Modi’s De Facto Prime Minister Maulana Fazal Ur Rehman
وزیر اعظم عمران خان نے اقوام متحدہ میں کھڑے ہو کر عالمی برادری کو نریندر
مودی کے سیاسی پس منظر سے آگاہ کیا تھا کہ مودی Rashtriya Swayamsevak Sangh کا رکن ہے۔ جو نازی نظریات رکھتی
ہے۔ یہ ہندو نسل پرستی کا پرچار کرتی ہے۔ اور ایک انتہائی Fascist جماعت ہے۔ یہ پارٹی 1929 میں بنی تھی۔ اور اس کے ناز یوں سے قریبی
رابطہ تھے۔ وزیر اعظم عمران خان نے 'عالمی برادری سے بھارت کے ایٹمی ہتھیاروں کی
حفاظت اور سیکورٹی پر سنجیدگی سے توجہ دینے کا کہا تھا کہ نیو کلیر ہتھیار فاشسٹ، نسل پرست ہندو Supremacist مودی حکومت کے
کنٹرول میں ہیں۔ اس مسئلہ کا نہ صرف خطہ بلکہ دنیا پر بھی اثرات ہوں گے۔' مودی کی
قیادت میں بھارت میں ہندو انتہا پسندی پھیل رہی ہے۔ جبکہ پاکستان امریکہ چین روس طالبان
کی انتہا پسندی ختم کرنے کی انتھک کوششیں کر رہے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان نے عالمی
سطح پر جس طرح مودی حکومت کو تنہا کیا ہے۔ دنیا میں بھارت کا امیج خراب ہوا ہے۔
بھارت اسلام آباد میں ایک ایسی حکومت کو پاکستان سے زیادہ بڑا خطرہ سمجھتا ہے۔ جس
کا دنیا میں بھارت سے زیادہ اثر و رسوخ ہو گیا ہے۔ لہذا اس حکومت کو اقتدار سے
ہٹانے کا مطالبہ مولانا فضل الرحمن نے کیا ہے۔ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی نے اس
کی مکمل حمایت کی ہے۔ بھارت جنوبی ایشیا کا Mini America ہے۔ Anti-India حکومتوں کو اقتدار سے ہٹایا جاۓ
گا۔ اور اس کی جگہ Pro-India حکومتیں اقتدار
میں لائی جائیں گی۔ جیسے بنگلہ دیش میں حسینہ شیخ کی حکومت ہے۔ فیصلہ اب پاکستان کے لوگوں کو کرنا ہے۔
مجیب خان
The mastermind of streets politics, maulana Fazl Ur Rehman |
The Leader of People Party Bilawal Bhutto Zardari, supporting Maulana' streets politics |
Shehbaz Sharif brother of Nawaz Sharif, with opposition parties De-Facto Prime Minister |
کراچی میں اگر کوڑے کے ڈھیر ہیں تو
عمران خان ذمہ دار ہیں۔ لاہور میں اگر نالے ابل رہے ہیں تو عمران خان ذمہ دار ہیں
اور 'اگر میاں صاحب کو کچھ ہو گیا تو عمران خان ذمہ دار ہوں گے ۔' کیا یہ جمہوری
نظام کی Definition ہے؟ میاں صاحب
جن حالات میں ہیں۔ وہ خود اس کے ذمہ دار ہیں۔ یہ حالات خود انہوں نے اپنے لیے پیدا
کیے ہیں۔ میاں صاحب 1980s سے سیاست کر پٹ
کرنے کے بزنس میں ہیں۔ پہلے میاں صاحب پنجاب کے وزیر خزانہ تھے۔ سارے پنجاب کا
خزانہ ان کے ہاتھ میں تھا۔ پھر میاں صاحب پنجاب کے وزیر اعلی بن گیے تھے۔ یہ عہدے
