Prime Minister Modi, A Flattering Leader and A
Shrewd Politician
President Trump, A Business
Dealmaker Couldn’t Make a Trade Deal with Prime minister Modi, said Modi is a
tough negotiator, but Modi has given a deal to President Trump’s $3Billion arms
purchase and a letter of cooperation between Exxon Mobil and India’s energy sector, and makes President Trump happy.
مجیب خان
بھارت کی امریکہ کے ساتھ تجارت کا ایک
دن کا Surplus وزیر اعظم مودی
نے پریذیڈنٹ ٹرمپ کے Pomp and
Circumstance پر خرچ کیا
ہے۔ بھارت میں شاندار استقبال کو پریذیڈنٹ ٹرمپ نے بہت سراہا یا اور کہا کہ اس
دورے کی یادیں زندگی بھر ان کے ساتھ رہیں گی۔ پریذیڈنٹ ٹرمپ کے بھارت آنے کا اصل
مقصد صرف وزیر اعظم مودی سے بغل گیر نہیں ہونا تھا۔ بلکہ مودی حکومت کے ساتھ ایک
تاریخی Trade Deal پر دستخط کرنا
تھا۔ امریکہ کو اس وقت بھارت کے ساتھ ٹریڈ میں 800 Billion ڈالر کا خسارہ ہو رہا ہے۔ اور پریذیڈنٹ ٹرمپ بھارت کے ساتھ ایک Fair Trade Deal چاہتے ہیں۔ تاکہ بھارت بھی بڑے
پیمانے پر امریکہ سے اشیا خریدے، امریکی برآمدات پر سے پابندیاں ختم کرے۔ امریکی
اشیا کے لیے بھارت اپنی مارکیٹ کھولے۔ پریذیڈنٹ ٹرمپ اپنے اس دورے میں بھارت کے
ساتھ امریکہ سے Dairy اور Agriculture Products خریدنے کا معاہدہ کرنا چاہتے تھے۔
وزیر اعظم مودی ایک Typical
Gujrati ہیں۔ پریذیڈنٹ ٹرمپ کے دورہ کا مقصد Business تھا۔ جبکہ وزیر اعظم مودی Political gain دیکھ رہے تھے۔ بھارت کے 36 گھنٹے دورے کا آغاز احمد آباد گجرات سے کیا تھا۔ جو وزیر اعظم مودی کی آبائی
ریاست تھی۔ اور 12 سال مودی ریاست کے وزیر اعلی تھے۔ احمد آباد شہر میں جگہ جگہ Bill Boards پر مودی- ٹرمپ کے پوسٹر ز تھے۔ راستے کے دونوں جانب اسکولوں کے بچے بچیاں بھارت
اور امریکہ کی جھنڈیاں لہرا کر مہمانوں کا
خیر مقدم کر رہے تھے۔ بھارت میں پریذیڈنٹ ٹرمپ کے دورے کا منظر دیکھ کر جیسے بھارت
1950s میں
آ گیا تھا۔ جب پاکستان میں President London B. Johnson کا اس طرح استقبال کیا گیا
تھا۔ کراچی ائیر پورٹ سے گورنر ہاؤس تک سارے راستہ کو سجا یا گیا تھا۔ اسکولوں کے
بچے اور بچیاں شاہراہ کے دونوں جانب پاکستان امریکہ کی جھنڈیاں ہاتھوں میں لے کر کھڑے
ہوتے تھے۔ وزیر اعظم مودی پاکستان میں President Johnson کے ایک یاد گار استقبال کے مقابلے پر President Trump کا استقبال کرنے کے لیے بھارت کو
