Saturday, November 30, 2019

If Impeached, It Will Be Consider as President Bush’s Attack On Iraq On Fabricated Narratives About A Weapon’s of Mass Destruction



   If Impeached, It Will Be Consider as President Bush’s Attack On Iraq On Fabricated Narratives About A Weapon’s of Mass Destruction
Quid pro quo is the first pillar of American foreign policy. During the Cold War, in the third-world dictators worked for America’s interest and they had been paid in the form of economic aid, for which they had pocketed. America had ignored their brutality and corruptions, as long as they were America’s allies
مجیب خان
Impeachment Proceeding before the House Intelligence Committee, Nov15, 2019

 "!President Donald Trump on impeachment "If this were a prizefight they'd stop it 




   بش انتظامیہ کے 8سال ملا عمر کی تحریک طالبان کا خاتمہ کرنے، ا سا مہ بن لادن کو پکڑنے اور صد ام حسین کو اقتدار سے ہٹانے کی عراق جنگ میں گزر ے تھے۔ پھر صدر بش نے امریکہ کو جہاں چھوڑا تھا۔ برا ک اوبامہ نے اپنی صدارت کا آغاز وہاں سے کیا تھا۔ صدر اوبامہ کے 8 سال پہلے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں  پاکستان سے  ‘Do more’کرنے، حقانی نیٹ ورک کا خاتمہ کرنے اور پھر ‘Assad has to go’ کرنے اور ISIS سے لڑنے میں گزر گیے تھے۔ 18سال میں دو انتظامیہ نہ تو طالبان کا خاتمہ کر سکی تھیں۔ نہ ہی القا عدہ کا خاتمہ ہوا تھا۔ بلکہ ایک نئی تنظیم ISIS کا ایڈیشن ہو گیا تھا۔ صدر ٹرمپ کو پہلے دو سال Russian Meddling   میں مصروف رکھا تھا۔ اور یہ بحث ہوتی رہی کہ 2016 کے انتخابات میں روس نے مداخلت کی تھی۔ لیکن یہ واضح نہیں ہو سکا تھا کہ مداخلت ڈالروں سے کی تھی یا فراڈ ووٹوں سے ہوئی تھی۔ اور جب صدر ٹرمپ Russian Meddling سے آزاد ہوۓ تو انہیں اب Quid pro quo کیس نے گھیر لیا ہے۔ جس کی سزا Impeach ہے۔ صدر ٹرمپ کو Impeach کرنا اس لیے ضروری ہو گیا ہے کہ صدر ٹرمپ نے Ukraine کی $400 ملین ڈالر امداد روک لی تھی۔ اور Ukraine حکومت سے پہلے کرپشن کی تحقیقات کرنے کا کہا تھا۔ جس میں سابق نائب صدر Joseph Biden کے صاحبزادے Hunter Biden کا نام Ukraine کے ساتھ ریڈار پر آ گیا تھا۔ اور اس میں کسی کی دو راۓ نہیں تھیں کہ Ukraine ایک انتہائی Corrupt  ملک ھے۔ Hunter Biden کے بارے میں یہ انکشاف ہوا تھا کہ وہ Ukraine کی ایک ا نر جی کمپنی کے بورڈ آف ڈائریکٹر کے رکن تھے۔ اور کمپنی انہیں 50ہزار ڈالر ماہانہ دیتی تھی۔ اس کے ساتھ یہ انکشاف بھی ہوا تھا کہ Joseph Biden جب نائب صدر تھے انہوں نے Ukraine کے 6دورے کیے تھے۔ جو بھی یہ سنتا اس کے ذہین میں پہلا لفظ ‘Corruption’ آتا۔ صدر ٹرمپ نے یہ سن کر Ukraine کی امداد روک لی اور Ukraine کے نو منتخب صدر Volodymyr Zelensky سے فون پر اس کی تحقیقات کرنے کا اصرار کیا۔ صدر ٹرمپ اس کی تحقیقات کرانے کے Obligated تھے۔ جب بھی کسی شخص بالخصوص کسی اہم سیاسی شخصیت کا نام غلط کاموں میں ایف بی آئی، سی آئی اے یا کسی بھی قانون نافذ کرنے والے ادارے کے ریڈار پر آ جاتا ہے تو وہ اس کی تحقیقات کرنے کے لیے Obligated ہو جاتے ہیں۔ صدر ٹرمپ کی انتخابی مہم کے مینجر Paul Manafort  کے بارے میں Russian Meddling تحقیقات کے دوران یہ انکشاف ہوا تھا کہ وہ Ukraine حکومت کے لیے کام کر رہے تھے۔ اور انہوں نے لاکھوں ڈالر کی Money Laundering کی تھی۔ انہیں 30سال کی سزا ہوئی ہے اور وہ جیل میں ہیں۔ صدر ٹرمپ کی انتخابی مہم ٹیم کے متعدد افراد مختلف نوعیت کے کرپشن کے الزامات میں ملوث پاۓ گیے تھے۔ اور انہیں سزائیں ہوئی ہیں۔ لہذا اس پس منظر میں صدر ٹرمپ کی  Ukraine میں Joseph Biden اور Hunter Biden کی سرگرمیوں کی تحقیقات میں دلچسپی زیادہ تھی۔  لیکن اس کا یہ مطلب بالکل نہیں تھا کہ صدر ٹرمپ Ukraine حکومت سے Joseph Biden پر جو ڈیمو کریٹک پارٹی کے یقینی صدارتی امیدوار ہیں۔ ان پر Dirt پھنکوانا چاہتے ہیں۔ لیکن یہ Dirt ریت کا ایک ذرہ ہوتی۔ کیونکہ Mr. Biden کے خلاف اصل Dirt اوبامہ انتظامیہ میں ان کے 8سال اور اس سے قبل 40سال سینٹ میں ان کے رول سے آۓ گی۔ یہ کہنا غلط ہے کہ صدر ٹرمپ اپنے ایک شہری کی غیرملکی حکومت سے تحقیقات کرنے کا کہہ رہے ہیں۔ جب شہری اس ملک میں کوئی غلط کام کر رہا ہو گا تو بلاشبہ اس ملک کی حکومت سے اس کی تحقیقات کرنے کا کہا جاۓ گا۔ اگر Iran-Contra سکینڈل کا واٹر گیٹ سکینڈل سے کوئی موازنہ نہیں تھا۔ تو Ukraine کی امداد روکنے کا واٹر گیٹ سکینڈل سے بھی کوئی موازنہ نہیں کیا جا سکتا ہے۔