ان کے لیے جیسے حکومت میں کرپشن کی کلاسیں تھیں۔ پھر وہ وزیر اعظم بن گیے تھے۔ اور لاہور سے اسلام آباد آ گیے تھے۔
اس طرح تین مرتبہ میاں صاحب وزیر اعظم تھے۔ اور تین مرتبہ کرپشن کا لیبل ان کے نام
کے ساتھ لگا رہا۔ اور لوگوں نے اس لیبل کے باوجود تین مرتبہ میاں صاحب کو وزیر اعظم
بنایا تھا۔ اور میاں صاحب نے تین مرتبہ کرپشن فروغ دیا تھا۔ اور اب میاں صاحب کے
ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے۔ وہ ان کی اپنی حکومت کے بناۓ ہوۓ قانون کے تحت ہو رہا ہے۔
میاں صاحب کی حکومت نے یہ قانون شاید آصف علی زر داری کے کرپشن کا حساب لینے کے
لیے بناۓ تھے۔ یہ اتفاق ہے کہ دونوں اس قانون کے جال میں آ گیے ہیں۔ اب عمران خان
اس کے ذمہ دار کیسے ہو گیے ہیں۔
پیپلز پارٹی اپوزیشن میں تھی۔ لیکن اس
نے میاں صاحب کے کرپشن کے خلاف قانون کی حمایت کی تھی۔ اور اب دونوں ان کے اپنے قانون
کی گرفت میں آ گیے ہیں۔ میاں صاحب اور آصف علی زر داری نے دونوں ہاتھوں سے کرپشن
کیا ہے۔ دونوں کرپشن کے الزامات میں اپنے آپ کو بے گناہ ثابت نہیں کر سکے ہیں۔
دنیا میں کہیں بھی جرم کے الزامات میں مجرم اپنی صفائی میں اگر ججوں کے سوالوں کے
جواب نہیں دے سکا ہے۔ 'اور کبھی معلوم نہیں، کبھی اس سے پوچھو یا اس سے پوچھو کرتا
رہا ہے' تو ججوں کی نگاہوں میں اس کا جرم Automatic ثابت ہو جاتا ہے۔ ایسے کیس میں عدالت کے سامنے ہمیشہ مکمل تیاری
کے ساتھ جاتے ہیں۔ ججوں کے ذہن میں آنے والے سوالوں کو پڑھ لیا جاتا ہے۔ اور اپنے
بے گناہ ہونے میں جتنی بھی دستاویز ہو سکتی ہیں ان کے ساتھ ججوں کے سامنے کھڑے
ہوتے ہیں۔ اگر میں ایک Layman کمرہ عدالت میں
یہ کاروائی دیکھ رہا ہوتا اور میاں صاحب یا ان کی صاحبزادی سے ججوں کے سوالات پر
ان کے Attitude کو
دیکھ کر کہتا کہ دونوں Guilty ہیں۔ اب عمران خان اس کا ذمہ دار کیسے ہوا؟ دراصل ذمہ دار پارٹی
کے لیڈر ہیں جنہوں نے میاں صاحب کے کرپشن پر اپنی آنکھیں بند کر لی تھیں۔ میاں
صاحب کو ایک مرتبہ سعودی شاہ عبداللہ نے جیل سے آزاد کرایا تھا۔ اور انہیں سعودی
عرب میں محل کی زندگی دی تھی۔ میاں صاحب کو اس تحریری عہد پر چھوڑا گیا تھا اور جس
کی سعودی شاہ نے ضمانت دی تھی کہ میاں صاحب کو سعودی عرب میں رکھا جاۓ گا۔ میاں
نواز شریف کوئی سیاسی بیان نہیں دیں گے۔ انہیں کسی قسم کی سیاسی سرگرمیوں میں حصہ
لینے کی اجازت نہیں ہو گی۔ لیکن پھر پاکستان میں جب جنرل پرویز مشرف کے خلاف تحریک
شروع ہوئی تھی تو میاں صاحب سعودی شاہ سے یہ کہہ کر وہ لندن اپنا علاج کرانے جا
رہے ہیں۔ لیکن لندن جا کر میاں صاحب صدر جنرل مشرف کے خلاف بیانات دینے لگے تھے۔
