Saturday, February 29, 2020

Prime Minister Modi, A Flattering Leader and A Shrewd Politician


  Prime Minister Modi, A Flattering Leader and A Shrewd Politician

President Trump, A Business Dealmaker Couldn’t Make a Trade Deal with Prime minister Modi, said Modi is a tough negotiator, but Modi has given a deal to President Trump’s $3Billion arms purchase and a letter of cooperation between Exxon Mobil and India’s energy sector, and makes President Trump happy.

مجیب خان
President Trump and First Lady Melania Trump visit India



Riots In Delhi against Modi government


  بھارت کی امریکہ کے ساتھ تجارت کا ایک دن کا Surplus وزیر اعظم مودی نے پریذیڈنٹ ٹرمپ کے Pomp and Circumstance  پر خرچ کیا ہے۔ بھارت میں شاندار استقبال کو پریذیڈنٹ ٹرمپ نے بہت سراہا یا اور کہا کہ اس دورے کی یادیں زندگی بھر ان کے ساتھ رہیں گی۔ پریذیڈنٹ ٹرمپ کے بھارت آنے کا اصل مقصد صرف وزیر اعظم مودی سے بغل گیر نہیں ہونا تھا۔ بلکہ مودی حکومت کے ساتھ ایک تاریخی Trade Deal پر دستخط کرنا تھا۔ امریکہ کو اس وقت بھارت کے ساتھ ٹریڈ میں 800 Billion ڈالر کا خسارہ ہو رہا ہے۔ اور پریذیڈنٹ ٹرمپ بھارت کے ساتھ ایک Fair Trade Deal چاہتے ہیں۔ تاکہ بھارت بھی بڑے پیمانے پر امریکہ سے اشیا خریدے، امریکی برآمدات پر سے پابندیاں ختم کرے۔ امریکی اشیا کے لیے بھارت اپنی مارکیٹ کھولے۔ پریذیڈنٹ ٹرمپ اپنے اس دورے میں بھارت کے ساتھ امریکہ سے Dairy اور Agriculture Products خریدنے کا معاہدہ کرنا چاہتے تھے۔ وزیر اعظم مودی ایک Typical Gujrati ہیں۔ پریذیڈنٹ ٹرمپ کے دورہ کا مقصد Business تھا۔ جبکہ وزیر اعظم مودی Political gain دیکھ رہے تھے۔ بھارت کے 36 گھنٹے دورے کا آغاز احمد آباد  گجرات سے کیا تھا۔ جو وزیر اعظم مودی کی آبائی ریاست تھی۔ اور 12 سال مودی ریاست کے وزیر اعلی تھے۔ احمد آباد شہر میں جگہ جگہ Bill Boards پر مودی- ٹرمپ کے پوسٹر ز  تھے۔ راستے کے دونوں جانب اسکولوں کے بچے بچیاں بھارت اور امریکہ کی جھنڈیاں  لہرا کر مہمانوں کا خیر مقدم کر رہے تھے۔ بھارت میں پریذیڈنٹ ٹرمپ کے دورے کا منظر دیکھ کر جیسے بھارت 1950s میں آ گیا تھا۔ جب پاکستان میں President London B. Johnson   کا اس طرح استقبال کیا گیا تھا۔ کراچی ائیر پورٹ سے گورنر ہاؤس تک سارے راستہ کو سجا یا گیا تھا۔ اسکولوں کے بچے اور بچیاں شاہراہ کے دونوں جانب پاکستان امریکہ کی جھنڈیاں ہاتھوں میں لے کر کھڑے ہوتے تھے۔ وزیر اعظم مودی پاکستان میں President Johnson کے ایک یاد گار استقبال کے مقابلے پر President Trump کا استقبال کرنے کے لیے بھارت کو اتنا پیچھے لے گیے ہیں۔ President Johnson لائبریری میں پاکستان کے اس یاد گار دورے کی تصویریں آج بھی دیکھی جاتی ہیں۔
  احمد آباد کے کرکٹ اسٹیڈیم میں تقریباً ایک لاکھ لوگوں کا اجتماع بتایا گیا تھا۔ احمد آباد میں تمام کاروبار کچھ گھنٹوں کے لیے بند ہو گیے تھے۔ ریاست کے سرکاری ملازمین کو کرکٹ اسٹیڈیم میں پریذیڈنٹ ٹرمپ کو دیکھنے اور سننے کے لئے خصوصی وقفہ دیا گیا تھا۔ مودی کی سیاست میں جتنی گرمی تھی اتنی ہی گرمی گجرات میں تھی۔ درجہ حرارت 80 ڈگری تھا۔ دھوپ میں شدت تھی۔ وزیر اعظم مودی Namaste Trump کے  نعرے لگا رہے تھے اور اپنے ساتھ مجمع کو بھی ہاتھ ہلا کر Namaste Trump کہنے کا کہہ رہے تھے۔ وزیر اعظم مودی پریذیڈنٹ ٹرمپ کا خیر مقدم بڑے خوش آمدانہ لفظوں سے کر رہے تھے۔ امریکہ کو بھارت کے ساتھ  جو اختلاف ہے۔ اس پر وزیر اعظم مودی نے ایک لاکھ کے مجمع کے سامنے کچھ نہیں کہا تھا۔ گجراتی بڑے کاروباری ہیں۔ اور وہ اپنے کاروبار زندہ رکھنے کے لیے امریکی کمپنیوں کو بھارت میں کاروبار جمانے کی اجازت دینے کے خلاف ہیں۔ وزیر اعظم مودی نے اپنے خطاب میں یہ بھی نہیں بتایا کہ ان کی حکومت میں بھارت کدھر جا رہا ہے۔ جنوبی ایشیا میں غربت ختم کرنے میں بھارت ہمسایہ ملکوں سے کس طرح کا تعاون کر رہا ہے۔ جس طرح امریکہ کا بھارت کے ساتھ تجارتی خسارہ ہے اسی طرح  بھارت کے تمام ہمسایہ بھی بھارت کے ساتھ تجارتی خسارے میں ہیں۔  اس لیے بھی وزیر اعظم مودی اپنے خطاب میں خطہ کی سیاست، تجارت اور معیشت پر بولنے سے جیسے منہ چھپا رہے تھے۔ وزیر اعظم مودی کے بعد پھر پریذیڈنٹ ٹرمپ نے اجتماع سے خطاب کیا، امریکیوں کی بھارت سے محبت کا ذکر کیا، امریکہ اور بھارت کے درمیان تعلقات کی اہمیت پر بات کی، دونوں ملکوں میں تجارت کے فروغ کی بات کی۔ جب تک پریذیڈنٹ ٹرمپ بھارت کے سلسلے میں اچھی باتیں کرتے رہے کرکٹ اسٹیڈیم میں مجمع تالیاں بجاتا رہا اور Namaste Trump کرتا رہا۔ لیکن پھر پریذیڈنٹ ٹرمپ نے جب پاکستان کا ذکر کیا کہ "امریکہ کے پاکستان سے بہت اچھے تعلقات ہیں۔ ہمارے پاکستان کے ساتھ بہت اچھے تعلقات ہیں۔ ان کوششوں کا نتیجہ ہے، ہمیں پاکستان کے ساتھ ترقی  کی بڑی علامتیں نظر آ رہی ہیں۔ اور ہمیں کشیدگیوں میں کمی ہونے، پائدار استحکام اور جنوبی ایشیا کے تمام ملکوں میں خیرسگالی کے مستقبل کی امید ہے۔" پریذیڈنٹ ٹرمپ نے جب یہ کہا تو اجتماع پر جیسے سکتہ طاری ہو گیا تھا۔ بہت سے لوگ  کرکٹ اسٹیڈیم سے جانے لگے تھے۔ بھارتی پاکستان کے بارے میں اچھا سننے کے لیے تیار نہیں تھے۔ یہ مودی پارٹی کے ہندو انتہا پسند تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ 'امریکہ کا صدر ہمارے ملک میں آ کر ہم سے پاکستان کی تعریف کر رہا تھا۔' پریذیڈنٹ ٹرمپ دراصل بالواسطہ انہیں یہ بتا رہے تھے کہ پاکستان نے مذہبی انتہا پسندی بڑی حد تک ختم کی ہے۔ لیکن بھارت نے مذہبی ہندو انتہا پسندی کو Unleash کیا ہے۔ مودی حکومت کے نئے قوانین بھارت کے آئین اور جمہوریت کے منافی ہیں۔
  مجھے یہاں گجراتیوں نے بتایا ' مودی کسی کی نہیں سنتا ہے۔ اس کے من میں جو آ جاتا ہے۔ وہ کر دیتا ہے۔ اسے کسی کا ڈر ہے اور نہ ہی وہ کسی کی پروا کرتا ہے۔ مودی کا ایک بھائی گجرات میں آج بھی پیٹرول پمپ پر کام کر رہا ہے۔ اس کا دوسرا بھائی گجرات میں پرچون کی دوکان چلا رہا ہے۔ اس کا ایک بھائی سرکاری ملازم ہے۔ مودی 12 سال گجرات کا وزیر اعلی تھا۔ لیکن 12 سال میں مودی اپنے بھائی سے صرف ایک مرتبہ ملا تھا۔ مودی نے کوئی غلط کام نہیں کیا ہے۔ اس لیے وہ کسی سے ڈرتا نہیں ہے۔ مودی نے کشمیر لے لیا ہے۔ اور وہ اسے بھی ٹھیک کر لے گا۔' مودی نے جب اپنا نام چمکا لیا ہے۔ 2002 میں گجرات میں وزیر اعلی مودی کی حکومت میں مسلمانوں کے خون سے ہولی کھلی گئی تھی۔ بھارت کی تاریخ میں یہ بد ترین ہندو مسلم فسادات تھے۔ دو ہزار مسلمان انتہا پسند ہندوؤں نے ہلاک کیے تھے۔ امریکہ اور بعض یورپی ملکوں نے مودی کی ان کے ملک میں داخلے پر پابندی لگا دی تھی۔ لیکن پھر 2014 میں مودی کے وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد یہ پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف تھے جو سب سے پہلے دہلی گیے تھے اور مودی کے ہاتھوں کو بوسہ دیا تھا۔ مودی کو گلے لگایا تھا۔ دوسرے اسلامی رہنماؤں کو مودی نے گلے لگایا تھا۔ امریکہ اور یورپ کے ملکوں نے مودی پر پابندی ہٹا لی تھی۔ مودی کی پارٹی کے لیڈروں کو یقین نہیں تھا کہ دنیا منتخب وزیر اعظم مودی کو قبول کرے گی۔ مودی نے وزیر اعظم بننے کے بعد ان غیر اسلامی حکومتوں سے رابطہ نہیں کیا تھا جنہوں نے گجرات فسادات کے نتیجے میں مودی پر پابندی لگائی تھی۔ بلکہ اسلامی ملکوں سے رابطہ کیا تھا جن کے ہم مذہب کا اس کی حکومت میں قتل عام ہوا تھا۔ اب حالیہ چند ماہ سے وزیر اعظم مودی کی بھارت میں مقبولیت کے اسٹاک بڑی تیزی سے گر رہے تھے۔ کئی ریاستوں میں مودی کی پارٹی کو انتخاب میں بری طرح ناکامی ہوئی تھی۔ کشمیر کو بھارت میں شامل کرنے، شہریت کا قانون، معاشی پالیسیاں ناکام ہو رہی ہیں، بے روز گاری کے ریکارڈ ٹوٹ رہے ہیں، ہنگامے، فسادات، انتہا پسندی مودی حکومت جیسے زوال کے قریب پہنچ رہی تھی۔ گزشتہ ماہ ہوسٹن میں امریکہ میں مقیم بھارتیوں نے وزیر اعظم مودی کی حمایت میں 50ہزارکا اجتماع ہوا تھا۔ جس میں پریذیڈنٹ ٹرمپ بھی آۓ تھے۔ لیکن ہوسٹن اجتماع سے بھارت میں وزیر اعظم مودی کی مقبولیت بحال نہیں ہوئی تھی۔ بلکہ مودی پارٹی دہلی میں انتخاب ہار گئی۔
   پریذیڈنٹ ٹرمپ کے دورے کا اصل مقصد بھارت کے ساتھ Trade Deal  پر دستخط ہونا تھے۔ جس پر ایک سال سے مذاکرات ہو رہے تھے۔ پریذیڈنٹ ٹرمپ امریکہ میں انتخابات سے پہلے یہ Trade Deal چاہتے تھے۔ لیکن بھارت میں یہ کہا کہ Trade Deal میں ابھی اور مذاکرات ہوں گے۔ وزیر اعظم مودی نے پریذیڈنٹ ٹرمپ کے خالی ہاتھ جانے کے بجاۓ $3Billion کے ہتھیار خریدنے کا معاہدہ کر لیا۔ اور بھارت کے ا نر جی شعبہ میں امریکہ کی Exxon Mobil سے تعاون کرنے کا معاہدہ کیا ہے۔ یہ معاہدہ اسسٹنٹ سیکرٹیری کی سطح پر ہو تے ہیں۔ پریذیڈنٹ ٹرمپ سے کہا گیا ہو گا کہ بھارت اس وقت سیاسی  Turmoil اور معاشی Difficulties میں ہے۔ اور Trade Deal کے لیے بھارت کو مزید وقت دیا جاۓ۔ پریذیڈنٹ ٹرمپ نے کہا ہے کہ اس سال کے اختتام تک بھارت کے ساتھ Trade Deal پر معاہدہ ہو جاۓ گا۔ نومبر میں امریکہ میں صدارتی انتخابات ہوں گے۔ اس کے نتائج  کیا ہوں گے۔ سب کو اس کا انتظار ہے۔ بہرحال Pomp and circumstance کی حد تک پریذیڈنٹ ٹرمپ کا دورہ اچھا تھا۔ لیکن پریذیڈنٹ ٹرمپ کی موجودگی میں ہندو انتہا پسندوں کی دہلی میں مسلمانوں کے خون سے ہولی انتہائی درد ناک تھی۔ اگر امریکہ کی انٹیلی جینس کو دہلی میں فسادات کا ذرا بھی علم ہوتا تو دورہ منسوخ ہو جاتا۔ تاہم بھارت میں شہریت کے قانون کے خلاف احتجاج اور مظاہرے ہو رہے تھے۔ پریذیڈنٹ ٹرمپ کے لیے Trade Deal بہت زیادہ اہم تھی اس لیے وہ صرف 36 گھنٹے کے لیے بھارت آۓ تھے۔
  امریکہ میں یہ انتخابات کا سال ہے۔ امریکہ میں 4 ملین بھارتی امریکن ہیں۔ ان میں ایک بہت بڑی تعداد گجراتیوں کی ہے۔ جو زیادہ تر کاروبار کرتے ہیں۔ اور مودی کو سپورٹ کرتے ہیں۔ 80 فیصد بھارتیوں نے ہلری کلنٹن کو ووٹ دئیے تھے۔ پریذیڈنٹ ٹرمپ نے بھارتیوں کے دو بڑے اجتماع سے ایک ہوسٹن اور دوسرا احمد آباد گجرات میں خطاب کیا ہے۔ 80 فیصد بھارتی امریکیوں کی راۓ عامہ میں ضرور تبدیلی آۓ گی؟         


