Tuesday, April 28, 2020

Media Is Equally Responsible to Not Give More Importance to Coronavirus, It Was Spreading in Wuhan, China, It Was A Very Dangerous Virus, But in The Media, Impeachment, And Ukraine We’re Dominating Headlines


  Media Is Equally Responsible to Not Give More Importance to Coronavirus, It Was Spreading in Wuhan, China, It Was A Very Dangerous Virus, But in The Media, Impeachment, And Ukraine We’re Dominating Headlines  


In “Social-distancing,” the word social comes from Socialism, it’s a hidden meaning, distance Capitalism American characteristic

مجیب خان


Now face mask is becoming a new security requirements



  امریکہ میں یہ صدارتی انتخاب کا سال ہے۔ ڈیموکریٹک پارٹی کی پرائم ریز سیاست عروج پر تھی کہ اچانک Coronavirus  سو نامی بن کر آ گیا۔ تاہم ڈیموکریٹک پارٹی کی پرائم ریز کا آخری مرحلہ بڑی خاموشی سے مکمل ہو گیا ہے۔ صدارتی انتخاب پر Coronavirus کی سیاسی بحث چھائی ہوئی ہے۔ صدارتی انتخاب میں 6 ماہ ہیں۔ لیکن صدارتی امیدوار عوام میں نہیں ہیں بلکہ quarantine میں ہیں۔ اور امریکہ میں انتخابی حلقے Lockdown ہیں۔ اس وقت 27 ملین لوگ امریکہ میں بیروزگار ہیں۔ اور بیروزگاری میں اضافہ ہونے کا سلسلہ ابھی جاری ہے۔ شاپنگ مال ایک ماہ سے زیادہ ہو گیا ہے اور ابھی تک بند ہیں۔ بڑے بڑے اسٹور Bankruptcy میں پناہ لے رہے ہیں۔ کمپنیاں اور فیکٹر یاں بند ہیں۔ روز بہ روز لوگوں میں معاشی پریشانیوں بڑھتی جا رہی ہیں۔ صدارتی انتخاب کسی کے ذہن میں نہیں ہے۔ جن حالات میں وہ گھرے ہوۓ ہیں۔ ان کے لیے اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا کہ پریذیڈنٹ کون ہو گا؟ Joe Biden کے پریذیڈنٹ بننے سے حالات نہیں بدل جائیں گے۔ Coronavirus کی سو نامی میں یہ Middle and lower Middle class کے Survival کا سوال ہے۔ اگر یہ طبقہ اس سو نامی میں ختم ہو جاتا ہے۔ تو پھر صرف Rich Elite class رہے گی۔ با ظاہر اس وقت دونوں پارٹیاں یہ دیکھنا نہیں چاہتی ہیں۔ اور دونوں پارٹیاں Middle and lower Meddle class کو ہر قیمت پر بچانے کی کوشش کر رہی ہیں۔ اور پریذیڈنٹ ٹرمپ بھی ان کوششوں میں شامل ہیں۔ Joe Biden بھی ان کے ساتھ ہیں۔ ان کے علاوہ مالیاتی ادارے اور کمپنیاں بھی ان کوششوں میں شریک ہیں۔ سیاسی اور معاشی حالات Uncertain and unpredictable ہیں۔ دسمبر 2019 میں کسی کے یہ علم میں نہیں تھا کہ مارچ 2020 میں کیا ہونے جا رہا ہے کہ 50ہزار لوگ امریکہ میں صرف 3-4 ہفتے میں Virus سے مر جائیں گے۔ یہ بھی کسی کو یقین نہیں تھا کہ پریذیڈنٹ ٹرمپ  امریکہ کی جس مضبوط معیشت کا فخر سے بتاتے تھے۔ بیروزگاری 4فیصد سے بھی نیچے آ گئی تھی۔ اسٹاک مارکیٹ نئے ریکارڈ قائم کر رہا تھا۔ ڈالر مضبوط تھا۔ امریکہ میں تیل بھی بہت سستا ہو گیا تھا۔ لیکن اچانک ایک Virus نے دنیا کی سب سے مضبوط معیشت کو گرا دیا۔ پریذیڈنٹ ٹرمپ نے امریکی عوام کو یہ خوشحال معیشت دو سال کی Russian meddling investigation اور پھر 6 ماہ کی Impeachment proceeding کے بھر پور عصا بی دباؤ کے باوجود دی تھی۔ اور پریذیڈنٹ ٹرمپ اب شاید یہ چاہتے ہوں گے کہ ڈیموکریٹ وائٹ ہاؤس لے لیں۔ لیکن ڈیموکریٹ موجودہ معاشی حالات دیکھ کر وائٹ ہاؤس میں آنا نہیں چاہیں گے۔ معاشی حالات نہ صرف امریکہ بلکہ دنیا کے لیے بھی ایک MESS ہیں۔ ڈیمو کریٹس سینٹ اور کانگریس میں اپنی اکثریت کے لیے کوشش کریں گے۔ Coronavirus کی وجہ سے Joe Biden low profile صدارتی امیدوار ہیں۔ Lockdown کی وجہ سے ان کی صدارتی مہم کے لیے فنڈ ریزنگ بھی نہیں ہو رہی ہے۔ پریذیڈنٹ ٹرمپ کے مقابلے میں ان کے پاس فنڈ ز بھی کم ہیں۔ اب اگر Lockdown ختم بھی ہو جاتا ہے۔ لیکن Social distance and social gathering برقرار رہے گی۔ اس صورت میں انتخابی ریلی ممکن نہیں ہوں گی۔ اور Joe Biden کو ووٹر ز کے درمیان گھل مل کر باتیں کرنے سے دور رہنا ہو گا۔ جبکہ ماہرین کا کہنا ہے Coronavirus  موسم خزاں میں دوبارہ آ سکتا ہے۔ ڈیموکریٹک پارٹی کا جولائی میں کنونشن ملتوی ہو گیا ہے۔ اور اگست میں ری پبلیکن پارٹی کا کنونشن بھی ملتوی ہو گیا ہے۔ دونوں پارٹیوں کے کنونشن اب ہوں گے یا نہیں یہ فیصلہ شاید ڈاکٹر ز کریں گے۔
  9/11 کے بعد بھی Middle Class ختم کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ ہزاروں لوگوں کو کمپنیوں اور کارپوریٹ امریکہ نے بیروزگار کر دیا تھا۔ اور Job Market Lockdown کر دیا تھا۔ کئی  سال تک لوگوں کو بیروزگار رکھا تھا۔ Bankers odd Jobs کرنے پر مجبور ہو گیے تھے۔ Name Brands Household merchandise کی قیمتیں بہت اوپر کر دی تھیں۔ اور Off Brands اشیا غربت کی لکیر سے اوپر والے طبقہ کے لیے تھیں۔ جو اسٹور ز میں تیسرے اور چوتھے Shelves پر ہوتی تھیں۔ جبکہ غریبوں کے لیے Dollar  Familyاور Dollar Tree اسٹور ز تھے۔ جہاں ہر اشیا ایک ڈالر کی تھی۔ یہ اسٹور ز غریبوں کو زندہ رکھتے تھے۔ یہاں ضروریات زندگی کی تمام اشیا چین سے آتی تھیں۔ چین نے امریکہ کے غریبوں کو اپنے شہری سمجھا تھا۔ اور Dollar Bill اور Dollar Tree بند نہیں ہونے دئیے تھے۔ بش چینی انتظامیہ کا دور امریکہ میں غربت پھیلانے کا دور تھا۔ اس دور میں جتنے غریب ہوۓ تھے اس سے تین گنا زیادہ Millionaire اور Billionaire بن گیے تھے۔ 9/11 کا خوف امریکہ میں پھیلا دیا تھا۔ اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کی آ ڑ میں دولت مند طبقہ فروغ دیا تھا۔ اور غریب طبقہ کو غریب رکھا تھا۔ 2008 میں Recession نے Middle Class کو سب سے زیادہ Hit کیا تھا۔ Credit crunch ہونے سے لوگوں کی Purchasing power ختم ہو گئی تھی۔ بنکوں نے کریڈٹ کارڈ دینا بند کر دئیے تھے۔ لوگوں کے پاس اتنا کیش نہیں ہوتا تھا کہ وہ شاپنگ کریں۔ لہذا لوگ شاپنگ مال نہیں جاتے تھے۔ پھر پریذیڈنٹ ا و با مہ کی کوششوں سے بنکوں نے کریڈٹ کارڈ جاری کرنا شروع کیے تھے۔ جس کے بعد شاپنگ مال میں خریداروں کی رونق واپس آ گئی تھی۔ پریذیڈنٹ ٹرمپ کے اقتدار میں آنے کے بعد پہلے ہی ہفتہ میں حیرت انگیز تبدیلی دیکھی گئی تھی۔ بنکوں، کمپنیوں، اسٹور ز، Distributers نے بیروزگاروں کی بھرتی شروع ہو گئی تھی۔ بنک جہاں پہلے ایک اور دو Teller ہوتے وہاں اب چار اور پانچ Teller تھے۔ Beer distributers ڈرائیور ٹرک بھی چلاتے تھے اور روزانہ ہزار اور پندرہ سو Beer cases deliver کرتے تھے۔ اب ڈرائیور کے ساتھ دو Helper ہوتے تھے۔ Macy’s کے ایک floor پر پہلے ایک woman ہوتی تھی۔ وہاں اب تین اور چار women کام کر رہی تھیں۔ اسی طرح Target, Walmart اور دوسرے اسٹور ز میں بھی ایک سے زیادہ کام کرتے نظر آتے تھے۔ اب دیکھنا ہے کہ Lockdown ختم ہونے کے بعد 27ملین  اپنے Jobs پر کتنی جلدی واپس آتے ہیں؟
