Curfews, Sanctions, Blockades, Are Economic
Landmines That Are Against the Law of Humanity. Five-Hundred Thousand Infants
Were killed In Iraq During the Harsh Economic Sanctions, According to The U.N.
Report.
مجیب خان
Prime Minister Imran Khan addressing U.N. General Assembly, Sept 27, 2019 |
Prime Minister Narendra Modi with President Donald Trump on stage at Howdy Modi event at NRG Stadium on Sept22, 2019 Houston TX. AFP. |
Prime Minister Narendra Mode in U.N. General Assembly Sept27, 2019 |
جب 1970 میں بھارت نے پاکستان کے
داخلی سیاسی بحران میں فوجی مداخلت کی تھی۔ عمران خان اس وقت 17 سال کے تھے۔ جنرل یحی
خان نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اس بھارتی مداخلت اور جارحیت پر سلامتی
کونسل میں پاکستان کا کیس پیش کرنے کے لیے ذوالفقار علی بھٹو کو بھیجا تھا۔ سلامتی
کونسل کے 15 اراکین سے ذوالفقار علی بھٹو کا خطاب بہت جذباتی تھا۔ پاکستان کے بارے
میں بھٹو کے جذبات جیسے دل کی گہرائی سے بول رہے تھے۔ یہ ہر لحاظ سے ایک تاریخی
تقریر تھی۔ مشرقی پاکستان میں بھارت کی فوجی مداخلت بند کرنے پر پولینڈ کی قرار داد بھٹو نے قبول کرنے سے انکار کر دیا
تھا۔ اور اس قرار داد کو پھاڑ کر کونسل کے اراکین کے منہ پر پھینک کر بھٹو کونسل
کے اجلاس سے اپنے وفد کے ساتھ اٹھ کر باہر آ گیے تھے۔ اس وقت جو پاکستانی، بھارتی،
اور بنگالی 19 سال کے تھے۔ آج وہ سب 50سال کے ہو گیے ہیں۔ وزیر اعظم نریندر مودی بھی
66سال کے ہو گیے۔ لیکن ان 50سالوں میں بھارت اور پاکستان کے درمیان تنازعہ خلاؤں
کے چکر لگا کر پھر وہیں آ گیے ہیں جہاں یہ 50سال پہلے کے حالات میں تھے۔ مشرقی
پاکستان کے بحران کی جگہ اب کشمیر کے بحران نے لے لی ہے۔ آج کشمیر کا بحران 50 سال
قبل مشرقی پاکستان کے بحران سے مختلف نہیں ہے۔ کشمیر آج بھارت کا مشرقی پاکستان
ہے۔ بھارت نے کشمیر میں فوجی مداخلت کی ہے۔ اور کشمیر کو اپنی فوجی چھاؤنی بنا لیا
ہے۔ کشمیریوں کی نقل و حرکت پر بندشیں لگا دی ہیں۔ نہتے کشمیریوں کے خلاف بھارتی
فوج کی بربریت انتہا پر ہے۔ کشمیر میں 55Days
Curfew بھارت کی جمہوریت میں سیاہ داغ ہیں۔
وزیر اعظم عمران خان کو بھارت کے
خلاف کرکٹ کھیلتے دیکھا جاتا تھا۔ لیکن اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے وزیر اعظم
عمران خان کے کشمیر کی صورت حال پر خطاب کو بھارت میں ہزاروں لوگوں نے دیکھا ہے۔ پاکستان
میں وزیر اعظم عمران خان کے خطاب کو جس طرح سراہا یا گیا ہے۔ اسی طرح بھارت میں
بھی آبادی کے ایک بڑے حصہ میں وزیر اعظم عمران خان کی اقوام متحدہ میں تقریر کو
