Wednesday, October 30, 2019

Modi’s De Facto Prime Minister Maulana Fazal Ur Rehman



Modi’s De Facto Prime Minister Maulana Fazal Ur Rehman 

وزیر اعظم عمران خان نے اقوام متحدہ میں کھڑے ہو کر عالمی برادری کو نریندر مودی کے سیاسی پس منظر سے آگاہ کیا تھا کہ مودی Rashtriya Swayamsevak Sangh کا رکن ہے۔ جو نازی نظریات رکھتی ہے۔ یہ ہندو نسل پرستی کا پرچار کرتی ہے۔ اور ایک انتہائی Fascist جماعت ہے۔ یہ پارٹی 1929 میں بنی تھی۔ اور اس کے ناز یوں سے قریبی رابطہ تھے۔ وزیر اعظم عمران خان نے 'عالمی برادری سے بھارت کے ایٹمی ہتھیاروں کی حفاظت اور سیکورٹی پر سنجیدگی سے توجہ دینے کا کہا تھا  کہ نیو کلیر ہتھیار فاشسٹ، نسل پرست ہندو Supremacist مودی حکومت کے کنٹرول میں ہیں۔ اس مسئلہ کا نہ صرف خطہ بلکہ دنیا پر بھی اثرات ہوں گے۔' مودی کی قیادت میں بھارت میں ہندو انتہا پسندی پھیل رہی ہے۔ جبکہ پاکستان امریکہ چین روس طالبان کی انتہا پسندی ختم کرنے کی انتھک کوششیں کر رہے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان نے عالمی سطح پر جس طرح مودی حکومت کو تنہا کیا ہے۔ دنیا میں بھارت کا امیج خراب ہوا ہے۔ بھارت اسلام آباد میں ایک ایسی حکومت کو پاکستان سے زیادہ بڑا خطرہ سمجھتا ہے۔ جس کا دنیا میں بھارت سے زیادہ اثر و رسوخ ہو گیا ہے۔ لہذا اس حکومت کو اقتدار سے ہٹانے کا مطالبہ مولانا فضل الرحمن نے کیا ہے۔ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی نے اس کی مکمل حمایت کی ہے۔ بھارت جنوبی ایشیا کا Mini America ہے۔ Anti-India حکومتوں کو اقتدار سے ہٹایا جاۓ گا۔ اور اس کی جگہ Pro-India حکومتیں اقتدار میں لائی جائیں گی۔ جیسے بنگلہ دیش میں حسینہ شیخ کی حکومت ہے۔ فیصلہ اب  پاکستان کے لوگوں کو کرنا ہے۔

مجیب خان

The mastermind of streets politics, maulana Fazl  Ur Rehman

The Leader of People Party Bilawal Bhutto Zardari, supporting Maulana' streets politics

Shehbaz Sharif brother of Nawaz Sharif, with opposition parties De-Facto Prime Minister 





