ہیں۔ اپنے
ایک مخالف جمال کشوگی کو ولی عہد نے
قبائلی ذہنیت سے راستہ سے ہٹایا ہے۔ یمن کے خلاف جنگ شروع کی ہے۔ شیعہ سنی کی 1400
سو سال پرانی جنگ کا فیصلہ کرنے کا عزم کیا ہے۔ اور اس ذہنیت سے ایران کو دشمن
قرار دیا ہے۔ جبکہ سنی ترکی کے بارے میں ولی عہد کے خیالات یہ ہیں کہ سلطنت
عثمانیہ میں ترکوں نے عربوں کا قتل عام کیا تھا۔ ابن سعود عبدالعزیز کی دوسری نسل
کے یہ خیالات سعودی عرب کو آگے کی طرف لے جانے اور ایک نئی تاریخ بنانے کے بجاۓ سعودی
عرب کو ماضی کی تاریخ کا قیدی بناۓ ہوۓ ہیں۔ ابن سعود کی پہلی نسل کے بادشاہوں نے
80سال میں حاصل کچھ نہیں کیا ہے بلکہ کھویا زیادہ ہے۔ سعودی بادشاہوں نے مغربی
طاقتوں کی سیاست کا اتحادی بن کر اپنی دولت برباد کی ہے۔ خطہ میں Turmoil فروغ دیا ہے۔ سعودی
قیادت نے اپنے ملک کو ترقی دی ہے اور نہ ہی خطہ کے دوسرے ملکوں کو ترقی کرنے دی ہے۔
اس خطہ کو Chaos میں رکھنے کی
پالیسیاں اختیار کی ہیں۔ اور اب اپنے ہمسایہ ملکوں کو تباہ و برباد کر کے سعودی
عرب کو ترقی دینے کا خواب دیکھا ہے۔ سعودی عرب اگر بڑی طاقتوں کی خطہ میں اسرائیل
کے Behalf پر
جنگوں اور ہتھیاروں کی فروخت کا مارکیٹ بنانے کی سیاست سے اپنے آپ کو دور رکھتا تو
آج سعودی عرب بھی مڈل ایسٹ کا Norway ہوتا ہے۔ Norway بھی سعودی عرب
کی طرح آئل، گیس اور مدنیات سے مالا مال ہے۔ Norway کا شمار دنیا کے بڑے پیٹرولیم ایکسپورٹر ز میں ہوتا ہے۔ آئل
پروڈکشن تقریباً 50 فیصد ہے۔ پیٹرولیم کے
شعبہ میں شاندار ترقی سے Norway دنیا کا سب
زیادہ خوشحال ترین ملک ہے۔ دولت مند معیشت کی وجہ سے معیار زندگی بھی بہت بلند ہے۔
دنیا کے دوسرے ملکوں کے مقابلے میں یہاں بیروزگاری کی شرح بہت کم ہے۔ Norway کے شہریوں کے لیے Free Health Care کا نظام ہے۔ شرح اجرت بہت زیادہ
ہے۔ جس کی وجہ سے لوگوں کی قوت خرید بھی بہت ہے۔ حکومت تعلیم پر بھی بہت زیادہ خرچ
کرتی ہے۔ جس کے نتیجہ میں آبادی انتہائی پڑھی لکھی، دولت مند اور تعلیم یافتہ ہے۔
اس وقت دنیا میں Norway کا سب سے بڑا Sovereign Wealth Fund ہے۔ جو تقریباً ایک ٹیریلین ڈالر کے
قریب ہے۔ جبکہ سعودی عرب کا Sovereign
Wealth Fund $675 billion ہے۔ سعودی بادشاہوں نے اپنے ملک کا Sovereign Wealth Fund ہتھیاروں اور جنگوں میں Invest کرنے پر فوقیت دی ہے۔ سعودی عرب میں بے روز گاری تقریباً 12 فیصد
ہے۔ غربت بھی بہت زیادہ ہے۔ تعلیم یافتہ لوگوں کا فقدان ہے۔ جنگیں سعودی معاشرے
میں جہالت کی علامت ہیں۔
No comments:
Post a Comment