Tuesday, June 30, 2020

Dr. Anthony Fauci, Will The Coronavirus Disappear After Presidential Elections In November?


  Dr. Anthony Fauci, Will The Coronavirus Disappear After Presidential Elections In November?
مجیب خان

President Donald Trump and Dr. Anthony Fauci, director of the National Institute of Allergy and Infectious Diseases at NIH


  ابتدائی کام Coronavirus پر امریکہ میں ہوا تھا۔ پھر اس Virus پر مزید ریسرچ کے لیے اسے Wuhan چین Out source کر دیا تھا۔ جہاں چین اور امریکہ کے سائنسدانوں نے اس Virus پر کام کیا تھا۔ Anthony Fauci  Doctorبھی اس عمل میں شریک تھے۔ جو امریکہ کے ایک اعلی Infectious disease expert ہیں۔ Doctor Fauci کی درخواست پر امریکہ نے Wuhan لیبارٹری کو 3.7 ملین ڈالر امداد دی تھی۔ لہذا اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ Originally Coronavirus امریکہ میں ایجاد ہوا تھا اور پھر اسے Wuhan لیبارٹری میں چینی سائنسدانوں کو مزید ریسرچ کے لیے دے دیا تھا۔ تاہم دنیا کو اب یہ تحقیقات کرنا چاہیے کہ امریکہ نے ایک خطرناک Virus چین Out source کی اجازت کیا سوچ کر دی تھی۔ اگر یہ Virus چین سے شمالی کوریا پہنچ جاتا تو پھر کیا ہوتا؟ امریکہ اپنے غیر ذمہ دارا نہ فیصلوں کا ذمہ دار ہمیشہ دوسروں کو ٹھہراتا ہے۔ بہرحال چین کی حکومت نے Coronavirus پر اپنی تحقیقات مکمل کر کے اس کی رپورٹ جرمنی، فرانس، برطانیہ، یورپی یونین اور امریکہ کو فراہم کر دی ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹیری جنرل کو بھی اس رپورٹ کی کاپی دی ہے۔ Coronavirus پر چین ایک کھلی کتاب کی طرح دنیا کے سامنے ہے۔ لیکن اس خطرناک Virus میں امریکہ کے Contribution کو Black out کر دیا گیا ہے۔ اور پریذیڈنٹ ٹرمپ نے اسے ‘China virus’ کہا ہے۔ جبکہ سیکرٹیری آف اسٹیٹ، قومی سلامتی امور کے مشیر اور بعض دوسرے حکام Virus کا Origin Wuhan Laboratory بتاتے ہیں۔ 9/11 کے بعد بش انتظامیہ میں عالمی امور میں الزام اور سزا کے سلسلے میں جو ‘Law of No Proof’ تخلیق کیا گیا تھا۔ اس وقت سے ہر انتظامیہ میں الزام اور سزائیں اس قانون کے مطابق ہو رہی ہیں۔
