A Fractured Islamic World Under Saudi Arabia
Leadership
Saudis are the ones dividing
the Islamic world, first in Shia and Sunni, and then ‘why are Turkey and Iran
interfering in Arabs affairs? Saudis are confused and lost, cannot lead the
Islamic world
مجیب خان
Syria, war destruction |
Yemen, war destruction |
Iraq, war destruction |
Kuala Lumpur, Islamic countries summit, dece21, 2019 |
کو والا لمپو ر ملا ئشیا میں اسلامی
دنیا کے ایک انتہائی بزرگ اور مدبر رہنما وزیر
اعظم متہا ئر محمد کی قیادت میں اسلامی ملکوں
کے سربراہوں کی کانفرنس کا انعقاد دنیا کے 1.2بلین مسلمانوں کی خواہش کی عکاسی
کرتا ہے۔ ایسے حالات میں کہ جب اسلامی دنیا انتشار کا شکار ہے۔ اور اس کا شیرازہ
بکھرا ہوا ہے۔ اسلامی دنیا کو ان حالات سے نکالنے کے لیے ایک دور اندیش اور مد برا
نہ صلاحیتوں کی حامل قیادت کی ضرورت ہے۔ اور وزیر اعظم متہائر محمد میں یہ صلاحیتیں
ہیں۔ اسلامی دنیا کو ان پر بھر پور اعتماد ہے۔ اور وہ انہیں اس قیادت کے لیے آگے
لائے ہیں۔ وزیر اعظم متہائر محمد نے اسلامی دنیا کو انتشار سے نکالنے کا چیلنج
قبول کیا ہے۔ ان کی بھی یہ آرزو ہو گی کہ وہ اپنی زندگی میں اسلامی دنیا کے تمام
تنازعہ حل کر دیں۔ اور اسے ایک پرامن اور خوشحال اسلامی دنیا بنائیں۔ خدا انہیں
اتنی طویل عمر دے کے وہ اپنی زندگی میں ایک ایسی اسلامی دنیا ضرور دیکھیں۔ اسلامی
دنیا کے شہری بھی جب تک یہ دنیا رہے گی
انہیں یاد ر کھے گے۔ اور دعائیں دیں گے۔
وزیر اعظم متہائر محمد نے کانفرنس کے
آغاز پر کہا "کانفرنس کا مقصد
مسلمانوں کے حالات بہتر بنانے کے لیے کچھ کرنا ہے۔ اور Islamophobia کو شکست دینا ہے۔ ہمیں اپنی
کوتاہیوں، غیر مسلموں پر ہمارا انحصار، اسلام کے دشمنوں کے خلاف اپنے آپ کو بچانے
کے لیے اقدام کرنے کی اس وقت اشد ضرورت ہے۔" کانفرنس 4 روز تک جاری رہی۔ کانفرنس میں اسلامی دنیا کو در پیش ایشو ز پر
غور کیا گیا اور پھر اسلامی دنیا کو ان ایشو ز سے نجات دلانے کے لیے اقدامات تجویز
کیے گیےہیں۔ اسلامی دنیا جب متحد ہو گی تو یہ مسائل کا حل ہو گا اور جب اسلامی
دنیا کا شیرازہ بکھرا ہو گا تو یہ مسائل میں اضافہ ہو گا۔ اس وقت تمام اسلامی ملک خواہ
یہ امیر ہیں یا غریب مسائل میں گھرے ہو ۓ ہیں۔ عراق پر 10سال تک انتہائی غیر
انسانی بندشوں کے بعد اسلامی لیڈروں کو اسلامی ملکوں کے خلاف امریکہ کی بندشیں
کبھی قبول نہیں کرنا چاہیے تھا۔ امریکہ نے پیشتر بندشیں اسرائیل کے مفاد میں لگائی ہیں۔ جو دنیا کے 190ملکوں کے مفاد کے
خلاف ہوتی ہیں۔ کو ا لا لمپو ر کانفرنس میں
ترکی اور ایران کے صدر، قطر کے امیر شیخ تمیم بن حما د Al Thani شریک تھے۔ کانفرنس میں تقریباً