Tuesday, February 25, 2020

Meddling in The Elections, Who Benefited the Most? America’s Relations with Russia are where the Obama administration has left them, not changed


 Meddling in The Elections, Who Benefited the Most?  America’s Relations with Russia are where the Obama administration has left them, not changed    
         
مجیب خان






   ٹرمپ انتظامیہ کو 18 ماہ صرف اس دباؤ میں رکھا تھا کہ 2016 کے انتخابات میں روس نے Meddling کی تھی۔ روس کی Meddling کا مقصد کیا تھا؟ ڈونالڈ ٹرمپ میں روس کی کیا اتنی دلچسپی تھی؟ 18ماہ تک یہ تحقیقات ہوتی رہی۔ تحقیقات کے دوران ٹرمپ انتخابی مہم کمیٹی میں شامل بعض لوگوں کے پنڈرا با کس کھلنے پر جو ذاتی نوعیت کے تھے۔ انہیں سزائیں ہوئی تھیں۔ اور وہ جیلوں میں ہیں۔ لیکن روس کی Meddling اور Collusion کے کوئی چوکا دینے والے انکشاف سامنے نہیں آۓ تھے۔ Mueller رپورٹ میں ٹرمپ انتخابی کمیٹی کے George Papadopoulos کو اسرائیل کا ایجنٹ بتایا تھا۔ جو ڈونالڈ ٹرمپ کی انتخابی کمیٹی میں امریکہ کی سیکورٹی اور خارجہ امور کے Adviser تھے۔ Papadopoulos نے اپنی ذاتی حیثیت میں نچلی سطح کے بعض روسیوں سے رابطے کیے تھے۔ اور Papadopoulos نے ان سے ہلری کلنٹن پر Dirt اچھالنے کی بات کی تھی۔ لیکن ڈونالڈ ٹرمپ کا ان کی اس گفتگو سے کوئی تعلق ثابت نہیں ہوا تھا۔ Papadopoulos کو صرف دو ہفتے جیل کی سزا ہوئی تھی۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ صرف اسرائیل کے ایجنٹ کی حیثیت سے کام کر رہے تھے۔ وزیر اعظم نتھن یا ہو ہلری کلنٹن کے خلاف تھے۔ اگر وہ پریذیڈنٹ بن جاتیں تو ایران کے خلاف اسرائیل کا منصوبہ دھرا رہے جاتا۔  پریذیڈنٹ ٹرمپ نے اسرائیل کو سارا فلسطین دے دیا ہے۔ پریذیڈنٹ ہلری کلنٹن انتظامیہ میں عالمی قوانین کی خلاف ورزی کر کے یہ اسرائیل کو اس طرح نہیں دیا جاتا۔ امریکہ میں یہ ایک عام تاثر ہے کہ جو Congressman اور Senators اسرائیل کے مفاد کے خلاف بات کرتے ہیں وہ دوبارہ منتخب نہیں ہو سکتے ہیں۔ اسرائیل نے ٹرمپ انتظامیہ میں سب سے زیادہ اپنے مقاصد حاصل کیے ہیں۔ اگر ڈونالڈ ٹرمپ انتخاب ہار جاتے اور ہلری کلنٹن انتخاب جیت جاتیں تو پھر روس کی Meddling پر کیا کہا جاتا؟
  انٹیلی جینس ادارے عوام میں اپنی Credibility کھو چکے ہیں۔ عراق میں مہلک ہتھیاروں کے بارے میں انہوں نے جو رپورٹیں دی تھیں وہ سب جھوٹ ثابت ہوئی تھیں۔ جھوٹی رپورٹوں کی بنیاد پر ایک غلط جنگ میں ہزاروں امریکی فوجی ہلاک اور زخمی ہوۓ تھے۔ لاکھوں عراقی خاندان تباہ ہو گیے تھے۔ ایک ٹیریلین ڈالر اس جنگ پر برباد ہوۓ تھے۔ امریکہ کے جن اتحادیوں نے اپنی فوجیں عراق میں بھیجی تھیں۔ ان کے فوجی بھی عراق میں مارے گیے تھے۔ امریکہ کی وجہ سے اتحادی ملکوں کی حکومتیں مشکل میں آ گئی تھیں۔ ان کے شہری حکومت سے سوال کرنے لگے تھے کہ عراق سے ان کے ملک کو کیا خطرہ تھا۔ عراق سے ہماری کیا لڑائی تھی۔ حکومت نے ہماری فوجیں عراق کیوں بھیجی تھیں؟ فوجی جنرل اگر جھوٹی رپورٹ پر جنگ کرتے تو ان کا کورٹ مارشل ہوتا۔ لیکن 16 انٹیلی جینس اداروں سے کوئی پوچھ  گچھ  نہیں ہوئی تھی۔ اعلی انٹیلی جینس حکام جیسے Accountability سے Immune تھے۔ بلکہ پریذیڈنٹ بش نے سی آئی اے ڈائریکٹر کو امریکہ کا سب سے بڑا اعزاز دیا تھا۔ اور ان کی خدمات کو سراہا یا تھا۔ لیکن یہ سی آئی اے تھی جسے 1999-2000 میں القا عدہ کے لیڈروں کو پکڑنے کے بہت سے موقع ملے تھے۔ لیکن انہوں نے کوئی کاروائی نہیں کی تھی جیسے وہ 9/11 کا انتظار کر رہے تھے۔ جب انٹیلی جینس اداروں کی کارکردگی Dubious ہو گی۔ لوگوں کو انٹیلی جینس اداروں پر اعتماد نہیں ہے۔ پریذیڈنٹ ٹرمپ اگر انٹیلی جینس اداروں کی نہیں سنتے ہیں تو امریکی عوام پریذیڈنٹ ٹرمپ کو Blame نہیں دیں گے۔
  ڈیمو کریٹک پارٹی کی صدارتی امیدوار کے لیے Primaries کے آغاز پر انٹیلی جینس اداروں کے سربراہوں کا کہنا ہے کہ روس 2020  کے صدارتی انتخاب میں Meddling کر رہا ہے۔ اور کہا ہے کہ 'روس Senator Bernie Sanders کی انتخابی مہم میں مدد کر رہا ہے۔' لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ انٹیلی جینس کے اعلی حکام کو ابھی تک یہ معلوم نہیں ہے کہ ISIS کی کون مدد کر رہا تھا۔ کس ملک کی سرزمین پر ISIS کو منظم کیا گیا تھا۔ کس ملک نے فنڈنگ کی تھی۔ ایک ہزار Toyota Trucks کے آ ڈر کس نے دئیے تھے۔ انٹیلی جینس اداروں کے سربراہ امریکی عوام کو اس بارے میں کچھ نہیں بتاتے ہیں۔ اس لیے امریکی عوام بھی روس کی Meddling کے بارے میں انٹیلی جینس کو زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیتے ہیں۔ انٹیلی جینس کی مسلسل ناکامیوں پر سے توجہ ہٹانے کے لیے یہ پھر دوسروں کو الزام دینے لگتے ہیں۔
  امریکہ تیسری دنیا کے ملکوں میں مداخلت کرتا تھا اور اپنے لیڈر اقتدار میں لاتا تھا۔ پھر ان سے اپنی خارجہ اور ڈیفنس پالیسی کے مفاد میں کام لیتا تھا۔ لیکن روس امریکہ کے انتخابات میں کیوں مداخلت کرے گا؟ پریذیڈنٹ ٹرمپ کے ساڑھے تین سال میں روس نے کیا حاصل کیا ہے۔ امریکہ کے ساتھ تعلقات میں روس کو پریذیڈنٹ ا و با مہ جہاں چھوڑ کر گیے تھے۔ پریذیڈنٹ ٹرمپ کے ساڑھے تین سال میں بھی روس امریکہ کے ساتھ تعلقات میں اسی مقام پر ہے۔ روس کی Meddling کا شور بہت ہے۔ پریذیڈنٹ پو تن نے یہ درست کہا ہے کہ یہ Russian Jews ہیں جو سرد جنگ میں اسرائیل چلے گیے تھے۔ اور انہوں نے 2016 کے انتخابات میں Meddling  کی ہے۔ ویسے بھی امریکہ میں اسرائیلی Influence کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ بلکہ یہ Ukrainian Jews بھی ہو سکتے ہیں جو فلو ریڈ ا اور اسرائیل میں رہتے ہیں۔ Ukrainian اور Russian فلسطینی علاقوں میں Settlers ہیں۔ اور پریذیڈنٹ ٹرمپ کے Peace Plan میں Settlements کو قانونی تسلیم کیا ہے۔
  پریذیڈنٹ جارج بش کا پریذیڈنٹ پو تن سے اپنی پہلی ملاقات کے بارے میں Impression تھا ;