  اب اگر یہ Virus ایران میں لیبارٹری میں ایرانی سائنسدانوں نے ایجاد کیا ہوتا۔ اور پھر چین کے سائنسدانوں کو اس پر مزید ریسرچ کے لیے دیا ہوتا تو ‘Hell would fall on Iran’ ایران کی اس لیبارٹری کو Dynamite سے اڑا دیا گیا ہوتا۔ اقوام متحدہ کے سائنسدانوں پر مشتمل انسپکٹروں کی فوج ایران بھر میں لیبارٹریوں کی کھو ج لگا رہی ہوتیں۔ میڈیا میں روزانہ انکشاف ہو رہا ہوتا کہ ایران میں لیبارٹریوں میں کتنے اور نئے قسم کے Virus پر ریسرچ ہو رہا تھا۔ لیکن امریکہ میں لیبارٹریاں بدستور کھلی ہوئی ہیں۔ ان میں کیا ہو رہا ہے۔ کتنے اور خطرناک Virus پر ریسرچ ہو رہا ہے۔ اس بارے میں دنیا کو بدستور تاریکی میں رکھا جا رہا ہے۔ یہ لیبارٹریاں صرف امریکہ میں نہیں ہیں بلکہ یورپ اور اسرائیل میں بھی ہیں۔ لیکن انہیں بند کرنے کی کوئی بات نہیں کر رہا ہے۔ دنیا بھر میں تقریباً  نصف ملین لوگ Coronavirus سے مر گیے ہیں۔ کروڑوں لوگوں کی اقتصادی زندگیاں اس Virus کے نتیجے میں تباہ ہو گئی ہیں۔ لاکھوں کاروباروں پر ہمیشہ کے لیے تالے پڑ گیے ہیں۔ اس Virus نے دنیا کی رونقیں ختم کر دی ہیں۔ امریکہ کی انتہائی سرد ترین ریاستوں میں لوگ 8-9 ماہ گرمیوں کے موسم کا انتظار کرتے ہیں۔ جب لوگوں کی Outdoor activities ہوتی ہیں۔ میلے ہوتے ہیں۔ گیم ز ہوتے ہیں۔ شہروں میں لوگوں کی گہما گہمی نظر آتی ہے۔ امریکہ کے لوگوں نے اپنی زندگیوں میں ایسا خراب سال کبھی نہیں دیکھا تھا۔ یہ تمام سرگرمیاں اب معطل ہو گئی ہیں۔ 4ماہ ہو رہے ہیں۔ لوگوں کو صرف Coronavirus سے دن رات خوفزدہ کیا جا رہا ہے۔ Center of Disease Control کی طرف سے ڈاکٹروں کے لیے یہ ہدایت جاری کی گئی ہے کہ جو بھی Emergency میں لایا جاۓ اسے Coronavirus کا Patient کہا جاۓ۔ 24/7 نیوز چینلز پر دنیا بھر میں Coronavirus سے مرنے والوں کی تعداد بتائی جاتی ہے۔ امریکہ کی ہر ریاست میں Coronavirus  سے مرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہونے کے بارے میں بتایا جاتا ہے۔ ایک طرف مکمل Lockdown ہے۔ دوسری طرف لوگ کئی ماہ سے گھروں میں محصور ہیں۔ اور انہیں سارا دن خبروں میں Virus سے خوفزدہ کیا جاتا ہے۔ جبکہ انہیں اپنے ذریعہ معاش کی فکر بھی ہے کہ ان کی Jobs رہے گی یا نہیں۔ کتنی کمپنیاں، فیکٹر یاں، بزنس رہیں گے یا ختم ہو جائیں گے۔ اور کتنی کمپنیاں اور فیکٹر یاں لوگوں کی چھانٹیاں کرنے پر مجبور ہوں گی۔