   کراچی میں اگر کوڑے کے ڈھیر ہیں تو عمران خان ذمہ دار ہیں۔ لاہور میں اگر نالے ابل رہے ہیں تو عمران خان ذمہ دار ہیں اور 'اگر میاں صاحب کو کچھ ہو گیا تو عمران خان ذمہ دار ہوں گے ۔' کیا یہ جمہوری نظام کی Definition ہے؟ میاں صاحب جن حالات میں ہیں۔ وہ خود اس کے ذمہ دار ہیں۔ یہ حالات خود انہوں نے اپنے لیے پیدا کیے ہیں۔ میاں صاحب 1980s سے سیاست کر پٹ کرنے کے بزنس میں ہیں۔ پہلے میاں صاحب پنجاب کے وزیر خزانہ تھے۔ سارے پنجاب کا خزانہ ان کے ہاتھ میں تھا۔ پھر میاں صاحب پنجاب کے وزیر اعلی بن گیے تھے۔ یہ عہدے ان کے لیے جیسے حکومت میں کرپشن کی کلاسیں تھیں۔ پھر وہ وزیر اعظم  بن گیے تھے۔ اور لاہور سے اسلام آباد آ گیے تھے۔ اس طرح تین مرتبہ میاں صاحب وزیر اعظم تھے۔ اور تین مرتبہ کرپشن کا لیبل ان کے نام کے ساتھ لگا رہا۔ اور لوگوں نے اس لیبل کے باوجود تین مرتبہ میاں صاحب کو وزیر اعظم بنایا تھا۔ اور میاں صاحب نے تین مرتبہ کرپشن فروغ دیا تھا۔ اور اب میاں صاحب کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے۔ وہ ان کی اپنی حکومت کے بناۓ ہوۓ قانون کے تحت ہو رہا ہے۔ میاں صاحب کی حکومت نے یہ قانون شاید آصف علی زر داری کے کرپشن کا حساب لینے کے لیے بناۓ تھے۔ یہ اتفاق ہے کہ دونوں اس قانون کے جال میں آ گیے ہیں۔ اب عمران خان اس کے ذمہ دار کیسے ہو گیے ہیں۔
 پیپلز پارٹی اپوزیشن میں تھی۔ لیکن اس نے میاں صاحب کے کرپشن کے خلاف قانون کی حمایت کی تھی۔ اور اب دونوں ان کے اپنے قانون کی گرفت میں آ گیے ہیں۔ میاں صاحب اور آصف علی زر داری نے دونوں ہاتھوں سے کرپشن کیا ہے۔ دونوں کرپشن کے الزامات میں اپنے آپ کو بے گناہ ثابت نہیں کر سکے ہیں۔ دنیا میں کہیں بھی جرم کے الزامات میں مجرم اپنی صفائی میں اگر ججوں کے سوالوں کے جواب نہیں دے سکا ہے۔ 'اور کبھی معلوم نہیں، کبھی اس سے پوچھو یا اس سے پوچھو کرتا رہا ہے' تو ججوں کی نگاہوں میں اس کا جرم Automatic ثابت ہو جاتا ہے۔ ایسے کیس میں عدالت کے سامنے ہمیشہ مکمل تیاری کے ساتھ جاتے ہیں۔ ججوں کے ذہن میں آنے والے سوالوں کو پڑھ لیا جاتا ہے۔ اور اپنے بے گناہ ہونے میں جتنی بھی دستاویز ہو سکتی ہیں ان کے ساتھ ججوں کے سامنے کھڑے ہوتے ہیں۔ اگر میں ایک Layman کمرہ عدالت میں یہ کاروائی دیکھ رہا ہوتا اور میاں صاحب یا ان کی صاحبزادی سے ججوں کے سوالات پر ان کے Attitude کو دیکھ کر کہتا کہ دونوں Guilty ہیں۔ اب عمران خان اس کا ذمہ دار کیسے ہوا؟ دراصل ذمہ دار پارٹی کے لیڈر ہیں جنہوں نے میاں صاحب کے کرپشن پر اپنی آنکھیں بند کر لی تھیں۔ میاں صاحب کو ایک مرتبہ سعودی شاہ عبداللہ نے جیل سے آزاد کرایا تھا۔ اور انہیں سعودی عرب میں محل کی زندگی دی تھی۔ میاں صاحب کو اس تحریری عہد پر چھوڑا گیا تھا اور جس کی سعودی شاہ نے ضمانت دی تھی کہ میاں صاحب کو سعودی عرب میں رکھا جاۓ گا۔ میاں نواز شریف کوئی سیاسی بیان نہیں دیں گے۔ انہیں کسی قسم کی سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے کی اجازت نہیں ہو گی۔ لیکن پھر پاکستان میں جب جنرل پرویز مشرف کے خلاف تحریک شروع ہوئی تھی تو میاں صاحب سعودی شاہ سے یہ کہہ کر وہ لندن اپنا علاج کرانے جا رہے ہیں۔ لیکن لندن جا کر میاں صاحب صدر جنرل مشرف کے خلاف بیانات دینے لگے تھے۔ میاں نواز شریف کے معاہدہ کی خلاف ورزی کرنے پر صدر جنرل مشرف نے سعودی شاہ عبداللہ سے اپنی نا خوشی کا اظہار کیا تھا۔
  پھر بش انتظامیہ نے بے نظیر بھٹو اور صدر جنرل مشرف کے درمیان سمجھوتہ کرانے کی پہل کی تھی۔ بے نظیر بھٹو شاید آصف زر داری کو اس سمجھوتے میں شامل کرنا نہیں چاہتی ہوں گی۔ لیکن پارٹی کے بعض رہنماؤں کے اصرار پر انہوں نے زر داری کو بھی صدر جنرل مشرف سے معافی دلوانے والوں کی فہرست میں شامل کر لیا تھا۔ اس میں نواز شریف کا آدھا خاندان اور رفقا بھی شامل تھے۔ بش انتظامیہ کی سفارش پر سیاستدانوں کے کرپشن کے تمام کیس ختم ہو گیے تھے۔ لیکن انہوں نے ایک قانونی عمل سے گزر کر کبھی اپنے آپ کو بے گناہ نہیں ثابت کیا تھا۔ سیاستدانوں نے کرپشن کے الزامات میں ساتھی سیاستدانوں کو سزائیں دینے کی کبھی مثال قائم نہیں کی ہے۔ اور پہلی مرتبہ پاکستان میں ایک سیاسی حکومت میں یہ مثال قائم ہو رہی ہے۔ صدر جنرل مشرف نے سیاسی لیڈروں کے خلاف کرپشن کے کیس ختم کر دئیے تھے۔ لیکن نیوی کے ایڈ مر ل کو جس نے لاکھوں کا غبن کیا تھا اور امریکہ میں پناہ لی تھی۔ صدر جنرل مشرف نے  صدر بش سے ایڈ مرل پاکستان کے حوالے کرنے کی درخواست کی تھی۔ ایڈ مر ل کو پاکستان لایا گیا تھا۔ اس سے لاکھوں ڈالر نکلواۓ گیے تھے۔ اس کی املاک بھی ضبط کر لی تھی۔ ادارے صرف اسی صورت میں عوام کے مفاد میں کام کریں گے کہ جب غبن کرنے والوں کو سزائیں ہوں گی۔ پاکستان کے لوگ خود ذرا یہ سوال اپنے آپ سے کریں کہ اگر میاں نواز شریف اور آصف علی زر داری کی شگر ملوں کے مینجر اور ملازم جنہیں انہوں نے شگر ملیں چلانے کے لیے Hire کیا تھا۔ اگر وہ شگر ملوں کے بلوں کی ادائیگیاں نہیں کرتے اور ملوں کے اکاؤنٹس میں لاکھوں ڈالر کا خورد برد کر کے چلے جاتے تو اس صورت میں یہ کیا کرتے؟ عوام نے بھی میاں نواز شریف اور آصف زر داری کو پاکستان کا کاروبار چلانے کے لیے Hire کیا تھا۔ یہ عوام کے ملازم تھے۔ لیکن عوام کے نام پر انہوں نے جو قرضے لیے تھے وہ یہ خود کھا گیے اور قرضوں کی ادائیگی کے بل عوام کے ہاتھوں میں تھما دئیے ہیں۔ عوام کو انہوں نے یہ اقتصادی اذیتیں دی ہیں۔ زر داری-نواز شریف کے دس سال دور کی معیشت کا صدر جنرل پرویز مشرف کے 9سال میں معیشت سے کیا جاۓ۔ پاکستان کے پاس 60بلین ڈالر فارن ایکسچینج تھا۔ اور پاکستان پر اس وقت امریکہ کی بندشیں تھیں۔ پاکستان نے 50ملین ڈالر برلن کانفرنس میں افغان فنڈ میں دئیے تھے۔ پاکستان میں امریکہ کے  سابق سفیروں کا کہنا ہے کہ 'پاکستان میں جب فوجی حکومت ہوتی ہے معیشت میں Discipline ہوتا ہے۔ اور جب سیاسی حکومتیں آتی ہیں معیشت میں انتشار آ جاتا ہے۔' اور اب  میڈ یا میں بیٹھ کر یہ لوگوں کو بتاتے نہیں ہیں بلکہ زور زور سے بھونکتے ہیں کہ عمران خان نے معیشت کا بیڑا غرق کر دیا ہے۔ اور میڈیا کے اینکرز ان کی تائید کر تے ہیں۔ کیونکہ یہ Habitual corrupts ہیں۔ اس لیے ان کے ذہن میں بھی کرپشن کرنے کے منصوبے آتے ہیں۔ لیکن پاکستان کے ریونیو کیسے بڑھائیں جائیں۔ اس میں ان کا دماغ کام نہیں کرتا ہے۔ ان کے دماغ میں صرف اپنے ریونیو بڑھانے کے منصوبے آتے ہیں۔  ذرا سوچیں کہ زر داری-گیلانی حکومت نے بش-چینی کی دہشت گردی میں پاکستان کا 100 بلین ڈالر کا نقصان کر دیا تھا۔ لیکن ایران سے پاکستان اور افغانستان کے درمیان گیس کی پائپ لائن منصوبے سے پاکستان کو ایک بلین ڈالر ریونیو آتے لیکن بش انتظامیہ کے دباؤ میں اسے مکمل نہیں کیا تھا۔ یہ پائپ لائن پاکستان سے بھارت بھی جاتی۔ بھارت نے اس معاہدہ پر دستخط کیے تھے۔ لیکن بعد میں بھارت اس معاہدہ سے علیحدہ ہو گیا تھا۔ شاید بھارت نے اس گیس پائپ لائن سے پاکستان کو ایک بلین ڈالر ریونیو بھارت کے مفاد میں نہیں سمجھا تھا۔
