Media Is Equally Responsible to Not Give More
Importance to Coronavirus, It Was Spreading in Wuhan, China, It Was A Very
Dangerous Virus, But in The Media, Impeachment, And Ukraine We’re Dominating
Headlines
In “Social-distancing,” the
word social comes from Socialism, it’s a hidden meaning, distance Capitalism
American characteristic
مجیب خان
امریکہ میں یہ صدارتی انتخاب کا سال
ہے۔ ڈیموکریٹک پارٹی کی پرائم ریز سیاست عروج پر تھی کہ اچانک Coronavirus سو نامی بن کر آ گیا۔ تاہم ڈیموکریٹک پارٹی کی
پرائم ریز کا آخری مرحلہ بڑی خاموشی سے مکمل ہو گیا ہے۔ صدارتی انتخاب پر Coronavirus کی سیاسی بحث چھائی ہوئی ہے۔
صدارتی انتخاب میں 6 ماہ ہیں۔ لیکن صدارتی امیدوار عوام میں نہیں ہیں بلکہ quarantine میں ہیں۔ اور امریکہ میں انتخابی حلقے
Lockdown ہیں۔ اس وقت 27 ملین لوگ امریکہ
میں بیروزگار ہیں۔ اور بیروزگاری میں اضافہ ہونے کا سلسلہ ابھی جاری ہے۔ شاپنگ مال
ایک ماہ سے زیادہ ہو گیا ہے اور ابھی تک بند ہیں۔ بڑے بڑے اسٹور Bankruptcy میں پناہ لے رہے
ہیں۔ کمپنیاں اور فیکٹر یاں بند ہیں۔ روز بہ روز لوگوں میں معاشی پریشانیوں بڑھتی
جا رہی ہیں۔ صدارتی انتخاب کسی کے ذہن میں نہیں ہے۔ جن حالات میں وہ گھرے ہوۓ ہیں۔
ان کے لیے اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا کہ پریذیڈنٹ کون ہو گا؟ Joe Biden کے پریذیڈنٹ بننے سے حالات نہیں
بدل جائیں گے۔ Coronavirus کی سو نامی میں
یہ Middle and lower Middle
class کے Survival کا سوال ہے۔
اگر یہ طبقہ اس سو نامی میں ختم ہو جاتا ہے۔ تو پھر صرف Rich Elite class رہے گی۔ با ظاہر اس وقت دونوں
پارٹیاں یہ دیکھنا نہیں چاہتی ہیں۔ اور دونوں پارٹیاں Middle and lower Meddle class کو ہر قیمت پر بچانے کی کوشش کر
رہی ہیں۔ اور پریذیڈنٹ ٹرمپ بھی ان کوششوں میں شامل ہیں۔ Joe Biden بھی ان کے ساتھ ہیں۔ ان کے علاوہ
مالیاتی ادارے اور کمپنیاں بھی ان کوششوں میں شریک ہیں۔ سیاسی اور معاشی حالات Uncertain and unpredictable ہیں۔ دسمبر 2019
میں کسی کے یہ علم میں نہیں تھا کہ مارچ 2020 میں کیا ہونے جا رہا ہے کہ 50ہزار
لوگ امریکہ میں صرف 3-4 ہفتے
میں Virus سے مر جائیں
گے۔ یہ بھی کسی کو یقین نہیں تھا کہ پریذیڈنٹ ٹرمپ امریکہ کی جس مضبوط معیشت کا فخر سے بتاتے تھے۔
بیروزگاری 4فیصد سے بھی نیچے آ گئی تھی۔ اسٹاک مارکیٹ نئے ریکارڈ قائم کر رہا تھا۔
ڈالر مضبوط تھا۔ امریکہ میں تیل بھی بہت سستا ہو گیا تھا۔ لیکن اچانک ایک Virus نے دنیا کی سب سے
مضبوط معیشت کو گرا دیا۔ پریذیڈنٹ ٹرمپ نے امریکی عوام کو یہ خوشحال معیشت دو سال
کی Russian meddling
investigation اور پھر 6 ماہ کی Impeachment proceeding کے بھر پور عصا بی دباؤ کے باوجود دی تھی۔ اور پریذیڈنٹ
ٹرمپ اب شاید یہ چاہتے ہوں گے کہ ڈیموکریٹ وائٹ ہاؤس لے لیں۔ لیکن ڈیموکریٹ موجودہ
معاشی حالات دیکھ کر وائٹ ہاؤس میں آنا نہیں
چاہیں گے۔ معاشی حالات نہ صرف امریکہ بلکہ دنیا کے لیے بھی ایک MESS ہیں۔ ڈیمو کریٹس سینٹ اور کانگریس