  Economical Deaths are far from Human Deaths, دنیا بھر میں جہاں بھی Coronavirus سے لوگ مر رہے ہیں۔ وہ زیادہ تر Medium and low income bracket میں ہیں۔ امریکہ پر 9/11  دہشت گرد حملے کے بعد اسی Income Bracket کے لوگ سب سے زیادہ متاثر ہوۓ تھے۔ کمپنیوں، بنکوں اور فیکٹر یوں نے  ہزاروں لوگوں کی نوکریاں ختم کر دی تھیں۔ اور انہیں گھر بیٹھا دیا تھا۔ 9/11 حملہ کرسمس شاپنگ سیزن شروع ہونے سے تقریباً  3ماہ قبل ہوا تھا۔ اس وقت بش انتظامیہ یہ حملہ روکنے میں ناکام ہوئی تھی۔ حالانکہ پریذیڈنٹ بش کو امریکہ پر دہشت گردوں کا حملہ ہونے کے بارے میں بتایا گیا تھا۔ Coronavirus کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کو نومبر اور دسمبر میں اس Virus کے بارے میں بتایا گیا تھا۔ لیکن امریکہ پر اس Virus کا حملہ روکنے کے لیے انتظامیہ نے کچھ نہیں کیا تھا۔ میڈیا نے بھی Virus کی خبر دینے کے بعد اس کے انتہائی خطرناک ہونے کی تفصیل کو دبا دیا تھا۔ نومبر اور دسمبر Peak Christmas Retail Season ہوتے ہیں۔ اور شاید Corporate Media اور Pro-Business Administration دنوں ایک ہی Page پر تھے کہ اس Season کو خراب نہیں کیا جاۓ۔ تقریباً ہر Business کے لیے یہ Huge Profitable Season ہوتا ہے۔ اور اسے Virus کی خبروں سے خراب نہیں کیا جا سکتا تھا۔ جنوری اور فروری میں جب Christmas Season میں زبردست Retail Sales ہونے کے تمام اعداد و شمار آ گیے تھے۔ اس کے بعد پریذیڈنٹ ٹرمپ نے مارچ میں Lockdown کا فیصلہ کیا تھا۔ اور Businesses سے کہا کہ وہ اپنے Employees کو 8Weaks Pay roll دیں گے۔ اور حکومت انہیں 10ہزار ڈالر ٹیکس بر یک دے گی۔ Advisors ہمیشہ اپنی ‘Planning’ کے مطابق حکومت کو Advise کرتے ہیں۔ Advisors عوام کے نمائندے نہیں ہوتے ہیں۔ نہ ہی وہ عوام کے لیے کام کرتے ہیں۔ سابقہ دو انتظامیہ میں Advisors کے رول کے نتائج امریکی عوام کے سامنے ہیں۔
  Lockdown کے نتیجے میں 40ملین امریکی بیروزگار ہو گیے ہیں۔ لوگ گھروں میں بند بیٹھیں ہیں۔ اور ان کے  بڑھتے ہوۓ اقتصادی مسائل انہیں ذہنی بیماریاں دے رہے ہیں۔ 24/7 ٹی وی پر Expert Doctors لوگوں کو خطرناک Virus سے محفوظ رہنے کا علاج تجویز کرتے ہیں۔ لیکن ان کی ذہنی بیماریوں کا جیسے کوئی علاج نہیں ہے؟ دنیا میں نصف ملین سے زیادہ لوگ Coronavirus سے مر گیے ہیں۔ لیکن امریکہ اور مغربی ملکوں میں جن لیبارٹریوں میں ایسے خطرناک Virus پر جو کام ہو رہا ہے۔ اس پر کوئی Expert Doctor بات کرتا ہے۔ اور نہ ہی انہیں فوری طور پر بند کرنے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔  
    
