Prime Minister Modi Has Changed the Disputed
Status of Kashmir Unilaterally, And Then Telling President Trump “These issues
are bilateral.” India And Pakistan Solve These Issues by Bilateral Talks. Mr.
Modi No More Bilateral Talks, Now the Solution Is to Accept the Will of
Kashmiri People
Do Not Invest in Those States of India Where Zealous Hindu’s
are in Power, Invest Only in Those States Where Secular, Liberal, and Progressive
Parties are in Government
مجیب خان
Prime Minister Modi and President Trump meet at G-7 summit, Discuss Kashmir Issue |
For every 10 killed 20 more will join until this land is freed from Indian occupation," said, one protester |
Crown Prince of Abu Dhabi Mohammed bin Zayed Al Nahyan, conferred UAE's highest civilian award 'Order of Zayed' Prime Minister Modi |
Kashmiris wants Freedom |
Prime Minister Narendra Modi was conferred, King Hamad' Order of the Renaissance' by Bahraini King Hamad bin Isa bin Salman Al Khalifa |
کشمیر- کرفیو کا 24واں دن ہر گلی ہر چوہراۓ ہر
طرف فوجی ٹرک ہر چوہراۓ پر فوجیوں کے جتھے ڈنڈا بردار اسپیشل پولیس، بھارت کی جمہوریت میں کرفیو کے اس منظر میں
مارشل لا خاصا Mild ہوتا تھا۔ مودی حکومت میں
کشمیریوں کے ساتھ کرفیو لگا کر جو سلوک ہو رہا ہے۔ ایسا سلوک تو شاید انگریزوں نے
بھی مودی کے باپ اور دادا کے ساتھ نہیں کیا ہو گا۔ آزادی اور حقوق کا مطالبہ کرنا
اتنا بڑا جرم نہیں ہے کہ بستی اور آبادی کو سخت کرفیو لگا کر جیلیں بنا دیا جاۓ۔
لیکن آزادی مانگنے والوں پر ظلم و بربریت کرنا۔ ان پر تشدد کرنا۔ بہت بڑا جرم ہے۔ یہ
عالمی قانون اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں ہیں۔ اور جو حکومتیں ایسی
سرگرمیوں میں ملوث ہوتی ہیں۔ انہیں انسانیت کے خلاف کرائم کرنے کے الزام میں عالمی
عدالت میں کھڑا کیا جا سکتا ہے۔ نریندر مودی کو دنیا ایک مرتبہ معاف کر چکی ہے۔
مودی جب گجرات کے وزیر اعلی تھے۔ ان کی حکومت میں انتہا پسند ہندوؤں نے مسلمانوں
کا قتل عام کیا تھا۔ ان کے گھروں اور کاروباروں کو آگ لگائی تھی۔ عورتوں اور لڑکیوں
کے ساتھ بد سلوکی کی تھی۔ ایک ہزار سے زیادہ مسلمان اس وقت ہندو مسلم فسادات میں
مارے گیے تھے۔ اب یہ وہ ہی مودی ہیں اور ان کے انتہا پسند ہندو ہیں۔ کشمیریوں کا
انتہا پسند ہندوؤں کے ہاتھوں قتل عام ہونے کے بجاۓ انہیں گھروں میں کرفیو لگا کر ایک
طرح سے نظر بند کر دیا ہے۔ انہیں تمام بنیادی انسانی ضرورتوں سے محروم کر دیا ہے۔
تاکہ وہ اپنی موت آپ مر جائیں۔ اور یہ مودی حکومت کا ایک نیا تجربہ ہے۔ باہر کی