 وکلا جنہیں قانون کی با لا دستی کا پہلا ستون سمجھا جاتا ہے۔ وہ بھی کر پٹ ہو گیے ہیں۔ امریکہ میں وکلا Officer of the Court ہیں۔ آج جو جج کی کرسی پر بیٹھے ہیں وہ کل وکیل تھے۔ اور ان کے سامنے آج جو اپنے موکل کے کیس میں دلائل دے رہے ہیں۔ وہ کل جج کی کرسی پر بیٹھے ہوں گے۔ قانون کے ادارے اس طرح کام کرتے ہیں۔ قانون کو بالاتر بناتے ہیں۔ قانون کی حکمرانی کے نگہبان ہوتے ہیں۔ لیکن ہم نے کیا دیکھا تھا کہ کالے کوٹ پہنے وکلا گورنر سلمان تاثیر کے قاتل کو کورٹ کے باہر کندھوں پر اٹھاۓ ہوۓ تھے۔ ہم کیا دیکھتے ہیں کہ کورٹ کے باہر وکلا میں ہا تھا پائی ہو رہی تھی۔ ایک اپنے موکل کو سزا سے بچا رہا تھا اور دوسرا اس کے موکل کو سزا دلانا چاہتا تھا۔ جس دن وکلا نے ایک قاتل کو کندھوں پر اٹھایا تھا وہ پاکستان میں قانون کی حکمرانی کا تاریک دن تھا۔
  پیپلز پارٹی میں نامور وکلا بھی ہیں۔ بعض زر داری کی عدالتوں میں پیروی بھی کر رہے ہیں۔ لیکن آصف زر داری کو Switzerland کی عدالت نے Money laundering کیس میں مجرم قرار دیا تھا۔ ان وکلا نے اس پر کچھ نہیں کیا تھا۔ شاید انہوں نے زر داری کو مجرم ہی رہنے دیا تھا۔ میڈیا نے بھی اس کا کبھی ذکر تک نہیں کیا تھا۔ حالانکہ یہ بڑے شرم کی بات تھی کہ پاکستان کا صدر Switzerland کی عدالت کا ایک سزا یافتہ تھا۔ پاکستان میں سب کی خودی مر گئی تھی۔ آصف زر داری کے بارے میں Switzerland کی عدالت کا یہ فیصلہ اب ریکارڈ پر رہے گا۔ Switzerland یورپی یونین میں شامل ہے۔ اور یورپی یونین کے ایک ملک کی عدالت کے فیصلے کو تمام یورپی ملک قبول کرتے ہیں۔ اس فیصلہ کو یورپی یونین کی عدالت میں چیلنج کیا جاتا۔ یورپی یونین کی عدالت Switzerland کی عدالت کے فیصلے کا جائزہ لیتی اس پر دلائل سنتی اور اس پر اپنا فیصلہ دیتی۔ لیکن اصف زر داری کو شاید یہ یقین تھا کہ یورپی یونین کی عدالت کا فیصلہ Switzerland کی عدالت سے مختلف نہیں ہوتا اس لیے اسے یورپی یونین کی عدالت میں چیلنج کرنا مناسب نہیں سمجھا تھا۔ زر داری کے خیال میں وہ پاکستان کے صدر تھے۔ اور دنیا Switzerland کی عدالت کا ان کے بارے میں فیصلہ بھول جاۓ گی۔ لیکن یہ ان کی غلط فہمی تھی۔ عدالتوں کے فیصلے صدیوں ریکارڈ میں محفوظ رہتے ہیں۔ آصف زر داری اب یورپ کا رخ نہیں کرتے ہیں۔ صرف دوبئی تک جاتے ہیں۔
  شہباز شریف ایک Certified Jerk ہے۔ پاکستان میں ان کے مقابلے کا کوئی اتنا بڑا Bullshitter نہیں ہے۔ گزشتہ ہفتہ میں نے ایک چینل پر انہیں Bunch of Losers کے ساتھ شہباز شریف کو یہ کہتے سنا کہ اگر ہم اقتدار میں آئیں گے تو میں 6ماہ میں مہنگائی ختم کردوں گا۔ جو تین مرتبہ اقتدار میں آۓ تھے اور تینوں مرتبہ مہنگائی میں لوگوں کو چھوڑ کر گیے تھے۔ وہ اب 6ماہ میں مہنگائی ختم کرنے کی لوگوں کو Bullshit دے رہا تھا۔ اور لوگ آۓ گا آۓ گا شیر آۓ گا ہمیں مہنگائی سے نجات دلاۓ گا کے نعرے لگا رہے تھے۔ یہ وہ ہی شہباز شریف تھا جو 2013 کی انتخابی مہم میں اپنا سینہ پر ہاتھ مار مار کر کہہ رہا تھا کہ 'اگر میں نے زر داری کو سڑکوں پر نہیں گھسیٹا تو میرا نام شہباز شریف نہیں ہو گا'۔ اور اس کا بڑا بھائی اپنی انتخابی مہم میں نوابشاہ میں انتخابی ریلی سے خطاب میں کہہ رہا تھا کہ ' نوابشاہ کے لوگوں کو زر داری نے کیا دیا ہے۔ بچوں کے پاؤں میں جوتا نہیں ہے۔ زر داری قوم کا خزانہ لوٹ کر لے گیا۔ میں اقتدار میں آؤں گا تو ان بچوں کو جوتے اور کپڑے دو ں گا۔ نوابشاہ کو زر داری نے جس حال میں رکھا تھا۔ نواز شریف 5سال حکومت کرنے کے بعد نواب شاہ کو اسی حال میں چھوڑ کر گیے ہیں۔ یہ 1990s سے اقتدار میں آتے رہے ہیں۔ مسلم لیگ ن نے کبھی ملک میں جمہوری روایت کی تاریخ نہیں بنائی ہے۔ مسلم لیگ ن کے غنڈوں نے سپریم کورٹ پر حملہ کیا تھا۔ ججوں کو اپنی جانیں بچا کر سپریم کورٹ سے بھاگنا پڑا تھا۔ نواز شریف نے وزیر اعظم کو اقتدار سے ہٹانے کی سازش کی تھی۔ اور انتخاب میں بے نظیر بھٹو کو ہرانے کے لیے بن لادن سے لاکھوں ڈالر لیے تھے۔ پھر نواز شریف جب وزیر اعظم بن گیے تھے۔ تو طالبان کا نظام پاکستان میں رائج کرنے جا رہے تھے۔ اور اس سلسلے میں طالبان کے نظام کا مسودہ قومی اسمبلی میں پیش کرنے والے تھے کہ خدا نے پاکستان کے لوگوں کو ایک بڑے عذاب سے بچا لیا، نواز شریف کا تختہ الٹ گیا تھا۔ ایسے لیڈروں کو دوسری، تیسری اور چوتھی بار منتخب کرنے کا مطلب ہے لوگ خود بھی یہ نہیں چاہتے ہیں کہ ان کے حالات بدلیں۔ وہ اسی حال میں رہنا چاہتے ہیں۔ اس لیے وہ انہیں کندھوں پر اٹھاتے ہیں اور اقتدار میں لاتے ہیں۔ اب اگر ان کے شہروں کے حالات خراب ہیں۔ ان کے گھروں کے باہر کوڑوں کا ڈھیر ہے۔ سڑکیں ٹوٹی پڑی ہیں۔ یہ الزام خود اپنے آپ کو دیں۔ وہ کیوں Do Nothing لیڈروں کو بار بار منتخب کر تے ہیں؟
  بلا آخر مولانا فضل الرحمن  کا اصل روپ ڈنڈا بردار سڑکوں کی سیاست میں سامنے آ گیا ہے۔ مولانا کے پیچھے اتنی بڑی تعداد میں لوگوں نے کبھی نماز نہیں پڑھی ہو گی کہ جتنی بڑی تعداد میں شر پسند ڈنڈا بردار ان کے پیچھے پاکستان فتح کرنے نکلے ہیں۔ مولانا کے پیچھے اتنی بڑی تعداد میں  لوگوں کو دیکھ کر کون کہتا ہے پاکستان میں مہنگائی ہے۔ یہ لوگ تین وقت کا کھانا بھی کھا رہے ہیں۔ اپنی کاروں اور موٹر سائیکلوں میں ہزاروں روپے کا پیٹرول بھی ڈال رہے ہیں۔ ان سے کوئی پوچھے کہ انہیں کیا ملے گا؟ مولانا انہیں کیا دے گا؟ مولانا الیکشن ہارنے کے بعد  سڑکوں پر لوگوں کو نکال کر لایا ہے اور دنیا کو اپنی طاقت دیکھا رہا ہے۔ مولانا نے دیکھا کہ امریکہ طالبان سے مذاکرات کر رہا ہے۔ روس اور چین بھی طالبان سے مذاکرات کر رہے ہیں۔ لہذا وہ بھی اپنی طاقت دیکھا رہا ہے۔ اور پھر اسے کیش کرے گا۔ لوگوں کو مولانا فضل الرحمن صرف استعمال کر رہا ہے۔ یہ لوگ سہراب گوٹھ میں بیٹھے نسوار چو ستے رہیں گے اور پچکاریاں مارتے رہیں گے۔ مولانا میں اتنا اسلامی اخلاق بھی نہیں کہ ان لوگوں کو سہراب گوٹھ سے اٹھا کے لے گیا ہے تو انہیں وہیں چھوڑ کر جاۓ۔ مولانا اسلام آباد پہنچ کر ان لوگوں کو سہراب گوٹھ کا راستہ دیکھا دے گا۔ اور ان سے معذرت کرے گا کہ انہیں 5دن کی قضا نمازیں پڑھنا ہیں۔ مولانا کے عزائم بڑے خطرناک ہیں۔ اور یہ کسی مشن پر ہے۔ مولانا کا باپ ایک پوری نسل تباہ کر کے گیا ہے۔ اس کے باپ نے جس دن لانگ مارچ شروع کیا تھا اس دن پاکستان میں جتنے بچے پیدا ہوۓ تھے وہ آج 40سال کے ہیں۔ اور مہنگائی اور بیروزگاری سے پریشان ہیں۔ اور مولانا فضل الرحمن کو ہر طرف ہرا ہی ہرا نظر آ رہا ہے۔ شکست خوردہ لیڈروں کے پیچھے چلو گے تو شکست خوردہ ہی رہو گے۔
  پاکستان میں صحافت پر بندشوں کے نظام کی جگہ اب لفافہ صحافت کا نظام آگیا ہے۔ کہیں میاں نواز شریف کے لفافہ چل رہے ہیں۔ کہیں آصف زر داری کے لفافہ چل رہے ہیں۔ کہیں ملک ریاض، بحریہ ٹاؤن کے لفافہ چل رہے ہیں۔ سیاست، وکالت، صحافت، مذہب سب صرف اس ایک لفظ میں دیکھے جاتے ہیں CREDIBILITY     
                            