    

Thursday, June 25, 2020

Trump Administration’s New Sanctions on War Destitute People of Syria: Why Did Obama-Biden Administration Support Earthquake-Like Terrorism in Syria?


  Trump Administration’s New Sanctions on War Destitute People of Syria: Why Did Obama-Biden Administration Support Earthquake-Like Terrorism in Syria?

Not president, but America is unfit for a sole global Leader
مجیب خان
The destruction caused by terrorism in Syria, they called it the Syrian civil war

Syria

Syria

The Destruction in Libya, how America and NATO brought the destruction to Libya

Libya


  پریذیڈنٹ Bashar al- Assad کو خواہ کتنا ہی Demonized کیا جاۓ اس سے کوئی فرق نہیں پڑا ہے۔ پریذیڈنٹ اسد نے بڑی بہادری سے اپنے وطن عزیز کا دفاع کیا ہے۔ شام کی سلامتی اور یکجہتی کو زندگی دی ہے۔ اور یہ شاندار فتح پریذیڈنٹ اسد کی فوج اور عوام کی بھر پور حمایت کے بغیر ممکن نہیں تھی۔ شام ایک چھوٹا سا ملک، انتہائی محدود وسائل، ہر طرف شام کی سلامتی کے دشمن خطرناک سانپوں کی طرح تھے۔ جن کی پشت پر امریکہ، برطانیہ، فرانس، سعودی عرب، اسرائیل، بحرین، متحدہ عرب امارات تھے۔ پریذیڈنٹ اسد کی قیادت میں فوج اور عوام نے انہیں ذلت آمیز شکست دی ہے۔ اور ‘Truth and falsehood’ کی جنگ میں ‘Truth’ کی فتح ہوئی ہے۔ اللہ نے ‘falsehood’ کو ذلت دی ہے۔ اللہ اسد حکومت، فوج اور شام کے جیالے عوام کے ساتھ ہے۔ امریکہ کو مصری عوام کی جمہوریت اور آزادی کا تحفظ کرنے میں شکست ہوئی تھی۔ جہاں سعودی عرب اور اسرائیل کے گڈ جوڑ نے سازش کر کے جمہوریت کا تختہ الٹ دیا تھا۔ اور ایک فوجی جنرل کو مصری عوام پر مسلط کر دیا تھا۔ Obama-Biden انتظامیہ سعودی عرب-اسرائیل گڈ جوڑ کے سامنے اتنی کمزور تھی کہ یہ مصری عوام کو فوجی حکومت کے ظلم و بربریت میں چھوڑ کر بھاگ گئی تھی۔ پھر Obama-Biden انتظامیہ کے پاس 20 بلین ڈالر مصر میں جمہوریت بحال کرانے کے لیے نہیں تھے۔ کیونکہ سعودی شاہ نے مصر کی فوجی حکومت کو 20بلین ڈالر دئیے تھے۔ اور امریکہ کو یہ چیلنج کیا تھا کہ وہ 20 بلین ڈالر لے کر آۓ اور مصر میں اپنی جمہوریت بحال کر لے۔ عراق میں شیعہ اکثریت میں تھے۔ لیکن صد ام حسین سنی تھے۔ Bush-Cheney انتظامیہ نے صد ام حسین کو اقتدار سے ہٹا کر عراق شیعاؤں کو دے دیا تھا۔ عراق ایران کے Influence میں آ گیا تھا۔ سعودی عرب اور اسرائیل عراق میں اس تبدیلی سے خوش نہیں تھے۔ ان کے ذہن میں یہ آیا کہ شام میں سنیوں کی اکثریت ہے۔ اور یہاں شیعہ اقلیت میں ہیں۔ لہذا شام میں سنی حکومت ہونا چاہیے۔ وائٹ ہاؤس دنیا میں حکومتیں تبدیل کرنے کا ایک Walmart بنا ہوا تھا۔  