دنیا سے کشمیریوں کے تمام رابطہ منقطع کر دئیے ہیں۔ تاکہ باہر کی دنیا کو یہ پتہ
نہیں چلے گا کہ کون کس حال میں ہے اور کون کس حال میں مر رہا ہے۔ طالبان اگر اس
طرح کرفیو لگا کر حکومت کرتے تو شاید ابھی تک حکومت کر رہے ہوتے۔ مودی حکومت سے بھی ان کے اچھے تعلقات ہوتے۔ مغربی
دنیا بھی طالبان سے خوش ہوتی۔ عرب حکمران ملا عمر کے گلے میں اعلی تغمہ ڈال رہے
ہوتے۔ شاید یہ دنیا بنانے کے لیے سرد جنگ لڑی اور ختم کی گئی تھی۔
نریندر مودی کا اپنے انتہا پسند ہندو
برادری سے یہ انتخابی عہد کہ منتخب ہونے کے بعد وہ کشمیر کا آزاد مقام ختم کر کے
اسے یونین میں شامل کریں گے۔ اس عہد سے مودی نے اپنی انتخابی جیت کیش کی تھی لیکن
اب اس عہد پر عملدرامد مودی کو مہنگا پڑ رہا ہے۔ مودی اب آ گے بڑھ نہیں سکتے اور
پیچھے ہٹ نہیں سکتے ہیں۔ وہ خود بھی ایک کرفیو کے عالم میں ہیں۔ ایسا نظر آتا ہے
کہ پہلے پانچ سال مودی نے حالات خراب سے خراب تر کرنے کے لیے کشمیر فوج کے حوالے
کر دیا تھا۔ اور اب حالات بہتر بنانے کے لیے کشمیر بھارتی یونین میں شامل کر لیا
ہے۔ اور صدر ٹرمپ کو بتایا ہے کہ کشمیر کے حالات کنٹرول میں ہیں۔ جب کشمیر میں ہر
طرف فوج اور ڈنڈا بردار فورس ہو گی اور باہر کی دنیا سے کشمیریوں کے رابطہ منقطع
ہوں گے۔ بلاشبہ حالات تو بہتر نظر آئیں گے۔
وزیر اعظم مودی کو اب یہ احساس ہو
رہا ہے کہ کشمیر کے بارے میں ان کا فیصلہ انہیں مہنگا پڑ رہا ہے۔ وزیر اعظم مودی
کو ان کے فیصلے پر عالمی رد عمل دیکھ کر بڑی حیرت ہوئی ہے۔ مودی نے غلط فیصلہ بڑے
غلط وقت کیا ہے۔ جس سے بھارت کا سیاسی امیج خراب ہوا ہے۔ اور دوسری طرف بھارت کی
معیشت بھی خراب ہو رہی ہے۔ کشمیر کی سیاسی صورت حال بھارت کی اقتصادی سرگرمیوں کو
متاثر کر رہی ہیں۔ ایک غیر یقینی حالات کا خدشہ پیدا ہو رہا ہے۔ کہ مودی حکومت کا
کشمیر فیصلہ بھارت کو کس سمت میں لے جاۓ گا؟ انتہا پسند ہندو مودی حکومت کے فیصلوں
کا تعین کر رہے ہیں۔ اس صورت حال میں بھارت کو دنیا میں تنہا کیا جا سکتا ہے۔
انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں اور NGOs عالمی سرمایہ کاروں کو بھارت کی ان ریاستوں میں سرمایہ کاری سے
روک سکتے ہیں جن ریاستوں میں انتہا پسند ہندو جماعتوں کی حکومتیں ہیں۔ اور صرف ان
ریاستوں میں سرمایہ کاری کریں جن میں سیکولر، لبرل اور پروگریسو جماعتوں کی حکومتیں
ہیں۔ بھارت کو سیکولر سیاست میں رکھنے میں عالمی برادری رول ادا کر سکتی ہے۔ بھارت
میں ہندو انتہا پسندوں کا حکومت پر قبضہ ایسا ہی ہو گا جیسے افغانستان میں حکومت
پر طالبان کا قبضہ تھا۔ بھارت کے پاس نیو کلیر ہتھیار بھی ہیں۔ اور اگر یہ ہتھیار
انتہا پسند ہندوؤں کے ہاتھوں میں چلے جاتے ہیں تو علاقائی ملک صفحہ ہستی سے مٹ جائیں
گے۔ پاکستان کے لیے یہ بہت مشکل ہو گا کہ پاکستان افغانستان میں طالبان کی انتہا