50اسلامی ملکوں نے شرکت کی تھی۔ موجودہ حالات میں اسلامی ملکوں نے اتحاد اور
یکجہتی کے لیے کانفرنس کو خصوصی اہمیت دی تھی۔ سعودی عرب نے کانفرنس میں شرکت نہیں
کی تھی۔ پاکستان کی کوا لا لمپو ر کانفرنس میں شرکت نہ کرنے کی کچھ اور وجوہات
تھیں۔ تاہم اسلامی دنیا میں اتحاد کی اشد ضرورت پر عمران خان نے وزیر اعظم بننے کے
بعد اپنی پہلی تقریر میں خصوصی طور پر ذکر کیا تھا۔ وزیر اعظم عمران خان نے اسلامی
ملکوں کی تباہی پر بڑے دکھ کا اظہار کیا تھا۔ اور اپنے اس عزم کا اظہار بھی کیا
تھا کہ وہ سعودی عرب اور ایران کے درمیان کشیدگی اور اختلافات ختم کرانے میں اپنی
بھر پور کوشش کریں گے۔ اس مقصد سے وزیر اعظم عمران خان سعودی عرب اور ایران گیے تھے۔ وزیر اعظم کی ان
کوششوں کے کچھ نتائج دیکھے نہیں بلکہ Slow motion میں محسوس کیے جا رہے ہیں۔ وزیر اعظم
عمران خان نے ترکی کے صدر ارد و گان سے بھی اپنی کئی ملاقاتوں میں اسلامی یکجہتی
اور اتحاد کے لیے کچھ کرنے پر زور دیا تھا۔ اس سال ستمبر میں اقوام متحدہ کے
سالانہ اجلاس کے موقعہ پر وزیر اعظم عمران خان اور وزیر اعظم متہائر محمد کے
درمیان ملاقات میں اسلامی ملکوں کے سربراہوں کی کانفرنس بلانے پر دونوں رہنماؤں نے
اتفاق کیا تھا۔ جس میں اسلامی ملکوں کے درمیان اختلافات ختم کرنے اور اسلامی ممالک
کو جنگوں کے حالات سے نکالنے کی ایک مشترکہ حکمت عملی بنانے پر غور کیا جاۓ۔
اسلامی سربراہ کانفرنس پاکستان میں ہونے کی تجویز تھی۔ لیکن پاکستان میں اقتدار کے
بھوکے، خود غرض، مفاد پرست، حکومت سے نفرت کا شکار اپوزیشن لیڈروں کے BEHAVIOR کی وجہ سے اسلامی مملکت پاکستان کے
حالات پاکستان میں اسلامی سربراہ کانفرنس کے انعقاد کے لیے مناسب نہیں سمجھے گیے تھے۔ کوا لا لمپو ر کی
بجاۓ یہ کانفرنس اگر پاکستان میں ہوتی تو سعودی عرب کے لیے کانفرنس میں شرکت سے انکار
شاید ناممکن ہوتا۔ بہرحال یہ تاثر دینا کہ پاکستان نے کوا لا لمپو ر کانفرنس کی
مخالفت کی ہے اور اسلامی ملکوں کے سعودی بلاک میں رہنے کو اہمیت دی ہے۔ ایک غلط
تاثر ہے۔ پاکستان کے ایران اور قطر سے بدستور اچھے قریبی تعلقات ہیں۔ سعودی عرب کی
بعض پالیسیاں انتہائی Controversial ہیں جو اسلامی
ملکوں کے لیے Poison بن رہی ہیں۔
کوا لا لمپو ر نہ جانے کی شاید ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی تھی کہ انہیں وہاں شدید تنقید
کا سامنا ہوتا۔
وزیر اعظم مہتائر محمد اسلامی دنیا کو متحد کریں
گے۔ اور وزیر اعظم عمران خان ایران ترکی اور قطر کے ساتھ سعودی عرب کی محاذ آ رائی
ختم کرنے کی کوشش کریں گے۔ وزیر اعظم متہائر محمد عمران خان کی قیادت سے بہت متاثر
ہوۓ ہیں۔ عمران خان کو انہوں نے بہت مخلص پا یا ہے۔ اسلامی ملکوں کے حالات کے بارے