میں اپنی اکثریت کے لیے کوشش کریں گے۔ Coronavirus کی وجہ سے Joe
Biden low profile صدارتی امیدوار ہیں۔ Lockdown کی وجہ سے ان کی صدارتی مہم کے لیے فنڈ ریزنگ بھی نہیں ہو رہی ہے۔
پریذیڈنٹ ٹرمپ کے مقابلے میں ان کے پاس فنڈ ز بھی کم ہیں۔ اب اگر Lockdown ختم بھی ہو جاتا ہے۔ لیکن Social distance and social gathering برقرار
رہے گی۔
اس صورت میں انتخابی ریلی ممکن نہیں ہوں گی۔ اور Joe Biden کو ووٹر ز کے درمیان گھل مل کر
باتیں کرنے سے دور رہنا ہو گا۔ جبکہ ماہرین کا کہنا ہے Coronavirus موسم خزاں میں دوبارہ آ سکتا ہے۔ ڈیموکریٹک
پارٹی کا جولائی میں کنونشن ملتوی ہو گیا ہے۔ اور اگست میں ری پبلیکن پارٹی کا
کنونشن بھی ملتوی ہو گیا ہے۔ دونوں پارٹیوں کے کنونشن اب ہوں گے یا نہیں یہ فیصلہ
شاید ڈاکٹر ز کریں گے۔
9/11 کے بعد بھی Middle
Class ختم کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ ہزاروں لوگوں کو کمپنیوں اور کارپوریٹ
امریکہ نے بیروزگار کر دیا تھا۔ اور Job Market Lockdown کر دیا تھا۔ کئی سال تک
لوگوں کو بیروزگار رکھا تھا۔ Bankers
odd Jobs کرنے پر مجبور ہو گیے تھے۔ Name Brands Household merchandise کی قیمتیں بہت
اوپر کر دی تھیں۔ اور Off
Brands اشیا غربت کی لکیر سے اوپر والے طبقہ کے لیے تھیں۔ جو اسٹور ز میں
تیسرے اور چوتھے Shelves پر
ہوتی تھیں۔ جبکہ غریبوں کے لیے Dollar Familyاور Dollar Tree اسٹور ز تھے۔ جہاں ہر اشیا ایک ڈالر کی تھی۔ یہ اسٹور ز غریبوں کو
زندہ رکھتے تھے۔ یہاں ضروریات زندگی کی تمام اشیا چین سے آتی تھیں۔ چین نے امریکہ
کے غریبوں کو اپنے شہری سمجھا تھا۔ اور Dollar Bill اور Dollar
Tree بند نہیں ہونے دئیے تھے۔ بش چینی انتظامیہ کا دور امریکہ میں غربت
پھیلانے کا دور تھا۔ اس دور میں جتنے غریب ہوۓ تھے اس سے تین گنا زیادہ Millionaire اور Billionaire بن گیے تھے۔ 9/11 کا خوف امریکہ میں پھیلا دیا تھا۔
اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کی آ ڑ میں دولت مند طبقہ فروغ دیا تھا۔ اور غریب طبقہ
کو غریب رکھا تھا۔ 2008 میں Recession نے Middle Class کو سب سے زیادہ Hit کیا تھا۔ Credit crunch ہونے سے لوگوں کی Purchasing power ختم ہو گئی تھی۔ بنکوں نے کریڈٹ کارڈ
دینا بند کر دئیے تھے۔ لوگوں کے پاس اتنا کیش نہیں ہوتا تھا کہ وہ شاپنگ کریں۔
لہذا لوگ شاپنگ مال نہیں جاتے تھے۔ پھر پریذیڈنٹ ا و با مہ کی کوششوں سے بنکوں نے کریڈٹ
کارڈ جاری کرنا شروع کیے تھے۔ جس کے بعد شاپنگ مال میں خریداروں کی رونق واپس آ
گئی تھی۔ پریذیڈنٹ ٹرمپ کے اقتدار میں آنے کے بعد پہلے ہی ہفتہ میں حیرت انگیز
تبدیلی دیکھی گئی تھی۔ بنکوں، کمپنیوں، اسٹور ز، Distributers نے بیروزگاروں کی بھرتی
شروع ہو گئی تھی۔ بنک جہاں پہلے ایک اور دو Teller ہوتے وہاں اب چار اور پانچ Teller تھے۔ Beer distributers ڈرائیور ٹرک
بھی چلاتے تھے اور روزانہ ہزار اور پندرہ سو Beer cases deliver کرتے تھے۔ اب ڈرائیور کے ساتھ دو Helper ہوتے تھے۔ Macy’s کے ایک floor پر پہلے ایک woman ہوتی تھی۔ وہاں اب تین اور چار women کام کر رہی تھیں۔ اسی طرح Target, Walmart اور دوسرے اسٹور ز میں بھی ایک سے