پسندی ختم کرنے میں امریکہ کی مدد کرے اور امریکہ بھارت میں ہندو انتہا پسندی سے
منہ موڑ لے جو پاکستان بلکہ علاقائی سلامتی کے لیے خطرہ بن رہے ہیں۔ افغانستان میں
18سال سے انتہا پسندی کا خاتمہ کرنے کی جنگ لڑی جا رہی ہے۔ اور دوسری طرف بھارت
میں ہندو 'طالبان' کی تحریک زور پکڑ رہی ہے۔ اب اگر مودی حکومت کشمیر کا خود مختار
ریاست کا مقام ختم کر کے اسے بھارت کا حصہ بنانے میں کامیاب ہو جاتی ہے۔ تو یہ
ہندو 'طالبان' تحریک کی ایک بہت بڑی جیت ہو گی۔ اور بھارت کو اس سے ہمسایہ میں چھوٹے
اور کمزور ملکوں کے خلاف جارحانہ رویہ اختیار کرنے کی شہ ملے گی۔
فرانس میں G-7 کانفرنس میں بھارت کو ایک مہمان مندوب کی حیثیت سے
مدعو کیا تھا۔ کانفرنس Sidelines پر صدر ٹرمپ اور وزیر اعظم مودی کی خصوصی طور پر کشمیر کی صورت
حال پر گفتگو ہوئی تھی۔ صدر ٹرمپ کو یہ احساس ہوا تھا کہ اس ایشو پر ان کی ثالثی
کی پیشکش کو مودی نے رد کر دیا تھا۔ کہ “These issues are bilateral” اور بھارت اور پاکستان انہیں bilateral مذاکرات سے حل کریں گے۔ مودی کی
یہ باتیں سن کر صدر ٹرمپ کو شاید احساس ہوا تھا کہ وزیر اعظم مودی انہیں بے وقوف
بنا رہے تھے۔ مودی کے پہلے 5 سال اقتدار میں پاکستان کے
ساتھ سنجیدہ Bilateral مذاکرات
کے کوئی ثبوت نہیں تھے۔ عمران خان نے وزیر اعظم بننے کے بعد اپنی حکومت کے پالیسی
پلان پر اپنے پہلے خطاب میں بڑے کھلے دل سے بھارت کے ساتھ تعلقات بحال کرنے پر کہا
تھا کہ اگر بھارت ایک قدم آگے آۓ گا تو ہم دو آگے بڑھے گے۔ لیکن مودی کے ارادے
پاکستان کو 20قدم پیچھے کی طرف لے جانے کے تھے۔ مودی نے صدر ٹرمپ سے پاکستان کے
ساتھ bilateral مذاکرات کرنے کے
بارے میں بھی جھوٹ بولا ہے۔ مودی نے Unilaterally ایک متنازعہ کشمیر کا Status بدل دیا ہے۔ کشمیر پر بھارت کا آئین لاگو کر دیا
ہے۔ کشمیریوں سے بھارت کی حکومتوں نے جو وعدے کیے تھے۔ مودی حکومت ان سے مکر گئی
ہے۔ اور صدر امریکہ سے وزیر اعظم مودی کہتے ہیں “These issues are bilateral” صدر ٹرمپ شاید مودی سے اس پر بحث
کرنے کے موڈ میں نہیں تھے۔ صدر ٹرمپ نے ملاقات مختصر کرتے ہوۓ کہا ' وہ یہاں ہیں
اور جب انہیں ضرورت ہو وہ حاضر ہیں۔' بہر حال معاملہ اب bilateral کی حدود سے باہر نکل گیا ہے اور
وزیر اعظم مودی کو اب کشمیریوں کی Will پوری کرنا ہو گی۔ وہ جو مانگ رہے انہیں وہ دینا ہو گا۔ بھارتی فوج
نے کشمیریوں کا بہت خون بہایا ہے۔ بھارتی حکومت نے انہیں بہت اذیتیں دی ہیں۔ جنت
کی وادی کو نفرتوں کی دوزخ بنا دیا ہے۔ بھارتی حکومتیں پاکستان کو سرحد پار دہشت
گرد بھیجنے کے الزام دے کر حالات اس مقام پر لے آئی ہیں۔ ان الزامات کی سیاست میں