President Bush “I looked the man in the eye. I found him to be very straightforward and
Trustworthy. We had a very good dialogue. I was able to get a sense of his soul; a man deeply committed to his country and the best interests of his country.”
And the first impression is the last impression.

پریذیڈنٹ پو تن نے پریذیڈنٹ ٹرمپ سے یہ سچ کہا تھا کہ روس امریکہ کے انتخابات میں کیوں مداخلت کرے گا۔ امریکہ کوئی Banana Republic نہیں ہے۔ پریذیڈنٹ ٹرمپ کے ذہن میں، پریذیڈنٹ بش نے پریذیڈنٹ پو تن کے بارے میں جس تاثر کا اظہار کیا تھا وہ تھا۔ لہذا پریذیڈنٹ ٹرمپ نے کہا کہ پریذیڈنٹ پو تن نے جو کہا ہے وہ اس پر یقین کرتے ہیں کہ روس امریکہ کے انتخابات میں کیوں Meddling کرے گا۔
 2016 کے انتخابات میں روس کی Meddling کا ایک مقصد یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ نیٹو اتحاد کو تقسیم کرنا تھا۔ لیکن حقیقت میں یہ صدر جارج بش کی War Policy تھی جس نے نیٹو اتحاد میں اختلافات پیدا کیے تھے۔ اور بلا آخر اس میں تقسیم شروع ہو گئی تھی۔ مشرقی یورپ کے  ملکوں کی نیٹو میں شمولیت کے بعد افغان جنگ ان کی پہلی جنگ تھی۔ اس جنگ میں جب ان کے فوجی مرنے لگے تھے۔ لوگ اپنی حکومت سے یہ سوال کرنے لگے کہ ہم افغانستان میں کیوں گیے تھے؟ جب سوویت فوجیں افغانستان میں گئی تھیں۔ وہ ہماری فوجیں اپنے ساتھ لے کر نہیں گئی تھیں۔ حالانکہ ہم Warsaw Pact کے رکن تھے۔ افغانستان اب ہماری جنگ کیوں ہے؟ جب مشرقی یورپ کے نیٹو ملکوں میں یہ عوامی راۓ تھی تو نیٹو میں Cracks آ گیے تھے۔ یہ بش انتظامیہ کی National Security Team تھی جو نامعلوم کیا سوچ کر نیٹو کو اپنے ساتھ افغانستان لے گئی تھی؟ اور افغانستان میں لے جا کر ان سے کہا گیا کہ 'یہ جنگ اس وقت تک جاری رہے گی کہ جب تک افغانستان سے طالبان کا مکمل خاتمہ نہیں ہو جاۓ گا۔' پریذیڈنٹ بش کی National Security کا یہ فیصلہ روس کے مفاد میں تھا۔ نیٹو روس کے گرد اس کے ہمسایہ ملکوں کو نیٹو کی رکنیت دے کر گھراؤ کر رہا تھا۔ لیکن اس فیصلے سے نیٹو افغانستان میں Bogged down ہو گیا تھا۔ اور اب دیکھنا یہ تھا کہ طالبان کا خاتمہ پہلے ہوتا ہے یا نیٹو میں توڑ پھوڑ پہلے ہو گی؟ افغانستان میں امریکہ اور نیٹو کی طالبان سے شکست کا 2016 کے صدارتی انتخاب میں روس کی Meddling سے کیا تعلق تھا؟ اس ناکامی کا بش انتظامیہ کے غلط فیصلوں اور ا و با مہ انتظامیہ کو ان غلط فیصلوں کو جاری رکھنے کا الزام دیا جاۓ گا۔
  یورپ کے ساتھ امریکہ کے تعلقات خراب ہونے کا الزام بھی روس کو دیا جا رہا ہے۔ Ukraine کے مسئلہ پر یورپ نے امریکہ کے موقوف کی مکمل حمایت کی تھی۔ لیکن ایران کے ایٹمی سمجھوتے پر جو ا و با مہ انتظامیہ میں ہوا تھا۔ اور اس سمجھوتے پر یورپی ملکوں نے دستخط کیے تھے۔ ٹرمپ انتظامیہ نے یہ معاہدہ ختم کرنے میں یورپ کی بھر پور مخالفت پر اسرائیل کی اس معاہدہ کی مخالفت کو ترجیح دی تھی۔ جس کے نتیجے میں امریکہ کے یورپ سے تعلقات خراب ہوۓ تھے۔ اسرائیلی یورپ میں Anti-Semitism بڑھ رہا تھا اس سے خوش نہیں تھے۔ اور Holocaust یورپ میں ہوا تھا اسے نہیں بھولے تھے۔ کانگرس کو جو مثبت کام کرنا چاہیے تھے وہ نہیں کیے تھے۔ اور Impeachment میں وقت برباد کیا تھا۔ کانگرس کو ہر قیمت پر ایران سمجھوتہ کے خلاف پریذیڈنٹ ٹرمپ کو فیصلہ کرنے سے روکنا چاہیے تھا۔ ایک تو یہ سمجھوتہ سابق انتظامیہ نے کیا تھا۔ اس لیے بھی اس سمجھوتہ کا احترام ہونا چاہیے تھا۔ اور دوسرے امریکہ کے انتہائی قریبی اتحادیوں کو اہمیت دینا چاہیے تھی جو ایران معاہدہ  ختم کرنے کے خلاف تھے۔ لیکن کانگرس اور سینٹ کی Foreign Relations Committees نے اپنے یورپی اتحادیوں کے ساتھ اتحاد رکھنے میں کچھ نہیں کیا تھا۔ ایران کے خلاف ٹرمپ انتظامیہ کی سخت ترین اقتصادی بندشوں سے یورپ کی معیشت بھی بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ صرف جرمن کمپنیوں کو ایران پر بندشوں کی وجہ سے بلین ڈالروں کا نقصان ہوا ہے۔ جبکہ فرانس، برطانیہ، اٹلی، اسپین اور دوسرے یورپی ملکوں کو بھی نقصانات ہو رہے ہیں۔ امریکہ اپنے اتحادیوں کو نقصان پہنچا رہا ہے۔ لیکن الزام Russian Meddling کو دیا جاتا ہے۔ ‎Venezuela میں جو ہو رہا ہے وہ Perfect Meddling definition ہے۔ پریذیڈنٹ ٹرمپ نے Juan Guaido کو Venezuela کا صدر قرار دیا ہے۔ پریذیڈنٹ پو تن نے ڈونالڈ ٹرمپ کو امریکہ کا صدر قرار نہیں دیا تھا۔                            