  Quid pro quo امریکہ کی خارجہ اور سیکیورٹی پالیسی کا ایک پہلا ستون ہے۔ دنیا بھر میں تمام مہم جوئیاں Quid pro quo کی بنیاد پر کی جاتی ہیں۔ سرد جنگ میں ایشیا، افریقہ اور لا طین امریکہ میں فوجی ڈکٹیٹر ز امریکہ کی Quid pro quo پالیسی کے تحت اقتدار پر قبضہ کرتے تھے۔ امریکہ انہیں کھربوں ڈالر امداد دیتا تھا۔ اور یہ ڈکٹیٹر ز امریکہ کے مفاد میں کام کرتے تھے۔ امریکہ سے مالی امداد وصول کرتے اور کرپشن کرتے تھے۔ اپنے عوام پر ظلم کرتے تھے۔ انہیں اذیتیں دیتے تھے۔ آزادی اظہار پر تالے ڈال دیتے تھے۔ لیکن امریکہ نے ڈکٹیٹروں کے اس رول سے بالکل منہ موڑ لیا تھا۔ کیونکہ یہ امریکہ کے مفادات کی تکمیل کرتے تھے۔ ان ڈکٹیٹروں کے عوام انہیں Impeach بھی نہیں کر سکتے تھے۔  صدر ٹرمپ کو اب اس لیے Impeach کیا جا رہا ہے کہ صدر ٹرمپ نے Ukraine  کی امداد کیوں روکی تھی۔ Ukraine  امریکہ کا ایک اہم قریبی اتحادی ہے۔ جو روس کے خلاف کھڑا ہے۔ اس کے ہزاروں فوجی اس جنگ میں اپنی جانیں دے چکے ہیں۔ لہذا ایسی صورت میں ان کا کہنا ہے کہ امریکہ کو Ukraine میں کرپشن کو نظر انداز کر دینا چاہیے تھا۔ اور امداد نہیں روکنا چاہیے تھی۔
  9/11 کے بعد صدر جارج ڈبلو بش نے پاکستان کے صدر جنرل پرویز مشرف کو لاکھوں ڈالر امداد کی پیشکش ان شرائط پر کی تھی کہ اگر پاکستان طالبان سے تعلقات ختم کر دے اور انہیں اقتدار سے ہٹانے میں امریکہ کی مدد کرے۔ پھر امریکہ پاکستان کی اقتصادی ترقی اور انویسٹمنٹ میں بھی مدد کرے گا۔ اور Quid pro quo  کی بنیاد پر امریکہ-پاکستان نئے تعلقات کا آغاز ہوا تھا۔ پاکستان نے اپنی افغان پالیسی میں 380 ڈگری سے U ٹرن لیا تھا۔ طالبان کے خلاف صدر بش کی جنگ میں مدد کی تھی۔ لیکن صدر جنرل مشرف نے صدر بش کی عراق کے خلاف جنگ کی حمایت نہیں کی تھی۔ اور نہ ہی امریکہ کی دہشت گردی کے خلاف جنگ کو پاکستان جنگ بنایا تھا۔ پھر جب صدر جنرل مشرف کا اقتدار غیر یقینی ہوتا نظر آنے لگا تو بش انتظامیہ نے پاکستان کی داخلی سیاست میں Meddling کی اور کر پٹ لیڈروں کا جن کے کرپشن کے کیس عدالتوں میں تھے۔ صدر جنرل مشرف حکومت سے ان کا سمجھوتہ کرایا، ان کے مقدمے ختم کراۓ، ان کے منجمد فنڈ ز بحال کر آۓ اور انہیں معافی دلوائی۔ اور یہ کر پٹ لیڈر آصف علی زر داری اور میاں نواز شریف تھے۔ امریکہ میں کسی سینیٹر یا کانگریس مین کے خلاف کرپشن کے کیس صدر بش اس طرح ختم نہیں کروا سکتے تھے۔ لیکن پاکستان میں یہ امریکہ کے Quid pro quo نے ممکن بنایا تھا۔ بش انتظامیہ نے سیاسی لیڈروں کا  صدر جنرل مشرف سے سمجھوتہ کرایا تھا۔ اور خود ان لیڈروں سے عہد نا مہ لیا تھا کہ وہ دہشت گردی کی جنگ کو پاکستان کی جنگ بنائیں گے۔ اور پھر اس جنگ کو جاری رکھیں گے۔ 2009 میں سینٹ نے پاکستان کے لیے 100بلین ڈالر امداد 10سال تک دینے کا بل منظور کیا تھا۔ لیکن پھر اوبامہ انتظامیہ میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان سے Do More کے مطالبے بڑھ گیے تھے۔ اوبامہ انتظامیہ نے پاکستان کی امداد روک دی تھی۔ پاکستان کو 10سال میں جو 100بلین ڈالر امداد دینے کا کہا گیا تھا۔ زر داری حکومت کے پانچ سال میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کا 100بلین ڈالر کا نقصان ہو گیا تھا۔ اس خبر کے بعد اوبامہ انتظامیہ نے پاکستان کی امداد بند کر دی تھی۔ یہ Quid pro quo کی ایک عبرتناک مثال تھی۔
  امریکہ کی تاریخ میں جارج ڈبلو بش انتظامیہ میں سب سے زیادہ آئین اور قانون کی خلاف ورزیاں ہوئی تھیں۔ کبھی ایسا نظر آتا تھا کہ جیسے آئین Suspend ہو گیا تھا۔ Patriot Act امریکہ کا نیا آئین بن گیا تھا۔ عراق کے بارے میں امریکی عوام سے جھوٹ بولا گیا تھا۔ عراق میں مہلک ہتھیاروں کے بارے میں دنیا کو جھوٹے ثبوت دکھاۓ گیے تھے۔ کمیونسٹ ملکوں میں جس طرح جیلوں میں اذیتیں دی جاتی تھیں۔ 9/11 کے بعد جیلوں میں اذیتیں دینے کا وہ نظام امریکہ میں آ گیا تھا۔ امریکہ کے جمہوری اور اعلی اخلاقی قدروں میں اذیتیں دینے کو ممنوع قرار دیا گیا تھا۔ دہشت گردی کے الزام میں کتنے قیدی جیلوں میں اذیتوں کے دوران مر گیے تھے۔ بے شمار قیدیوں کو Guantanamo Bay میں بغیر کسی عدالتی کاروائی کے دس، بارہ سال نظر بند رکھا تھا۔ اور پھر انہیں یہ کہہ کر چھوڑ دیا کہ ان کا القا عدہ اور طالبان سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ یورپ کے شہروں سے القا عدہ کے الزام میں لوگوں کو اس طرح اغوا کیا گیا تھا کہ جیسے عرب ڈکٹیٹروں کی خفیہ ایجنسی اپنے مخالفین کو اغوا یا قتل کر تی تھی۔ یا اسرائیلی مو ساد  یہ کام کرتی تھی۔ پھر عراق سے جب مہلک ہتھیار نہیں ملے۔ تو بش انتظامیہ نے یہ الزام اپنے انٹیلی جینس اداروں کو دے دیا کہ انہوں نے یہ رپورٹیں حکومت کو دی تھیں۔ ہزاروں بے گناہ انسانوں کی زندگیاں تباہ ہو گئی تھیں۔ کئی ہزار امریکی فوجی جنہوں نے اس دنیا میں خوبصورتی کو ابھی پوری طرح دیکھا بھی نہیں تھا وہ اس بے مقصد جنگ میں مارے گیے تھے۔ 30ہزار امریکی فوجی اب اس جنگ کے زخموں کے ساتھ زندہ ہیں۔ لیکن کانگرس اس پر Impeach کر رہی ہے کہ صدر ٹرمپ نے Ukraine کی امداد کیوں روکی تھی۔ لیکن جارج بش، ڈک چینی، قومی سلامتی ٹیم اور انٹیلی جینس حکام کی کوئی Accountability  نہیں ہوئی تھی۔ امریکہ کی ساکھ اس وقت سے گرتی جا رہی ہے۔ اس گرتی ساکھ کو اوبامہ انتظامیہ نے بھی بحال نہیں کیا تھا۔ Whistleblower, Edward Snowden نے بھی امریکی عوام کو کچھ خفیہ معلومات دی تھیں کہ ان کی آزادی، حقوق، اور امریکہ کی عالمی ساکھ کو ان کی حکومت کس طرح نقصان پہنچا رہی تھی۔ لیکن کانگرس اور حکومت نے اس Whistleblower کو غدار قرار دے دیا تھا۔ اور اپنا معمول کا کاروبار جاری رکھا تھا۔    