  2008 کے اقتصادی بحران میں امریکہ کے شہر Bankrupt ہو رہے تھے۔ اور اب Coronavirus کے نتیجے میں Lockdown کی وجہ سے امریکہ میں ریاستوں کے ریونیو ختم ہو گیے ہیں۔  امریکی ریاستیں Bankrupt ہونے کی باتیں کر رہی ہیں۔ نیویارک کے گورنر نے اس راستہ پر جانے کی بات کی ہے۔ کیونکہ نیویارک کو کھربوں ڈالر کا اقتصادی نقصان ہو رہا ہے۔ گورنر نے فیڈرل حکومت سے مدد مانگی ہے۔ Economic Lockdown کے نتیجہ میں ہونے والے نقصانات کا بوجھ آخر میں عوام پر آۓ گا۔ خواہ ڈونالڈ ٹرمپ پریذیڈنٹ ہوں یا Joe Biden صدر بن جائیں ہر صورت میں معاشی مصائب کا عوام کو سامنا کرنا ہو گا۔ اگر نومبر اور دسمبر میں چین میں Coronavirus پھیلنے کی خبر آئی تھی۔ اور اسے ایک انتہائی خطرناک Virus بتایا جا رہا تھا۔ جس میں بڑی تعداد میں چینی مر رہے تھے۔ میڈیا نے اسے Headline بنانے میں کیوں غفلت برتی تھی؟ میڈیا میں 24/7 صرف Ukraine اور Impeachment کی باتیں ہو رہی تھیں۔ سب کی پریشانی Ukraine کی امداد روکنے پر تھی۔ لیکن Virus کا خوف کسی کو نہیں تھا۔ جب میڈیا نے اسے سنجیدگی سے نہیں لیا تھا۔ اور Impeachment کو اہمیت دی تھی تو پریذیڈنٹ ٹرمپ نے بھی اسے شاید serious نہیں لیا اور Impeachment  پر توجہ دی تھی۔ جو ان کی Presidency  کا مسئلہ تھا۔ Impeachment کے بعد میڈیا کی دوسری بڑی سرخیاں بیجنگ حکومت کے خلاف ہانگ کانگ میں ہونے والے مظاہروں کی تھیں۔ اس کے بعد خلیج میں ایران کی سرگرمیاں اور ان کے خلاف ٹرمپ انتظامیہ کے رد عمل پر قیاس آ رائی میڈیا میں سرخیاں تھیں۔ لیکن Wuhan چین میں Virus کے بارے میں کوئی بڑی سرخی نہیں تھی۔  3 جنوری کو امریکہ نے ایرانی جنرل عراق میں ڈر ون سے میزائل گرا کر مار دیا تھا۔ جس کے بعد دنیا کو ایران امریکہ جنگ یقینی نظر آ رہی تھی۔ خلیج میں امریکہ کی فوج بالکل تیار تھی اور صرف کمانڈر انچیف کے حکم کا انتظار تھا۔ ایرانی اپنے جنرل کا انتقام لینے میں بہت سنجیدہ تھے۔ ادھر پریذیڈنٹ ٹرمپ کی Impeachment فیصلہ قریب آ گیا تھا۔ جنوری ختم ہو رہا تھا۔ اور فروری شروع ہو رہا تھا۔ اس وقت تک ایران امریکہ تصادم اور Impeachment verdict میڈیا کے موضوع تھے۔ Wuhan کی صورت حال کا اس وقت تک کسی کو علم نہیں تھا۔ میڈیا نے اسے suppressed کر دیا تھا۔ 5فروری کو Impeachment verdict آیا تھا۔ اور پریذیڈنٹ ٹرمپ بری ہو گیے تھے۔ 5فروری تک  Wuhan میں کئی ہزار چینی Virus سے مر چکے تھے۔ میڈیا اور انتظامیہ دونوں کو شاید یہ یقین تھا کہ یہ Virus  چین میں رہے گا۔ اور چین سے باہر اگر آیا تو ایشیا تک رہے گا۔ اور اسے کنٹرول کر لیا جاۓ گا۔ میڈیا نے Wuhan میں Coronavirus کے انتہائی خطرناک ہونے کی خبروں کو Suppressed کیا تھا اور Ukraine کی امداد روکنے کے انکشاف کی خبروں کو خصوصی اہمیت دی تھی۔         