اتنا پیچھے لے گیے ہیں۔ President
Johnson لائبریری میں پاکستان کے اس یاد گار دورے کی تصویریں آج بھی دیکھی
جاتی ہیں۔
احمد آباد کے کرکٹ اسٹیڈیم میں تقریباً
ایک لاکھ لوگوں کا اجتماع بتایا گیا تھا۔ احمد آباد میں تمام کاروبار کچھ گھنٹوں
کے لیے بند ہو گیے تھے۔ ریاست کے سرکاری ملازمین کو کرکٹ اسٹیڈیم میں پریذیڈنٹ
ٹرمپ کو دیکھنے اور سننے کے لئے خصوصی وقفہ دیا گیا تھا۔ مودی کی سیاست میں جتنی
گرمی تھی اتنی ہی گرمی گجرات میں تھی۔ درجہ حرارت 80 ڈگری تھا۔ دھوپ میں شدت تھی۔
وزیر اعظم مودی Namaste Trump کے نعرے لگا رہے تھے اور اپنے ساتھ مجمع کو بھی
ہاتھ ہلا کر Namaste Trump کہنے کا کہہ
رہے تھے۔ وزیر اعظم مودی پریذیڈنٹ ٹرمپ کا خیر مقدم بڑے خوش آمدانہ لفظوں سے کر
رہے تھے۔ امریکہ کو بھارت کے ساتھ جو
اختلاف ہے۔ اس پر وزیر اعظم مودی نے ایک لاکھ کے مجمع کے سامنے کچھ نہیں کہا تھا۔ گجراتی
بڑے کاروباری ہیں۔ اور وہ اپنے کاروبار زندہ رکھنے کے لیے امریکی کمپنیوں کو بھارت
میں کاروبار جمانے کی اجازت دینے کے خلاف ہیں۔ وزیر اعظم مودی نے اپنے خطاب میں یہ
بھی نہیں بتایا کہ ان کی حکومت میں بھارت کدھر جا رہا ہے۔ جنوبی ایشیا میں غربت ختم
کرنے میں بھارت ہمسایہ ملکوں سے کس طرح کا تعاون کر رہا ہے۔ جس طرح امریکہ کا
بھارت کے ساتھ تجارتی خسارہ ہے اسی طرح بھارت کے تمام ہمسایہ بھی بھارت کے ساتھ تجارتی
خسارے میں ہیں۔ اس لیے بھی وزیر اعظم مودی
اپنے خطاب میں خطہ کی سیاست، تجارت اور معیشت پر بولنے سے جیسے منہ چھپا رہے تھے۔
وزیر اعظم مودی کے بعد پھر پریذیڈنٹ ٹرمپ نے اجتماع سے خطاب کیا، امریکیوں کی
بھارت سے محبت کا ذکر کیا، امریکہ اور بھارت کے درمیان تعلقات کی اہمیت پر بات کی،
دونوں ملکوں میں تجارت کے فروغ کی بات کی۔ جب تک پریذیڈنٹ ٹرمپ بھارت کے سلسلے میں
اچھی باتیں کرتے رہے کرکٹ اسٹیڈیم میں مجمع تالیاں بجاتا رہا اور Namaste Trump کرتا رہا۔ لیکن پھر
پریذیڈنٹ ٹرمپ نے جب پاکستان کا ذکر کیا کہ "امریکہ کے پاکستان سے بہت اچھے
تعلقات ہیں۔ ہمارے پاکستان کے ساتھ بہت اچھے تعلقات ہیں۔ ان کوششوں کا نتیجہ ہے، ہمیں
پاکستان کے ساتھ ترقی کی بڑی علامتیں نظر
آ رہی ہیں۔ اور ہمیں کشیدگیوں میں کمی ہونے، پائدار استحکام اور جنوبی ایشیا کے
تمام ملکوں میں خیرسگالی کے مستقبل کی امید ہے۔" پریذیڈنٹ ٹرمپ نے جب یہ کہا
تو اجتماع پر جیسے سکتہ طاری ہو گیا تھا۔ بہت سے لوگ کرکٹ اسٹیڈیم
