75th Anniversary of The Liberation of The Auschwitz
Camp, And 70 Years of Israel’s Military Occupation on Palestine. Holocaust
Everywhere in the Middle East, What Lessons Have Israel’s Leaders Learned from
Auschwitz And Holocaust?
President Vladimir Putin “Not
to miss when the first sprouts of hatred, of chauvinism, of xenophobia and anti-Semitism
start to rear their ugly head, the memory of the Holocaust will continue being
a lesson and a warning only if the true story is told, without omitting the
facts”
Prince Charles said, “still tell new lies, still, adopt
new disguises and still seek new victims.”
Vice President Mike Pence urged world leaders to “stand strong against Iran the government in the world that denies the Holocaust as a matter of policy and threatens to wipe Israel off the map.”
Prime Minister Benjamin Netanyahu said, “The tyrants of Tehran that subjugate their own people and threaten the peace and security of the entire world, they threaten the peace and security of everyone in the Middle East and everyone beyond.”
Prince Charles “I know that Iran has been such an important part of the world for so many centuries and has contributed so much to human knowledge, culture, poetry, art. I mean, really remarkable people.”
مجیب خان
An Israeli airstrike on Gaza, Holocaust in Palestine |
Holocaust in Syria |
Saudi bomb on Yemen, the Holocaust in Yemen |
اسرائیل میں Holocaust کی 75سال یاد گار تقریب سے خطاب
میں Prince Charles نے کہا " Holocaust ہر فرد کی روداد ہے۔ ناقابل فہم
انسانیت سے عاری ایک روداد ہے۔ جس سے ساری انسانیت سبق سیکھ سکتی ہے۔ اور یہ سبق
ضرور سیکھنا چاہیے۔" Auschwitz نظر بندی کیمپ
کو آزادی دلانے کی 75سال یاد گار تقریب کا انعقاد اسرائیل میں World Holocaust Forum کے تحت ہوا تھا۔ جس میں برطانیہ
کے Prince Charles فرانس کے صدر Macron جرمن چانسلر Merkel روس کے صدر Putin امریکہ کے نائب صدر Mike Pence اور 50 سے زیادہ عالمی شخصیتوں نے شرکت کی تھی۔
اسلامی ملکوں کے ممتاز عالم دین کا وفد خصوصی طور پر Auschwitz گیا تھا۔ اور وفد کو Auschwitz concentration camp دکھایا
گیا تھا۔ جہاں انسانیت کے ساتھ انتہائی ہولناک بر تاؤ ہوا تھا۔ جسے دنیا کبھی فراموش
نہیں کرے گی۔ وفد نے یہاں نماز پڑھی تھی۔ اسلامی رہنماؤں کی یہ Holocaust survival کے ساتھ یکجہتی تھی۔
Holocaust اسرائیل میں نہیں ہوا تھا۔ یہ Auschwitz concentration camp میں ہوا تھا۔
اور Auschwitz camp کو آزادی دلانے
کی 75 سال یاد گار بہتر ہوتا Auschwitz میں منائی
جاتی۔ عالمی رہنما یہاں جمع ہوتے۔ اسرائیلی لیڈر بھی یہاں آتے۔ یہاں ان میں یہ
احساس زندہ ہوتا کہ concentration
camp میں انسانیت کو رکھنے کا مقصد Holocaust ہوتا ہے۔ اور دنیا میں جن کی Genuine human values ہوتی ہیں۔ وہ concentration camp سے انسانیت کو آزادی دلانے کے لیے