Wednesday, April 22, 2020

Yes, “Mistake is a Mistake” But, In The Last Twenty Years What Has America Learned From Its Mistakes?


   Yes, “Mistake is a Mistake” But, In The Last Twenty Years What Has America Learned From Its Mistakes?

After nineteen years of Confrontation with the Taliban, America has to dialogue with the Taliban. China is a country of 1.3billion people, a Nuclear and Economic Power, can America win in a confrontation with China?
مجیب خان
Chicago's Millennium Park, during the lockdown, the most visited tourist site in Illinois's

France's coronavirus lockdown, Eiffel Tower in the Background, April 2,2020



Human destruction in Syria




   فرانس کے صدر Emmanuel Macron نے کہا ہے "پریذیڈنٹ ٹرمپ نے ان سے Coronavirus Pandemic کے دوران عالمی جنگ  بندی پر اتفاق کیا ہے۔ " صدر Macron نے کہا 'برطانیہ اور چین نے بھی اصولی طور پر عالمی جنگ بندی پر رضا مندی کا اظہار کیا ہے۔ اور روس کے صدر پو تن کے ترجمان نے کہا روس بھی ایک ایسے اعلامیہ پر دستخط کرنے کے لیے تیار ہے۔' ایک فرانسیسی ریڈیو سے انٹرویو میں صدر Macron نے کہا ' امریکہ کے صدر ٹرمپ، برطانیہ کے وزیر اعظم Boris Johnson، اور چین کے صدر Xi Jinping  سب نے  اس کی توثیق کی ہے کہ وہ عالمی جنگ بندی پر دستخط کریں گے۔'
صدر Macron نے کہا ' چین کے صدر Xi Jinping نے مجھ سے اتفاق کیا ہے۔ صدر ٹرمپ نے مجھ سے اتفاق کیا ہے۔ وزیر اعظم Boris Johnson نے مجھ سے اتفاق کیا ہے۔ میرے خیال میں صدر پو تن بھی ضرور اتفاق کریں گے۔ فرانس، برطانیہ، امریکہ، روس اور چین اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل رکن ہیں۔ عالمی جنگ بندی کے لیے پانچ مستقل اراکین کی حمایت قابل عمل ہو گی۔ موجودہ عالمی حالات میں صدر Macron کی تجویز اور کوششوں سے کوئی اختلاف نہیں کرے گا۔ Coronavirus کی وجہ سے دنیا کا کاروبار بند ہو گیا ہے۔ دنیا میں لوگ زندگی اور موت میں پھنس گیے ہیں۔ موت کے خوف نے انہیں گھروں میں نظر بند کر دیا ہے۔ شام کے کھنڈرات شہروں اور امریکہ اور یورپ کے ویران شہروں میں مناظر مختلف نہیں ہیں۔ صرف اتنا فرق ہے کہ امریکہ اور یورپ میں شہروں کی رونقیں کھنڈرات نظر آ رہی ہیں۔ لیکن شام میں انسانیت کھنڈرات بن گئی ہے۔ Coronavirus کی وجہ سے دنیا میں جنگیں بھی بند ہو گئی ہیں۔ اگر سعودی عرب آج امریکہ کو ایک ٹیریلین ڈالر ایران پر حملہ کرنے اور حکومت تبدیل کرنے کی پیشکش کرے تو شاید انتظامیہ اس پیشکش پر غور کرنا بھی مناسب نہیں سمجھے گی۔ Coronavirus نے لفظ War اب Obsolete کر دیا ہے۔  Hennery Kissinger نے پچھلے سال بیجنگ میں چین کے رہنماؤں سے ملاقات کے بعد کہا تھا "چین کے ساتھ Trade War عالمی جنگ بن جاۓ گی۔" صدر Macron نے اس عالمی جنگ بندی کی بات کی ہے۔ امریکہ نے چین کے خلاف کئی محاذ پر جنگیں کرنے کی باتیں کرنا شروع کر دی تھیں۔ Trade war کے بعد ایک دوسری جنگ  South China Sea  میں Cultivate کی جا رہی تھی۔ تیسری طرف تائیوان کو ہتھیاروں کی فروخت اور امریکہ کی حمایت چین کے لیے War of Nerve بن رہی تھی۔ چوتھی طرف ہانگ کاںگ کے لوگوں کو بیجنگ حکومت کے خلاف سرکشی پر اکسایا جا رہا تھا۔ جیسے یہ ہانگ کانگ کو چین سے دور کرنے اور تائیوان کے قریب لے جانے کی تحریک تھی۔ چین کے ساتھ ان جنگوں کا ماحول بنانے کے ساتھ روس کو بھی نئی جنگوں میں گھسیٹا جا رہا تھا۔ روس جس نے 21ویں صدی کو Mankind کے لیے امن عالمی استحکام اور اقتصادی خوشحالی کی صدی بنانے کے لیے سرد جنگ ختم کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ لیکن امریکہ کے لیڈر روس کو گھسیٹ کر پھر سرد جنگ کی محاذ ار ا ئی میں لے آۓ ہیں۔ 21ویں صدی کی نسل کو روس دشمن ہونے کا پیغام دے رہے ہیں۔ روس جنگوں سے بھاگ رہا ہے۔ لیکن امریکہ اور نیٹو جنگیں دینے روس کا پیچھا کر رہے ہیں۔ Ukraine میں امریکہ اور نیٹو کی مداخلت نے روس کو یہ جنگ دی ہے۔ روس کی قیادت نے انتہائی نظم و ضبط اور تحمل کے ساتھ حالات کو قابو میں رکھا ہے۔ اور روس کو جنگ کی تباہیوں سے بچایا ہے۔ لیکن امریکہ اور نیٹو ملکوں نے روس کے خلاف اقتصادی بندشیں لگا کر اس کی معیشت تباہ کرنے کی کوشش کی تھی۔ روس کا شام میں مداخلت کرنے کا کوئی پروگرام نہیں تھا۔ لیکن جب شام میں Obama-Biden انتظامیہ کا Adventurism اس سطح پر پہنچ گیا تھا کہ جہاں کابل میں نجیب اللہ حکومت کے خلاف طالبان کا Adventurism پہنچ گیا تھا۔ اور روس بشار السد کا نجیب اللہ کا انجام دیکھنا نہیں چاہتے تھے۔ روس نے اسد خاندان کو بچایا تھا۔ انسانیت کو بچایا تھا۔ شام کا وجود آج صرف روس کی وجہ سے ہے۔