سے جانے لگے تھے۔ بھارتی پاکستان کے بارے میں اچھا سننے کے لیے تیار نہیں تھے۔ یہ
مودی پارٹی کے ہندو انتہا پسند تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ 'امریکہ کا صدر ہمارے ملک
میں آ کر ہم سے پاکستان کی تعریف کر رہا تھا۔' پریذیڈنٹ ٹرمپ دراصل بالواسطہ انہیں
یہ بتا رہے تھے کہ پاکستان نے مذہبی انتہا پسندی بڑی حد تک ختم کی ہے۔ لیکن بھارت
نے مذہبی ہندو انتہا پسندی کو Unleash کیا ہے۔ مودی حکومت کے نئے قوانین بھارت کے آئین
اور جمہوریت کے منافی ہیں۔
مجھے یہاں گجراتیوں نے بتایا ' مودی
کسی کی نہیں سنتا ہے۔ اس کے من میں جو آ جاتا ہے۔ وہ کر دیتا ہے۔ اسے کسی کا ڈر ہے
اور نہ ہی وہ کسی کی پروا کرتا ہے۔ مودی کا ایک بھائی گجرات میں آج بھی پیٹرول پمپ
پر کام کر رہا ہے۔ اس کا دوسرا بھائی گجرات میں پرچون کی دوکان چلا رہا ہے۔ اس کا
ایک بھائی سرکاری ملازم ہے۔ مودی 12 سال گجرات کا وزیر اعلی تھا۔ لیکن 12 سال میں
مودی اپنے بھائی سے صرف ایک مرتبہ ملا تھا۔ مودی نے کوئی غلط کام نہیں کیا ہے۔ اس
لیے وہ کسی سے ڈرتا نہیں ہے۔ مودی نے کشمیر لے لیا ہے۔ اور وہ اسے بھی ٹھیک کر لے گا۔'
مودی نے جب اپنا نام چمکا لیا ہے۔ 2002 میں گجرات میں وزیر اعلی مودی کی حکومت میں
مسلمانوں کے خون سے ہولی کھلی گئی تھی۔ بھارت کی تاریخ میں یہ بد ترین ہندو مسلم
فسادات تھے۔ دو ہزار مسلمان انتہا پسند ہندوؤں نے ہلاک کیے تھے۔ امریکہ اور بعض
یورپی ملکوں نے مودی کی ان کے ملک میں داخلے پر پابندی لگا دی تھی۔ لیکن پھر 2014
میں مودی کے وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد یہ پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف تھے جو
سب سے پہلے دہلی گیے تھے اور مودی کے ہاتھوں کو بوسہ دیا تھا۔ مودی کو گلے لگایا
تھا۔ دوسرے اسلامی رہنماؤں کو مودی نے گلے لگایا تھا۔ امریکہ اور یورپ کے ملکوں نے
مودی پر پابندی ہٹا لی تھی۔ مودی کی پارٹی کے لیڈروں کو یقین نہیں تھا کہ دنیا
منتخب وزیر اعظم مودی کو قبول کرے گی۔ مودی نے وزیر اعظم بننے کے بعد ان غیر اسلامی
حکومتوں سے رابطہ نہیں کیا تھا جنہوں نے گجرات فسادات کے نتیجے میں مودی پر پابندی
لگائی تھی۔ بلکہ اسلامی ملکوں سے رابطہ کیا تھا جن کے ہم مذہب کا اس کی حکومت میں
قتل عام ہوا تھا۔ اب حالیہ چند ماہ سے وزیر اعظم مودی کی بھارت میں مقبولیت کے
اسٹاک بڑی تیزی سے گر رہے تھے۔ کئی ریاستوں میں مودی کی پارٹی کو انتخاب میں بری