Thursday, February 20, 2020

Militarism and War-ism Draining Gulf Arab State’s Financial Wealth, ‘They’re All Saving Could Run Out in Fifteen Years,’ Warning from the IMF


Militarism and War-ism Draining Gulf Arab State’s Financial Wealth, ‘They’re All Saving Could Run Out in Fifteen Years,’ Warning from the IMF  


Militarism and War-ism is worse than Socialism, in Socialism people’s lives are built, while Militarism destroys people’s lives

مجیب خان
The Cooperation Council for the Arab States of the Gulf is a regional intergovernmental political and economic union  



  تیل کی دولت سے مالا مال خلیج کے ملکوں کی اقتصادی صحت پر IMF نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ ان ملکوں کے تمام محفوظ فنڈ ز  آئندہ 15سال میں ختم ہو جائیں گے۔ جیسا کہ Climate change ان کے لیے ایک بڑی پریشانی بن رہی ہے۔ جبکہ عالمی مارکیٹ میں تیل کے نئے سپلائر آ گیے ہیں جو تیل کی بھر مار کر کے قیمتیں گراتے جا رہے ہیں۔ IMF نے اپنی رپورٹ میں انہیں متنبہ کیا ہے۔ اور انہیں مشورہ دیا ہے کہ اپنے اخراجات کو لگا م دیں۔ IMF نے یہ مشورہ انہیں بحرین کی صورت حال کے پیش نظر دیا ہے کہ جسے 2018 میں ادائیگیاں کرنے میں سخت دشواریوں کا سامنا ہو رہا تھا۔ اور ہمسایہ ملکوں نے بحرین کو 10بلین ڈالر دئیے تھے اور اس کی معیشت گرنے سے بچائی تھی۔ بحرین کا قرضہ اس کے GDP کا 93% تھا۔ عالمی تیل کی سپلائی میں خلیج کے ملکوں کا حصہ صرف 20فیصد ہے۔ IMF نے خلیج کے 6ملکوں کو جن میں ا و مان، قطر اور متحدہ عرب امارات بھی شامل ہیں، آگاہ کیا ہے کہ تیل کے استعمال کی بچت میں نئی ٹیکنالوجی  مسلسل بہتر ہو رہی ہے۔ اس کے ساتھ تیل کے وسائل میں تجدید کو اختیار کرنے اور Climate change کے نتیجے میں ایک مضبوط پالیسی پر زور دیا جا ر اہا ہے۔ IMF کی رپورٹ کے مطابق تیل کی عالمی طلب رفتہ رفتہ بڑھنے کی توقع ہے اور پھر آئندہ دو دہائیوں میں اس میں انحطاط آنا شروع ہو گا۔ اگر یہ توقعات حقیقت ہیں۔ تو پھر تیل پیدا کرنے والے ملکوں کو اپنی معیشت کے زمینی منظر کی تشکیل نو کرنا ہو گی۔ جن میں خلیج کے ملک بھی شامل ہیں۔ اگر فرض کیا جاۓ کہ بیر ل تیل 55 ڈالر ہوتا ہے، IMF نے خلیج کے ملکوں کو آگاہ کیا کہ آئندہ 15 سال میں ان کی مالیاتی دولت ختم ہو سکتی ہے۔ IMF کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ خطہ کی مجموعی اصل مالیاتی دولت، ایک اندازے کے مطابق اس وقت 2ٹریلین ڈالر ہے۔ جو 2034 تک منفی ہو جاۓ گی۔ جیسا کہ یہ خطہ قرضہ پر رہنے والا بن جاۓ گا۔ بلا آخر، یہاں تک کہ تیل کی قیمتیں بڑھنے کے باوجود خلیج کے ملکوں کو اپنے محفوظ فنڈ ز خرچ کرنا پڑیں گے۔
  خلیج کے حکمران IMF کی اس رپورٹ کو کتنا سنجیدگی سے لے رہے ہیں۔ رپورٹ میں انہیں جن حالات کا سامنا ہونے سے متنبہ کیا گیا ہے۔ اس بارے میں وہ کیا سوچ رہے ہیں۔ آج انہیں اور اس خطہ کی جو صورت حال ہے۔ اس پر انہوں نے 20سال پہلے کبھی سوچا تھا۔ اور نہ ہی اس کے روک تھام کے لیے کوئی حکمت عملی بنائی تھی۔ جیسے یہ اپنے ملک اور خطہ کو ad hoc بنیادوں پر دیکھ رہے تھے۔ یا اپنے خطہ کو Lease پر غیر ملکی فوج کو دے دیا تھا۔ ان کے خطہ کے حالات دیکھ کر یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ حکمران جو محلوں میں رہتے ہیں کتنے نااہل اور غیر ذمہ دار ہیں۔ سارا خطہ ان کی قیادت میں پتھر کے دور میں آ گیا ہے۔ امن اور استحکام کے لیے ان کا کوئی Contribution نہیں ہے۔ انہوں نے اپنے خطہ کے اتنے مسائل حل نہیں کیے ہیں کہ جتنے مسائل انہوں نے پیدا کیے ہیں۔ اور اب مسائل کے Lava پر بیٹھے ہیں۔ جس کے پھٹنے سے IMF کی رپورٹ میں متنبہ کیا گیا ہے۔ ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کا 2030 سعودی عرب کو ترقی یافتہ صنعتی معیشت میں منتقل کرنے کا پلان ہے۔ IMF کی رپورٹ میں کہا ہے 2034  میں خلیج کے ملکوں کے، جس میں سعودی عرب بھی شامل ہے، محفوظ فنڈ ز ختم ہو جائیں گے۔ خلیج کے حکم رانوں کے پاس اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے صرف 15 سال ہیں۔ یہ 15 سال بھی ایسے ہی آ جائیں گے جیسے عراق کو 17 سال جنگ کے حالات میں گزر گیے ہیں۔ لیکن عراق کی ابھی تک تعمیر نو نہیں ہو سکی ہے۔ عراق کی معیشت بھی تباہ  ہے۔ عراق کے سیاسی حالات میں  ابھی تک امن ہے اور نہ ہی استحکام ہے۔ عراقی شہریوں کا مستقبل ابھی تک Uncertain ہے۔ اور یہاں 7جنگیں ہو رہی ہیں۔ جس میں سعودی عرب کی یمن کے خلاف جنگ بھی ہے۔ جسے اب 6سال ہو رہے ہیں۔
