سوویت یونین کے صدر گار با چو ف نے 33 سال قبل پاکستان کے بارے میں جو کہا
تھا، آج 33 سال بعد وہ نریندر مودی نے کہا ہے، اور اس وقت پیپلز پارٹی، ن لیگ اور
فوج تھی اور آج 33 سال بعد بھی ن لیگ، پیپلز پارٹی اور فوج ہے
مجیب خان
جو بائیڈن کاہاتھ پاکستان کے عظیم لیڈر کی گردن پر 'امریکی امداد کہاں ہے سچ سچ بتا' پیچھے ن لیگ کے بغیرت مسکرارہے ہیں
صدر پاکستان آصف علی زردار ی جوبائیڈن کو نوازشریف سے امریکی امداد کے خورد برد ہونے پر سوال کرنے پر ہلال پاکستان ایوارڈ دے رہے ہیں
مولانا فضل الرحمان امریکہ کے صدر جارج بش سے این آر او ملنے پر مبارک باد دے رہے ہیں
سوویت یونین کے صدر گار با چو ف نے 33
سال قبل افغانستان سے اپنی فوجیں نکالنے سے پہلے اپنے وزیر خارجہ کو چین اور
پاکستان بھیجا تھا کہ افغانستان سے فوجیں نکالنے سے پہلے کابل میں ایک ایسی حکومت
قائم کر دی جاۓ جو سب کو قبول ہو تاکہ افغانستان میں امن اور استحکام ہو جو ہم سب
کے مفاد میں ہو گا۔ پیپلز پارٹی کی حکومت تھی۔ بے نظیر بھٹو وزیر اعظم تھیں۔ وزیر خارجہ
وزیر اعظم بھٹو کے لیے صدر گار با چو ف کا ایک ذاتی پیغام لے کر آۓ تھے جو وزیر اعظم کو ون ٹو ون ملا قا ت میں دینا تھا۔ پہلے سو ویت یونین کے وزیر خارجہ کو
انتظار کرایا گیا تھا۔ وزیر اعظم بھٹو قومی اسمبلی میں اپنے چیمبر میں مصروف تھیں۔
پھر جب سوویت وزیر خارجہ کی ملاقات وزیر اعظم بھٹو سے کر آئی گئی جو ون ٹو ون ہونا
تھی۔ لیکن وزیر خارجہ صاحبزادہ یعقوب علی خان بھی آ گۓ تھے اور ان کے پیچھے دو
فوجی بھی اپنی کرسیاں اٹھا کر بیٹھ گیے۔ وزیر اعظم بھٹو خاصی شرمندہ ہو رہی تھیں۔
سوویت وزیر خارجہ ان کا چہرہ دیکھ رہے تھے۔ ون ٹو ون ملاقات debacle ثابت ہوئی تھی۔ وزیر خارجہ یعقوب علی خان سوویت
وزیر خارجہ کو ائر پورٹ رخصت کرنے آۓ تھے۔ انہوں نے سو ویت وزیر خارجہ سے کہا ہمیں
معلوم ہے آپ کیا پیغام دینا چاہتے تھے۔ ہم یہاں سے لے کر وسط ایشیا تک اسلامی ریاست
قائم کریں گے۔ سوویت وزیر خارجہ نے ماسکو پہنچ
کر اپنی ملاقات کا احوال صدر گار با چو ف کو سنایا انہیں یہ سن کر غصہ آ
گیا صدرگار با چو ف نے کہا “Let
them stew in their own juice” اور
افغانستان سے سوویت فوجیں نکالنے کا حکم
دے دیا۔ اس واقعہ کا احوال صدر گا ر با چوف کے ترجمان نے اپنی کتاب میں بیان کیا تھا۔
اس وقت پیپلز پارٹی، ن لیگ، اور فوج پاکستان کی سیا ست میں تین بڑے کریکٹر ایکٹر
تھے۔ اور آج 33 سال بعد بھارت کے وزیر
اعظم نر یندر مودی نے امریکہ میں بھارتی نژاد امریکیوں سے خطاب میں کہا ہے کہ "ہم
نے پاکستان پاکستان بہت کر لیا ہے ہم نے آ گے بڑھنا ہے انہیں خود مرنے دو ہمیں
دنیا کے ساتھ چلنا ہے۔" اور آج پاکستان