میں عمران خان کے خیالات بہت حقیقت پسندانہ ہیں۔ وزیر اعظم متہائر محمد نے وزیر
اعظم عمران خان کے ساتھ مل کر اسلامی دنیا کے لیے کچھ کرنے کا عزم کیا ہے۔ دونوں
رہنماؤں کی قیادت میں ملائشیا اور پاکستان کے تعلقات بہت مضبوط ہوۓ ہیں۔ اگر وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ
ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے اسٹرٹیجک تعلقات پر پاکستان کو کوئی اعتراض نہیں
ہے۔ تو سعودی عرب کو بھی پاکستان کے کوا لا لمپو ر اعلامیہ کی حمایت کرنے پر اعتراض
نہیں ہونا چاہیے۔ پاکستان نے اسلامی دنیا
کے مفادات کو ہمیشہ اہمیت دی ہے۔ 1974 میں لاہور میں پہلی تاریخی اسلامی سربراہ
کانفرنس ہوئی تھی۔ اور پھر اس کانفرنس سے یہ اسلامی ملکوں کی تنظیم بن گئی تھی۔ 1973
میں تیسری عرب اسرائیل جنگ میں اسرائیل نے عربوں کے علاقوں پر قبضہ کر لیا تھا۔
اسرائیلی جارحیت کو مغرب میں عظیم اسرائیلی فتوحات دیکھا جاتا تھا۔ اسرائیلی فوج نے
فلسطینیوں کی نسل کشی کرنے کا جیسے تہیا کر لیا تھا۔ پھر اس وقت بھی اسلامی دنیا
میں آپس کی محاذ آرا ئیاں اور خلفشار آج کے مقابلے میں مختلف نہیں تھا۔ آج کی طرح
اس وقت بھی مڈل ایسٹ تقسیم تھا۔ ایک طرف قوم پرست اور سوشلسٹ حکومتیں تھیں۔ جنہیں سو ویت بلاک میں رکھا جاتا تھا۔
اور دوسری طرف بادشاہ اور حکمران تھے جو امریکہ کے ساتھ تھے۔ آج سعودی عرب کی
قیادت میں خلیج کے ملک امریکہ اور اسرائیل
کے ساتھ ہیں۔ دوسری طرف ایران، ترکی شام عراق ہیں۔ سعودی ترکی کو غیر عرب سمجھتے
ہیں۔ ایران شام اور عراق کو شیعہ کہتے ہیں جن کے ساتھ ان کی 14سو سال سے جنگ ہے۔
اور امریکہ اور اسرائیل کی مدد سے اس جنگ کا اب اختتام چاہتے ہیں۔ لاہور اسلامی
سربراہ کانفرنس میں وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے شاہ ایران، سعودی شاہ فیصل،
صدر معمر قد ا فی، صدر حافظ السد، صدرانورالسادات، چیرمین یا سر عرفا ت سب کو ایک
کمرے میں بٹھایا تھا۔ اس کانفرنس کی سب سے نمایاں کامیابی یہ تھی کے اسلامی ملکوں
نے متفقہ طور پر پی ایل او کو چیرمین یا سر عرفات کی قیادت میں فلسطینیوں کی واحد
نمائندہ تنظیم تسلیم کیا تھا۔ اور پی ایل او کو اقوام متحدہ کی رکنیت دینے کی
حمایت میں ایک متفقہ قرار داد منظور کی تھی۔ چیرمین یا سر عرفات نے اس سال اقوام
متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کیا تھا۔
1994 میں تہر ان میں انقلاب ایران کے
بعد پہلی اسلامی سربراہ کانفرنس ہوئی تھی۔ ایران نے عراق کے صدر صد ام حسین کو بھی
کانفرنس میں شرکت کی دعوت دی تھی۔ عراق کے ساتھ 1980s میں ایران نے
9سال جنگ لڑی تھی۔ اس جنگ میں سعودی عرب نے امریکہ کے ساتھ صد ام حسین کی مدد کی
تھی۔ جنگ میں دونوں ملکوں کی تباہی بہت ہوئی تھی۔ لیکن جنگ کوئی نہیں جیتا تھا۔ امریکہ