  دوسری جنگ عظیم کے بعد یورپ کے ملک 17سال میں دوبارہ تعمیر ہو گیے تھے۔ ان کی معیشت ترقی کر رہی تھی، سیاست میں استحکام آ گیا تھا۔ East اور West میں نظریاتی کشیدگی کے باوجود یورپ میں Peace اور Security کو First Priority میں رکھا گیا تھا۔ 1945 میں جنگ ختم ہوئی تھی اور 1960s میں مغربی یورپ کے ملک ترقی یافتہ صنعتی ملک بن گیے تھے۔  یورپ میں Peace اور Security نے توازن طاقت قائم کیا تھا۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد  یورپ میں ابھی تک کوئی بڑی جنگ نہیں ہوئی ہے۔ امریکہ اور یورپ نے عرب دنیا کو اپنی جنگوں کا محاذ بنا لیا ہے۔ نا ختم ہونے والی جنگوں کے لیے یہ خطہ بہت زر خیز ہے۔ عراق میں صد ام حسین کا خطرناک Regime جیسا کہ دنیا کو بتایا گیا تھا، کا خاتمہ ہونے کے بعد عرب دنیا میں امریکہ کو یورپی طرز پر Peace اور Security کا نظام رائج کرنا چاہیے تھا۔ ایران اور عرب ملکوں میں اس خطہ میں مہلک ہتھیاروں پر پابندی لگانے پر مکمل اتفاق تھا۔ اور انہوں نے یہ مطالبہ بھی کیا تھا۔ لیکن امریکہ کا اس خطہ میں اچھے فیصلے  کرنے کا کوئی ریکارڈ نہیں ہے۔ عرب حکم رانوں میں امریکہ کو اس خطہ میں صراط مستقیم کے راستہ پر لانے کی صلاحیت نہیں ہے۔ بلکہ امریکہ کے ساتھ مل کر عرب ایرانیوں کو صراط مستقیم پر لانے کا زور لگا رہے ہیں۔ ایران کاBehavior  تبدیل   کرنے کے لیے امریکہ کے ساتھ جنگ کر رہے ہیں۔ دنیا میں جو بھی Militarism  کے خلاف ہے اور Socialism میں انسانیت کا مفاد دیکھتا ہے۔ امریکہ اس کا Behavior تبدیل کرنا چاہتا ہے۔ امریکہ میں روس اور چین کے صدر کا Behavior تبدیل کرنے کی باتیں ہو رہی ہیں۔  دنیا میں لیڈروں کا Behavior تبدیل کرنا اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی ایک نئی پالیسی ہے۔ جو لیڈر امریکہ کی خلافت قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں انہیں  Behavior  تبدیل کرنا ہو گا۔ دنیا نے یہ سننے اور دیکھنے کے لیے سرد جنگ ختم نہیں کی تھی۔ جو دوسروں کو Behavior تبدیل کرنے کا کہتے ہیں ان کا اپنا Behavior کون سا اچھا ہے۔
  سعودی حکومت نے Behavior تبدیل کرنے کے امریکی لفظوں کو Plagiarize  کرنا شروع کر دیا ہے۔ Munich جرمنی میں سیکیورٹی کانفرنس میں سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فر ہا ن نے کہا  ہے 'مذاکرات سے پہلے ایران کو اپنا Behavior تبدیل کرنا ہو گا۔' سعودی وزیر خارجہ نے کہا 'سعودی عرب جنگ نہیں چاہتا ہے۔ لیکن ایران کا Behavior مسلسل غیر ذمہ دارا نہ ہے۔ جو مڈل ایسٹ میں عدم استحکام کا سبب ہے۔ اور عالمی معیشت کو دھمکی دیتا ہے۔' وزیر خارجہ نے کہا 'ایران کے ساتھ کشیدگی ختم کرنے میں نجی پیغامات یا کوئی براہ راست رابطہ نہیں ہوا ہے۔ جب تک عدم استحکام کے اصل اسباب کے بارے میں بات نہیں ہوتی ہے۔ اس وقت تک بات چیت کا کوئی نتیجہ نہیں ہو گا۔'
  سعودی وزیر خارجہ نے صرف Nonsense باتیں کی ہیں۔ جیسا کہ مڈل ایسٹ کے امن اور استحکام کو تباہ کرنے میں سب جھوٹ بول رہے ہیں۔ اور کبھی القا عدہ، کبھی بن لادن، کبھی ISIS، کبھی روس، کبھی چین، اور اب ایران کو الزام دے رہے ہیں۔ سعودی وزیر خارجہ نے بھی Kingdom کے جھوٹے الزام ان کے ساتھ  Registered کیے ہیں۔ سعودی وزیر خارجہ سے سوال یہ ہے کہ مڈل ایسٹ کے امن اور استحکام کو تباہ کرنے میں ایران کا کیا مفاد ہو سکتا ہے؟ شاید، مڈ ل ایسٹ کے عدم استحکام اور Militarism میں سعودی عرب Kingdom کا Survival دیکھتی ہے۔ وہ اس خطہ کو اپنا خطہ نہیں سمجھتے ہیں بلکہ اسے امریکہ اور اسرائیل کا خطہ سمجھتے ہیں۔ سعودی عرب اور خلیج کی ریاستوں نے یہاں بیک وقت کئی جنگوں کا Walmart کھولنے کی اجازت کیوں دی تھی؟ عراق پر ایران نے حملہ نہیں کیا تھا۔ سعود یوں نے عراق جنگ سے کیوں سبق نہیں سیکھا تھا؟ عراق جنگ اس خطہ کے مسلسل عدم استحکام کا سبب ہے۔ سعودی اور خلیج کے حکمران یہ الزام امریکہ کو نہیں دے سکتے ہیں۔ اور امریکہ نے اپنی جنگوں میں تباہی کی ذمہ داری کا کبھی اعتراف نہیں کیا ہے۔ امریکہ سعودی عرب اور اسرائیل نے ایران کو اپنا مشترکہ دشمن بنا لیا ہے۔ امریکہ مڈل ایسٹ میں، سعودی عرب یمن میں اور اسرائیل فلسطینیوں کے خلاف جو بربریت کر رہا ہے، تینوں الزام ایران کو دیتے ہیں۔ امریکہ میں میڈیا پر اسرائیل کا کنٹرول ہے، سعودی عرب نے واشنگٹن میں طاقتور Lobby hire کر لی ہے۔ جسے سعودی حکومت 60ملین ڈالر دے رہی ہے۔ میڈیا ایران کے خلاف پراپگنڈہ کرتا ہے۔ اور لابی ایران کے خلاف سعودی عرب کے الزامات کا دفاع کرتی ہے۔
  ایران کے وزیر خارجہ محمد جواد زرف نے خلیج میں بدترین کشیدگی کا امریکہ اور سعودی عرب کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ وزیر خارجہ نے کہا 'مجھے یقین ہے کہ ہمارے ہمسایہ بالخصوص سعودی عرب جنگ نہیں چاہتا ہے۔ ' وزیر خارجہ نے کہا' ریاض ایران کے خلاف ٹرمپ انتظامیہ کے Maximum Pressure مہم کے دباؤ میں ہے۔ لیکن سعودی عرب اور خلیج کے حکم رانوں کو اس سے بھی بڑے Financial Pressure کی سوچنا چاہیے۔ جس سے IMF نے انہیں اپنی رپورٹ میں متنبہ کیا ہے۔ ان کے پاس اب صرف 15سال ہیں۔ تیل پر ان کی اجارہ داری اب امریکہ کے پاس چلی گئی ہے۔ جنگیں ان کے پاس آ گئی ہیں۔ آئندہ 15 سال میں وہ کیا کریں گے؟