Friday, August 23, 2019

Not Russia, But Russians From Israel Meddle In America’s Elections On Behalf Of Prime Minister Netanyahu



Not Russia, But Russians From Israel Meddle In America’s Elections On Behalf Of Prime Minister Netanyahu  

Global Rise Of Anti-Israel And Antisemitism, Under Netanyahu Government
مجیب خان

Robert Mueller testified before the House Judiciary and Intelligence Committee

US Representatives Rashida Tlaib and Ilhan Omar 



  روس کی 2016 کے انتخابات میں مداخلت کی تحقیقات کے لیے خصوصی کمیٹی کے کونسل Robert Mueller نے کانگریس کی جوڈیشیل کمیٹی کے سامنے بیان شہادت کے دوران کمیٹی کے ایک رکن کانگریس مین کے کئی مرتبہ یہ سوال دوہرانے پر کہ کیا روس نے 2016 کے انتخابات میں مداخلت کی تھی؟ Robert Mueller نے کہا ہاں روس نے مداخلت کی تھی۔ اور روس کے علاوہ بھی دوسرے ملک تھے۔ صرف اتنا کہہ کر Robert Mueller رک گیے اور کمیٹی کے اراکین کی طرف دیکھا۔ کمیٹی کے اراکین نے ان کی طرف دیکھا۔ جیسے دونوں نے ایک دوسرے سے نظریں ملا کر یہ معلوم ہو گیا تھا کہ یہ دوسرا ملک کو ن تھا۔ ایک مختصر خاموشی کے بعد روس کی انتخابات میں مداخلت پر سوالات کا سلسلہ پھر شروع ہو گیا تھا۔ تاہم کمیٹی کے کسی رکن نے جوڈیشیل کمیٹی کے ریکارڈ پر اس ملک کا نام آنے سے گریز کرتے ہوۓ Robert Mueller سے اس ملک کا نام بتانے پر اصرار نہیں کیا تھا۔ لیکن یہ ملک اسرائیل تھا۔ اس کا نام بتانے سے سب اس لیے ڈر رہے تھے کہ پھر ان پر Anti-Israel اور Anti-Semitic کے لیبل لگ جاتے۔ اور وہ  دوبارہ شاید کبھی منتخب نہیں ہو سکتے تھے۔ جیسے صدر ٹرمپ نے دو خواتین رکن کانگریس Ilhan Omar اور Rashida Tlaib پر Anti-Israel اور Anti-Semitic ہونے کے لیبل لگاۓ ہیں۔ صدر ٹرمپ کیا Anti-Iran ہیں؟ یا سیکرٹیری آف اسٹیٹ اور قومی سلامتی امور کے مشیر کیوں Die Hard Anti-Iran ہیں؟ جس طرح ان کے Anti-Iran ہونے کے کچھ اسباب ہوں گے۔ اسی طرح دو خواتین رکن کانگریس کے اسرائیل سے اختلاف ہوں گے۔ یہ اسرائیلی حکومت کی غیر جمہوری اور ظلم پر مبنی پالیسیاں بھی ہو سکتی ہیں۔ لیکن ضروری نہیں ہے کہ اسے Anti-Israel اور Anti-Semitic کہا جاۓ۔ اپنے مخالفین کی سوچ تبدیل کرنے کی بھی ایک Politics ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ امریکہ اور اسرائیل کی اپنے مخالفین کو دشمن رکھنے کی ایک سیاست ہے۔ 70 سال سے اسرائیل کی دشمنوں کو دشمن رکھنے کی پالیسی ہے۔ اوراس پالیسی نے اسرائیلی لیڈروں کو Anti-Israel بنا دیا ہے۔ اور جو اس پالیسی کی مخالفت اور تنقید کر رہے ہیں وہ Anti-Israel نہیں ہیں۔
  لیکوڈ پارٹی تقریباً 16سال سے اقتدار میں ہے جس میں 10سال سے وزیر اعظم نتھن یا ہو اقتدار میں ہیں۔ اور لیکوڈ پارٹی کے دور میں دنیا میں Anti-Semitic بڑھا ہے۔ اور وزیر اعظم نتھن یاہو کے اقتدار میں Anti-Israel پھیلا ہے۔ جو اب B.D.S تحریک Boycott, Divestment and Sanctions] [ بن گئی ہے۔ اور امریکی کانگریس میں اس تحریک کی حمایت میں قرار داد منظور کرنے کا کہا جا رہا ہے۔ اور بات اب یہاں تک پہنچ گئی ہے۔ امریکہ اور دنیا میں اسرائیل کے بارے میں راۓ عامہ اس تیزی سے تبدیل ہوئی ہے۔ Peace Process کو ہمیشہ کے لیے ختم کر نے کے یہ نتائج ہیں۔ لیکوڈ پارٹی کا امن میں یقین نہیں ہے۔ یہ Warmongers کی پارٹی ہے۔ وزیر اعظم نتھن یا ہو نے مڈل ایسٹ میں امریکہ کو امن کے لیے کبھی استعمال نہیں کیا ہے۔ لیکن Chaos پھیلانے میں امریکہ کی ہمیشہ رہنمائی کی ہے۔ وزیر اعظم نتھن یا ہو نے پہلے اسرائیل کی سرحد پر شام کو عدم استحکام کرنے کے نظارہ کیا تھا۔ امریکہ اور خلیج کے ملکوں کو شام تباہ کرنے سے روکا نہیں۔ اس کے دور رس اثرات پر خاموشی اختیار کی تھی۔ اور جب اسد حکومت کی فتح ہونے لگی تو شام میں ایران کی موجودگی پر واویلا کرنا شروع کر دیا تھا۔ مڈل ایسٹ میں امریکہ اور اسرائیل کے ہر غلط فیصلوں کے نتائج کا الزام اب ایران کو دینے لگے ہیں۔ لیکن دنیا الزامات کی سیاست میں اب یقین نہیں کرتی ہے۔ مڈل ایسٹ کی سرزمین پر جو حقائق ہیں دنیا انہیں دیکھ رہی ہے۔