سراہا یا گیا ہے۔ 50 سال قبل بھارتی جارحیت اور مداخلت پر سلامتی کونسل میں ذوالفقار
علی بھٹو نے بڑی جذباتی تقریر کی تھی۔ اور
اب 50سال بعد وزیر اعظم عمران خان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے کشمیر میں
بھارتی جارحیت اور مداخلت پر تقریر کی تھی۔ کشمیریوں پر بھارتی فوج کے ظلم اور
بربریت بیان کرتے ہوۓ وزیر اعظم عمران خان بھی جذباتی ہو گیے تھے۔ 'کشمیر میں
انسانیت خطرے میں ہے۔ پاکستان اور بھارت نیو
کلیر جنگ کے داہنے پر کھڑے ہیں۔' بھارت کے Aggressive Behavior میں 50 سالوں میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ مودی حکومت کسی نہ کسی
بہانے پاکستان پر حملہ کرے گی۔ اور پھر جنگ کے نقصانات اور خوفناک نتائج کے الزام
بھی پاکستان کو دے گی۔ بھارتی حکومت ذرا یہ بتاۓ کہ اس نے افغانستان میں ازبک اور
تا جک کے پشتونوں کے ساتھ اختلافات ختم
کرانے میں کیا تھا؟ بلکہ ازبک اور تا جک کو پاکستان کے خلاف استعمال کیا تھا۔ اور
افغانستان میں امن کی کوششوں کو سبوتاژ کیا تھا۔ اس خطہ اور ایشیا میں دہشت گردی کا
خاتمہ کرنے میں کیا تھا؟ وزیر اعظم مودی نے جنرل اسمبلی سے خطاب میں کشمیر کا کوئی
ذکر نہیں کیا تھا۔ بلکہ دہشت گردی کا ذکر کرتے ہوۓ وزیر اعظم مودی نے کہا “We belong to a country that has
given the world not war, but Buddha’s message of peace.” وزیر اعظم مودی سے سوال ہے کہ جب
وہ گجرات کے وزیر اعلی تھے۔ ان کے واچ میں ہندو انتہا پسندوں نے ہزاروں مسلمانوں
عورتوں، بچوں اور مردوں کا قتل عام کیا تھا۔ 30ہزار مسلمانوں کے گھروں اور کاروباروں
کو آگ لگائی تھی۔ کیا یہ Buddha’s
message of peace” “ تھا؟
اور اس وقت کشمیر میں 9لاکھ بھارتی فوج کیا کشمیریوں کو “Buddha’s message of peace” دے رہی ہے؟ بھارتی جاسوس کو جو پاکستان میں دہشت گردوں کو کومک
پہنچانے کا کام کرتا تھا۔ اور جسے پاکستان نے
پکڑا تھا۔ عالمی عدالت نے اسے بےگناہ نہیں کہا ہے۔ بلکہ اس کی موت کی سزا
پر نظر ثانی کرنے کا کہا ہے۔ وہ بھارتی ایجنٹ تھا۔ اور پاکستان میں دہشت گردی کر
رہا تھا۔ نہ صرف یہ بلکہ بھارتی فوجیں
روزانہ اپنی سرحدوں سے پاکستان پر حملہ کر رہی ہیں۔ اور وزیر اعظم مودی دنیا سے
کہتے ہیں کہ 'ہم ایک ایسے ملک سے تعلق رکھتے ہیں جو دنیا کو جنگ نہیں بلکہ بدھا کا
امن کا پیغام دیتا ہے۔' شاید وزیر اعظم عمران خان کو اسی بدھا نے امن کا پیغام دیا
تھا جس کے بعد وزیر اعظم عمران خان نے مودی کی طرف امن کا ہاتھ بڑھایا تھا۔ لیکن وزیر اعظم مودی نے وزیر اعظم
عمران خان کے نہیں بلکہ بدھا کے امن پیغام کو ٹھکرا یا تھا۔ 50سال قبل وزیر اعظم