Tuesday, November 26, 2019

Why Are the Saudis Not Interested in Dialogue with Iran On Regional Peace and Security?



Why Are the Saudis Not Interested in Dialogue with Iran On Regional Peace and Security?
Even Iran is ready to give up its nuclear program if Arabs sign a regional security plan with Iran
مجیب خان
Anti-government demonstrations in Iraq

Lebanese protesters calling for an End of corruption, sectarianism, Beirut Oct26, 2019

Human destructions in Syria

The Saudi war in Yemen, Sanaa's 



  سعودی شاہ سلمان نے حکومت کی نامزد شوری کونسل سے سالانہ خطاب میں اپنی 8منٹ کی تقریر میں کہا ہے “International community must stop Tehran’s nuclear and ballistic missile programs and its regional intervention. It was time to stop the ‘chaos and destruction’ generated by Iran.” he said “we hope the Iranian regime chooses the side of wisdom and realize there is no way to overcome the international position that rejects its practices without abandoning its expansionist and destructive thinking that has harmed its own people”
 یہ سعودی شاہ کے ایران کے بارے میں خیالات تھے۔ جبکہ دوسری طرف سابق نائب صدر اور ڈیمو کریٹک پارٹی کے صدارتی امیدوار Joseph Biden نے گزشتہ ہفتہ پارٹی کے ایک پرائمری مباحثہ میں جمال کشوگی کے حوالے سے سعودی عرب کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں کہا
He would end arms supplies and turn the regime of Crown Prince Mohammed bin Salman into a global pariah. I would make it very clear we were not going to in fact sell war weapons to them. We were going to in fact make them pay the price and make them, in fact, the pariah that they are. There is very little socially redeeming value in the present government in Saudi Arabia---And I would also end the subsidies we have, end sale of material to the Saudis who were going in and murdering children and murdering innocent people. They have to be held accountable.”
  Joseph Biden8سال صدر اوبامہ کے نائب صدر تھے۔ اوبامہ انتظامیہ میں سلامتی اور خارجہ امور پالیسی ٹیم کے ایک اہم رکن تھے۔ شام کی داخلی خانہ جنگی میں اوبامہ انتظامیہ کی مداخلت میں خلیج کے حکمران قریبی اتحادی تھے۔ اس مداخلت کے نتیجہ میں شام میں لاکھوں بچے اور لوگ مارے گیے تھے۔ 9/11 کے بعد قومی سلامتی کے خطروں کے نام پر جیسے عالمی قوانین اور Rule of Law suspended ہیں۔ امریکہ، اتحادی اور دہشت گرد سب بے گناہ انسانیت کو ہلاک کرنے میں ایک دوسرے پر بازی لے جانے کی دوڑ میں شریک ہیں۔ عراق، لیبیا، شام، یمن میں انسانیت کو کیڑے مکوڑوں کی طرح مارا گیا ہے۔ یہ عالمی طاقتوں کی سیاست کے Victims ہیں۔ ان کے حکمران جیسے بھی تھے۔ یہ اپنے ملک میں امن سے رہتے تھے۔ اقتصادی طور سے خوشحال تھے۔ حکومت کی طرف سے روز گار فراہم کرنے کی ضمانت تھی۔ اور یہ اپنی زندگیوں میں مگن رہتے تھے۔ کون شیعہ ہے اور کون سنی ہے اور کون عیسائی ہے۔ ان کے نزدیک یہ اہم نہیں تھا۔ سب انسان تھے اور یہ اہم تھا۔ لیکن بش انتظامیہ کی Regime change Doctrine نے ان کی زندگیاں Upside down  کر دیں۔ تاریخ یہ بتاتی ہے کہ ہزاروں میل سے جب بھی حملہ آور آۓ ہیں انہوں نے مقامی آبادی کا امن، تہذیب و تمدن اور ثقافت تباہ کیا ہے۔ اور معاشرے کا شیرازہ بکھیر کے گیے ہیں۔ عراق، شام، یمن اور لیبیا میں شیعہ سنی اور عیسائی سب  صدیوں سے  رہتے تھے۔ فرقہ پرستی یہاں کبھی مسئلہ نہیں تھا۔ یہ سب پہلے عرب تھے۔ اور پھر ان کی وفا داری اپنے ملک سے تھی۔ اور مذہب آخر میں آتا تھا۔ شام میں بشر السد کی قیادت میں شیعہ سنی اور عیسائی سب اپنے ملک کے  لیے لڑیں ہیں۔ سب نے  یکساں جانیں دی ہیں۔ اور باغی دہشت گردوں اور ان کی پشت پنا ہی کرنے والوں کو شکست دی ہے۔  بش انتظامیہ نے عراق پر حملہ مہلک ہتھیاروں کے نام پر کیا تھا۔ حالانکہ عراق میں مہلک ہتھیاروں کا کوئی نام و نشان نہیں تھا۔ یہ بش انتظامیہ تھی جس نے عراق میں شیعہ سنی فرقہ پرستی تقسیم کی بنیاد ر کھی تھی۔ سعودی عرب کو سنیوں کی قیادت دی تھی اور ایران کو شیعاؤں کا لیڈر بنا دیا تھا۔ اسلامک ور لڈ اس تقسیم سے خوش ہے اور نہ ہی یہ اسے قبول ہے۔ امریکہ اور اسرائیل اس شیعہ سنی تقسیم کو زبردستی اسلامک ور لڈ پر مسلط کر رہے ہیں۔ سعودی عرب اور اس کے خلیجی اتحادی شیعہ سنی تقسیم شاید اپنی سلامتی کے مفاد میں سمجھتے ہیں۔ عرب بادشاہوں کے دماغ بھی نوآبادیاتی اور سامراجی ہو گیے ہیں۔ اپنے خطہ میں مذہبی اور ثقافتی تقسیم پیدا کر کے یہ بھی حکمرانی کے خواب دیکھ رہے ہیں۔
 عراق میں اب حکومت کے خلاف مظاہرے ہو رہے ہیں۔ لبنا ن میں بھی حکومت کے خلاف لوگ سڑکوں پر آ گیے ہیں۔ الجیریا میں بھی لاکھوں لوگوں نے حکومت کے خلاف  مظاہرہ کیا تھا۔ جس کے نتیجہ میں صدر Bouteflika حکومت کو مستعفی ہونا پڑا تھا۔ حکومت کے خلاف الجیریا کی تاریخ کا یہ سب سے بڑا مظاہرہ تھا۔ اور پھر ایک نئی حکومت اقتدار میں آتی تھی۔ لیکن ان مظاہروں میں کہیں بھی شیعہ سنی ایشو نہیں ہے۔ ہر جگہ لوگوں کے ایشو ز اقتصادی ہیں ۔ بیروزگاری ہے۔ بش چینی نے عراق پر جب حملہ کیا تھا۔ اس وقت جو بچے 4 سال کے تھے وہ اب 20 سال کے ہو گیے ہیں۔ اور جو اس وقت 10سال کے تھے وہ اب 26 سال کے ہیں۔ ان کو امریکہ کے فوجی حملہ نے کیا دیا ہے؟ آج یہ ان کا مستقبل ہے۔ نہ تعلیم ہے اور نہ روز گار ہے۔ نہ امن ہے اور نہ خوشحالی ہے۔ دنیا نے ان پر ظلم کیا ہے۔ اور اب اپنا یہ Guilt ایران کو الزام دے کر دنیا کی نظروں میں خود کو بے گناہ ثابت کر رہے ہیں۔ سعودی عرب، متحدہ امارات اور خلیج کے بعض دوسرے ملک ان کے Guilt میں شامل ہیں۔ جو مناظر آج عراق اور لبنا ن میں دیکھے جا رہے ہیں۔ اور جو الجیریا میں دیکھا گیا تھا۔ وہ بحرین، ابو دہابی، ریاض اور جدہ میں بھی دیکھے جائیں گے۔ خطہ کا عدم استحکام حالات کو اسی رخ میں لے جا رہا ہے۔ 4عرب ملک عراق، شام، یمن اور لبنا ن عدم استحکام کا سامنا کر رہے ہیں۔ 4 عرب ملک عدم استحکام ہونے کے لیے تیار ہیں۔ صدر ٹرمپ نے کہا کہ "سعودی عرب امریکہ کے بغیر 7دن سے زیادہ  Survive نہیں کر سکتا ہے۔" سعودی حکومت نے شاید صدر ٹرمپ سے اتفاق کیا تھا۔ جب ہی سعودی شاہ نے امریکہ سے 5ہزار فوجوں بلائی ہیں۔ کیا بادشاہتیں اس طرح  Survive کرتی ہیں؟ سنی اسلام کے لیڈر بن کر شیعہ اسلام سے جنگ کرنے بادشاہ امریکہ برطانیہ اور فرانس کی بیساکھیوں پر کھڑے ہو گیے ہیں۔ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد 14سو سال جنگ کو اب نتیجہ خیز بنانا چاہتے ہیں۔ اس قدیم سوچ کے ساتھ ولی عہد سعودی عرب کو ایک جدید ریاست بنانا چاہتے ہیں۔
  غیر عرب سنی ملک سعودی حکومت کی اس سوچ اور موقف سے بالکل اتفاق نہیں کرتے ہیں۔ سعودی عرب کی ایران دشمنی سے بھی یہ ممالک خاصے Frustrated ہیں۔ تقریباً 4سال سے سعودی عرب، اسرائیل اور امریکہ ایران کو مڈل ایسٹ میں Chaos پیدا کرنے اور عراق لبنا ن شام یمن میں مداخلت کرنے کے الزام دے رہے تھے۔ ایران کا Behavior تبدیل کرنے لیے اسے بنیادی انسانی ضرورتوں سے محروم کرنے کی سزا دے رہے تھے۔ لیکن اب یہ سعودی عرب، اسرائیل اور امریکہ ہیں جو عراق اور لبنا ن میں Chaos پیدا کر رہے ہیں۔ اور ان ملکوں کو عدم استحکام کر رہے ہیں۔ عراق اور لبنا ن کے ایران سے قریبی تعلقات منقطع کرنے کی یہ ایک تحریک ہے۔ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کی ایک عرصہ سے عراق کو انتشار میں رکھنے کی پالیسی تھی۔ عراق میں یہ سنی انتہا پسندوں کی پشت پنا ہی کر رہے تھے۔ بلا آخر ایران اور ترکی کی انتھک کوششوں سے عراق میں سیاسی استحکام آنا شروع ہوا تھا۔ منتخب سیاسی حکومت نارمل طور پر Function  کرنے کے قابل ہو رہی تھی۔ معیشت بھی ٹریک پر آ رہی تھی۔ لیکن پھر عراق امریکہ سعودی عرب اور اسرائیل کی ایران کے ساتھ سخت کشیدگی کے Crossfire میں آگیا ہے۔ عراق ایک شیعہ ملک ہے اور ایران کے ساتھ اس کے بہت قریبی تعلقات ہیں۔ وزیر اعظم Adil Abdul-Mahdi نے ایران کے خلاف فوجی کاروائی کرنے کی مخالفت کی تھی۔ اور عراق کی سرزمین سے ایران پر حملہ کرنے کی اجازت دینے سے انکار کیا تھا۔ وزیر اعظم عادل عبدالمہدی کو اقتدار سے ہٹانے کے لیے مظاہرے ہو رہے ہیں۔ اب سعودی عرب امریکہ اور اسرائیل سے کوئی یہ پوچھے کہ عراق اور لبنا ن میں Chaos کے پیچھے کون ہے؟ بلاشبہ سعودی عرب اور بحرین کے لوگ عراق اور لبنا ن میں مظاہروں سے Encourage ہو رہے ہوں گے۔ اور اگر کل وہ بھی اس طرح مظاہرے کرنے  سڑکوں پر آتے ہیں تو اس کا الزام کس کو دیا جاۓ گا؟ دنیا نے یہ بھی دیکھا ہے کہ ایران میں حکومت کے پیٹرول کی قیمتوں میں اضافہ کے فیصلے کے خلاف ایرانیوں کے پر تشدد مظاہروں کی امریکہ اور سعودی عرب نے حمایت کی تھی۔ اور انہیں حکومت کا خاتمہ کرنے کی شہ دی تھی۔ مڈل ایسٹ ایسی گندی سیاست کے لئے دنیا میں مشہور ہے۔ جیسے یہاں کے حکمران ہیں ویسے ہی ان کے سیاسی حالات ہیں۔ یہ عوام ہیں جو ان کے پیدا کردہ Miserable حالات میں اپنے آپ کو زندہ رکھ رہے ہیں۔ اور وہ اب ان حالات کو بدلنا چاہتے ہیں۔
  مڈل ایسٹ اس وقت Lava پر کھڑا ہے۔ ہر سال مڈل ایسٹ کے حالات میں بہتری نہیں آ رہی ہے۔ بلکہ یہ بد سے بدتر ہوتے جا رہے ہیں۔ اور اس سال یہاں حالات اور زیادہ بدتر ہو گیے ہیں۔ ایران کی حکومت سعودی عرب اور خلیج کی ریاستوں کے ساتھ پرامن تعلقات میں بہت مخلص اور سنجیدہ ہے۔ جس میں اس خطہ کا مفاد ہے۔ جس میں خطہ کے لوگوں کی فلاح و بہبود ہے۔  ایران نے 'مڈل ایسٹ سلامتی' کا پلان عربوں کے سامنے رکھا ہے۔ جس میں خطہ کے ہر ملک کی سلامتی کی ضمانت دی گئی ہے۔ خطہ کے ملکوں کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرنے کا کہا گیا ہے۔ خطہ کے امن اور استحکام کو فروغ دینے کی مشترکہ کوششیں کرنے کا کہا گیا ہے۔ خطہ کے ہر ملک کے ساتھ تجارت اور اقتصادی ترقی کے منصوبوں میں تعاون کیا جاۓ گا۔ یہاں تک کے ایران نے اس پلان میں اپنے نیو کلیر پروگرام سے مکمل طور پر دستبردار ہونے کی پیشکش بھی کی ہے۔ لیکن سعودی حکومت نے ایران کے اس منصوبے اور نیوکلیر پروگرام کے بارے میں اس کی پیشکش کا ابھی تک کوئی مثبت جواب نہیں دیا ہے۔ سعودی بادشاہ امریکہ اور اسرائیل کی طرف دیکھ رہے ہیں۔
 آج کی خطرناک دنیا میں قومی سلامتی کی ضمانت صرف خطہ کی سلامتی میں ہے۔ چین کی قیادت کی بالخصوص اپنے خطہ بلکہ ایشیا کو امریکہ کی فوجی مہم جوئیوں سے دور رکھنے میں سرگرمیاں تیز تر ہو گئی ہیں۔ خطہ اور ایشیا کے ہر ملک کے ساتھ چین Dialogue کر رہا ہے۔ چین نے جنوبی کوریا سے حال ہی میں دفاعی معاہدہ کیا ہے۔ چین نے جاپان کے ساتھ بھی تجارت اور سلامتی امور پر معاہدہ کیا ہے۔ اور چین اب جنوبی کوریا اور جاپان میں دفاعی سلامتی معاہدہ کرا رہا ہے۔ امریکہ پر فوجی انحصار کرنے کا عالمی سیاست میں رجحان اب Obsolete ہوتا جا رہا ہے۔ امریکہ پر فوجی انحصار کرنے کی Cost میں حیرت انگیز اضافہ ہوا ہے۔ اس صورت میں قومی سلامتی کے مفاد میں سب سے سستا طریقہ علاقائی سلامتی کا منصوبہ ہے۔ صدر Xi Jinping نے بھارت کو امریکہ کے Military Orbit میں داخل ہونے سے روکنے لیے وزیر اعظم نریند ر مودی سے Dialogue جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                یشو                                                                                                                                                          