انہوں نے سب کا وقت برباد کیا ہے۔ دنیا بھارتی لیڈروں کے اس Behavior کو دیکھے اور پھر اس سوال کا جواب دے کہ کیا بھارت عالمی قیادت کا
رول ادا کرنے کا مستحق ہے۔ جس نے کشمیر کے حالات بہتر بنانے کے بجاۓ اور زیادہ
بگاڑ دئیے ہیں۔ ایسی قیادت تو دنیا کے حالات بگاڑ دے گی۔
وزیر اعظم نریندر مودی کو ایک ایسے
موقع پر عرب حکمران لاکھوں ڈالر کے تغمے نواز رہے ہیں کہ جب کشمیر میں بے بس اور
محکوم مسلمانوں پر ہندو حکومت ظلم و بربریت کر رہی ہے۔ اسلامی ملکوں کو کشمیریوں
کے ساتھ مکمل یکجہتی اور اسلامی اتحاد کا
مظاہرہ کرنا چاہیے تھا۔ جو عرب حکومتیں بھارت میں بھاری سرمایہ کاری کر رہی ہیں۔
یہ بھارت کے ٹریڈ پارٹنر بھی ہیں۔ بھارتیوں کی ایک بہت بڑی تعداد عرب ملکوں میں
کام کر رہی ہے۔ کشمیر کی صورت حال پر ان عرب حکومتوں کو اپنا اثر و رسوخ استعمال
کرتے ہوۓ مودی حکومت کو اپنے فیصلوں پر نظر ثانی کرنے کے لیے مجبور کرنا چاہیے
تھا۔ اسلامک ورلڈ شدید Disarray کا شکار ہے۔
اسلامی دنیا کو ان حالات اور مقام پر لانے کی منصوبہ بندی 25سال پہلے کی گئی تھی۔
میں اسے اس وقت سے واچ کر رہا ہوں کہ جب 1997 میں تہران میں اسلامی سربراہ کانفرس
کا انعقاد ہوا تھا۔ 9سال کی ایران عراق جنگ کو فراموش کر کے ایران نے اسلامی دنیا
کے اتحاد کو سپریم اہمیت دی تھی۔ اور صد ام حسین کو تہران میں اسلامی سربراہ
کانفرنس میں شرکت کی دعوت دی تھی۔ عراق پر امریکہ اور برطانیہ کی انتہائی سخت اور
انسانی تاریخ کی بدترین بندشیں لگی ہوئی تھیں۔ صدر کلنٹن امریکہ کے صدر تھے۔ ان کے
قومی سلامتی امور کے مشیر سینڈی برگر تھے۔ تہران میں اسلامی سربراہوں کی کانفرنس صد
ام حسین کو شرکت کی دعوت پر سینڈی برگر کو خاصی تشویش تھی۔ وائٹ ہاؤس میں پریس
بریفنگ میں انہوں نے عراق کے ایک اعلی وفد کی اس کانفرنس میں شرکت پر سوال کے جواب
میں کہا کہ وہ تہران کانفرنس کو بڑے قریب سے واچ کر رہے ہیں۔ اور وہ کانفرنس کے اعلامیہ
کا جائزہ لیں گے۔ عراق کے خلاف اقتصادی بندشوں کو 6سال ہو گیے تھے اور عراقی عوام ان بندشوں سے بری طرح متاثر ہو
رہے تھے۔ ایران کی کوشش تھی کہ تہران اسلامی سربراہ کانفرنس عراق پر سے اقتصادی
بندشیں ختم کرنے کا مطالبہ کرے۔ لیکن خلیج کے ملکوں نے امریکہ کے دباؤ میں سرد
رویہ اختیار کیا تھا۔ ایران کے اس موقف سے اتفاق نہیں کیا تھا۔ اسلامی ملکوں کو
متحد کرنے کی کوشش ناکام ہو گئی تھی۔ تہران کانفرنس کے 4سال بعد 9/11 کا واقعہ ہو گیا تھا۔ آج مڈل ایسٹ
کے حالات، خوشحال اسلامی کا کھنڈرات بننا، پہلا نیوکلیر اسلامی ملک پاکستان میں
محاذ جنگ کے مناظر، ایران کو تباہ و برباد کرنے کی کوششیں، ایران کے بعد اور کون
سے ملکوں کا نمبر ہو گا؟ یہ حالات دیکھ کر کون اس سے
انکار کرے گا کہ کیا یہ 9/11 کے مقاصد نہیں تھے؟ اس کی تفصیل
کسی اور موقعہ پر اس وقت تک Stay-tuned