لڑتے ہیں۔ اس وقت اسرائیل کے اطراف میں concentration camp ہیں اور Holocaust کے مناظر ہیں۔ جنہیں
دیکھ کر یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ اسرائیلی لیڈروں نے 75 سال قبل Holocaust سے کوئی سبق نہیں
سیکھا ہے۔ اسرائیلی لیڈر Holocaust کو صرف اپنے ایجنڈے کے مقاصد میں استعمال کرتے ہیں۔ اور یہ Zionism ہے۔ 75 سال Auschwitz کی آزادی دلانے
کی یاد گار اور 70سال اسرائیلی فوج کے فلسطینی علاقوں پر قبضہ رکھنے کی یاد گار
میں، دنیا اسے کیسے دیکھ رہی ہے؟ انسانی تاریخ میں اتنی بڑی آبادی کو کبھی 70سال
امن سے محروم نہیں رکھا گیا ہو گا۔ اسرائیل- فلسطین تنازعہ کی تاریخ میں وزیر اعظم
Yitzhak Rabin پہلے اور آخری لیڈر
تھے جنہوں نے شاید Holocaust سے سبق سیکھا
تھا۔ اور فلسطینیوں کی طرف امن کا ہاتھ بڑھایا تھا۔ ان کی آزادی اور حقوق کو تسلیم
کیا تھا۔ وزیر اعظم Yitzhak Rabin
اگر فلسطینیوں کے ساتھ اپنے امن
مشن میں کامیاب ہو جاتے تو آج عرب دنیا بہت مختلف ہوتی۔ عرب دنیا میں Holocaust کے مناظر نہیں دیکھے جا رہے ہوتے۔
یہ Holocaust نازی جرمنی میں
Holocaust سے کہیں زیادہ Brutal اور Vicious ہے۔ لیکن اسرائیلی لیڈر جو آج Auschwitz
کو آزادی دلانے کی 75 سال یاد گار منا رہے ہیں۔ انہوں نے وزیر اعظم Yitzhak Rabin کا فلسطینیوں کے ساتھ امن منصوبہ قبول کرنے سے
انکار کر دیا تھا۔ اور پھر انہیں قتل کر دیا۔ یہ انسانیت کے حامیوں کا قتل تھا۔ یہ
امن کا قتل تھا۔ Likud
Party نے فلسطینیوں کے ساتھ امن
کی باتیں کرنا بند کر دیں۔ اور ان سے ہتھیاروں کی زبان بولنا شروع کر دی۔ فلسطینیوں
کے گنجان آبادی کے علاقوں کو [Auschwitz]
concentration camp بنا دئیے۔ کہیں ان کے گھروں کو بلڈ و زر سے تباہ کر دئیے تھے۔ اور
وہاں یورپ سے آنے والے یہودیوں کے لیے نئی بستیاں تعمیر کی جا رہی تھیں۔ لبنا ن میں فلسطینیوں کے صابرہ اور
شتیلا مہاجر کیمپوں پر جنرل ایریل شرون کی
قیادت میں اسرائیلی فوج نے ٹینک، بلڈوزر اور آر مر ڈ ٹرک چڑھا دئیے تھے۔ کئی ہفتوں
تک ہر طرف لاشیں بکھری ہوئی تھیں۔ انتہائی خوفناک مناظر تھے۔ جو Auschwitz کے مناظر سے مختلف
نہیں تھے۔
اسرائیلی لیڈروں نے Holocaust اسرائیلی ریاست کو پھیلانے میں
استعمال کیا ہے۔ اور Anti-Semitism سے دنیا کی
ہمدردیاں حاصل کی ہیں۔ اسرائیلی لیڈروں نے Holocaust never again’ ‘ کو
اہمیت دی تھی اور نہ ہی اسے اپنی پالیسی بنایا تھا۔ 70سال سے فلسطینیوں کی آزادی
پر اسرائیلی فوج قابض ہے۔ جو اب ایک صدی کے قریب ہونے والا ہے۔ ایشیا، افریقہ اور
لا طین امریکہ میں ان کی آزادی پر ان کی اپنی فوج کے قبضہ سے لوگ چند سالوں میں
تنگ آ جاتے تھے اور حکومت پر فوجی قبضہ کے خلاف سڑکوں پر آ جاتے تھے۔ لیکن
اسرائیلی فوج فلسطینیوں پر تشدد کرنے لگتی ہیں۔ ان سے انتہائی بربریت کا سلوک کرتی
ہے۔ ان کے گھروں کو گرا دیتی ہے۔ دنیا کو ناز یوں کی تاریخ پڑھنے کی بجاۓ۔ یہ
تاریخ فلسطینیوں کے ساتھ اسرائیلی روئیے میں نظر آ جاۓ گی۔ امن میں اسرائیلی
لیڈروں کو جیسے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ فلسطینیوں کے ساتھ اسرائیلی لیڈروں نے تقریباً