Wednesday, November 20, 2019

The Sick Leaders and Pakistan’s Chronic Economic Diseases



  The Sick Leaders and Pakistan’s Chronic Economic Diseases
Are in the Media Bashing Imran Khan Government, Defending the Corrupt Political System?
مجیب خان
Prime Minister Imran Khan


  جب اداروں کی بالا دستی اور حدود میں رہنے کی بات کی جاتی ہے۔ تو پھر فیصلے ایسے ہی ہوتے ہیں کہ جیسے وزیر اعظم عمران خان نے بیمار میاں نواز شریف کو  بیرون ملک علاج کے لیے جانے کی اجازت دینے کا فیصلہ عدالت پر چھوڑا تھا۔ کیونکہ میاں نواز کے کیس عدالتوں میں تھے۔ ایک کیس میں میاں نواز کو سات سال کی سزا سنائی گئی تھی۔ اور وہ جیل میں سزا کاٹ رہے تھے۔ اگر حکومت یہ فیصلہ کرتی تو اسے حکومت کا جیل توڑ کر مجرم کو فرار کرانا سمجھا جاتا۔ لیکن اب عدالت نے میاں نواز کو علاج کے لیے باہر جانے کی اجازت دی ہے۔ اور مجرم کے واپس نہ آنے کی صورت میں جج حضرات ذمہ دار ہیں۔ حکومت نے Humanitarian بنیاد پر Kind gesture کا مظاہرہ کیا ہے۔ امید ہے حکومت کے اس Kind gesture کو Honor کیا جاۓ گا۔ پاکستان میں understanding کا فقدان ایک بڑا مسئلہ ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے میاں نواز شریف سے جس ہمدردی کا اظہار کیا ہے۔ اس پر تنقید کرنے کے بجاۓ اسے سمجھنے کی کوشش کی جاۓ۔ اگر میاں نواز شریف کو کچھ ہو جاتا تو وزیر اعظم عمران خان کو ساری زندگی یہ Guilt رہتا کہ انہوں نے میاں نواز کو علاج کے لیے باہر جانے کی اجازت کیوں نہیں دی تھی۔ اور پھر یہ کہ وزیر اعظم عمران خان جنرل ضیا الحق کی طرح ظالم بھی بننا نہیں چاہتے تھے۔  لیکن پاکستان میں چھوٹی ذہنیت کے لوگ ہر وقت تنقیدیں کرنے کے لیے آستینیں چڑھاۓ بیٹھے ہوتے ہیں۔ حکومت کے ہر فیصلے کی سرجری کرنے لگتے ہیں۔ انہیں صرف ٹی وی میں بیٹھ  کر باتیں کرنا آتی ہیں۔ جو ان کے لیے سب سے آسان کام ہے۔ لیکن ایک نئی حکومت کو در پیش مصائب اور مشکلات کو سمجھنا انہیں نہیں آتا ہے۔ سارا دن اور روزانہ ہر چینل پر Imran Khan Bashing ہوتی ہے۔ ایک اینکر پہلے اپنے پروگرام میں حکومت کی Bashing کرتا ہے۔ پھر وہ دوسرے چینل پر دوسرے اینکر کے پروگرام میں بیٹھا ہو گا اور حکومت کی Bashing کر رہا ہو گا۔ ایسی Bashing زر داری حکومت اور نواز شریف حکومت کی نہیں ہوئی تھی۔ زر داری حکومت میں وزیر داخلہ کی وزارت میں ملک ہر طرف انسانی خون سے سرخ ہو گیا تھا۔ لیکن ٹی وی چینلز نے وزیر داخلہ کو برطرف کرنے کی مہم نہیں چلائی تھی۔ زر داری حکومت کی عوام دشمن کارکردگی کی ایک طویل فہرست تھی۔ لیکن میڈیا نے زر داری کو بڑے آرام سے 5سال حکومت کرنے کے دئیے تھے۔ اسی طرح میڈیا نے میاں نواز شریف حکومت کے منہ میں سونے کے چمچے ر کھے تھے۔ ان کی حکومت ‘One Man Show’ تھی۔ اہم وزارتوں کے قلمدان انہوں نے اپنی جیب میں ر کھی تھیں۔ کبھی یہ تاثر پیدا ہوتا تھا کہ جیسے ان کی داخلہ پالیسی خارجہ پالیسی تھی۔ میڈیا اینکر ز نے ان کے وزارت خزانہ کی طرف دیکھنا گناہ کرنا سمجھا تھا۔ اگر ٹی وی اینکر ملک کے خزانہ پر نظر رکھتے تو شاید نئی حکومت کے لیے خزانے میں کچھ پیسے ہوتے۔ اور آج عوام کو ان اقتصادی مصائب کا سامنا نہیں ہوتا۔ اینکر ز عوام کو ملک کے حالات کے بارے میں Educate نہیں کرتے ہیں۔ بلکہ لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں۔ ان میں Understanding کا فقدان ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے قوم کے سامنے سابقہ حکومتوں میں عالمی قرضوں میں خوفناک اضافہ ہونے کے تمام اعداد و شمار قوم کے سامنے ر کھے تھے۔ لیکن ان کی سمجھ میں نہیں آیا کہ یہ قرضہ کیا ہوتے ہیں۔ کیونکہ پاکستان میں بنکوں سے قرضے لینے کے بعد انہیں واپس کرنے کی روایت نہیں ہے۔ حکومت سے قرضہ معاف کرا لیے جاتے ہیں۔ اس لیے وہ دنیا میں بھی شاید ایسا ہی سمجھتے ہیں۔ دنیا میں قرضے واپس نہ کرنا بہت بڑی برائی سمجھی جاتی ہے۔ ملک عالمی مالیاتی نظام سے تنہا ہو جاتا ہے۔ حکومت کو عوام پر ٹیکس لگا کر، بنیادی ضروریات زندگی کی اشیا میں اضافہ کر کے دنیا کے قرضے پہلے واپس کرنا پڑ رہے ہیں۔ سابقہ دو حکومتوں کی یہ بد معاشی تھی۔ انہوں نے عوام پر یہ اقتصادی ظلم کیا تھا۔ سابقہ حکومت انتہائی خود غرض لوگوں کی تھی۔ انہوں نے عوام کے نام پر دنیا بھر سے قرضے لیے تھے۔ پھر یہ قرضے آپس میں بانٹ لیے اور خالی خزانہ چھوڑ کر چلے گیے۔ سابق حکومت کا وزیر خزانہ آخر عوام سے کیوں منہ چھپا رہا ہے۔ کیوں ملک میں آ کر عوام کو جواب نہیں دیتا ہے کہ یہ قرضے کہاں گیے؟ میڈیا نے ان حکومتوں کا خود کبھی احتساب نہیں کیا ہے۔ ان کے کرائم پر پردے ڈالے ہیں۔ اور اب حکومت نے ان کا احتساب کرنے کا تہیہ کیا ہے۔ تو میڈیا میں حکومت کی ٹانگیں گھسیٹی جا رہی ہیں۔ ملک کرپشن میں غرق ہے۔ لیکن اس کی انہیں پرواہ نہیں ہے۔ سابقہ حکومت نے نوٹ چھاپ کر لوگوں کو Fake خوشحالی دی تھی۔ لیکن نوٹ چھاپ کر  افراط زر فروغ دیا تھا۔ جس کے نتیجے میں قیمتیں آسمان پر پہنچ گئی تھیں۔ اس حکومت نے نوٹ چھاپ کر لوگوں کو دینا بند کر دیا ہے۔ اس لیے لوگوں کو مہنگائی کا شدت سے احساس ہو رہا ہے۔ لیکن جب افراط زر میں کمی آۓ گی تو قیمتیں بھی نیچے آئیں گی۔  
  اسی طرح میڈیا میں پنجاب میں وزیر اعلی شہباز شریف اور سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومتوں کی کبھی Bashing نہیں کی تھی۔ ان کی حکومتوں میں یہ صوبے جیسے جنت تھے۔ ہر طرف دودھ کی نہریں تھیں۔ دو روپے میں لوگ جیسے تین وقت کا کھانا کھاتے تھے۔ ٹی وی پر کوئی اینکر یہ نہیں پوچھتا ہے کہ جناب آخر صوبائی خود مختاری کا مطلب کیا ہے؟ اور یہ کس بیماری کے علاج کے لیے ہے؟ اگر وفاقی حکومت ہی صوبوں کے حالات، امن و امان، نظم و ضبط، مہنگائی، بیروزگاری کی ذمہ دار ہے تو پھر وفاقی حکومت صوبائی خود مختاری ختم کر کے صوبوں کے حالات بہتر بنانے کے کام خود کرے گی۔ وفاقی حکومت کھربوں روپے صوبائی حکومتوں کو دیتی ہے۔ لیکن صوبوں میں عوام کو جن مسائل کا سامنا ہے۔ ٹی وی اینکر ز وفاقی حکومت کو اس کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ سندھ میں 15سال سے صوبائی حکومت اقتدار میں ہے۔  سندھ کے لوگوں کے لیے اس حکومت نے کیا کام کیے ہیں۔ حکومت نے سندھ کے لوگوں کو مسائل میں کتنا ریلیف دیا ہے۔ میڈیا نے اس پر روزانہ کبھی حکومتوں کی Bashing نہیں کی ہے۔ چاروں صوبوں کے لوگوں کے ریڈار پر صرف وفاقی حکومت کو رکھا جاتا ہے۔ گزشتہ روز ایک ٹی وی چینل پر ایک خاتون تجزیہ کار کا کہنا تھا کہ "عمران خان بہت اچھے انسان ہیں۔ بہت ایماندار ہیں۔ بہت رحم دل ہیں۔ میں مانتی ہوں ان میں دنیا کی تمام خوبیاں ہیں۔ لیکن انہیں حکومت کرنا نہیں آتا ہے۔" اگر خاتون کے اس تجزیے کا Interpret سے یہ مطلب ہے کہ پاکستان میں دیانت داروں کو حکومت نہیں کرنا چاہیے۔ حکومت کرنے کا پاکستان میں صرف چند خاندانوں کا حق ہے۔ صرف وہ حکومت کرنا جانتے ہیں۔ خاتون فرماتی ہیں عمران خان کو حکومت کرنے کا تجربہ نہیں ہے۔ محترمہ، حکومت کرنے کا تجربہ ماں کے پیٹ سے لے کر کوئی نہیں آتا ہے۔ نئے لوگوں کو اب حکومت کرنے آ گے آنا ہے۔ پرانے لوگوں کا حکومت کرنے کا دور اب ختم ہو گیا ہے۔ دنیا نے وزیر اعظم عمران خان کی قیادت کا خیر مقدم کیا ہے۔ صدر ٹرمپ نے وزیر اعظم عمران خان کو پاکستانی میڈیا کے سامنے ایک اچھا لیڈر کہا ہے۔ عالمی مالیاتی اداروں نے بھی وزیر اعظم پر اعتماد کیا ہے۔ اور ان کی مدد کرنے فخر سے آگے آۓ ہیں۔ وزیر اعظم کے بارے میں عالمی میڈیا کے تجزیے خاتون تجزیہ کار سے بہت مختلف ہیں۔ پاکستان میں اینکر ز کو وزیر اعظم عمران خان کے بارے میں بڑے شبہات ہیں۔ بڑی شکایتیں ہیں۔ لیکن عالمی لیڈر سمجھتے ہیں کہ وزیر اعظم عمران خان اپنے عوام کے اقتصادی حالات بہتر بنانے اور غربت ختم کرنے میں بہت مخلص ہیں۔ عالمی لیڈر وزیر اعظم عمران خان کے کرپشن کے خلاف Initiatives کو بھی سراہا تے ہیں۔ لیکن پاکستان میں میڈیا اور اینکر کسی اور دنیا میں بیٹھ کر حکومت کے بارے میں تجزیے کرتے ہیں۔ میڈیا میں لوگوں کا جب کوئی ضمیر نہیں ہوتا ہے۔ تو آزادی صحافت ہونے یا نہ ہونے سے کوئی فرق نہیں ہوتا ہے۔