   عالمی حالات کے اس پس منظر میں صدر Macron نے عالمی جنگ بندی پر زور دیا ہے۔ امریکہ، فرانس، برطانیہ، روس اور چین عالمی جنگ بندی کے لیے تیار ہو گیے ہیں۔ Coronavirus سے عالمی معیشت  کو جو زبردست نقصان پہنچا ہے۔ اسے دیکھ کر عالمی جنگ بندی ایک انتہائی معقول فیصلہ ہے۔ عالمی جنگ بندی کا فیصلہ صدر ا و با مہ انتظامیہ میں ہونا چاہیے تھا۔ صدر ا و با مہ  امن کا نوبل ایوارڈ وصول کرنے کے بعد انسانیت کو امن دیتے۔ لیکن صدر ا و با مہ نے انسانیت کو Drone دئیے تھے۔ امن کو نقصان پہنچانے والی جنگیں دی تھیں۔ 19سال میں Warmongering سے امریکہ کو جتنا نقصان پہنچا ہے۔ تقریباً Coronavirus سے بھی اتنا ہی نقصان ہو رہا ہے۔ صدر ٹرمپ کہتے ہیں کہ صرف امریکہ نے مڈل ایسٹ میں 7 ٹیریلین ڈالر خرچ کیے ہیں۔ جبکہ Coronavirus کی وجہ سے Lockdown کے نتیجے میں عالمی معیشت کا نقصان تقریباً 7ٹیریلین ہو گا۔ یہ بلین اور ٹیریلین 19سال میں اگر انسانیت کی فلاح و بہبود اور صحت عامہ پر خرچ کیے جاتے تو شاید دنیا میں Lockdown نہیں ہوتا۔ صد ام حسین، معمر قد ا فی، بشار ا لا اسد اور ایران کے آیت اللہ  بھی امریکہ کا یہ نقصان نہیں چاہتے ہوں گے۔ معمر قد ا فی نے اپنے تمام مہلک ہتھیار امریکہ کے حوالے کر دئیے تھے۔ اسد حکومت نے 9/11 کے بعد القا عدہ اور اسلامی انتہا پسندوں کے خلاف امریکہ سے مکمل تعاون کیا تھا۔ بش انتظامیہ نے القا عدہ کے عرب دہشت گردوں سے تحقیقات کرنے کے لیے انہیں اسد حکومت کے حوالے کیا تھا۔ لیکن پھر ا و با مہ انتظامیہ نے صدر اسد کو Butcher of Damascus کہا تھا۔ صدر صد ام حسین نے کلنٹن انتظامیہ اور پھر بش انتظامیہ سے عراق کے تیل کوDenationalize اور دوسرے علاقائی امور پر Dialogue کی پیشکش کی تھی۔ مڈل ایسٹ کے بہت سے تنازعہ Dialogue سے حل ہو سکتے تھے۔ لیکن امریکہ نے Confrontation اور War کا راستہ اختیار کیا تھا۔ یہ امریکہ کی Post-Cold War Policy تھی۔ اور یہ امریکی پالیسی دنیا میں تباہیاں پھیلانے کے بعد اب امریکہ کے لیے Disastrous ثابت ہو رہی ہیں۔ چین ایک ابھرتی طاقت حقیقت بن رہی ہے۔ Hawkish, Confrontationists, Warmongers امریکہ کو چین سے بھر پور تصادم کے راستے پر لے جا رہے ہیں۔ تائیوان کو فوری طور پر تسلیم کرنے اور اس کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ گزشتہ نومبر میں ہانگ کانگ میں مظاہرین کی حمایت میں کانگریس نے جو قانون منظور کیا تھا۔ صدر ٹرمپ نے چین کی سخت مخالفت کے باوجود اس قانون پر دستخط کیے تھے۔ گزشتہ ہفتہ اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے ہانگ کانگ میں آزادی کے حامیوں کی گرفتاریوں کی سخت مذمت کی ہے۔ سینیٹر Lindsey Graham نے کہا " چین پر Pandemic tariff امریکی شہریوں کے نقصانات ادا کرنے کے لیے لگایا جاۓ۔" دنیا میں کوئی بھی چین کے ساتھ  Confrontation نہیں چاہتا ہے۔ امریکہ میں بھی جو Nonsense سوچ نہیں رکھتے ہیں وہ چین کے ساتھ ایک Commonsense پالیسی کی حمایت میں ہیں۔ افغانستان میں 19سال طالبان سے Confrontation سے کچھ حاصل نہیں ہونے کے بعد امریکہ کو بالا آخر طالبان سے Dialogue کے راستے پر آنا پڑا تھا۔ جبکہ چین ایک بہت بڑا ملک ہے۔ آبادی 1.3 بلین ہے۔ طالبان تو غریب تھے۔ لیکن چین ایک Economic Power ہے۔ Nuclear Power بھی ہے۔ چین کے عوام Economic and Nuclear Nationalist ہیں۔ طالبان سے Confrontation پر امریکہ نے ایک ٹیریلین ڈالر خرچ کیے تھے۔ لیکن چین کے ساتھ Confrontation کے بجاۓ صرف Dialogue کرنے سے امریکہ کو ایک ٹیریلین ڈالر منافع ہو سکتا ہے۔        
                                     

