The Incompetent Leaders of Pakistan Do Not Understand How the Democratic System Work, They Think That in a Democracy, the Corruption that the Leaders have done in the Old Law, Can End by Making a New Law
Mujeeb Khan
Leaders of Pakistan Zardari Sharif and Fazlurrehman |
قومیں کیسے بنتی ہیں اور سسٹم کیسے کام کرتا ہے۔ جنوبی کوریا کے سابق
صدرلی مائنگ-بای کو 2020 میں عدالت نے رشوت لینے اور فنڈز خورد برد کرنے کے الزام میں 17 سال کی سزا سنائی تھی اور4۔6ملین ڈالر جرمانہ کیا تھا۔جنوبی کوریا کے صدر یو سوک ایول نے سابق صدر لی کو صدارتی معافی دی ہے۔ سابق صدر لی 81 سال کے ہیں اور سیول ہسپتال سے انہیں رہا کیاجاۓ گا۔ جہاں ان کی معروضی بیماری کا علاج ہورہا تھا۔ان کی 15 سال باقی سزا ملتوی کردی جاۓ گی۔ اورعدالت نے انہیں6،4 ملین ڈالر جرمانہ کیا تھا اس کا بقیہ منسوخ کردیا جاۓ گا۔ لی 2008 سے 2013 تک جنوبی کوریا کے صدر تھے۔ جب آصف زرداری لاکھوں ڈالر خورد برد کرنےکے بعد اپنی معیاد پوری کرکے صدارتی محل سے جارہے تھے اور نوازشریف اقتدار میں داخل ہورہے تھے۔ زرداری نے کہا میاں صاحب اب آپ بسم اللہ کجیے۔ چند روزقبل اسحاق ڈار نے کہا تھا کہ ہم 2013 میں بھی ایک ایسے ہی مالی بحران میں تھے خزانہ خالی تھا۔ اسحاق ڈار کی زبان پر یہ آتے آتے رک گیا کہ سندھ کا ڈاکو خزانہ خالی کر گیا تھا۔ پھر 2018 میں عمران خان کو جنرل باجوہ اقتدار میں لائے تھے۔ عمران خان نے جب اقتدار میں آۓ تو دیکھا ان کے سامنے قرضوں کی ادا ئیگی کرنے کے لیےبل رکھے تھے۔ اور خزانہ خالی تھا۔ یہ دیکھ کر عمران خان نے کہا اگر مجھے یہ معلوم ہوتا کہ لاہور کے ڈاکو خزانہ لوٹ کر لے گیے ہیں تو میں کبھی اقتدار نہیں لیتا۔ لیکن جنرل باجوہ کو یہ معلوم تھا اس لیے فوج نے عمران خان کو سیلیکٹ کیا تھا۔ زرداری کو دنیا قرضہ نہیں دیتی نوازشریف کو کرپشن کرنے میں سزا ہو چکی تھی۔ عمران خان جس نے کبھی اپنے سسر سے پیسے نہیں مانگے تھے۔ جنرل باجوہ نے دنیا سے پیسے مانگنے کے لیے عمران خان کو آگے کردیا تھا۔ اور اس کے پیچھے شہباز شریف اور بلاول زرداری کو یہ کہنے کے لیے کھڑا کردیا تھا کہ ہم سیلیکٹڈ کو وزیراعظم نہیں مانتے ہیں-
مولانا فضل الرحمن ایک
غیراسلامی جنوبی کوریا مہذب معاشرہ ہے۔ لیکن مولانا فضل الرحمن کی اسلامی مملکت ایک
انتہائی غیرمہذب ریاست ہے۔ جہاں مولانا فضل الرحمن کرپٹ ترین لیڈروں کے سیاسی پم ہیں ۔
یہاں لیڈر جب اقتدار میں نہیں ہوتے ہیں تو
یہ کہتے ہیں کہ "ادارے اپنی حدود میں رہیں۔" اور جب یہ اقتدار میں ہوتے ہیں
تو کہتے ہیں "الیکشن آئین کی معیاد پوری ہونے پر ہوں گے۔" ان کی جہالت کب
حدود سے باہرآۓ گی۔ "ادارے حدود میں رہیں" اور الیکشن آئین پر ہوں گے۔"
کہنا صرف جمہوریت نہیں ہے۔ یہ جمہوریت کے کمپونیٹ ہیں۔ لیڈروں نے عدالتوں کو بائی پاس
کردیا ہے۔ حالانکہ ان کے کرپشن کے کیس عدالتوں میں تھے۔ انہوں نے قانون تبدیل کردیا اور
نیا قانون ایسا بنایا جس میں ان کے کرپشن کے کیس خود بخود ختم ہوجاتے ہیں۔ اور پھریہ
عوام سے کہتے ہیں ان کے خلاف جھوٹے الزامات تھے اور اس کے کوئی ثبوت نہیں تھے۔ یہ
"قانون کے مطابق" کو جمہوریت نہیں سمجھتے ہیں۔ اور " آئین کے مطابق"
کو جمہوریت کہتے ہے۔ اس لیے یہ بڑی فراغ دلی سے قانون کی خلاف ورزیاں کرتے ہیں۔ لیکن
ججوں نے ان کے خلاف کوئی کاروئی نہیں کی تھی۔ حالانکہ ان کے کرپشن کے کیس ججوں کی ٹیبل
پرتھےاوروہاں سے اٹھا لاۓ تھے۔ ججوں اورعدالتوں کا یہ احترام نہیں کرتے ہیں۔ جس دن انہوں نے
اپنے کرپشن کے کییسزز خود ختم کیے تھے اسی روز ان سے عدالت کے اخراجات وصول کرنے میں
جرمانے کیے جاتے۔ شہباز شریف کو چار لاکھ روپے، حمزہ شریف کو 25 لاکھ روپے، مریم نواز
کو10 لاکھ روپے، آصف زرداری کو 50 لاکھ روپے رانا ثنا اللہ 35 لاکھ روپے اور دوسروں
کو بھی اسی طرح جرمانے کیے جاتے۔ ان کی وجہ سے عدالتوں کے ہونے والے اخراجات عوام کیوں دیں۔ کورٹ
ہاؤس کے اخراجات بھی ہیں انہیں اسی طرح پورا کیا جاتا ہے۔ ججوں کی تنخواہیں عوام دیتے
ہیں۔ جنہیں انصاف ملتا نہیں ہے۔ کرپٹ لیڈروں کی بدعنوانیوں نے جمہوری سسٹم کو فیل کردیا
ہے۔ انہیں یہ معلوم نہیں ہے کہ جمہوری سسٹم کیسے کام کرتا ہے؟ عدالتیں جمہوری سسٹم
صاف ستھرا بنانے میں سنجیدہ نہیں ہیں۔ نواز شریف اورآصف زرداری نے 40 سال میں زندگی
کے ہر شعبہ کو کرپٹ کردیا ہے
جنوبی کوریا نے صرف
60 سال میں زندگی کے ہر شعبہ میں شاندار ترقی کی ہے۔ جمہوری سسٹم کامیاب بنایا ہے عوام کامیاب
ہیں۔ کوریا کی ایک نسل نے جنگ لڑی تھی 15-20 ملین کورین اس جنگ میں مر گیے تھے لیکن
اپنے بچوں کو مستقبل دیا ہے۔