World In Turmoil
In The Court of History, The
People Are The Jury
مجیب خان
جیسا کہ 80 کی دہائی کے ٹائمز میگزین ،
نیوز ویک اور دوسرے بہت سے جریدوں کے سر ورق اکثر دہشت گردی پر ہوتے تھے۔ انہیں
دیکھ کر یہ کہا جا سکتا ہے کہ عالمی سیاست میں 70 کی دہائی کے آخری عشر ے سے دہشت
گردی کا فروغ ہورہا تھا۔ اس وقت دہشت
گردی کو روکنے پر اتنی توجہ بھی نہیں دی گی تھی۔ اور اسے اسلامی دہشت گردی بھی
نہیں کہا جاتا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ دنیا دو بلاک میں تقسیم تھی۔ اور دہشت
گردی کو مغرب اور مشرق کے درمیان سرد جنگ کی محاذ آ رائی کی سیاست میں دیکھا جاتا
تھا۔ اس لئے دہشت گردی کو عالمی امن اور سلامتی کے لئے اتنا بڑا خطرہ بھی نہیں
سمجھا جاتا تھا۔ کہ جس طرح نائین الیون کے
بعد دہشت گردی کو دنیا کے لئے ایک بڑا خطرہ قرار دیا گیا ہے۔ لیکن حیرت کی بات یہ
ہے کہ جنہوں نے دہشت گردی کو دنیا کے لئے خطرہ قرار دیا ہے ۔ دنیا میں 80 فیصد
دہشت گردی فروغ دینے کے ذمہ دار وہ خود تھے۔ ان کی غلطی نہیں بلکہ تاریخی گناہ یہ
تھا کہ افغانستان کو جہاں لوگ انتہائی مذہبی Rigid تھے۔ وہاں
سوویت یونین کے خلافMilitant اسلام کو استعمال کیا تھا۔ افغانستان میںMilitant اسلام کا سیاسی مقاصد میں استعمال ایسا تھا کہ
جیسے امریکہ کو پاکستان کے ایٹمی ہتھیار اسلامی انتہا پسندوں کے ہاتھوں میں پہنچ
جانے کا خوف ہے۔ Militant اسلام افغانستان کی بنیادوں میں اتر گیا ہے۔ نیٹو کے 27 ملک چودہ سال تک Militant اسلام کو افغانستان کی بنیادوں سے نکالنے کی کوششوں میں ناکام ہو کر واپس چلے
گۓ ۔
سوویت وزارت خارجہ نے 1980 میں
افغانستان کے بارے میں دستاویز حقائق اور عنیی شاہد رپورٹوں پر مشتمل 157 صفحات کا
ایک کتابچہ شائع کیا تھا۔ جس میں پاکستان میں دہشت گردوں کے تر بیتی کیمپوں کے مقا
مات بتاۓ گۓ تھے۔ جہاں سی آئی اے غیر ملکی جہادیوں کو تربیت دیتی تھی۔ سعودی عرب فنڈ
ز فراہم کرتا تھا۔ امریکہ انہیں ہتھیار فراہم کرتا تھا۔ لیکن حسب عادت ان حقائق کو
مستر د کر دیا جاتا تھا۔ لیکن دنیا افغانستان میں ان حقائق کو مستر د کرنے کے
نتائج آج دہشت گردی کی صورت میں بھگت رہی ہے۔ افغانستان میں اپنی ذمہ دار یاں قبول کرنے کے
بجاۓ انہیں یہ کہہ کر پاکستان کے سر تھوپ دیا ہے کہ پاکستان افغانستان میں طا لبان کی پشت پنا ہی کر رہا ہے۔ اور پاکستان
میں طا لبان کی پناہ گاہیں ہیں۔ 34 سال
قبل سوویت وزارت خارجہ نے افغانستان کے بارے جو دستاویز جاری کی تھی اس میں بھی یہ
ہی کہا گیا تھا ۔ لیکن امریکہ کا مفاد اس وقت دوسرا تھا۔ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ مفادات بدل جاتے ہیں۔
لیکن مفادات بدلنے سے ان کا بوجھ لوگوں کو اٹھانا پڑتا ہے۔ اور طاقتور ملک چھوٹے
ملکوں کو Bully کرتے ہیں۔
U.S. President Ronald Reagan meeting with eventual Afghan President Burhanuddin Rabbani |
U.S. President Ronald Reagan and the leader of The Haqqani Network Jalaluddin Haqqani |
U.S. President Ronald Reagan meets with Pakistani General Muhammad Zia-ul-Haq at the White House |
"Bin Laden was, though, a product of a monumental miscalculation by western security agencies. Throughout the 80s he was armed by the CIA and funded by the Saudis to wage jihad against the Russian occupation of Afghanistan. Al-Qaeda, literally "the database", was originally the computer file of the thousands of mujahideen who were recruited and trained with help from the CIA to defeat the Russians. Inexplicably, and with disastrous consequences, it never appears to have occurred to Washington that once Russia was out of the way, Bin Laden's organisation would turn its attention to the west. The danger now is that the west's current response to the terrorist threat compounds that original error. So long as the struggle against terrorism is conceived as a war that can be won by military means, it is doomed to fail. The more the west emphasises confrontation, the more it silences moderate voices in the Muslim world who want to speak up for cooperation. Success will only come from isolating the terrorists and denying them support, funds and recruits, which means focusing more on our common ground with the Muslim world than on what divides us."
Robin Cook - British Foreign Secretary 2001-2003
Shortly before his untimely death, former British Foreign Secretary Robin Cook told the House of Commons that "Al Qaeda" is not really a terrorist group but a database of international mujaheddin and arms smugglers used by the CIA and Saudis to funnel guerrillas, arms, and money into Soviet-occupied Afghanistan.
No comments:
Post a Comment