میاں نواز شریف کے معاہدہ کی خلاف ورزی کرنے پر صدر جنرل مشرف نے سعودی شاہ
عبداللہ سے اپنی نا خوشی کا اظہار کیا تھا۔
پھر بش انتظامیہ نے بے نظیر بھٹو اور
صدر جنرل مشرف کے درمیان سمجھوتہ کرانے کی پہل کی تھی۔ بے نظیر بھٹو شاید آصف زر
داری کو اس سمجھوتے میں شامل کرنا نہیں چاہتی ہوں گی۔ لیکن پارٹی کے بعض رہنماؤں
کے اصرار پر انہوں نے زر داری کو بھی صدر جنرل مشرف سے معافی دلوانے والوں کی
فہرست میں شامل کر لیا تھا۔ اس میں نواز شریف کا آدھا خاندان اور رفقا بھی شامل
تھے۔ بش انتظامیہ کی سفارش پر سیاستدانوں کے کرپشن کے تمام کیس ختم ہو گیے تھے۔
لیکن انہوں نے ایک قانونی عمل سے گزر کر کبھی اپنے آپ کو بے گناہ نہیں ثابت کیا
تھا۔ سیاستدانوں نے کرپشن کے الزامات میں ساتھی سیاستدانوں کو سزائیں دینے کی کبھی
مثال قائم نہیں کی ہے۔ اور پہلی مرتبہ پاکستان میں ایک سیاسی حکومت میں یہ مثال
قائم ہو رہی ہے۔ صدر جنرل مشرف نے سیاسی لیڈروں کے خلاف کرپشن کے کیس ختم کر دئیے
تھے۔ لیکن نیوی کے ایڈ مر ل کو جس نے لاکھوں کا غبن کیا تھا اور امریکہ میں پناہ
لی تھی۔ صدر جنرل مشرف نے صدر بش سے ایڈ
مرل پاکستان کے حوالے کرنے کی درخواست کی تھی۔ ایڈ مر ل کو پاکستان لایا گیا تھا۔
اس سے لاکھوں ڈالر نکلواۓ گیے تھے۔ اس کی املاک بھی ضبط کر لی تھی۔ ادارے صرف اسی
صورت میں عوام کے مفاد میں کام کریں گے کہ جب غبن کرنے والوں کو سزائیں ہوں گی۔
پاکستان کے لوگ خود ذرا یہ سوال اپنے آپ سے کریں کہ اگر میاں نواز شریف اور آصف
علی زر داری کی شگر ملوں کے مینجر اور ملازم جنہیں انہوں نے شگر ملیں چلانے کے لیے
Hire کیا تھا۔ اگر وہ شگر ملوں کے بلوں
کی ادائیگیاں نہیں کرتے اور ملوں کے اکاؤنٹس میں لاکھوں ڈالر کا خورد برد کر کے چلے
جاتے تو اس صورت میں یہ کیا کرتے؟ عوام نے بھی میاں نواز شریف اور آصف زر داری کو
پاکستان کا کاروبار چلانے کے لیے Hire کیا تھا۔ یہ عوام کے ملازم تھے۔ لیکن عوام کے نام پر انہوں نے جو
قرضے لیے تھے وہ یہ خود کھا گیے اور قرضوں کی ادائیگی کے بل عوام کے ہاتھوں میں
تھما دئیے ہیں۔ عوام کو انہوں نے یہ اقتصادی اذیتیں دی ہیں۔ زر داری-نواز شریف کے دس
سال دور کی معیشت کا صدر جنرل پرویز مشرف کے 9سال میں معیشت سے کیا جاۓ۔ پاکستان
کے پاس 60بلین ڈالر فارن ایکسچینج تھا۔ اور پاکستان پر اس وقت امریکہ کی بندشیں
تھیں۔ پاکستان نے 50ملین ڈالر برلن کانفرنس میں افغان فنڈ میں دئیے تھے۔ پاکستان
میں امریکہ کے سابق سفیروں کا کہنا ہے کہ 'پاکستان
میں جب فوجی حکومت ہوتی ہے معیشت میں Discipline ہوتا ہے۔ اور جب سیاسی حکومتیں آتی ہیں معیشت میں
انتشار آ جاتا ہے۔' اور اب میڈ یا میں