جس منصوبے کو اسرائیل Endorse کرے امریکہ اس سے انکار نہیں کر سکتا ہے۔ Obama-Biden انتظامیہ نے عراق سے کوئی سبق سیکھا تھا اور نہ ہی افغانستان سے کوئی سبق سیکھا تھا۔ لیبیا میں اسلامی انتہا پسندوں کی حمایت میں قد ا فی حکومت کا خاتمہ کرنے کے نتائج سے  بھی کچھ نہیں سیکھا تھا۔ نائب پریذیڈنٹ Joe Biden کو پریذیڈنٹ ا و با مہ سے خارجہ امور میں 40سال کا تجربہ تھا لیکن انہوں نے بھی پریذیڈنٹ ا و با مہ کے ایک غلط فیصلے کو درست سمجھا تھا۔ پریذیڈنٹ ا وبا مہ کے “Assad has to go” کہنے سے یا John Bolton کے “President Trump has to go” کہنے سے حکومتیں تبدیل نہیں ہوتی ہیں۔ حکومت تبدیل کرنے کا فیصلہ صرف اور صرف عوام کرتے ہیں۔
   Obama-Biden انتظامیہ کے شام کے بارے میں تمام جائزے، تجزیے، فیصلے اور پالیسی امریکہ کی ناکامی بنے ہیں۔ اور آخری شاندار فتح پریذیڈنٹ اسد، شام کی فوج اور عوام کی ہوئی ہے۔ سعودی عرب اور اسرائیل شاید اسے اپنی کامیابی دیکھتے ہیں کہ شام کھنڈرات بن گیا ہے۔ اور اب اسے دوبارہ تعمیر ہونے میں ایک صدی لگے گی۔ دنیا کے لیے یہ ایک انسانی المیہ ہے۔ ایک ملین بے گناہ انسان مر گیے۔ ایک ملین سے زیادہ لوگ بے گھر ہو گیے ہیں۔ خاندان اجڑ گیے ہیں۔ لوگوں کی زندگیاں تہس نہس ہو گئی ہیں۔ امریکہ کی شام میں انسانیت سے یہ کیسی دشمنی ہے؟ شام کے لوگوں نے امریکہ کے خلاف کبھی دہشت گردی نہیں کی تھی۔ شام میںSunni, Shia , Christian, سب ایک فیملی کی طرح رہتے تھے۔ لیکن امریکہ کو یہ بھی پسند نہیں تھا۔ لبنا ن میں حزب اللہ عیسائوں اور سنیوں کے ساتھ حکومت میں ہے۔ اور لبنا ن میں امن اور استحکام ہے۔ لیکن امریکہ کو یہ بھی قبول نہیں ہے۔ امریکہ اسرائیل اور سعودی عرب کو عراق میں ایران کے Influence پر پریشانی ہے۔ اور دنیا کو امریکہ کی پالیسیوں پر اسرائیل کے Tremendous Influence پر تشویش ہے۔ امریکہ کی کسی بھی انتظامیہ کی مڈل ایسٹ پالیسی اس کی نہیں ہے۔ یہ اسرائیل کی پالیسی ہوتی ہے۔ اور اس پر Made in America کا لیبل ہوتا ہے۔ امریکہ کو مڈل ایسٹ میں ہر جگہ شکست ہونے کی وجہ یہ ہے کہ امریکہ کی اپنی کوئی پالیسی نہیں ہے۔
  شام کو کھنڈرات بنانے والے دہشت گردوں کی ذلت آمیز شکست ہونے کے بعد اب امریکہ نے ان کے حوصلے بلند کرنے کے لیے نئی بندشیں لگانے کا کہا ہے۔ تاکہ اسد حکومت کو اقوام متحدہ کی سرپرستی میں واپس مذاکرات کے راستے پر آنے کے  لیے مجبور کیا جاۓ۔ اور شام کی ایک دہائی طویل جنگ ختم کی جاۓ۔ اقوام متحدہ میں امریکی سفیر Kelly Craft نے سلامتی کونسل کو بتایا کہ "واشنگٹن اسد حکومت کی فوجی کامیابی کو مستحکم  ہونے سے روکنے میں اقدامات کرے گا۔ ہمارا مقصد اسد حکومت کو ریونیو سے محروم کرنا اور اسے جو مدد وسیع پیمانے پر ظلم اور انسانی حقوق  کی خلاف ورزیاں کرنے میں ملتی ہے اسے روکنا ہے۔ وہ ایک سیاسی حل اور امن کے امکانات بے رحمی سے مدھم بنا دیتے ہیں۔" اقوام متحدہ میں امریکہ کی سفیر نے شام کے بارے میں یہ ایسے کہا ہے کہ جیسے امریکہ کا شام کی لڑائی میں کوئی رول نہیں ہے۔ آسمان سے لوگ آۓ تھے۔ جو شام کو ایک دہائی طویل جنگ دے کر چلے گیے ہیں۔ اور امریکہ اب اسے ختم کرنے میں مدد کر رہا ہے۔ شام کے انتہائی قریب ایک بالکل ایسی ہی صورت حال فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل نے 70سال سے پیدا کی ہوئی ہے۔ جہاں، امریکی سفیر Kelly Craft نے جن الفاظ میں شام کے بارے میں ظلم اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں بیان کی ہیں۔ اگر اسرائیل پر بندشیں لگانے میں وہ صرف امریکی سفیر کے اس بیان کو استعمال کرے تاکہ اسرائیل کو فلسطینیوں سے مذاکرات پر مجبور کیا جاۓ۔ امریکی سفیر اپنے ہی اس بیان کو دو سیکنڈ میں VETO کر دیں گی۔
  سیکرٹیری آف اسٹیٹ Mike Pompeo نے شام کے بعض اعلی حکام، کاروباری لوگوں اور دولت مندوں پر بندشیں لگانے کا اعلان کیا ہے۔ یہ بھی ایک عجب مذاق ہے کہ شکست خوردہ ملک شام کی میدان جنگ میں زبردست کامیابیوں کو بندشوں سے سبوتاژ کرنا چاہتے ہیں۔ اور دہشت گردوں کو کامیاب بنانا چاہتے ہیں۔ یہ وقت شام پر نئی بندشیں لگانے کا نہیں ہے۔ انسانی اور اخلاقی ضمیر کا تقاضہ ہے کہ ذرا شام کی بے گناہ انسانیت کے بارے میں غور کیا جاۓ کہ وہ ایک دہائی کی خونی جنگ میں کن کٹھن حالات سے گزری ہے؟ کس طرح اس نے اپنے آپ کو زندہ رکھا ہے؟ انسانیت پر دنیا کو خوبصورت لفظوں میں لیکچر دینا سب سے آسان ہے۔ لیکن انسانیت کے لیے کچھ نہ کرنا مفادات کی سیاست ہے۔ اور شام میں انسانیت اس مفادات کی سیاست کی Victim ہے۔ شام جو انسانی تباہی کا قبرستان بنا ہوا ہے۔ لوگوں کے شہر اور گھر کھنڈرات بنے ہوۓ ہیں۔ ان کی معیشت تباہ ہو چکی ہے۔ معلوم نہیں وہ کس ضمیر سے شام پر نئی بندشیں لگا رہے ہیں۔ صد ام حسین کتنا ہی ظالم اور ڈکٹیٹر تھا۔ لیکن اس میں اتنی انسانیت ضرور تھی کہ اس نے اپنی فوج کو کویت کو شام کی طرح کھنڈرات بنانے کی اجازت نہیں دی تھی۔ لیکن اس کے باوجود امریکہ اور مغربی ملکوں نے کویت کا اس عرصہ میں تیل کی آمدنی کا جو نقصان ہوا تھا۔ صد ام حسین سے اسے ادا کرنے کا کہا تھا۔ جو 100بلین ڈالر تھا۔ اس کے علاوہ سعودی عرب کے پہلی خلیج جنگ پر ہونے والے تمام اخراجات بھی صد ام حسین سے ادا کرنے کا کہا تھا۔ جو 90بلین ڈالر تھے۔ لیکن آج وہ ہی ممالک جو ایک دہائی سے شام کی تباہی میں ملوث تھے۔ وہ سب ہاتھ جھاڑ کر بھاگ لیے۔ شام کی معیشت کا اس عرصہ میں جو نقصان ہوا ہے۔ یہ انصاف ان کی Dictionary  میں نہیں ہے۔ Obama-Biden انتظامیہ یہ ہی حالات لیبیا کو دے کر گئی ہے۔                  
  