اور اسرائیل نے عراق اور ایران دونوں کو کھربوں ڈالر کے ہتھیار بیچے تھے۔ سعودی
عرب نے یہ جنگ Finance کی تھی۔ ایران
نے سب کچھ فراموش کر کے تہر ان کانفرنس میں اسلامی دنیا کو متحد کرنے کی کوشش کی
تھی۔ عراق پر اقتصادی بندشیں تھیں۔ صدر صد ام حسین تہر ان کانفرنس میں نہیں آۓ تھے۔ لیکن نائب صدر کی
قیادت میں عراق کا وفد اسلامی سربراہ کانفرنس میں شرکت کرنے تہر ان آیا تھا۔ صدر
کلنٹن کے قومی سلامتی امور کے مشیر سینڈ ی بر گر عراقی وفد کو تہر ان میں اسلامی
ملکوں کے درمیان دیکھ کر بوکھلا گیے تھے۔ انہیں پریشانی یہ تھی کہ کہیں یہ اسلامی
ملک عراق پر سے پابندیاں ختم کرنے کی قرارداد منظور کریں گے۔ اور عراق کے ساتھ تجارت شروع کر دیں
گے۔ سینڈ ی بر گر نے وائٹ ہاؤس میں ایک پریس
بریفنگ میں کہا "ہم تہر ان میں اسلامی سربراہ کانفرنس پر نگاہ ر کھے ہوۓ ہیں۔
یہ سعودی عرب اور خلیج کے حکمران تھے جنہوں عراق پر سے پابندیاں ختم کی قرارداد
منظور نہیں ہونے دی تھی۔ آج اسلامی دنیا کا جو شیرازہ بکھرا ہوا اس کی پلاننگ 1990s سے ہو رہی تھی۔
کوا لا لمپو ر میں اسلامی سربراہ کانفرنس
کے انعقاد پر سعودی حکومت نے کہا کہ "اس
سے اسلامی ملک تقسیم ہو جائیں گے۔" اسلامی دنیا کو شیعہ اور سنی میں تقسیم کر
کے سعودی کہتے ہیں کہ 'کوا لا لمپو ر کانفرنس سے اسلامی ملک تقسیم ہو جائیں گے۔' اسلامی دنیا
کو سنی سعودی بلاک اور شیعہ ایرانی بلاک میں کس نے تقسیم کیا ہے؟ اور سعودی حکومت
اس تقسیم کو قبول کر رہی ہے۔ شیعہ سنی کی لڑائی جارج ڈبلو بش نے صد ام حسین کا
اقتدار ختم کر کے اس اعلان سے کی تھی کہ 'ہم نے ہزار سال کی تاریخ میں پہلی بار
عراق میں شیعاؤں کو حکومت دی ہے۔ سعودی حکومت کو صدر بش کے اس بیان کی مذمت کرنا
چاہیے تھی۔ جنہوں نے یہاں مذہبی فرقہ پرستی کی جنگ شروع کرنے کے بیج بوۓ تھے۔
جمہوری نظام مذہبی فرقہ پرستی پر قائم نہیں کیا جاتا ہے۔ سیاسی پارٹیوں میں تمام
عقائد کے لوگ ہوتے ہیں۔ عوام جس پارٹی کو اکثریت سے منتخب کرتے ہیں۔ وہ حکومت
بناتے ہیں۔ لیکن عراق میں صدر بش نے صرف شیعاؤں کو جمہوریت دی تھی۔ اور سنیوں کے
ملیشیا گروپ امریکی فوجی کمانڈروں نے بناۓ
تھے۔ سعودی حکومت اور خلیج کے حکمران اس Set up کے مطابق ابھی تک کام کر رہے ہیں۔ شیعہ سنی
لڑائی عراق سے شام، شام سے یمن، یمن سے لبنان ، لبنان سے لیبیا پہنچ گئی ہے۔ امریکی
میڈیا میں اس کی سرخیاں یہ ہوتی ہیں Sunni back by Saudi Arabia, Shia back by Iran’ ‘بے گناہ ایرانیوں کو اس میں رگڑا جا رہا ہے کیونکہ وہاں
شیعہ اکثریت ہے۔ سعود یوں کو یہ Nonsense بہت پسند ہے۔ اس لیے مڈل ایسٹ میں ساری لڑائیاں بھی Nonsense ہیں۔ سعودی قیادت مسلمانوں کو
تباہی کے راستے پر لے گئی ہے۔