بیٹھ کر یہ لوگوں کو بتاتے نہیں ہیں بلکہ زور زور سے بھونکتے ہیں کہ عمران خان نے
معیشت کا بیڑا غرق کر دیا ہے۔ اور میڈیا کے اینکرز ان کی تائید کر تے ہیں۔ کیونکہ
یہ Habitual corrupts ہیں۔ اس لیے ان
کے ذہن میں بھی کرپشن کرنے کے منصوبے آتے ہیں۔ لیکن پاکستان کے ریونیو کیسے بڑھائیں
جائیں۔ اس میں ان کا دماغ کام نہیں کرتا ہے۔ ان کے دماغ میں صرف اپنے ریونیو
بڑھانے کے منصوبے آتے ہیں۔ ذرا سوچیں کہ
زر داری-گیلانی حکومت نے بش-چینی کی دہشت گردی میں پاکستان کا 100 بلین ڈالر کا
نقصان کر دیا تھا۔ لیکن ایران سے پاکستان اور افغانستان کے درمیان گیس کی پائپ
لائن منصوبے سے پاکستان کو ایک بلین ڈالر ریونیو آتے لیکن بش انتظامیہ کے دباؤ میں
اسے مکمل نہیں کیا تھا۔ یہ پائپ لائن پاکستان سے بھارت بھی جاتی۔ بھارت نے اس
معاہدہ پر دستخط کیے تھے۔ لیکن بعد میں بھارت اس معاہدہ سے علیحدہ ہو گیا تھا۔
شاید بھارت نے اس گیس پائپ لائن سے پاکستان کو ایک بلین ڈالر ریونیو بھارت کے مفاد
میں نہیں سمجھا تھا۔
وکلا جنہیں قانون کی با لا دستی کا
پہلا ستون سمجھا جاتا ہے۔ وہ بھی کر پٹ ہو گیے ہیں۔ امریکہ میں وکلا Officer of the Court ہیں۔ آج جو جج کی کرسی پر بیٹھے
ہیں وہ کل وکیل تھے۔ اور ان کے سامنے آج جو اپنے موکل کے کیس میں دلائل دے رہے
ہیں۔ وہ کل جج کی کرسی پر بیٹھے ہوں گے۔ قانون کے ادارے اس طرح کام کرتے ہیں۔
قانون کو بالاتر بناتے ہیں۔ قانون کی حکمرانی کے نگہبان ہوتے ہیں۔ لیکن ہم نے کیا
دیکھا تھا کہ کالے کوٹ پہنے وکلا گورنر سلمان تاثیر کے قاتل کو کورٹ کے باہر
کندھوں پر اٹھاۓ ہوۓ تھے۔ ہم کیا دیکھتے ہیں کہ کورٹ کے باہر وکلا میں ہا تھا پائی
ہو رہی تھی۔ ایک اپنے موکل کو سزا سے بچا رہا تھا اور دوسرا اس کے موکل کو سزا دلانا
چاہتا تھا۔ جس دن وکلا نے ایک قاتل کو کندھوں پر اٹھایا تھا وہ پاکستان میں قانون
کی حکمرانی کا تاریک دن تھا۔
پیپلز پارٹی میں نامور وکلا بھی ہیں۔
بعض زر داری کی عدالتوں میں پیروی بھی کر رہے ہیں۔ لیکن آصف زر داری کو Switzerland کی عدالت نے Money laundering کیس میں مجرم قرار دیا تھا۔ ان
وکلا نے اس پر کچھ نہیں کیا تھا۔ شاید انہوں نے زر داری کو مجرم ہی رہنے دیا تھا۔
میڈیا نے بھی اس کا کبھی ذکر تک نہیں کیا تھا۔ حالانکہ یہ بڑے شرم کی بات تھی کہ
پاکستان کا صدر Switzerland کی عدالت کا
ایک سزا یافتہ تھا۔ پاکستان میں سب کی خودی مر گئی تھی۔ آصف زر داری کے بارے میں Switzerland کی عدالت کا یہ فیصلہ اب ریکارڈ
پر رہے گا۔ Switzerland یورپی
یونین میں شامل ہے۔ اور یورپی یونین کے ایک ملک کی عدالت کے فیصلے کو تمام یورپی