زیادہ کام کرتے نظر آتے تھے۔ اب دیکھنا ہے کہ Lockdown ختم ہونے کے بعد 27ملین اپنے Jobs پر کتنی جلدی واپس آتے ہیں؟
2008 کے اقتصادی بحران میں امریکہ کے
شہر Bankrupt ہو رہے تھے۔ اور
اب Coronavirus کے نتیجے میں Lockdown کی وجہ سے امریکہ میں ریاستوں کے
ریونیو ختم ہو گیے ہیں۔ امریکی ریاستیں Bankrupt ہونے کی باتیں کر رہی ہیں۔ نیویارک
کے گورنر نے اس راستہ پر جانے کی بات کی ہے۔ کیونکہ نیویارک کو کھربوں ڈالر کا
اقتصادی نقصان ہو رہا ہے۔ گورنر نے فیڈرل حکومت سے مدد مانگی ہے۔ Economic Lockdown کے نتیجہ میں ہونے والے نقصانات
کا بوجھ آخر میں عوام پر آۓ گا۔ خواہ ڈونالڈ ٹرمپ پریذیڈنٹ ہوں یا Joe Biden صدر بن جائیں ہر صورت میں معاشی
مصائب کا عوام کو سامنا کرنا ہو گا۔ اگر نومبر اور دسمبر میں چین میں Coronavirus پھیلنے کی خبر آئی تھی۔ اور اسے
ایک انتہائی خطرناک Virus بتایا جا رہا
تھا۔ جس میں بڑی تعداد میں چینی مر رہے تھے۔ میڈیا نے اسے Headline بنانے میں کیوں غفلت برتی تھی؟ میڈیا میں 24/7 صرف Ukraine اور Impeachment کی باتیں ہو رہی تھیں۔ سب کی
پریشانی Ukraine کی امداد روکنے
پر تھی۔ لیکن Virus کا خوف کسی کو
نہیں تھا۔ جب میڈیا نے اسے سنجیدگی سے نہیں لیا تھا۔ اور Impeachment کو اہمیت دی تھی تو پریذیڈنٹ ٹرمپ
نے بھی اسے شاید serious نہیں لیا اور Impeachment پر توجہ دی تھی۔ جو ان کی Presidency کا مسئلہ تھا۔ Impeachment کے بعد میڈیا کی دوسری بڑی سرخیاں
بیجنگ حکومت کے خلاف ہانگ کانگ میں ہونے والے مظاہروں کی تھیں۔ اس کے بعد خلیج میں
ایران کی سرگرمیاں اور ان کے خلاف ٹرمپ انتظامیہ کے رد عمل پر قیاس آ رائی میڈیا
میں سرخیاں تھیں۔ لیکن Wuhan چین
میں Virus کے بارے میں کوئی
بڑی سرخی نہیں تھی۔ 3 جنوری کو امریکہ نے
ایرانی جنرل عراق میں ڈر ون سے میزائل گرا کر مار دیا تھا۔ جس کے بعد دنیا کو
ایران امریکہ جنگ یقینی نظر آ رہی تھی۔ خلیج میں امریکہ کی فوج بالکل تیار تھی اور
صرف کمانڈر انچیف کے حکم کا انتظار تھا۔ ایرانی اپنے جنرل کا انتقام لینے میں بہت
سنجیدہ تھے۔ ادھر پریذیڈنٹ ٹرمپ کی Impeachment فیصلہ قریب آ گیا تھا۔ جنوری ختم ہو رہا تھا۔ اور فروری شروع ہو
رہا تھا۔ اس وقت تک ایران امریکہ تصادم اور Impeachment verdict میڈیا کے موضوع تھے۔ Wuhan کی صورت حال کا اس وقت تک کسی کو
علم نہیں تھا۔ میڈیا نے اسے suppressed کر
دیا تھا۔ 5فروری کو Impeachment
verdict آیا تھا۔ اور پریذیڈنٹ ٹرمپ بری ہو گیے تھے۔ 5فروری تک Wuhan میں کئی ہزار چینی Virus سے مر چکے تھے۔ میڈیا اور انتظامیہ دونوں کو شاید یہ یقین تھا کہ یہ
Virus چین میں رہے گا۔ اور چین سے باہر
اگر آیا تو ایشیا تک رہے گا۔ اور اسے کنٹرول کر لیا جاۓ گا۔ میڈیا نے Wuhan میں Coronavirus کے انتہائی خطرناک ہونے کی خبروں
کو Suppressed کیا تھا اور Ukraine کی امداد روکنے کے انکشاف کی
خبروں کو خصوصی اہمیت دی تھی۔