 میں نے مولانا فضل الرحمان کے نام نہا د ملین مارچ پر لکھا تھا کہ اچانک مولانا نے جس طرح عمران خان کے استعفا اور نئے الیکشن کی بات کی تھی۔ ان کے اس مطالبے کے پیچھے مودی حکومت کا ایجنڈہ تھا۔ وزیر اعظم عمران کے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کو ہندو پرست مودی حکومت اس وقت تک نہیں بھولے گی کہ جب تک عمران خان اقتدار میں ہیں۔ اس خطاب میں وزیر اعظم عمران خان نے RSS (Rashtriya Swayamsevek Sangh) کی تاریخ دنیا کے سامنے بیان کی تھی۔ جس سے نریند ر مودی کا بچپن سے گہرا تعلق ہے۔ اس سے بھارت کو سخت تکلیف پہنچی ہے۔ مودی حکومت کا عالمی امیج خراب ہوا ہے۔ وزیر اعظم مودی نے وزیر اعظم عمران خان کے خلاف اپنی آستینیں اوپر چڑ الی ہیں۔ پاکستان میں بھارت نواز جماعتوں اور میڈیا میں عمران حکومت کے خلاف اچانک تیزی آ گئی ہے۔ عمران کے استعفا کے مطالبے دہلی تک سنے جا رہے ہیں۔ مولانا ٹٹو کی طرح اڑے ہوۓ ہیں کہ عمران خان استعفا دیں اور نئے انتخاب بھی ہوں گے۔ شکست خوردہ لیڈروں کے مطالبے پر انتخابات نہیں ہونا چاہیں۔ یہ 1977 نہیں ہے۔ یہ صرف بھارت کے مفاد میں اپنے ملک کا امن و امان اور جمہوریت کو ایک بار پھر سبوتاژ کرنے غنڈہ گردی پر اتر آۓ ہیں۔ ایسی افو ا ہیں پھیلائی جا رہی ہیں کہ انتخاب 6ماہ میں ہوں گے۔ وزیر اعظم چند ماہ میں جانے والے ہیں۔ کبھی کہا جا رہا ہے کہ آرمی چیف کی وزیر اعظم عمران خان سے حالیہ ملاقات میں دونوں کے چہروں پر مسکراہٹ نہیں تھی۔ جس کے بعد وزیر اعظم نے دو دن چھٹی کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ایسی افواہیں پھیلا کر ملک دشمن لیڈر غیر ملکی سرمایہ پاکستان آنے سے روکنے کی سازش کر رہے ہیں۔ سرمایہ کاروں میں مایوسی پھیلا رہے ہیں۔ ملک میں ایک بار پھر غیریقینی حالات پیدا کیے جا رہے ہیں۔ لوگوں کو پھر بیوقوف بنا رہے ہیں۔ ان کا ماضی اور حال قوم کے سامنے ہے۔ انہوں نے اسلام کو استعمال کیا ہے۔ اپنے آپ کو خوشحال کیا ہے۔ اور اپنے ہم وطنوں کی زندگیاں برباد کی ہیں۔ قوم کا مفاد ان کے سامنے ثانوی حیثیت رکھتا ہے۔ دوسرے لفافوں کے ساتھ  بھارت کے لفافہ بھی چل رہے ہیں۔ جو جتنا زور سے عمران خان کی حکومت ختم کرنے کی بات کر رہا ہے۔ اس کی جیب میں اتنا ہی بڑا لفافہ ہے۔ عمران خان حکومت کے خلاف اقتدار سے محروم ہونے والے لیڈر اور مودی حکومت اب ایک ہی Page پر ہیں۔ دونوں کا مقصد پاکستان میں Chaos پیدا کرنا ہے۔ ایک نیوز رپورٹ کے مطابق بھارتی حکومت نے نئی دہلی میں سوشل میڈیا کے ذریعے پاکستان میں Fake خبریں پھیلانے کا ایک خصوصی سیل قائم کیا ہے۔ جو یورپ میں بھی کشمیر کے بارے میں پاکستان کے موقف کو Fake خبروں سے Counter کرے گا۔ بھارت نے حال ہی میں یورپ کے انتہائی Ultraright قوم پرستوں کے ایک وفد کو جو یورپ میں مسلمان Immigrants کے خلاف ہیں انہیں مقبوضہ کشمیر کا دورہ کرایا تھا۔ اور انہیں کشمیری مسلمانوں اور پاکستان کے خلاف انتہائی نفرت اور حقارت سے بھری بریفنگ دی تھی۔ کشمیر میں بھارتی فوج کی بربریت کو یورپی وفد سے پاکستان کی دہشت گردی کی سرگرمیاں بتایا تھا۔ تاکہ وہ یورپ میں اپنی حکومتوں اور اراکین پارلیمنٹ کے سامنے بھارت کا موقف بیان کریں۔ گزشتہ چند روز سے سوشل میڈیا میں عمران خان حکومت کے خلاف Fake خبروں کی مہم میں تیزی دیکھی جا رہی ہے۔ عمران خان استعفا دو اور گھر جاؤ میں زور پیدا کیا جا رہا ہے۔
  میاں نواز شریف اب اپنے اصل گھر پہنچ گیے ہیں۔ اس خوشی میں ان کی آدھی بیماری کا علاج ہو گیا ہو گا۔ میرے خیال میں شاید اس مرتبہ بھی سعودی عرب نے پس پردہ انہیں آزادی دلانے میں رول ادا کیا ہے۔ تاہم سعودی ولی عہد شہزادہ محمد نے کرپشن کے خلاف اپنے خاندان کے بھائیوں اور کزن شہزادوں کو نظر بند کر دیا تھا۔ اور انہیں اس وقت چھوڑا تھا جب ان سے لاکھوں اور کھربوں ڈالر وصول کر لیے تھے۔ اس لیے سعودی حکومت کرپشن کے خلاف عمران خان حکومت کی مہم کو بہتر سمجھتی ہے۔ میاں نواز شریف ایک سعودی شہزادے کے سسر ہیں اور شہزادے کے بچوں کے نانا بھی ہیں۔ میاں نواز شریف کے ایک صاحبزادہ اس دوران سعودی عرب میں تھے۔ اس مرتبہ سعودی بادشاہ کی بجاۓ قطر کے شہزادہ نے ایمبولینس طیارہ بھیجا تھا۔ آنے والے دنوں میں پتہ چل جاۓ گا کہ میرا یہ خیال درست تھا؟