Friday, October 25, 2019

How Invisible Hands United DEM And G.O.P In Two Seconds And In Three Minutes Congress Passes A Resolution Against The Withdrawal From Syria, 364-60



  How Invisible Hands United DEM And G.O.P In Two Seconds And In Three Minutes Congress Passes A Resolution Against The Withdrawal From Syria, 364-60

White House Fighting Swamps While Swamps Are Helping Congress Until Congress and the White House are on the same page, Washington will not change
مجیب خان
President Bashar al-Assad with President Vladimir Putin in Russia, A big victory for those, which are the right side of the history

Ankara summit on Syria: President Putin, President Rouhani and President Erdogan, reiterated their commitment to restoring peace and stability in Syria and defeating terrorist groups, denounce US occupation certain part of Syria, 16 Sept 2019

ISIS army in a caravan of Toyota pick up trucks, parade through Raqqa, Syria Jun30, 2014   

Why Congress didn't investigate the ISIS financial networks? " A war against all those who seek to export terror, and a war against governments that support or shelter them" President George W. Bush 10-11-01



  امریکہ کی مڈل ایسٹ میں ہر محاذ پر ناکامی دیکھ کر کانگریس میں دونوں پارٹیاں متحد ہو گئی اور انہوں نے ایک مشترکہ قرارداد 354-60 ووٹ سے منظور کی ہے۔ جس میں کہا گیا ہے کہ شمال مشرقی شام سے فوجوں کا انخلا  امریکہ کے مخالفین کے مفاد میں ہے۔ اور یہ روس، ایران اور شام ہیں۔ قرارداد میں شمال مشرقی شام میں شامی کردوں کے خلاف ترکی کے فوجی آپریشن کو روکنے میں امریکہ کی مزاحمت ختم ہونے کے فیصلے کی مخالفت کی گئی ہے۔ کانگریس نے یہ قرارداد بڑی تاخیر سے اس وقت منظور کی ہے کہ جب بش اور اوبامہ کا مڈل ایسٹ میں Nonstop adventurism کا End game امریکہ کے مخالفین کے مفاد میں نظر آ رہا ہے۔ کانگریس اگر مڈل ایسٹ میں بش انتظامیہ کے Adventurism کو روکنے کے لیے قرارداد 364-60 ووٹ سے منظور کرتی تو آج مڈل ایسٹ میں مخالفین کو امریکہ کے مفاد پر غالب آنے کا موقع نہیں ملتا۔ آخر امریکہ کا شام میں ایسا کیا مفاد تھا جس نے  دونوں پارٹیوں کو دو سیکنڈ میں متحد کر دیا تھا۔ اور تین منٹ میں دونوں پارٹیوں نے قرارداد منظور کر لی تھی۔ صرف اسرائیل کے ساتھ شام کی سرحد تھی۔ اور کانگریس کا خدشہ یہ تھا کہ امریکی فوجوں کے جانے سے کر دو ں کا قتل عام ہو گا۔ کرد داعش کے خلاف لڑائی میں امریکہ کے اتحادی تھے۔ اور اس لڑائی میں 10ہزار کرد مارے گیے تھے۔ پاکستان بھی امریکہ کا اتحادی تھا۔ پاکستان نے امریکہ کے ساتھ افغانستان میں سوویت فوجوں کے خلاف جنگ لڑی تھی۔ اور پھر القا عدہ سے  جنگ میں بھی پاکستان امریکہ کا اتحادی تھا۔ اور القا عدہ کے خلاف جنگ میں پاکستان کے 70ہزار لوگ مارے گیے تھے۔ لیکن بھارت امریکہ کا Strategic اتحادی بن گیا تھا۔ اور صدر اوبامہ نے بھارت کے 3 دورے کیے تھے۔ 5مرتبہ مودی کو گلے لگایا تھا۔ جس طرح کر دو ں کو Betray کیا گیا ہے۔ اسی طرح پاکستان بھی Victim ہے۔
  کانگریس  کی قرارداد  میں ' کر دو ں  کی نسل کشی کے خد شہ کا اظہار کیا گیا ہے۔' شام میں 8سال سے انسانی تاریخ کی انتہائی خوفناک خونی لڑائی ہو رہی تھی۔ ایک ملین افراد اس لڑائی میں مارے گیے تھے۔ 2ملین لوگ بے گھر ہو گیے تھے۔ خاندان اجڑ گیے ہیں۔ ملک کھنڈرات بن گیا ہے۔ لیکن کانگریس نے شام میں انسانیت کو بچانے کے لیے کچھ نہیں کیا تھا۔ لیکن کانگریس کو کر دو ں کی نسل کشی ہونے پر تشویشں ہے۔ جبکہ 11ہزارہ کرد شام میں ISIS سے لڑائی میں مارے گیے تھے۔ اگر امریکہ کی پالیسی میں ذرا بھی انسانی پہلو ہوتا تو یہ لوگ کبھی اس طرح نہیں مارے جاتے۔ امریکہ اور اس کے Allies انتہائی غیر ذمہ دار تھے۔ اور وہ اس صورت حال کے ذمہ دار ہیں۔ عراق جنگ غیر قانونی تھی۔ شام کے داخلی معاملات میں Allies کے ساتھ امریکہ کی مداخلت غیر قانونی تھی۔ امریکہ اور یورپ Ukraine میں روس کی مداخلت کے خلاف تھے۔ اس مداخلت کے نتیجہ میں انہوں نے روس پر بندشیں لگائی تھیں۔ امریکہ اور اس کے عرب اتحادی مڈل ایسٹ میں ایران کی نام نہاد مداخلت کی مذمت کرتے ہیں۔ امریکہ ایران کا یہ Behavior تبدیل کروا رہا ہے۔ لیکن امریکہ کی فوجی مداخلت کرنے کا Behavior کیسے تبدیل ہو گا۔ Joe Biden جب سینیٹر تھے۔ وہ صدر بش کو عراق کو تین حصوں میں تقسیم کرنے کا مشورہ دے رہے تھے۔ یعنی عراق کو شیعہ سنی اور کرد میں تقسیم کر دیا جاۓ۔ Obama-Biden انتظامیہ نے ISIS کے خلاف لڑنے کے آ ڑ میں شام کے کر دو ں کو فوجی تربیت اور ہتھیار دینا شروع کر دئیے تھے۔ شام کے کر دو ں کو یقین دلایا تھا کہ شمال مشرقی شام میں ان کی Autonomous ریاست ہو گی۔ اس Understanding سے وہ ISIS سے لڑے تھے۔ 11ہزار کر دو ں نے اپنی جانیں دی تھیں۔ Obama-Biden کو معلوم تھا وہ چلے جائیں گے۔ اور شام نئی انتظامیہ کا مسئلہ ہو گا۔ نئی انتظامیہ اگر ہلری کلنٹن کی ہوتی تو شاید صورت حال مختلف ہوتی۔ لیکن نئی انتظامیہ ڈونالڈ ٹرمپ کی ہے۔ اور صدر ٹرمپ کی کر دو ں سے کوئی Understanding  نہیں تھی۔ اس لیے صدر ٹرمپ کے شام کی جنگ سے امریکہ کو آزاد کرنے کے فیصلے سے تکلیف ہوئی ہے۔