ذوالفقار علی بھٹو کی سلامتی کونسل میں تاریخی تقریر کے بعد یہ کسی پاکستانی لیڈر
کی پہلی تاریخی تقریر تھی جو وزیر اعظم
عمران خان نے جنرل اسمبلی میں کی ہے۔ یہ تقریر سن کر بھارتی لیڈر، بھارتی دفتر
خارجہ کے بیورو کریٹس سکتہ میں آ گیے ہیں۔
وزیر اعظم عمران خان کی تقریر کا Rebuttal کے لیے
وزیر اعظم مودی اور ان کی حکومت کو الفاظ نہیں مل رہے ہیں۔ بھارت میں آج نواز شریف
اور آصف علی زر داری بہت یاد آ رہے ہیں۔
وزیر اعظم عمران خان نے جنرل اسمبلی
میں تقریر سے قبل نیویارک میں اپنے ایک ہفتہ قیام میں کئی Think Tanks سے خطاب، امریکی
نیوز چینلز کو انٹرویوز، وال اسٹریٹ جنرل
کے ایڈیٹوریل بورڈ سے ملاقات میں کشمیر میں مودی حکومت کے غیر جمہوری، غیر آئینی، غیر
انسانی اقدامات سامنے ر کھے تھے، علاقہ کی صورت حال، پاکستان امریکہ تعلقات، افغانستان
کو جنگ سے امن میں لانے کی کوششیں جیسے اہم موضوع پر ان کی حکومت کی پوزیشن اور
پالیسی ترجیحات پر کھل کر بات کی تھی۔ وزیر اعظم عمران خان نے صرف ایک ہفتہ میں
پاکستان کا امیج بنایا ہے۔ جسے ماضی کی دو حکومتوں نے ہر طرح کے دھبوں سے داغدار
کر دیا تھا۔ اسے دھو یا ہے اور پھر چمکا یا ہے۔ سابقہ حکومتوں نے واشنگٹن میں
پاکستان کا امیج بنانے کے لیے لابی فرم کو Hired کیا تھا۔ اور اسے 60ملین ڈالر دئیے تھے۔ وزیر اعظم عمران خان نے
پاکستان کے لیے یہ لابی خود کی تھی۔ اور اس کے ٹھوس مثبت نتائج بھی فورا"
سامنے آئیں ہیں۔ کشمیر کو عالمی مسئلہ بنا دیا ہے۔ صدر ٹرمپ نے اعتراف کیا کہ ماضی
کی انتظامیہ نے پاکستان کے ساتھ برا سلوک
کیا تھا۔ صدر ٹرمپ پاکستانی میڈیا کے
نمائندوں سے بھی بڑے Friendly ہو
گیے تھے۔
امریکی نژاد بھارتیوں نے ہوسٹن میں نریند
ر مودی کو بھارت کا ایک عظیم لیڈر تسلیم کرانے کے لیے ایک بہت بڑا اجتماع کیا تھا۔ جس میں بھارتیوں کے علاوہ ٹیکساس کے ری
پبلیکن سینیٹر ز اور کانگیریس مین بھی
وزیر اعظم مودی کو سننے آۓ تھے۔ ٹیکساس میں امریکی نژاد بھارتیوں نے ٹیکساس کے
سینیٹروں کے ذریعے صدر ٹرمپ کو بھی اس اجتماع میں شریک ہونے کے لیے کہا تھا۔ صدر
ٹرمپ خصوصی طور پر وزیر اعظم مودی کے ساتھ اسٹیج پر آۓ تھے۔ وزیر اعظم مودی کی
تقریر کے سارے وقت صدر ٹرمپ ان کے پیچھے کھڑے رہے۔ بھارتیوں کا اتنا بڑا اجتماع
دیکھ کر وزیر اعظم مودی یہ بھول گیے تھے کے
وہ ٹیکساس میں یہ تقریر کر رہے تھے اور ان کے پیچھے صدر ٹرمپ اور سامنے کی پہلی
نشستوں پر امریکی سینیٹر ز اور کانگریس
مین بیٹھے تھے۔ وزیر اعظم مودی کو پاکستان پر سخت غصہ تھا۔ جو کشمیر میں عالمی
مداخلت کے لیے مہم چلا رہا تھا۔ وزیر اعظم عمران خان نیویارک میں روزانہ صرف کشمیر