ملک قبول کرتے ہیں۔ اس فیصلہ کو یورپی یونین کی عدالت میں چیلنج کیا جاتا۔ یورپی
یونین کی عدالت Switzerland کی عدالت کے
فیصلے کا جائزہ لیتی اس پر دلائل سنتی اور اس پر اپنا فیصلہ دیتی۔ لیکن اصف زر
داری کو شاید یہ یقین تھا کہ یورپی یونین کی عدالت کا فیصلہ Switzerland کی عدالت سے مختلف نہیں ہوتا اس لیے
اسے یورپی یونین کی عدالت میں چیلنج کرنا مناسب نہیں سمجھا تھا۔ زر داری کے خیال
میں وہ پاکستان کے صدر تھے۔ اور دنیا Switzerland کی عدالت کا ان کے بارے میں فیصلہ بھول جاۓ گی۔ لیکن یہ ان کی غلط
فہمی تھی۔ عدالتوں کے فیصلے صدیوں ریکارڈ میں محفوظ رہتے ہیں۔ آصف زر داری اب یورپ
کا رخ نہیں کرتے ہیں۔ صرف دوبئی تک جاتے ہیں۔
شہباز شریف ایک Certified Jerk ہے۔ پاکستان میں ان کے مقابلے کا
کوئی اتنا بڑا Bullshitter نہیں ہے۔ گزشتہ
ہفتہ میں نے ایک چینل پر انہیں Bunch of Losers کے ساتھ شہباز شریف کو یہ کہتے سنا کہ اگر ہم
اقتدار میں آئیں گے تو میں 6ماہ میں مہنگائی ختم کردوں گا۔ جو تین مرتبہ اقتدار
میں آۓ تھے اور تینوں مرتبہ مہنگائی میں لوگوں کو چھوڑ کر گیے تھے۔ وہ اب 6ماہ میں
مہنگائی ختم کرنے کی لوگوں کو Bullshit دے رہا تھا۔ اور لوگ آۓ گا آۓ گا شیر آۓ گا ہمیں مہنگائی سے نجات
دلاۓ گا کے نعرے لگا رہے تھے۔ یہ وہ ہی شہباز شریف تھا جو 2013 کی انتخابی مہم میں
اپنا سینہ پر ہاتھ مار مار کر کہہ رہا تھا کہ 'اگر میں نے زر داری کو سڑکوں پر
نہیں گھسیٹا تو میرا نام شہباز شریف نہیں ہو گا'۔ اور اس کا بڑا بھائی اپنی
انتخابی مہم میں نوابشاہ میں انتخابی ریلی سے خطاب میں کہہ رہا تھا کہ ' نوابشاہ
کے لوگوں کو زر داری نے کیا دیا ہے۔ بچوں کے پاؤں میں جوتا نہیں ہے۔ زر داری قوم
کا خزانہ لوٹ کر لے گیا۔ میں اقتدار میں آؤں گا تو ان بچوں کو جوتے اور کپڑے دو ں
گا۔ نوابشاہ کو زر داری نے جس حال میں رکھا تھا۔ نواز شریف 5سال حکومت کرنے کے بعد
نواب شاہ کو اسی حال میں چھوڑ کر گیے ہیں۔ یہ 1990s سے اقتدار میں آتے رہے ہیں۔ مسلم لیگ ن نے کبھی ملک میں جمہوری روایت
کی تاریخ نہیں بنائی ہے۔ مسلم لیگ ن کے غنڈوں نے سپریم کورٹ پر حملہ کیا تھا۔ ججوں
کو اپنی جانیں بچا کر سپریم کورٹ سے بھاگنا پڑا تھا۔ نواز شریف نے وزیر اعظم کو
اقتدار سے ہٹانے کی سازش کی تھی۔ اور انتخاب میں بے نظیر بھٹو کو ہرانے کے لیے بن
لادن سے لاکھوں ڈالر لیے تھے۔ پھر نواز شریف جب وزیر اعظم بن گیے تھے۔ تو طالبان
کا نظام پاکستان میں رائج کرنے جا رہے تھے۔ اور اس سلسلے میں طالبان کے نظام کا
مسودہ قومی اسمبلی میں پیش کرنے والے تھے کہ خدا نے پاکستان کے لوگوں کو ایک بڑے عذاب