  کرد شام کے شہری تھے، کرد عراق کے شہری تھے، کرد ترکی کے شہری تھے۔ Obama-Biden انتظامیہ کر دو ں کی تاریخ سے با خوبی واقف تھی۔ ان ملکوں کے لیے یہ ایک انتہائی Sensitive issue ہے۔ اور یہ ان کی قومی سلامتی سے منسلک ہے۔ دوسرے ملکوں کے شہریوں کو اپنے سیاسی ایجنڈے کے مفاد میں فوجی تربیت دینا عالمی قوانین کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ اگر ایران سعودی شیعاؤں یا متحدہ عرب امارات کی حکومت کے مخالفین کو فوجی تربیت دے گا یا کیوبا KKK کو فوجی تربیت دینے لگے تو اس پر امریکہ کا رد عمل ہو گا۔ امریکہ میں اسے کیسے دیکھا جاۓ گا؟ قانون، اصول، Sovereignty دنیا کے ہر ملک کے لیے یکساں ہیں۔ امریکہ نے ان اصولوں اور قوانین کی خلاف ورزیاں کی ہیں۔ اور دنیا کے لیے مسائل پیدا کیے ہیں۔ ترکی نے کر دو ں کے ساتھ سمجھوتہ کیا تھا۔ انہیں ترکی کے آئین کے اندر رہتے ہوۓ حقوق دئیے تھے۔ کرد ترکی کی پارلیمنٹ میں تھے۔ حکومت کے اداروں میں بھی انہیں نمائندگی دی تھی۔ PKK کو ترکی کی حکومت نے دہشت گرد تنظیم قرار دیا تھا۔ اور امریکہ نے بھی اسے دہشت گرد تنظیم تسلیم  کیا تھا۔ اسی طرح شام میں YPG کر دو ں کی دہشت گرد تنظیم تھی۔ شام میں کرد عراق اور ترکی کے نسبت ذرا مختلف ہیں۔ اس لیے امریکی فوجوں کے انخلا کے فوری بعد ان کے خلاف  ترکی کے فوجی آپریشن کے خوف سے انہوں نے اسد حکومت سے سمجھوتہ کر لیا ہے۔ اور شام کی فوج کے ساتھ شمال مشرقی شام کی حفاظت میں گشت کرنے کا اعلان کیا ہے۔
  صدر ٹرمپ کا شام کے سلسلے میں فیصلہ بہت صحیح ہے۔ ترکی عراق اور شام برسوں سے کر دو ں سے لڑ رہے ہیں۔ لیکن یہ خود اسے حل کر لیں گے۔ چند سال قبل عراقی کر دو ں نے اپنی ایک علیحدہ ریاست قائم کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ اور اس کے لیے ریفرینڈم کرانے کا اعلان کیا تھا۔ عراقی حکومت نے  کر دو ں کے فیصلے کے خلاف عراقی فوج بھیجنے کا اعلان کیا تھا۔ بلا آخر کر دو ں کو پیچھے ہٹنا پڑا تھا اور عراقی وفاق کے اندر رہتے ہوۓ Autonomy پرانہیں  سمجھوتہ کرنا پڑا تھا۔ مقامی حکومتیں اپنے علاقائی تنازعہ حل کرنے کی مکمل صلاحیت رکھتی ہیں۔ صدر ٹرمپ کا اس سلسلے میں بہت درست موقف ہے کہ یہ ملک آپس میں لڑتے رہتے ہیں اور خود اختلافات کا حل بھی کر سکتے ہیں۔ امریکہ کے Adventurism سے یہاں ملکوں میں انتشار آیا ہے۔ انتشار سے عدم استحکام کا فروغ ہوا ہے۔ اور عدم استحکام کے نتیجہ میں انتہا پسندوں اور دہشت گردوں کو نئے موقع ملے ہیں۔
  شام کی حکومت 60سال سے اسلامی انتہا پسندوں کا سامنا کر رہی تھی۔ لیکن ان کے ساتھ لڑائی میں شام کبھی اس طرح کھنڈرات نہیں بنا تھا۔ حکومت نے ہمیشہ انتہا پسندوں کا خاتمہ کیا تھا۔ اور اپنے عوام کو امن اور استحکام دیا تھا۔ شام کی حکومت آج بھی اپنے ملک کا دفاع کرنے کی مکمل صلاحیت رکھتی ہے۔ یہ کہنا کہ امریکی فوجوں کے یہاں سے جانے کے بعد شام میں ISIS دوبارہ ابھر آۓ گی۔ لیکن سوال یہ ہے کہ امریکہ کی فوجیں 13سال سے عراق میں ہیں۔ 30سال سے امریکہ کی فوجیں خلیج میں ہیں۔ 9/11 کے بعد مڈل ایسٹ میں امریکہ کی 13 انٹیلی جنس ایجنسیاں سرگرمی سے القا عدہ اور اس سے وابستہ تنظیموں کا ہر عرب ملک میں تعاقب کر رہی تھیں۔ امریکہ کی اسپیشل فورسز ز القا عدہ کے خلاف یمن میں آپریشن کر رہی تھیں۔ اسرائیلی مو ساد کے بھی امریکہ کی انٹیلی جنس ایجنسیوں سے قریبی رابطہ تھے۔ لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ یہاں امریکہ کی بھاری فوجی موجودگی میں ISIS کا 30ہزار کا لشکر پہلے عراق میں داخل ہوتا ہے۔ اور پھر شام کے ایک بڑے حصہ پر قبضہ کر لیتا ہے۔ ISIS کے پاس فوجی ٹرکوں کا ایک Fleet تھا۔ مشین گنیں اور دوسرا فوجی اسلحہ تھا۔ یہ 30 ہزار فوجی یونیفارم میں تھے۔ آخر یہ سب ان کے پاس کہاں سے آیا تھا؟ کن دولت مند عرب ملکوں نے انہیں فنڈ ز فراہم کیے تھے۔ کس ملک نے انہیں اپنی سرزمین پر منظم ہونے کی اجازت دی تھی؟  کون سا ملک انہیں اجرتیں دے رہا تھا؟ لیکن امریکہ اور اسرائیل کو اتنی بڑی  تعداد میں انتہائی خطرناک دہشت گردوں کے بارے میں کوئی معلومات نہیں تھیں۔ لیکن امریکہ اور اسرائیل کو معلوم ہے کہ ایران Houthis کو ہتھیار اور میزائل فراہم کر رہا تھا۔ سعودی عرب کے آئل تنصیبات پر راکٹوں سے حملہ ہونے کے آدھے گھنٹہ میں امریکہ اسرائیل اور سعودی عرب کو پتہ چل گیا تھا کہ یہ حملہ ایران نے کیا تھا۔ ISIS کا ڈرامہ بھی 9/11 کے ڈرامہ کی طرح ہے۔ اور اب شام سے امریکی فوجیں جانے کے بعد ISIS کو دوبارہ سرگرم کرنے کی باتیں ہو رہی ہیں۔
  کانگریس کی انٹیلی جنس اور آ ر مڈ سروس کمیٹی نے ابھی تک ISIS کے بارے میں یہ تحقیقات کی ہے اور نہ ہی امریکی عوام کو اسے وجود میں لانے والے ملکوں کے نام بتاۓ ہیں۔ نہ اسے فنڈنگ کرنے کے بارے کچھ بتایا  ہے کہ یہ کون کر رہا ہے؟ امریکی عوام کو صرف ISIS سے خوفزدہ کرنے کے بیانات سناۓ جاتے ہیں۔ جیسے عراق میں مہلک ہتھیاروں کا خاتمہ ہونے کو خفیہ رکھا گیا تھا۔ اور صرف عراق میں مہلک ہتھیاروں سے خطروں کے بارے میں بیانات دے کر خوفزدہ کیا جاتا تھا۔ اور لوگوں کا جنگ کی پالیسیاں قبول کرنے کے لیے ذہن بنایا گیا تھا۔ کم از کم صدر ٹرمپ کے ENDLESS WARS ختم کرنے کی ضرور حمایت کی جاۓ۔                                       
               