Saturday, June 20, 2020

High Crime Ghetto Areas In America, President Obama had Spent Five Years Of His Presidency to Liberate Syrian People, But President Obama Didn’t Liberate Black People From the Ghettos, perhaps This Was the Message for Them ‘Change Yourselves or Nobody can Change You’


 High Crime Ghetto Areas In America, President Obama had Spent Five Years Of His Presidency to Liberate Syrian People, But President Obama Didn’t Liberate Black People From the Ghettos, perhaps This Was the Message for Them ‘Change Yourselves or Nobody can Change You’

مجیب خان

Ghettos in America



Rich Black People's First Black President Barack Obama


Mansion of a Rich Black Family



  پریذیڈنٹ ٹرمپ نے پولیس رفو رم ایگزیکٹو آ ڈر پر دستخط کیے ہیں۔ اس موقع پر پریذیڈنٹ ٹرمپ نے کانگریس اور سینٹ میں دونوں پارٹیوں سے پولیس رفو رم قانون متفقہ طور پر جلد منظور کرنے کا کہا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ پولیس رفو رم امریکہ میں Racism ختم کرنے میں کیا نئی Vaccine ہو گی۔ Racism اور Discrimination کے خلاف امریکہ میں پہلے ہی سخت قوانین موجود ہیں۔ حالیہ واقعات میں پولیس افسروں کے خلاف ان ہی قوانین کے تحت کاروائی کی گئی ہے۔ انہیں فوری طور پر برطرف کیا گیا ہے۔ انہیں گرفتار کیا ہے۔ اور ان پر قتل کے فرد جرم میں مقدمہ چلانے کا فیصلہ کیا ہے۔ شاید انہیں سزائیں بھی  ہو جائیں گی۔ پولیس رفو رم بھی ہو جائیں گی۔ لیکن پھر کیا ہو گا؟ کیا Racism اور Discrimination کا Chapter closed ہو جاۓ گا؟ ہر ریاست میں جہاں Black بڑی تعداد میں ہیں ان شہروں میں Black خصوصی طور پر پولیس میں بھرتی کیے جاتے ہیں۔ پولیس چیف بھی Black ہیں۔ شکاگو میں بڑی تعداد میں Black پولیس میں ہیں۔ اسی طرح لاس انجلیس    Seattle, Detroit, Miami, New York  San francisco اور دوسرے شہروں میں پولیس میں Black کے علاوہ Haitian, Cuban, Spanish, Chinese کی بھی ایک بڑی تعداد پولیس میں ہے۔  امریکہ میں بہت سے شہروں میں Black Mayor ہیں۔ شکاگو میں First Black Woman Mayor ہے۔ ہر جگہ ہر قومیت کے لوگ پولیس میں ہیں۔ لیکن حیرت کی بات ہے کہ پھر بھی Racism ایک مسئلہ ہے؟ Racial Discrimination کی بحث بھی جاری ہے۔
  حالانکہ آج یہ اتنا بڑا مسئلہ  نہیں ہے کہ جیسے یہ 40 اور 45 سال پہلے نظر آتا تھا۔ گزشتہ چار پانچ دہائیوں میں Black American ایجوکیشن، میڈیکل سائنس، اسپورٹ، بزنس، بر اڈ کا سٹنگ جنرل ازم اور قومی سیاست میں آگے آۓ ہیں۔ Music Industry پر یہ چھاۓ ہوۓ ہیں۔ ایک Black Entrepreneur class ابھری ہے۔ ان میں اپنے بارے میں اعتماد پیدا ہوا ہے۔ اور  ان میں Inferiority complex بھی نہیں ہے۔ Racism کے بارے میں ان کی سوچ میں Softness آیا ہے۔ امریکہ کے قانون میں اقلیتوں کو آ گے آنے کے جو موقع دئیے گیے ہیں اس سے انہوں نے فائدہ اٹھایا ہے۔ Racism اب ان Black American کی سوچ ہے۔ جو امریکہ کے شہروں میں Ghetto Areas میں رہتے ہیں۔ اور ایسے علاقوں کو مقامی پولیس ڈیپارٹمنٹ میں High Crime Areas کہا جاتا ہے۔  سب سے زیادہ کرائمز یہاں ہوتے ہیں۔ Drug, Guns, Robberies, Murders, روز کا معمول ہے۔ امریکہ بھر میں ‘Black lives Matter’ کی حمایت میں مظاہرے ہو رہے ہیں۔ اور دوسری طرف Ghetto and high crime areas میں روزانہ اور صرفWeek ends  پر 35-40  Murder شکاگو میں ہوتے ہیں۔ امریکہ کے دوسرے شہروں میں بھی کرائمز اور Murders کی یہ ہی صورت حال ہے۔ گزشتہ 24 دن سے جاری مظاہروں کے دوران میڈیا میں ان کرائمز اور Murders کی خبروں کو زیادہ اہم نہیں سمجھا گیا ہے۔ گزشتہ برسوں میں Racism کے ایشو پر خاصی پرو گریس ہوئی ہے۔ لیکن Black Ghetto Areas میں کرائمز میں کوئی کمی نہیں ہوئی ہے۔ لبنا ن میں حزب اللہ کے کنٹرول میں علاقوں میں جانے سے امریکی اتنا خوف محسوس نہیں کریں گے کہ جتنا امریکہ میں Black Ghetto Areas میں جانے سے خوف آتا ہے۔ پولیس رفو رم کو Racial Issues تک محدود رکھا ہے۔ لیکن Black Ghetto Areas کو کس طرح Drug, Crimes and Guns Free بنایا جاۓ گا؟ اس کا جواب White and Black لیڈروں کے پاس نہیں ہے۔ یہ Ghettos بعض Black لیڈروں کی Constituency میں ہیں۔ اگر یہ لیڈر ان Ghettos میں جائیں اور لوگوں سے ملیں۔ انہیں کرائمز کلچر سے باہر کی دنیا کی خوبصورتی بتائیں۔ ان کے ذہن تبدیل ہوں گے۔ یہ پولیس ر فورم کے ساتھ پولیس کی مدد بھی ہو گی۔
  بر اک ا و با مہ امریکہ کے پہلے Black President تھے۔ اگر وہ 8 سال صرف اس ایک داخلی مسئلہ پر کام کرتے کہ امریکہ میں Black Ghetto Areas کو کس طرح Crimes Free علاقہ بنائیں جائیں۔ South side Chicago کے حالات سے پریذیڈنٹ ا و با مہ اچھی طرح واقف تھے۔ شکاگو کے لوگوں نے ا و با مہ کو سینیٹر منتخب کیا تھا۔ اور پھر پریذیڈنٹ بنایا تھا۔ لیکن پریذیڈنٹ ا و با مہ نے یہ مسئلہ حل کرنے کے لیے شکاگو میئر کے حوالے کر دیا تھا۔ شکاگو میئر نے یہ ذمہ داری شکاگو پولیس چیف کو سونپ دی تھی۔ ریز لٹ یہ ہے کہ کرائمز میں اور زیادہ اضافہ ہو گیا ہے۔ High crimes areas صرف شکاگو میں نہیں ہیں۔ یہ امریکہ کی ہر ریاست میں ایک بڑا مسئلہ ہے۔ پریذیڈنٹ ا و با مہ امریکی عوام کو Ghettos اور High Crime Areas سے نجات دلانے کے بجاۓ شام اور لیبیا چلے گیے تھے۔ اور وہاں لوگوں کو آزادی دلانے میں ان کی مدد کرنے لگے تھے۔ پریذیڈنٹ ا و با مہ نے 8سال دور اقتدار میں سے 5 سال شام میں لوگوں کو آزادی دلانے کی لڑائی میں برباد کر دئیے تھے۔ اب نہ تو شام میں لوگوں کو آزادی ملی تھی اور نہ ہی امریکہ کے لوگوں کو Ghettos اور High Crime Areas سے نجات ملی تھی۔  بلکہ شام دنیا کے نقشہ پر ایک Ghetto Country بنا دیا ہے۔ Black lives matter مظاہروں کے دوران ورجینیا اور جنوب کی بعض دوسری ریاستوں میں Confederate Statues and Monument اس لیے تباہ کیے تھے کہ یہ Slavery کی تاریخ زندہ رکھتے تھے۔ لیکن حیرت کی بات یہ تھی کہ جہاں سے یہSlaves لاۓ جاتے تھے۔ اس Black Africa کی سرزمین پر امریکہ کے پہلے Black President نے امریکہ کی White Military Base قائم کیے تھے۔ Black African عوام نے ایک طویل اور خونی جد و جہد کے بعد White Colonial Powers سے آزادی حاصل کی تھی۔ ان کی فوج کو اپنے ملکوں سے نکالا تھا۔ اور امریکہ کا پہلا Black President افریقہ میں امریکہ کے فوجی اڈے قائم کر رہا تھا۔ اور اس کے ساتھ NATO فوجوں کے لیے بھی یہاں راستہ بنایا جا رہا تھا۔ جو White Colonial and Imperial Countries کی فوجی تنظیم ہے۔ بہرحال Statues and Monuments تباہ کرنے سے تاریخ مٹ نہیں جاتی ہے۔ تاریخ ہمیشہ زندہ رہتی ہے۔ اس لیے تاریخ سے سبق سیکھا جاۓ کہا جاتا ہے۔ عراق میں صد ام حسین نے جو شاندار محل تعمیر کیے تھے۔ وہ ان کے دور کی تاریخی تعمیرات تھیں۔ اور انہیں تاریخ میں ہمیشہ اہمیت سے دیکھا جاۓ گا۔ امریکی فوج نے بغداد پر قبضہ کرنے کے بعد صد ام حسین کا Statue تباہ کر کے ان کے دور کی تاریخ مٹانے کی کوشش کی تھی۔ لیکن یہ جہالت تھی۔ تاریخیں مٹائی نہیں جاتی ہیں۔ بلکہ ان کے مقابلے پر نئی تاریخ بنائی جاتی ہے۔ امریکہ کے پہلے Black President Obama اگر Downtrodden Black People کے لیے کچھ تاریخی کام کرتے تو President Obama کا Statue بھی امریکہ کی جنوبی ریاستوں میں Martin Luther King کے ساتھ لگاۓ جاتے۔ اور انہیں تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جاتا۔