Thursday, April 16, 2020

President Trump “if China is a considered a developing country, well then make U.S. a developing nation too” President Xi Should Welcome the U.S. In the Developing Nation’s Club

 President Trump “if China is considered a  developing country, well then make U.S. a developing nation too” President Xi Should Welcome the U.S. In the Developing Nation’s Club

When the world is in Lockdown, there is no developed and developing world

مجیب خان
The U.S.President Donald Trump and China's President Xi Jinping at the Great Hall of the People in Beijing, China, Nov 9,2017

China, Wuhan under Lockdown, Feb 5, 2020

Los Angeles City Hall, California's 40million resident Lockdown in Covid19 



  وزیر اعظم عمران خان نے ترقی یافتہ ملکوں، آئی ایم اف، عالمی بنک اور اقوام متحدہ کے سیکرٹیری جنرل سے اپیل کی ہے کہ وہ ترقی پذیر اور غریب ملکوں کے قرضہ معاف کریں۔ Coronavirus کی وجہ سے دنیا میں Lockdown ہونے سے ان کی معیشت بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔ انہیں روزانہ لاکھوں اور کھربوں ڈالر کا اقتصادی نقصان ہو رہا ہے۔ ان حالات میں ان کے لیے قرضہ کی قسط دینا مشکل ہو رہا ہے۔ ترقی یافتہ ملکوں کی طرح ترقی پذیر ملک اپنی معیشت گرنے سے بچانے کے لیے ٹیریلین ڈالر Stimulus Packages  نہیں دے سکتے ہیں۔ لہذا ان مشکل اقتصادی حالات کے پیش نظر وزیر اعظم عمران خان نے ترقی پذیر ملکوں کے قرضوں کے لیے Global initiative on Debt relief کی بات کی ہے۔ تاکہ یہ ملک پھر Coronavirus کا مقابلہ کریں اور دوسری طرف اپنے عوام کو زندہ رکھنے کے اقدام بھی کر سکیں گے۔ وزیر اعظم عمران خان نے کہا ' ترقی پذیر ملکوں کے پاس وہ معاشی وسائل نہیں جو امریکہ جرمنی اور جاپان کے پاس ہیں۔ ترقی پذیر ملک اپنی تمام معاشی سرگرمیاں بند کر کے اپنے ریونیو بڑھا سکتے ہیں اور نہ ہی قرضوں کی قسطیں دے سکتے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان کی اس اپیل پر رد عمل ہوا ہے۔
 ترقی پذیر اور غریب ملکوں کو  Coronavirus اور Lockdown کی وجہ سے جن مشکل معاشی حالات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ عالمی مالیاتی اداروں نے ان کا ازالہ کرنے میں اقدامات کا اعلان کیا ہے۔ آئی ایم اف نے اس ہفتے 25 غریب ترین اور انتہائی بے بس ملکوں کو قرضوں میں ریلیف دینے اور Coronavirus کے خلاف لڑنے میں ان کی مدد کرنے کا کہا ہے۔  اس ریلیف کے پہلے مرحلے میں آئی ایم اف نے انہیں قرضوں کی قسطیں دینے میں 6ماہ کی چھوٹ دی ہے۔ اس کے علاوہ ان کے محدود اقتصادی وسائل کی وجہ سے ان کی اہم ایمر جنسی میڈیکل اور دوسری ریلیف کوششوں میں بھی مدد کی جاۓ گی۔ آئی ایم اف کے بورڈ آف ڈائریکٹر ز نے افریقہ کے تقریباً تمام ملکوں کو قرضوں میں ریلیف دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس ریلیف میں افغانستان، یمن، نیپال اور ہیٹی بھی شامل ہیں۔ آئی ایم اف اور و ر لڈ بنک نے دولت مند ملکوں سے کہا ہے کہ وہ اس سال یکم مئی سے جون 2021 تک غریب ملکوں سے قرضہ کی قسطیں مت لیں۔ گزشتہ ہفتہ و ر لڈ بنک نے اعلان کیا ہے کہ یہ 160بلین ڈالر ایمر جنسی امداد 15ماہ میں ان  ملکوں کو دے گا جو Virus زدہ حال میں ہیں۔ اس میں 14بلین ڈالر 76 غریب ملکوں پر دوسری حکومتوں کے قرضوں کی ادائیگی کے لیے ہیں۔ و ر لڈ بنک نے کہا ' غربت کے خلاف برسوں کی ترقی Coronavirus کی وجہ سے خطرے میں ہے۔ وسیع تر Lockdown سے معمول کی تمام سرگرمیاں منجمد ہو گئی ہیں۔ مغربی ملکوں میں فیکٹری آرڈر ز منسوخ ہو گیے ہیں۔ اور بڑی تعداد میں اچانک غریب ور کر ز بیروزگار ہو گیے ہیں۔ جنوبی ایشیا کو اس طوفان کے تباہ کن اثرات کا سامنا ہو گا۔ سیاحت ختم ہو گئی ہے۔ رسد کا سلسلہ ٹوٹ گیا ہے۔ Garments کی مانگ ختم ہو گئی ہے۔ صارفین اور سرمایہ کار کی دلچسپی بھی نہیں رہی ہے۔
  بھارت میں Lockdown سے Real estate شعبہ میں تقریباً ایک لاکھ کروڑ روپے کا نقصان ہوا ہے۔ جبکہ Trucking کے شعبہ میں Lockdown سے 35200 کروڑ روپے کا نقصان ہوا ہے۔ بھارت میں کوئی ایسا شعبہ نہیں ہے جسے کھربوں اور کروڑوں کا نقصان نہیں ہوا ہے۔ اب تک بھارت سے غیر ملکی سرمایہ کار اپنا 10بلین ڈالر لے گیے ہیں۔ Post Lockdown بھارت میں بیروزگاری 18سے 25 فیصد پر پہنچنے کا بتایا جا رہا ہے۔ برسوں کی اقتصادی ترقی کے بعد Coronavirus اور Lockdown سے نقصانات کا تخمینہ بھارت کو 10 سال  پیچھے لے گیا ہے۔ جبکہ اس سے پہلے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوجی آپریشن اور ہندو مسلم فسادات میں ہونے والے معاشی نقصانات علیحدہ ہیں۔ وزیر اعظم مودی کی پالیسیاں Coronavirus سے کم نقصانات کا سبب نہیں تھیں۔ Curfew اور Lockdown میں کوئی نہیں فرق ہے۔ Curfew سیاسی حالات بگڑنے کی صورت میں لگایا تھا۔ اور Lockdown لوگوں کی صحت کے لیے حالات خطرناک ہونے کی صورت میں کیا گیا ہے۔ لیکن ایک معمولی سے فرق کے ساتھ معاشی نقصانات کا تخمینہ کم نہیں ہے۔
 پاکستان بھارت کے مقابلے میں ایک چھوٹی آبادی کا ملک ہے۔ پاکستان کی معیشت بھی Coronavirus اور  Lockdown سے متاثر ہو رہی ہے۔ روزانہ کی تجارتی اور صنعتی سرگرمیاں جیسے سگنل پر رک گئی ہیں۔ اور گرین لائٹ کا انتظار ہے۔ سیاسی جماعتوں کے لیڈروں کے کرپشن سے پاکستان کا جتنا نقصان ہوتا ہے۔ اس کے مقابلے میں Lockdown سے یہ معاشی نقصان پھر بھی کم نظر آۓ گا۔ حکومت کے انتظامات بھی ان نقصانات کو کم سے کم سطح پر رکھنے میں ہیں۔ Coronavirus میں بھی بعض کاروباری لوگوں کے لیے موقع تھے۔ ان سے فائدہ اٹھایا جاتا۔ امریکہ اور یورپ کے ہسپتالوں کو Masks, Gloves, Surgical gowns اور دوسری Medical supply کی اشد ضرورت تھی۔ پاکستان میں Garments کمپنیاں مختصر وقت میں زیادہ لوگوں کو Hire کر کے یہ تیار کر سکتی تھیں۔ اور انہیں امریکہ اور یورپ بر آمد کر سکتی تھیں۔ امریکہ اور یورپ میں پاکستان کے سفارت خانے اور کونسلیٹ بھی اس سلسلے میں مدد کر سکتے تھے۔ کمپیوٹر اور Websites سے بھی مدد لی جا سکتی تھی۔ حکومت انہیں خصوصی اجازت دے دیتی۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ لوگوں کے ذہنوں میں میاں نواز شریف اور آصف علی زر داری جمے بیٹھیں ہیں۔ ان کے انتظار میں ہیں کہ وہ آئیں گے تو انہیں معاشی خوشحالی دیں گے۔ Coronavirus پر عمران خان حکومت کے انتظامات اور پالیسی کا زر داری اور نواز شریف حکومت میں دہشت گردی کے خلاف انتظامات اور پالیسی سے کیا جاۓ۔ یہ دونوں حکومتیں فوج سے یہ کام لے رہی تھیں۔ ان کے اپنے کوئی انتظامات تھے اور نہ ہی کوئی پالیسی تھی۔ پاکستان میں 60 ہزار لوگ مارے گیے تھے۔ امریکہ کے اتنے فوجی تو افغانستان اور عراق میں بھی نہیں مرے تھے۔ جن کی جنگ  زر داری اور نواز شریف پاکستان لاۓ تھے۔ وزیر اعظم عمران خان Coronavirus سے جنگ لڑنے کا کام فوج سے نہیں لے رہے ہیں۔ سول حکومت Coronavirus  سے خود لڑ رہی ہے۔ حسب روایت سیاسی اور مذہبی لیڈر Sideline پر کھڑے ہیں۔ صرف باتیں کر رہے ہیں۔ چاۓ کے کپ سے مکھی نکال کر پیکھتے ہیں اور حکومت کی طرف دیکھ کر چاۓ کا گھونٹ لیتے ہیں۔ یہ سڑکوں کی سیاست کرنے والے لوگ ہیں۔ عوام کو انہیں Sideline ہی پر کھڑا رکھنا چاہیے۔ انہوں نے Lockdown سے متاثر ہونے والوں کی مدد میں وزیر اعظم کے امدادی فنڈ کیا دیا ہے۔ انہیں اپنی 3ماہ کی تنخواہ اس فنڈ میں دینے کا اعلان کرنا چاہیے۔
  امریکہ کا عالمی رول بھی اب بدل گیا ہے۔ Coronavirus سے دنیا جن مسائل اور حالات سے گزر رہی ہے۔ اس میں ہر ملک تنہا ہے۔ اور ہر ملک Coronavirus سے اپنے عوام کو بچانے کی لڑائی خود لڑ رہا ہے۔ ابھی 19 سال پہلے 9/11 کے بعد دنیا دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کے ساتھ کھڑی تھی۔ لیکن Coronavirus کے خلاف جنگ میں امریکہ دنیا سے الگ تھلگ ہے۔ اور یہ جنگ خود لڑ رہا ہے۔ اٹلی نیٹو کا رکن ہے۔ یورپی یونین میں شامل ہے۔ G-7 میں امریکہ کا ایک بڑا ٹریڈ نگ پارٹنر ہے۔ لیکن اٹلی کی مدد کے لیے کیوبا اور چین آۓ تھے۔ چین نے امریکہ کی بھی مدد کی ہے۔ امریکہ میں Medical supply کی کمی چین نے پوری کی تھی۔ چین نے ایران اور اسپین امدادی ٹیمیں بھیجی تھیں۔ فرانس اور جرمنی نے امریکہ کی 3M کمپنی کو Respirator Masks اورN95 کے آرڈر دئیے تھے اور ان کی ادائیگی بھی کر دی تھی۔ لیکن صدر ٹرمپ نے 3M کمپنی پر یہ برآمد کرنے پر پابندی لگا دی تھی۔ کیونکہ امریکہ میں ہسپتالوں کو ان کی بہت ضرورت تھی۔ فرانس اور جرمنی صدر ٹرمپ کے اس فیصلے سے خوش نہیں تھے۔ انہوں نے اس کی ادائیگی کر دی تھی۔ فرانس اور جرمنی میں ہسپتال اس کے انتظار میں تھے۔ انہیں اس کی اشد ضرورت تھی۔ یہ ہی کینیڈا کے ساتھ ہوا تھا۔ کینیڈا کی حکومت نے بھی 3M کمپنی سے Respirator Masks خریدے تھے۔ لیکن صدر ٹرمپ نے کمپنی کو یہ کینیڈا بھیجنے سے روک دئیے تھے۔ کینیڈا میں اس پر خاصا احتجاج ہوا تھا کہ امریکہ کی انسانی قدریں کہاں ہیں۔ ہمارے ہسپتالوں میں Coronavirus سے لوگ مر رہے ہیں اور امریکہ نے ‏Medical supply پر پابندی لگا دی۔ برے حالات کا مطلب اب برے حالات ہیں۔ جس میں سب اپنا Survival پہلے دیکھ رہے ہیں۔
  19 سال میں امریکہ نے اپنے وسائل اور توانائی Wars Gambling میں لگا دی ہے۔ تمام جنگیں ہارنے کے بعد جب باہر آۓ ہیں تو دنیا بہت بدلی ہو ئی ہے۔ صدر ٹرمپ کو امریکہ تیسری دنیا کا ملک نظر آ رہا ہے۔ اور چین ترقی یافتہ بن گیا ہے۔ لیکن چین یہ تسلیم نہیں کر رہا ہے۔ جس پر صدر ٹرمپ نے کہا ہے کہ ہم چین کو ترقی یافتہ ملک تسلیم کرتے ہیں ورنہ ہمیں بھی ترقی پذیر ملک سمجھا جاۓ۔ Coronavirus  نے اب Developed and Developing World میں اس Segregation کو ختم کر کے سب کو ایک ہی World میں Lockdown کر دیا ہے۔