کی سیاست میں کون تین بڑے ہیں ن لیگ، پیپلز پارٹی اور فوج۔ عمران خان کو کان پکڑ
کر انہوں نے سڑک پر کر دیا ہے۔ اللہ جو بھی کرتا ہے اس میں بھی مصلحت ہوتی ہے۔ اور
اچھا ہی کرتا ہے۔ انہوں نے پاکستان کو ماضی میں ذلیل کیا تھا اور آج بھی ان کی وجہ
سے پاکستان ذلیل ہو رہا ہے۔ پیرس میں پاکستان کا وزیر اعظم قرضوں میں دبے غریب
ملکوں کی مدد کے لیے کانفرنس میں ہزاروں ڈالر کا سوٹ پہن کر فرانس کے صدر کے آگے
گڑگڑا رہا تھا۔ کہ اس کانفرنس میں پاکستان کے لیے امداد تجویز کی جاۓ۔ پیرس
کانفرنس میں سینیگال کے لیے 2.7 بلین
ڈالر دینے کا کہا ہے اور زیمبیا جو Covid pandemic کے بعد اپنے قرضہ پر ڈیفا لٹ ہو گیا تھا اسے کچھ
معاشی ریلیف دینے کے لیے چین اور دوسرے قرض خواہ اس کے 6.3 بلین ڈالر قرضوں کو
restructure کرنے
پر آمادہ ہو گیے ہیں۔
پیرس کانفرس میں شرکا شہباز شریف کو دور
سے دیکھ کر قریب مصافحہ کرنے آۓ تھے۔ وہ دراصل حکومت کی معاشی، سیاسی، قانونی خستہ
حالی پر تعزیت کرنے آۓ تھے۔ اور حکومت میں ان کی bandwagon پر جو 13 سوار ہیں
ان کے لیے مغفرت کر رہے تھے۔ اس سے زیادہ وہ کچھ کرنا بھی نہیں چاہتے ہیں۔ کیونکہ
الیکشن قریب ہیں۔ اور اس حکومت کی کسی بھی طرح مدد نہیں کرنا چاہتے تھے۔ انہوں نے
عدالتوں کو by pass کر
کے خود اپنے آپ کو بے گنا ہ کیا ہے۔ یعنی انہوں نے اپنے کرائم ختم پر اس سے بڑا
کرائم کیا ہے۔ پاکستان میں حکومت میں کرائم کرنے کو اتنا سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا
ہے۔ پانچ مرتبہ کرائم کر کے پانچ مرتبہ حکومت میں آ جا تے ہیں۔ ملک کی اعلی عدالت نے
کر پٹ لیڈروں کو سیاست سے عمر بھر کے لیے نااہل قرار د یا تھا۔ انہوں نے عدالت کا
یہ اختیار چھین لیا اور اسے عمر بھرکی بجاۓ پانچ سال کر دیا ہے۔ تاکہ پانچ سال وہ
نااہل رہے گا اس دوران اس کا بھائی پانچ سال حکومت کرے
گا اور جب اس کے اقتدار کی معیاد پوری ہو گی اس کے بھائی کے نااہل ہونے کی معیاد پوری
ہو جاۓ گی۔ وہ حکومت میں آ جاۓ گا اور چھوٹا بھائی پانچ سال کے لیے نااہل ہو جاۓ
گا۔ یہ قانون کر پٹ لوگوں کی پارلیمنٹ نے اپنے مفاد میں بناۓ ہیں۔ اور یہ کرپشن
ختم کرنے کا قانون نہیں ہے۔ صدر پاکستان حج پر گیے ہیں اور چوروں کی حکومت نے
راتوں رات قائم مقام صدر سے اس پر دستخط کر ا لیے۔ جو ان کا اپنا آدمی ہے۔ ان ہی
کر پٹ لوگوں نے 8 اپریل 2022 میں قائم مقام قومی اسمبلی کے اسپیکر کی رولنگ کو
ماننے سے انکار کر دیا تھا۔ عمران خان ایک شریف انسان کا ان غنڈوں اور بد معاشوں سے سامنا
تھا۔ جب تک ملک غنڈوں کی دادا گیروں کے کنٹرول میں ہے۔ یہ مہذب معاشرہ نہیں
ہو گا۔ ان لوگوں سے نجات حاصل کرنا معاشی اور قومی سلامتی کا سوال ہے۔