سے بچا لیا، نواز شریف کا تختہ الٹ گیا تھا۔ ایسے لیڈروں کو دوسری، تیسری اور
چوتھی بار منتخب کرنے کا مطلب ہے لوگ خود بھی یہ نہیں چاہتے ہیں کہ ان کے حالات
بدلیں۔ وہ اسی حال میں رہنا چاہتے ہیں۔ اس لیے وہ انہیں کندھوں پر اٹھاتے ہیں اور
اقتدار میں لاتے ہیں۔ اب اگر ان کے شہروں کے حالات خراب ہیں۔ ان کے گھروں کے باہر کوڑوں
کا ڈھیر ہے۔ سڑکیں ٹوٹی پڑی ہیں۔ یہ الزام خود اپنے آپ کو دیں۔ وہ کیوں Do Nothing لیڈروں کو بار بار منتخب کر تے
ہیں؟
بلا آخر مولانا فضل الرحمن کا اصل روپ ڈنڈا بردار سڑکوں کی سیاست میں سامنے
آ گیا ہے۔ مولانا کے پیچھے اتنی بڑی تعداد میں لوگوں نے کبھی نماز نہیں پڑھی ہو گی
کہ جتنی بڑی تعداد میں شر پسند ڈنڈا بردار ان کے پیچھے پاکستان فتح کرنے نکلے ہیں۔
مولانا کے پیچھے اتنی بڑی تعداد میں لوگوں
کو دیکھ کر کون کہتا ہے پاکستان میں مہنگائی ہے۔ یہ لوگ تین وقت کا کھانا بھی کھا رہے
ہیں۔ اپنی کاروں اور موٹر سائیکلوں میں ہزاروں روپے کا پیٹرول بھی ڈال رہے ہیں۔ ان
سے کوئی پوچھے کہ انہیں کیا ملے گا؟ مولانا انہیں کیا دے گا؟ مولانا الیکشن ہارنے
کے بعد سڑکوں پر لوگوں کو نکال کر لایا ہے
اور دنیا کو اپنی طاقت دیکھا رہا ہے۔ مولانا نے دیکھا کہ امریکہ طالبان سے مذاکرات
کر رہا ہے۔ روس اور چین بھی طالبان سے مذاکرات کر رہے ہیں۔ لہذا وہ بھی اپنی طاقت
دیکھا رہا ہے۔ اور پھر اسے کیش کرے گا۔ لوگوں کو مولانا فضل الرحمن صرف استعمال کر
رہا ہے۔ یہ لوگ سہراب گوٹھ میں بیٹھے نسوار چو ستے رہیں گے اور پچکاریاں مارتے رہیں
گے۔ مولانا میں اتنا اسلامی اخلاق بھی نہیں کہ ان لوگوں کو سہراب گوٹھ سے اٹھا کے
لے گیا ہے تو انہیں وہیں چھوڑ کر جاۓ۔ مولانا اسلام آباد پہنچ کر ان لوگوں کو
سہراب گوٹھ کا راستہ دیکھا دے گا۔ اور ان سے معذرت کرے گا کہ انہیں 5دن کی قضا نمازیں
پڑھنا ہیں۔ مولانا کے عزائم بڑے خطرناک ہیں۔ اور یہ کسی مشن پر ہے۔ مولانا کا باپ
ایک پوری نسل تباہ کر کے گیا ہے۔ اس کے باپ نے جس دن لانگ مارچ شروع کیا تھا اس دن
پاکستان میں جتنے بچے پیدا ہوۓ تھے وہ آج 40سال کے ہیں۔ اور مہنگائی اور بیروزگاری
سے پریشان ہیں۔ اور مولانا فضل الرحمن کو ہر طرف ہرا ہی ہرا نظر آ رہا ہے۔ شکست
خوردہ لیڈروں کے پیچھے چلو گے تو شکست خوردہ ہی رہو گے۔
پاکستان میں صحافت پر بندشوں کے نظام
کی جگہ اب لفافہ صحافت کا نظام آگیا ہے۔ کہیں میاں نواز شریف کے لفافہ چل رہے ہیں۔
کہیں آصف زر داری کے لفافہ چل رہے ہیں۔ کہیں ملک ریاض، بحریہ ٹاؤن کے لفافہ چل رہے
ہیں۔ سیاست، وکالت، صحافت، مذہب سب صرف اس ایک لفظ میں دیکھے جاتے ہیں CREDIBILITY