Saturday, October 19, 2019

Are the Opposition Parties Hurting Pakistan Or Helping Modi?



  Are the Opposition Parties Hurting Pakistan Or Helping Modi?

وزیر اعظم عمران خان نے کشمیر کی صورت حال پر عالمی راۓ عامہ کی حمایت حاصل کرنے میں خاصی دوڑ دھوپ کی ہے۔ جس کی وجہ سے مودی حکومت دنیا میں تنہا ہو گئی ہے۔ مولانا فضل الرحمان کے دہلی میں دیوبندی Cousins نے مودی کی کشمیر پالیسی کی حمایت کی ہے۔ اور دہلی میں انہوں نے پاکستان کا پرچم جلایا ہے۔ پاکستان کے خلاف ہندوؤں سے زیادہ بلند آواز میں پاکستان کے خلاف نعرے لگاۓ ہیں۔ جسے دیکھ کر مولانا فضل الرحمان کی بیٹری بھی چارج ہو گئی ہے۔ اور وہ بھی لوگوں سے نعرے لگوانے کی سیاست کرنے سڑکوں پر آ رہے ہیں۔ جس شخص کو خود یہ نہیں معلوم ہے کہ آزادی کیا ہوتی ہے۔ وہ سڑکوں پر آزادی سے آ رہا ہے۔ مولانا کا مقصد صرف ملک میں انتشار پیدا کرنا ہے۔ تاکہ حکومت کی توجہ کشمیر سے ہٹ کر ملک میں انتشار پر آ جاۓ۔ مولانا کے باپ نے یہ 1977 میں کیا تھا۔ اگر اس وقت وزیر اعظم بھٹو کو اقتدار میں رہنے کا موقعہ مل جاتا تو بھٹو ضرور شملہ معاہدہ پر اندرا گاندھی سے عملدرامد ہونے کے مذاکرات کرتے۔ اور وزیر اعظم بھٹو کشمیر کا مسئلہ حل کرنے میں ضرور کامیاب ہو جاتے۔ لیکن مولانا مفتی محمود کی قیادت میں سیاسی پارٹیوں کے اتحاد نے اسے ناممکن بنا دیا تھا۔
وزیر اعظم بھٹو نے جس طرح پاکستان کی سلامتی کے مفاد میں یہ کہا تھا کہ' ہم گھاس کھائیں گے لیکن اسلامی بم ضرور بنائیں گے' جس کی وجہ سے پاکستان آج محفوظ اور بہت مضبوط ہے۔ بالکل اسی طرح آج عوام کو یہ کہنا ہو گا کہ 'ہم بھوکے رہیں گے لیکن ان لیڈروں کو اقتدار میں نہیں آنے دیں گے' ان اس عزم سے ان کے بچوں کا مستقبل ضرور اچھا اور روشن ہو گا۔
    
مجیب خان

Maulana Fazlur Rehman presiding a party meeting, strongly believe in street democracy

Father of Maulana Fazlur Rehman, Maulana Mufti Mahmud, chief architect to sabotage the democratic system in Pakistan in 1977