  صدر پو تن کے لیے امریکہ سے زیادہ Ukraine اہم ہے۔ اور اگر Ukraine کے انتخابات میں روس نے کوئی مداخلت نہیں کی تھی۔ تو اس کا مطلب تھا کہ امریکہ کے انتخابات میں بھی روس نے کوئی مداخلت نہیں کی تھی۔ 2016 کے انتخابات میں روس کی مداخلت پر دو سال  تحقیقات  اور 25ملین ڈالر خرچ کرنے کے بعد جو رپورٹ سامنے آئی ہے۔ اس میں روس کی مداخلت کے واضح ثبوت نہیں ملے ہیں۔ تاہم 2016 کے انتخابات میں اسرائیل کی مداخلت نظر ضرور آئی ہے۔ سوال یہ تھا کہ Russia نے مداخلت کی تھی یا Russians نے مداخلت کی تھی۔ اسرائیل بھی ایک Little Russia ہے۔ اسرائیل میں 15% eligible voters Russian ہیں۔ اور تقریباً  20فیصد اسرائیلی آبادی روس میں پیدا ہوئی ہے۔ 2018 کے اختتام تک تقریباً 11ہزار روسی  اسرائیل میں آباد ہوۓ ہیں۔ اور گزشتہ سالوں میں اس میں 45فیصد اضافہ ہوا ہے۔ یہ نئے روسی Settlers ہیں۔ اسرائیلی حکومت ان کے لیے نئی بستیاں بناۓ گی۔ امریکی کانگریس اور انتظامیہ نے روس پر اقتصادی بندشیں لگائی ہیں۔ لیکن نئے روسیوں کو اسرائیل میں آباد کرنے کے لیے امریکہ کی 3بلین ڈالر امداد استعمال کی جاۓ گی۔ بہرحال یہ روسی اب اسرائیلی شہری ہیں۔ گولا ن کی چوٹیوں میں زیادہ تر روسی آباد ہیں۔ اور یہ یہاں کاشتکاری کرتے ہیں۔ صدر ٹرمپ نے گولا ن کو اسرائیل کا Sovereign علاقہ قرار دیا ہے۔
  1999 میں صدر بل کلنٹن نے اسرائیل میں انتخابات میں Likud Party کو ناکام بنانے کے لیے مداخلت کی تھی۔ نتھن یا ہو وزیر اعظم کے لیے امیدوار تھے۔ اور ان کے مقابلے پر لیبر پارٹی تھی۔ اور Ehud Barak وزیر اعظم کے لیے امیدوار تھے۔ James Carville صدر کلنٹن کے ایڈ وائزر تھے۔ اور صدر کلنٹن کی انتخابی مہم کے Strategist بھی تھے۔
 James Carville has helped Ehud Barak of Israel’s Labor Party at the suggestion of President Clinton, who had grown frustrated with Benjamin Netanyahu’s intransigence in the Peace Process, in the 1999 Knesset election.
  نتھن یا ہو کی Likud Party یہ انتخاب ہار گئی تھی۔ وزیر اعظم نتھن یا ہو کو خدشہ اب یہ تھا کہ  ہلری کلٹن اگر صدر منتخب ہو جاتی ہیں۔ تو شاید Likud Party پھر دوبارہ منتخب نہیں ہو سکے گی اور وہ وزیر اعظم نہیں رہیں گے۔ 2016 کے انتخابات کے آخری دس بارہ دن میں نتھن یا ہو اور صدارتی امیدوار ڈونالڈ ٹرمپ میں معاملات طے ہو گیے تھے۔ ری پبلیکن پارٹی کی ہائی کمان پہلے ہی یہ فیصلہ کر چکی تھی کہ ہلری کلٹن کو کسی صورت میں صدر منتخب نہیں ہونے دیا جاۓ گا۔ نتھن یا ہو نے اس مقصد میں اسرائیلی Russians فرنٹ لائن پر کر دئیے تھے۔ ان کے فلوریڈا، نیویارک، نیو جرسی وغیرہ میں رابطوں کو استعمال کیا تھا۔ امریکی میڈیا کے ریڈار پر اسے روس کی Meddling  فوکس کیا تھا۔ اس Meddling میں صدر پو تن کو Villain بنا کر ایران کے ساتھ قریبی اتحاد بنانے کی سزا دی تھی۔ Mueller Report میں صدارتی امیدوار ڈونالڈ ٹرمپ کی انتخابی کمیٹی میں George Papadopoulos ٹرمپ کے قومی سلامتی اور خارجہ امور کے مشیر تھے۔ جو اسرائیل کے Unregistered Lobbyist تھے۔ انہیں صرف 14 روز جیل کی سزا دی گئی تھی۔ اگر وہ روس کے Unregister Lobbyist ہوتے  تو انہیں شاید 14 ماہ کی سزا ہوتی۔ بہرحال ہلری کلنٹن کی صدارتی انتخاب میں شکست ہونے کی سازش بھی ایسی ہی کہ جیسے جان ایف کنیڈی کو قتل کرنے کی سازش میں گولی کس طرف سے آئی تھی۔ آج تک اس کا پتہ نہیں چل سکا ہے۔    

                                                                                                                                                               

No comments:

Post a Comment