پر بولے جا رہے تھے۔ وزیر اعظم مودی بھی ٹیکساس میں اپنی تقریر میں یہ سمجھ کر پاکستان
کے بہت زیادہ خلاف بول رہے تھے کہ وہ کیرالہ میں انتخابی جلسے سے خطاب کر رہے تھے۔
دوسرے روز نیویارک میں صدر ٹرمپ وزیر اعظم
عمران خان اور ان کے وفد سے ملے تھے۔ وزیر
اعظم عمران خان نے گفتگو کا آغاز کشمیر کی صورت حال پر شدید تشویش سے کیا تھا۔ اس
پر صدر ٹرمپ نے کہا "ہوسٹن میں وزیر اعظم [مودی] کا بیان بہت Aggressive تھا۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ میں
یہ سننے جا رہا تھا۔ میں وہاں موجود تھا اور میں نے بہت Aggressive بیان سنا تھا۔" اور مجھے
امید ہے کہ وہ اس فیصلے کے قریب آ رہے ہیں کہ بھارت اور پاکستان مل کر اس کا حل
نکالیں گے جو دونوں کے لیے اچھا اور بہتر ہو گا۔ اور مجھے یقین ہے یہ ہو سکتا ہے۔
اس بارے میں ہمیشہ ایک حل ہے۔" صدر ٹرمپ نے وزیر اعظم مودی کے انتہائی
جارحانہ روئیے کو محسوس کیا تھا۔ اور وہ اس سے خوش نہیں تھے ان کی موجودگی میں اتنی
زیادہ جارحیت کا مظاہرہ کیا گیا تھا۔ صدر
ٹرمپ کو وزیر اعظم مودی کے سیاسی اجتماع
میں جانا نہیں چاہیے تھا۔ 80 فیصد بھارتی نژاد امریکی ڈیمو کریٹس ہیں۔ 2016 کے
انتخابات میں انہوں نے ہلری کلنٹن کو ووٹ دئیے تھے۔ کانگریس میں چار پانچ بھارتی
امریکی 2016 میں منتخب ہوۓ تھے۔ اور یہ ڈیمو کریٹس ہیں۔ اور صدر ٹرمپ کے Impeachment کی حمایت کرتے ہیں۔ تاہم وزیر
اعظم مودی نے امریکی بھارتیوں سے کہا ہے کہ وہ صدر ٹرمپ کو ووٹ دیں۔ اور صدر ٹرمپ
کو آئندہ چار سال کے لیے منتخب کریں۔
9/11 کے بعد پاکستان
اور امریکہ میں تعلقات کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا تھا۔ صدر بش نے پاکستان کو Non-NATO ملک کا درجہ دیا تھا۔ پھر افغانستان
میں پاکستان کے اصرار پر ازبک اور تا جک کے بجاۓ ایک پشتون صدر بنانے پر اتفاق کیا
تھا۔ برجیت مسرا وزیر اعظم اٹل بہاری با جپائی کے قومی سلامتی امور کے مشیر تھے۔
اور پھر وزیر اعظم من موہن سنگھ نے بھی
انہیں اپنا قومی سلامتی امور کا مشیر رکھا
تھا۔ بر جیت مسرا بڑا دور اندیش اور ایک انتہائی Shrewd strategist تھا۔ اس نے وزیر اعظم با جپائی کو
یہ مشورہ دیا کہ امریکہ کو پاکستان سے دور کرنے کے لیے بھارت کو امریکہ کے قریب تر
ہونا پڑے گا۔ بش انتظامیہ کے آخری چند ماہ اور پھر اوبامہ انتظامیہ کے 8سال میں اس
بھارتی Strategy کے ثبوت بہت
واضح نظر آ رہے تھے۔ پاکستان کے ساتھ امریکہ کے قریبی تعلقات نے دور کے فاصلوں نے
لے لی تھی۔ امریکہ پاکستان کی کوئی بات سننے کے لئے تیار نہیں تھا۔ پاکستان کے خلاف
بھارت کے ہر دعوی اور ہر الزام کی تائید کرنے لگا تھا۔ یہاں تک کہ بھارت کے ساتھ