  مولانا فضل الرحمن سے یہ پوچھا جاۓ کہ وہ کیسی جمہوریت چاہتے ہیں۔ مولانا کیا امریکہ کی جمہوریت چاہتے ہیں۔ برطانیہ کی جمہوریت چاہتے ہیں۔ فرانس کی جمہوریت چاہتے ہیں۔ جاپان کی جمہوریت چاہتے ہیں۔ یا بھارت کی جمہوریت چاہتے ہیں۔ برطانیہ امریکہ فرانس بھارت کی جمہوریت میں جب انتخاب ہار جاتے ہیں تو گھر چلے جاتے ہیں۔ فیملی کے ساتھ وقت گزارتے ہیں۔ پھر سیاست میں نظر نہیں آتے ہیں۔ حال ہی میں برطانیہ میں وزیر اعظم Theresa May پارلیمنٹ میں Brexit کے مسئلہ پر اتفاق راۓ نہ ہونے پر جس میں ان کی اپنی پارٹی کے اراکین بھی شامل تھے، دو مرتبہ پارلیمنٹ نے اسے مستر د کر دیا تھا۔ اور پھر وزیر اعظم کے خلاف عدم اعتماد ووٹ کے بعد  وزیر اعظم نے استعفا  دے دیا تھا۔ ان کی پارٹی نے نیا وزیر اعظم چن لیا۔ اور اب وہ Brexit کو کامیاب بنانے کے لئے اپنی کوششیں کر رہے ہیں۔ سابق وزیر اعظم Theresa May ان کے راستہ سے ہٹ گئی ہیں۔ وہ کوئی بیان بازی نہیں کر رہی ہیں۔ انہوں نے اپنی طرف سے کوشش کی تھی وہ کامیاب نہیں ہو سکیں تھیں۔ انہوں نے اپنی پارٹی کے دوسرے رکن پارلیمنٹ کو موقعہ دیا ہے۔ Teresa May سے پہلے David Camron وزیر  اعظم تھے۔ جنہوں نے Brexit مسئلہ کھڑا کیا تھا۔ اور پھر اس پر ریفرینڈم کرایا تھا۔ برطانوی کی اکثریت نے اس کے حمایت میں فیصلہ دیا تھا۔ لیکن وہ بھی اس مسئلہ کی پیچیدگیوں میں بھٹک گیے اور آخر میں انہیں بھی استعفا دینا پڑا تھا۔ لیبر پارٹی اپوزیشن میں ہے۔ اور یہ کنز ر ویٹو پارٹی کی حکومت کو کام کرنے کا موقعہ دے رہی ہے۔ اس کے کاموں میں رکاوٹیں پیدا نہیں کر رہی ہے۔ اگر کنز ر  ویٹو پارٹی کے تیسرے وزیر اعظم بھی Brexit مسئلہ حل کرنے میں ناکام ہو تے ہیں تو پھر نئے الیکشن ہوں گے۔ یا لیبر پارٹی کو موقعہ دیا جاۓ گا۔ اور یہ ایک Classic مثال ہے کہ جمہوریت میں کس طرح کام ہوتا ہے۔ مولانا فضل الرحمن اور دوسرے ہلڑ باز پارٹیوں کے لیڈروں کو جمہوریت کی کلاسیں لینا چاہیے۔ ان کی جمہوریت یہ ہے کہ اگر وہ حکومت میں نہیں ہیں تو یہ جمہوریت نہیں ہے۔
  پھر بھارت کی جمہوریت کی مثال بھی ہے۔ جہاں اس سال انتخابات ہوۓ ہیں۔ جنتا پارٹی بھاری اکثریت سے انتخاب جیتی تھی۔ کانگرس کو شکست ہوئی تھی۔ کانگرس پارٹی کے رہنما راہول گاندھی نے انتخابی نتائج کے دوسرے دن پارٹی کی صدارت سے اس استعفا دے دیا تھا۔ 100فیصد Perfect انتخابات تو بھارت میں بھی نہیں ہوۓ ہوں گے۔ لیکن انتخابی مہم سے نتائج کا اندازہ ہو جاتا ہے کہ یہ کیا ہوں گے۔ مولانا کے باپ نے بھی 1977 کے انتخابات کے نتائج ماننے سے انکار کر دیا تھا۔ اور اب بیٹا بھی کیونکہ خود الیکشن ہار گیا ہے۔ اس لیے انتخابات کے نتائج اسے قبول نہیں ہیں۔ مولانا کا بیٹا بھی ایک دن اپنے دادا اور باپ کی طرح انتخابات میں دھاندلیوں کے نام پر لانگ مارچ کر رہا ہو گا۔ سیاست جیسے ان کے باپ کی جاگیر ہے۔ بہرحال مودی حکومت کے دوسرے 5سال دور کے آغاز پر بھارت کی اقتصادی صحت کے بارے میں بری خبریں آ رہی ہیں۔ بیروزگاری 6فیصد بڑھ گئی ہے۔ GDP 5٪ فیصد پر آ گیا ہے۔ کاروں کی سیل بری طرح گر گئی ہے۔ TATA کو Land Rover اور Jaguar پلانٹ بند کرنا پڑے ہیں۔ دو ہزار سے زیادہ لوگ بیروزگار کر دئیے۔ مجموعی طور پر صرف آ ٹو انڈسٹری سے 350,000  لوگ بیروزگار ہو گیے ہیں۔ بھارت کی ایکسپورٹ گر گئی ہے۔ بھارت کی کرنسی بھی گر گئی ہے۔ بھارت اس وقت شدید اقتصادی مسائل میں ہے۔ ان اقتصادی مسائل کے دوران مودی حکومت نے کشمیر کے حالات بد سے اور زیادہ بدتر بنا دئیے ہیں۔ بھارت کی معیشت پر کشمیر آپریشن کا بوجھ بھی پڑ گیا ہے۔ لیکن بھارت میں اپوزیشن لیڈروں کو صورت حال کی نزاکت کا احساس ہے۔ اور وہ  وزیر اعظم مودی کا پجامہ نہیں گھسیٹ رہے ہیں۔ جو اس وقت پاکستان میں ہو رہا ہے۔ وزیر اعظم مودی کو Distract نہیں کیا جا رہا ہے۔ بلکہ انہیں بھارت کو مشکل حالات سے نکالنے کا موقعہ دیا جا رہا ہے۔ سب کا مفاد ملک سے وفا داری میں ہے۔ پاکستان کی طرح Nonsense لوگوں کی اپوزیشن نہیں ہے۔ جو اپنے ذاتی مفاد کو قومی وفا داری پر فوقیت دیتے ہیں۔ ان کی سیاست اور کراچی میں کچرے کے ڈھیر جیسے ایک ہی سکہ کے دو رخ ہیں۔
  جنہیں حکومت سے باہر آۓ ابھی صرف ایک سال ہوا ہے وہ اب  مہنگائی  بیروزگاری سرمایہ کاری نہ ہونے، صنعتی پیداوار نہ ہونے، پاکستان کھنڈرات بننے، پاکستان بند گلیوں میں پہنچ جانے پاکستان ٹوٹنے کی باتیں ان کے بارے میں کر رہے جنہیں اقتدار میں ایک سال ہوا ہے۔ 50سال سے یہ سیاست کر رہے ہیں۔ 40سال میں یہ تین چار مرتبہ اقتدار میں آۓ ہیں۔ دو مرتبہ فوج نے انہیں سیاست سے دور رکھا تھا کہ شاید اب ان کی دمیں سیدھی ہو جائیں گی۔ لیکن فوجی اقتدار کے 10سال بعد جب یہ پھر باہر آۓ تو ان کی دمیں ٹیڑی ہی تھیں۔ میڈیا میں یہ تاثر پیدا کیا جا رہا ہے کہ جیسے حکومت 10سال سے اقتدار میں ہے۔ اور حکومت کے خلاف جو باتیں کر رہے وہ کبھی حکومت میں نہیں آئیں ہیں۔ کبھی دو پارٹیوں سے جو اقتدار میں تھیں۔ اس پر پروگرام نہیں کیا ہے۔ وہ صرف اپنے پانچ سال اقتدار کی رپورٹیں عوام کے سامنے پیش کریں کہ انہوں کیا ترقیاتی کام کیے تھے؟ عوام کے معاشی حالات بہتر بنانے میں کیا کیا تھا؟ ان کے 5سال دور حکومت میں کالجوں اور یونیورسٹیوں سے 40 ہزار جو ڈگریاں لے کر آۓ تھے ان میں سے کتنے نوجوانوں کو نوکریاں دی گئی تھیں؟ یہ پہلے اپنی حکومت کی کارکردگی بتائیں۔ پھر حکومت پر تنقید کریں۔ یہ Morally بھی Corrupt ہیں۔ پاکستان کے وجود میں آۓ 72سال ہو گیے ہیں۔ پاکستان اب پختہ ہو گیا ہے۔ لیکن ان کا شعور ابھی تک پختہ نہیں ہوا ہے۔ اور یہ 72سال بعد بھی پاکستان ٹوٹ جاۓ گا کی باتیں کرتے ہیں۔ حالانکہ بھارت 180ملین کی آبادی کے ملک کے ٹکڑے کر کے Headache لینا نہیں چاہتا ہے۔ بھارت صرف یہ چاہتا ہے کہ ' پاکستان کو زندہ بھی نہیں رہنے دیا جاۓ اور مرنے بھی دیا جاۓ۔' اور یہ کام مولانا فضل الرحمن اور ان کی اسلامی قیادت میں اپوزیشن پارٹیاں کر رہی ہیں۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے ملک میں تاریکی پھیلا دی تھی۔ بجلی کا بحران پیدا کر دیا تھا۔ فیکٹر یوں اور کار خانوں میں تالے ڈال دئیے تھے۔ Garments کی انڈسٹری بنگلہ دیش اور ملیشیا چلی گئی۔ لوگ بموں کے دھماکوں میں مر رہے تھے۔ اس وقت مولانا بولتے تھے اورنہ ہی احسن اقبال ٹی وی کیمروں کے سامنے کھڑے ہو کر یہ کہتے تھے کہ اس حکومت کو اب گھر بھیجا جاۓ۔ یہ ملک تباہ کر رہی تھی۔ کراچی میں نیول بیس پر سات گھنٹے دہشت گردوں سے گھمسان کی جنگ ہوئی تھی۔ مولانا کی امامت میں یہ لیڈر  Sideline  پر کھڑے ان مناظر کا نظارہ کر رہے تھے۔ بھارت بالکل یہ ہی چاہتا تھا کہ 'پاکستان کو زندہ بھی نہیں رہنے دیا جاۓ اور مرنے بھی نہیں دیا جاۓ'