طرح ناکامی ہوئی تھی۔ کشمیر کو بھارت میں شامل کرنے، شہریت کا قانون، معاشی پالیسیاں
ناکام ہو رہی ہیں، بے روز گاری کے ریکارڈ ٹوٹ رہے ہیں، ہنگامے، فسادات، انتہا پسندی
مودی حکومت جیسے زوال کے قریب پہنچ رہی تھی۔ گزشتہ ماہ ہوسٹن میں امریکہ میں مقیم
بھارتیوں نے وزیر اعظم مودی کی حمایت میں 50ہزارکا اجتماع ہوا تھا۔ جس میں
پریذیڈنٹ ٹرمپ بھی آۓ تھے۔ لیکن ہوسٹن اجتماع سے بھارت میں وزیر اعظم مودی کی
مقبولیت بحال نہیں ہوئی تھی۔ بلکہ مودی پارٹی دہلی میں انتخاب ہار گئی۔
پریذیڈنٹ ٹرمپ کے دورے کا اصل مقصد
بھارت کے ساتھ Trade Deal پر دستخط ہونا تھے۔ جس پر ایک سال سے مذاکرات ہو
رہے تھے۔ پریذیڈنٹ ٹرمپ امریکہ میں انتخابات سے پہلے یہ Trade Deal چاہتے تھے۔ لیکن بھارت میں یہ کہا
کہ Trade Deal میں ابھی اور
مذاکرات ہوں گے۔ وزیر اعظم مودی نے پریذیڈنٹ ٹرمپ کے خالی ہاتھ جانے کے بجاۓ $3Billion کے ہتھیار خریدنے کا معاہدہ کر
لیا۔ اور بھارت کے ا نر جی شعبہ میں امریکہ کی Exxon Mobil سے تعاون کرنے کا معاہدہ کیا ہے۔
یہ معاہدہ اسسٹنٹ سیکرٹیری کی سطح پر ہو تے ہیں۔ پریذیڈنٹ ٹرمپ سے کہا گیا ہو گا
کہ بھارت اس وقت سیاسی Turmoil اور معاشی Difficulties میں ہے۔ اور Trade Deal کے لیے بھارت کو مزید وقت دیا
جاۓ۔ پریذیڈنٹ ٹرمپ نے کہا ہے کہ اس سال کے اختتام تک بھارت کے ساتھ Trade Deal پر معاہدہ ہو جاۓ گا۔ نومبر میں
امریکہ میں صدارتی انتخابات ہوں گے۔ اس کے نتائج کیا ہوں گے۔ سب
کو اس کا انتظار ہے۔ بہرحال Pomp
and circumstance کی حد تک پریذیڈنٹ ٹرمپ کا دورہ اچھا تھا۔ لیکن
پریذیڈنٹ ٹرمپ کی موجودگی میں ہندو انتہا پسندوں کی دہلی میں مسلمانوں کے خون سے
ہولی انتہائی درد ناک تھی۔ اگر امریکہ کی انٹیلی جینس کو دہلی میں فسادات کا ذرا
بھی علم ہوتا تو دورہ منسوخ ہو جاتا۔ تاہم بھارت میں شہریت کے قانون کے خلاف
احتجاج اور مظاہرے ہو رہے تھے۔ پریذیڈنٹ ٹرمپ کے لیے Trade Deal بہت زیادہ اہم تھی اس لیے وہ صرف
36 گھنٹے کے لیے بھارت آۓ تھے۔
امریکہ میں یہ انتخابات کا
سال ہے۔ امریکہ میں 4 ملین بھارتی امریکن ہیں۔ ان میں ایک بہت بڑی تعداد گجراتیوں
کی ہے۔ جو زیادہ تر کاروبار کرتے ہیں۔ اور مودی کو سپورٹ کرتے ہیں۔ 80 فیصد بھارتیوں
نے ہلری کلنٹن کو ووٹ دئیے تھے۔ پریذیڈنٹ ٹرمپ نے بھارتیوں کے دو بڑے اجتماع سے ایک
ہوسٹن اور دوسرا احمد آباد گجرات میں خطاب کیا ہے۔ 80 فیصد بھارتی امریکیوں کی راۓ
عامہ میں ضرور تبدیلی آۓ گی؟