امریکہ کے Strategic تعلقات کو افغان جنگ پر فوقیت دی گئی تھی۔
امریکہ نے پاکستان کے ساتھ قریبی تعلقات سے ہمیشہ فائدہ اٹھایا تھا۔ لیکن بھارت کے
ساتھ امریکہ کے Strategic تعلقات سے نئی دہلی نے سیاسی، اقتصادی، اور تجارتی فائدے اٹھاۓ
تھے۔ بھارت کے ساتھ امریکہ کا تجارتی خسارہ 800 بلین ڈالر پر پہنچ گیا تھا۔ جو
شاید چین کے ساتھ تجارتی خسارے سے بھی بہت زیادہ تھا۔ پھر سیاسی خسارے میں امریکہ
ایک ٹیریلین ڈالر کی افغان جنگ بھی ہار گیا تھا۔ صدر ٹرمپ کی America First میں صدر ٹرمپ اب بھارت سے تجارتی
اور سیاسی خسارے کا حساب مانگ رہے ہیں۔ امریکہ- بھارت Strategic تعلقات سے پاکستان کا خسارہ یہ
تھا کہ افغان جنگ پاکستان کے شہروں میں پہنچ گئی تھی۔ اس جنگ میں پاکستان کے
70ہزار لوگ مارے گیے تھے۔ پاکستان کی معیشت کو ایک بلین ڈالر کا خسارہ ہوا تھا۔
صدر ٹرمپ ہوسٹن مودی ریلی میں ایسے
ہی نہیں گیے تھے۔ ان کے کچھ اپنے مفاد بھی تھے۔ ایک تو صدر ٹرمپ کو یہ بڑی امید
تھی کہ مودی کے اس دورے میں بھارت کے ساتھ
امریکہ کا تجارتی معاہدہ ہو جاۓ گا۔ اس سے بڑھ کر یہ کہ صدر ٹرمپ بھارت کو آئل اور
گیس برآمد کرنے کے معاہدے دیکھ رہے تھے۔ وزیر اعظم مودی H-1B ویزے پر سے پابندی ہٹانے اور
بھارتی Software engineers کو
امریکہ آنے کے لیے ویزے دینے کی صدر ٹرمپ سے درخواست کر رہے تھے۔ لیکن وزیر اعظم مودی
کی کشمیر پالیسی اور وزیر اعظم عمران خان کی جنرل اسمبلی میں پر زور تقریر نے بھارت کے ساتھ معاہدوں کا ماحول بدل دیا تھا۔
صدر ٹرمپ نے ہوسٹن میں وزیر اعظم مودی کا انتہائی Aggressive Behavior بھی دیکھ لیا تھا۔ وزیر اعظم
عمران خان نے وزیر اعظم مودی کی ٹیم کو 8 وکٹوں اور 100 رن پر آوٹ کر دیا۔ اور یہ
پاکستان کی بہت بڑی کامیابی تھی۔
یہ اہم نیشنل ایشو ز ہیں۔ جن پر
پاکستان کے تمام رہنماؤں کا ایک پختہ موقف ہونا چاہیے تھا۔ اگر ان کا کوئی موقف نہیں
تھا تو انہیں اپنے منہ بند رکھنا چاہیے تھا۔ جس طرح پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے
رہنما انتہائی گھٹیا زبان استعمال کر رہے ہیں۔ حکومت کے کپڑے اتارنے کی سیاست کر
رہے ہیں۔ اس سے ان کے Uncivilized
Society کے رہنما ہونے کا ثبوت ملتا ہے۔ 30سالہ پیپلز پارٹی کا چیرمین بھی
ان کے ساتھ انتہائی جاہل ہو گیا ہے۔ بے نظیر بھٹو مرحومہ نے اس لیے اسے پرورش کے
لیے لندن میں رکھا تھا کہ یہ وہاں کچھ سیکھے گا۔ ایک Civilize Leader بن کر پاکستان کی سیاست کو Civilize بناۓ گا۔ لیکن یہ حکومت کی مخالفت
میں نواب زدہ نصر اللہ اور مولانا مفتی
محمود مرحوم کی سیاست کر رہا ہے۔ جنہیں اقتدار کی ہوس ہے عوام اب انہیں اقتدار سے
محروم رکھیں۔