75 سے زیادہ امن سمجھوتے کیے تھے۔ اور پھر ان سمجھوتوں کو ختم کر دیا تھا۔ امریکہ
اور یورپی ملکوں نے بھی اسرائیل سے فلسطینیوں کے ساتھ امن سمجھوتوں پر اس طرح
عملدرامد نہیں کرایا تھا کہ جس طرح یہ ایران سے ایٹمی سمجھوتہ پر دھونس اور دھمکی
سے عملدرامد کر وا رہے ہیں۔ اسرائیل نے مصر کے ساتھ کیمپ ڈیوڈ معاہدے پر ابھی تک
مکمل عملدرامد نہیں کیا ہے۔ اس معاہدے کے صرف اس حصے پر عملدرامد کیا ہے جو صرف اسرائیل
کے مفاد میں تھا۔
70سال میں اسرائیل نے عربوں کے ساتھ
تین جنگیں [1948,
1967, 1973] کی ہیں۔ ان
جنگوں میں عربوں کے علاقوں پر قبضہ کر لیا تھا۔ 50سال ہو گیے ہیں اور یہ علاقے
ابھی تک اسرائیل کے قبضے میں ہیں۔ عالمی قانون نے انہیں عربوں کے علاقے قرار دیا
ہے۔ اور اسرائیل کو یہ واپس عربوں کو دینا پڑیں گے۔ جرمن یہودی واپس جرمنی میں
اپنے گھروں میں آ گیے ہیں۔ انہیں تمام مساوی حقوق حاصل ہیں۔ انہیں مکمل آزادی ہے۔
جرمن یہودی حکومت میں ہیں۔ کابینہ میں ہیں۔ وزارتوں میں ہیں۔ پارلیمنٹ میں ہیں۔
خوش ہیں اور امن سے ہیں۔ تین مرتبہ اسرائیل نے غازہ میں حما س سے جنگ کی تھی۔ غازہ
پر کار پٹ بمباری کی تھی۔ یہاں گھر، ہسپتال اور اسکول تباہ کر دئیے تھے۔
غازہ کا infrastructure بھی تباہ کر دیا
تھا۔ اس اسرائیلی حملے میں 2ہزار سے زیادہ فلسطینی عورتیں، بچے اور مرد ہلاک ہوۓ
تھے۔ اسرائیل نے مغربی کنارے میں PLO کے خلاف فوجی کاروائی کی تھی۔ یہاں گلی گلی اور محلہ محلہ اسرائیلی
فوج سے جنگ ہوئی تھی۔ اسرائیل نے مغربی کنارے میں ایرپورٹ تباہ کر دیا تھا۔ جو
یورپی یونین کی مدد سے تعمیر ہوا تھا۔ مغربی کنارے کی بندر گاہ بھی اسرائیل نے
تباہ کر دی تھی۔ اسرائیل نے بمباری کر کے فلسطینیوں کے تمام معاشی وسائل تباہ کر
دئیے تھے۔ ان 70سالوں میں اسرائیل نے لبنا ن پر حملہ کیا تھا۔ اور جنوبی لبنا ن پر
قبضہ کر لیا تھا۔ اسرائیل نے عراق پر بمباری کی تھی اور اس کے ایٹمی پاور پلانٹ تباہ
کر دئیے تھے۔ مغربی ملکوں کی یہ چال تھی کہ ان کی کمپنیاں عرب ملکوں کو ایٹمی پاور
پلانٹ فروخت کر تی تھیں۔ اس فروخت سے وہ کھربوں ڈالر بناتی تھیں۔ اور پھر اسرائیل
کو ایٹمی پاور پلانٹ تباہ کرنے کا اشارہ کر دیا جاتا تھا۔ عراق لیبیا اور شام تباہ
کرنے کے بعد ایران کو تباہ کرنے کی جنگ پر زور دیا جا رہا ہے۔ ایران میں Holocaust کی تاریخ بنائی جا رہی ہے۔ جو یہ
کہتے تھے کہ Holocaust never
again’ ‘ انہوں نے شام میں Holocaust کی تاریخ دوہرائی ہے۔ اسرائیل نے
اپنے ہمسایہ میں Holocaust کو نہیں روکا
تھا۔ جس میں ایک ملین بے گناہ لوگ مار دئیے تھے۔ بلکہ اسرائیل Holocaust کرنے والوں کی مدد کر رہا تھا۔
یمن میں 10ہزار بے گناہ لوگ جن میں بچے، عورتیں اور مرد شامل تھے۔ سعودی عرب کی
قیادت میں اتحاد یوں کی بمباری میں مر گیے تھے۔ امریکہ برطانیہ فرانس جرمنی سعودی
عرب کو کھربوں ڈالر کے ہتھیا ر فروخت کر رہے تھے۔ اور یہ ہتھیار یمن کے لوگوں کے
لیے Holocaust کی ایک نئی
تاریخ بنا رہے تھے۔ اس جنگ میں اسرائیل خلیجی ملکوں کے اتحاد کی پشت پنا ہی کر رہا تھا۔ اسرائیل نے مڈل ایسٹ میں Holocaust کو روکا نہیں ہے۔ بلکہ Holocaust کو Cash کیا ہے۔