  مولانا فضل الرحمن ایک انتہائی خود غرض اور مفاد پرست انسان ہے۔ جسے انسانیت سے کوئی ہمدردی نہیں ہے۔ اگر ایسا نہیں ہے تو یہ ثبوت دئیے جائیں کہ انسانیت کے لیے مولانا نے کیا کام کیے ہیں۔ پشاور میں دہشت گردی کے انتہائی خوفناک واقعات ہوۓ تھے۔ لیکن مولانا کبھی لواحقین کے گھروں میں ان سے تعزیت کرنے نہیں گیے تھے۔ مولانا خیبر پختون خواہ کے وزیر اعلی بھی تھے۔ اپنے صوبے کے لیے مولانا نے کیا منفرد کام کیے تھے۔ جنہیں دیکھ کر یہ کہا جا سکتا تھا کہ پختون خواہ صوبہ دوسرے صوبوں کے مقابلے میں مدنیہ تھا۔ ان کے دور حکومت میں نیویارک ٹائم میں پختون خواہ میں بچہ بازی پر ایک رپورٹ شائع ہوئی تھی۔ اسے پڑھ کر بڑی شرم آئی تھی کہ مولانا نے اپنے صوبے میں بچہ بازی کے خلاف کوئی اسلامی نظام رائج نہیں کیا تھا۔ بعض اطلاعات یہ بھی ہیں کہ مولانا کے مدرسوں میں بھی بچہ بازی ہوتی ہے۔ اگر یہ اطلاعات درست ہیں تو حکومت کو اس کے خلاف سخت اقدامات کرنا چاہیں۔
  پاکستان میں مذہبی رہنما اسلام میں سازشوں کا چھٹا ستون ہیں۔ پاکستان کی تاریخ میں لوگ ان کا کردار دیکھیں انہوں نے ہمیشہ پاکستان کو نقصان پہنچانے کی سیاست کی ہے۔ پاکستان جب بھی ترقی اور استحکام کی پٹری پر آتا ہے۔ انہوں نے اسے Derail  کیا ہے۔ جمہوریت کو انہوں نے ہمیشہ سبوتاژ کیا ہے۔ مولانا فضل الرحمان کے باپ مولانا مفتی محمود 1977 میں پہیہ جام ہڑتالوں کے سرغنہ تھے۔ اس وقت مولانا مفتی محمود کی قیادت میں شکست خوردہ پارٹیوں کے اتحاد نے بھی انتخابات کے نتائج قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ اور نئے انتخابات کر آنے اور پھر وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے استعفا کا مطالبہ کیا تھا۔ پھر یہ نظام مصطفی کے نفاذ کا مطالبہ کرنے لگے تھے۔ حالانکہ 1973 کا آئین انہوں نے بنایا تھا۔ اسے اسلامی آئین کہا تھا۔ اس پر دستخط کیے تھے۔ اس آئین پر انہوں نے حلف اٹھایا تھا۔ لیکن 1977 میں بھٹو حکومت کے خلاف تحریک میں  ‍‍‍‍قرآن ان کے گلے میں لٹکا ہوتا تھا۔ اور لوگوں سے کہتے تھے کہ یہ ہمارا نظام مصطفی ہے۔ اور ہم اسے رائج کریں گے۔ اس طرح مولانا مفتی محمود (مرحوم) نے 1973 کا آئین ختم کرایا تھا۔ انہوں نے جمہوریت تباہ کی تھی۔ سیاسی اداروں پر تالے ڈلواۓ تھے۔ اور جنرل ضیا الحق کو خلیفہ تسلیم کر لیا تھا۔ انہوں نے توہین قرآن کیا تھا۔ ‍قرآن کو اپنے گھناؤنے سیاسی عزائم میں Exploit کیا تھا۔ توہین قرآن توہین رسالت سے زیادہ بڑا گناہ تھا۔ شاید یہ اس کا عذاب تھا جو پاکستان پر اتنا برا اور مشکل وقت آیا تھا۔ 40سال ہو گیے ہیں مولانا مفتی محمود کی قیادت میں اس پہیہ جام تحریک کے اثرات آج بھی اسی طرح ہیں کہ جیسے ناگا ساکی اور ہیرو شیما میں ایٹم بم گرنے سے تابکاری اثرات ابھی تک موجود ہیں۔ اور اب مولانا فضل الرحمان پاکستان کو پھر 1977 میں لے جانا چاہتے ہیں۔
  دنیا میں وزیر اعظم عمران کا اتنا گرم جوشی سے خیر مقدم کیوں ہوا ہے؟ صدر امریکہ نے ایک سال میں دو مرتبہ وزیر اعظم عمران خان سے ملاقات کی ہے۔ چین کے صدر بھی ایک سال میں دو مرتبہ وزیر اعظم سے ملے ہیں۔ روس کے صدر اس سال کرغستان میں شہنگائی ملکوں کی کانفرنس کے دوران  وزیر اعظم عمران خان کے ساتھ بیٹھے تھے۔ اور ان سے دیر تک گفتگو کرتے رہے۔ پھر پاکستان امریکہ کے سیکرٹیری آف اسٹیٹ، عرب ملکوں کے شہزادے، اور دوسرے ملکوں کے اعلی حکام بھی آۓ تھے۔ پاکستان میں اقتصادی سرگرمیوں کو بھی جیسے ایک نئی زندگی ملی ہے۔ دنیا سمجھتی ہے ‘We can do Business with Imran Khan’ ایماندار لیڈر ہے۔ مخلص ہے۔ اور اپنے عوام کے حالات بہتر بنانے میں بہت سنجیدہ ہے۔ عمران خان نے لندن میں ایک دولت مند کی بیٹی سے شادی کی تھی۔ یہودی لڑکی سے شادی کرنے میں کوئی برائی نہیں تھی۔ اسلام میں بعض پیغمبروں نے بھی یہودی عورتوں سے شادیاں کی تھیں۔ بہرحال عمران خان کے سسر نے ان کے ساتھ کاروبار میں شامل ہونے کی انہیں Offer کی تھی۔ لیکن عمران خان نے پاکستان میں اپنے عوام کے لیے کام کرنے کو اہمیت دی تھی۔ عمران خان اگر چاہتا تو سسر کے ساتھ بزنس میں شامل ہو جاتا اور آج عمران خان کا لندن کے کھرب پتیوں میں شمار ہوتا۔ عمران خان رکن پارلیمنٹ ہوتا۔ اور بہت ممکن تھا کہ عمران خان برطانیہ کا وزیر اعظم بھی ہو جاتا۔ جیسے اس وقت کچھ پاکستانی نژاد برطانوی آئندہ چند سالوں میں برطانیہ کے وزیر اعظم بننے کی فہرست میں ہیں۔ Man is honest, sincere, committed and devoted  ہے۔ Clean record ہے۔ کوئی غبن نہیں کیا ہے۔ کوئی فراڈ نہیں کیا ہے۔ اقتدار کا بھوکا نہیں ہے۔ 22سال کی جد و جہد سے اقتدار حاصل کیا ہے۔ اس دوران کئی حکومتوں نے اسے وزارتوں کی پیشکش بھی کی تھی۔ لیکن عمران خان نے قبول نہیں کیا تھا۔ عمران خان کے اس Clean back ground سے دنیا متاثر ہوئی ہے۔ اور اس کے ساتھ تعلقات کو Honor سمجھتی ہے۔
  اب پاکستان میں جتنے بھی لیڈر ہیں۔ عوام ان کے Back ground سے عمران خان کے Back ground کا موازنہ کریں اور پھر اپنے آپ سے سوال کریں کہ وہ ان کے پیچھے کھڑے ہو کر اپنا وقت کیوں برباد کر رہے ہیں؟