Tuesday, November 24, 2015

The Dilemma of Liberty, Freedom And Democracy, Death of American Moral Values, And Mourning In Paris

The Politics of Bombs And Boots
  
   
The Dilemma of Liberty, Freedom And Democracy,
Death of American Moral Values,
And Mourning In Paris

مجیب خان

U.S. Secretary of State walking through Tahrir Square during the Arab Spring
 
U.S. Senators John McCain & Joseph Lieberman in Tahrir Square (Cairo, Egypt) during the Arab Spring 
Egyptians casting their vote during the Arab Spring
 Hillary Clinton meets with Egyptian President Mohamed Morsi
Egyptian President Morsi held in jail in Cairo, Egypt 
Muslim Brotherhood supports held in an Egyptian jail 
Current U.S. Secretary of State, John Kerry, meets with Egyptian President el-Sisi
Saudi soldiers entering Bahrain
ISIS fighters in Iraq and Syria 

Syrian refugees and refugees from other nations under extreme conflict 

      اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے متفقہ طور پر قرارداد منظور کی ہے ۔ جس میں تمام ملکوں سے داعش کے خلاف ضروری اقدام کرنے کا کہا گیا ہے۔ قرارداد میں اقوام متحدہ کے چارٹر میں Chapter 7 کا کوئی حوالہ نہیں ہے۔ جس میں طاقت کے استعمال کا اختیار دیا گیا ہے۔ لیکن سلامتی کونسل کی ایسی قراردادیں پہلے سے موجود ہیں جن میں القا عدہ اور دوسرے دہشت گروپوں کے خلاف لڑائی میں یہ اختیار دیا گیا ہے۔ اور ان قرار دادوں کا یہاں اطلاق ہوتا ہے۔ سلامتی کونسل میں یہ قرارداد فرانس نے پیش کی تھی ۔13 نومبر کو پیرس میں دہشت گردوں کے حملے میں 129 فرانسیسی مارے گۓ تھے۔
      سلامتی کونسل میں دہشت گردوں سے لڑنے کے سلسلے میں یہ نہ تو پہلی قرارداد ہے اور نہ ہی یہ آخری قرارداد ہو گی۔ مسئلہ یہ ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جو جتنا زیادہ شور مچا رہے ہیں۔ وہ ہی دہشت گردی کو فروغ بھی دے رہے ہیں۔ ان کا دہشت گردی جاری رکھنے میں مفاد ہے۔ جبکہ باقی دنیا کا دہشت گردی ختم کرنے میں مفاد ہے۔ جن ملکوں کا دہشت گردی جاری رکھنے میں مفاد ہے وہ طاقتور اور دولت مند ملک ہیں۔ اور ان ملکوں نے عراق اور لیبیا کا ریاستی ڈھانچہ تباہ کر کے اس کی جگہ دہشت گردوں کے مدرسے بنا دئیے ہیں۔ اور یہاں سے دہشت گردوں کو پھر شام میں حکومت تبدیل کرنے کی خانہ جنگی میں حصہ لینے بھیجا جاتا ہے۔ جبکہ بعض دہشت گرد یمن میں سعودی عرب کے ساتھ لڑ رہے ہیں۔ اور ان کا تعلق القا عدہ سے ہے۔
     اب چھوٹے اور غریب ملک دہشت گردوں سے نجات حاصل کرنے میں سنجیدہ ہیں۔ اور وہ اس جنگ میں اپنا رول دیانت داری سے ادا کر رہے ہیں۔ لیکن ان کی پشت کے پیچھے طاقتور اور مالدار ملک نئے دہشت گرد پیدا کر رہے ہیں۔ پندرہ سال ہو گیے ہیں۔ یہ جنگ ختم نہیں ہو رہی ہے ۔ بلکہ دہشت گردی پھیلتی جا رہی ہے۔ بش انتظامیہ میں آٹھ سال تک صرف دہشت گردی ، القا عدہ ، ا سا مہ بن لادن اور بن لادن کے و ڈیو بریکنگ نیوز ہوتے رہے۔ طالبا ن  بھی اس جنگ کا حصہ قرار دئیے گۓ تھے۔ لیکن دہشت گردی ختم ہوئی تھی اور نہ ہی دہشت گردی میں کمی ہوئی تھی۔ اب اوبامہ انتظامیہ میں بھی سات سال سے دہشت گردی کے خلاف جنگ کا شور بہت ہے۔ اس جنگ میں صرف یہ بڑی کامیابی ہوئی تھی کہ ا سا مہ بن لا دن کو قتل کر دیا تھا۔ لیکن دہشت گردی زندہ تھی۔ اور نئے دہشت گردوں نے بن لادن کی جگہ لے لی ہے۔ داعش جس میں ا ب سر فہرس ہے۔ جسے القا عدہ  سے زیادہ خطرناک  بتایا جا رہا ہے۔ ان کے علاوہ ایک درجن دوسرے دہشت گروپ بھی ہیں جو عراق سے شمالی افریقہ تک Dandelion کی طرح پھیلے ہو ۓ ہیں۔ یہ گروپ کس کی مدد سے وجود میں آۓ ہیں؟ ان گروپوں کے پیچھے کونسے پوشیدہ ہاتھ ہیں؟ اور ان گروپوں کی دہشت گردی سے یورپ اور امریکہ میں لوگوں کو خوفزدہ کیا جا رہا ہے۔ اس دہشت گردی کی آ ڑ میں ان کی جمہوری آزادیاں چھنیے کی کوشش کی جا رہی  ہے۔ نائن الیون کے بعد سے یہ کوششیں کی جاری ہیں ۔ حالانکہ امریکہ اسی القاعدہ کے ساتھ شام میں داعش کے خلاف لڑ رہا ہے۔ دنیا کے اسٹیج پر دہشت گردی کے ڈرامہ کے بارے یہاں شکوک و شبہات پیدا ہونے لگتے ہیں۔ کیا امیر اور غریب میں بڑھتے ہوۓ فرق سے غریبوں کی توجہ ہٹانے کے لئے اسلامی دہشت گردی کو استعمال کیا جا رہا ہے؟ اور اسلامی دہشت گردی کو کارپوریشنوں اور کمپنیوں کے مفاد دنیا میں چین کا نظام رائج کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے؟ آخر اس لڑائی کو اتنا طول دینے کا مقصد کیا ہے ؟
      دنیا میں اکثریت ان ملکوں کی ہے جو طاقتور نہیں ہیں اور غریب  ملک ہیں۔ دہشت گردی ان کے لئے نئی نہیں ہے۔ سرد جنگ میں عیسائی اور مسلمان ملکوں میں دائیں اور بائیں بازو اور فوجی آمروں کی دہشت گردی کو فروغ دیا گیا تھا۔  بلاشبہ ان کی دہشت گردی بھی انسانیت کے لئے داعش اور القاعدہ کی دہشت گردی سے کم خطرناک نہیں تھی۔ چلی اور انڈونشیا کے لوگ اس کی گواہی دیں گے۔ عرب حکمران اس جنگ میں اپنی بقا دیکھ رہے ہیں۔ اور طاقتور اور مالدار ملک اپنے مقاصد حاصل کر رہے ہیں۔
      سامراجی اور نوآبادیاتی طاقتوں نے دنیا کے ایک ایسے انتہائی حساس خطہ کو عدم استحکام کیا ہے کہ جہاں عیسائی مسلمان اور یہودی تین بڑے مذہبی عقیدے کے لوگ آباد ہیں۔ اور عیسائی اور مسلمانوں کے اندر مختلف فرقہ بھی یہاں ہیں۔ شیطانوں نے یہاں عیسا ئیوں کو نظر انداز کر دیا تھا اور شیعاؤں کو سنیوں سے لڑا دیا۔ شیطانوں کی اس سیاست میں صدام حسین اور کرنل قدافی اب فرشتہ نظر آتے ہیں۔ جنہوں نے عیسا ئیوں سنیوں اور شیعاؤں  کو آپس میں لڑاؤ اور حکو مت کرو کی سیاست نہیں کی تھی۔ انہوں نے بلا کسی امتیاز سب کو حکومت میں شامل کیا تھا۔ ان شیطانوں نے دوسرے اسلامی ملکوں کے لئے بھی مسائل پیدا کر دئیے ہیں۔ جو مذہب کو سیاست سے علیحدہ  کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ لیکن یہ عراق میں مذہبی فرقہ پرستی کی آگ لگا کر چلے گۓ تھے۔ سابق برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیر نے یہ اعتراف کیا ہے کہ داعش کے قیام کا براہ راست عراق پر حملے سے تعلق ہے۔ جنہوں نے عراق میں لبرل اور سیکولر نظام تباہ کر کے مذہبی فرقہ پرستی کا نظام دیا تھا۔ شیعاؤں کو انہوں عراق دے دیا تھا اور سنی داعش اب اپنی خلافت قائم کرنا چاہتے ہیں۔ اور وہابی سنی اب شام مانگ رہے ہیں۔ جہاں سنی اکثریت میں ہیں۔
     یہ سیاسی تنازعہ ہے۔ جسے بموں سے حل کیا جا رہا ہے۔ جبکہ یہ حالات بموں ، مشین گنوں، ٹینکوں اور فوجی جوتوں نے پیدا کیے ہیں۔ سیاسی تنازعہ بموں اور فوجی جوتوں کی موجودگی میں کبھی حل نہیں ہوتے ہیں۔ انہیں سیاسی طریقوں سے حل کیا جاۓ۔ اس کے لئے ایک سیاسی ماحول بنایا جاۓ۔ اور سیاسی استحکام اس کا پہلا قدم ہے۔ عراق شام اور لیبیا میں استحکام  سے حالات کو بہتر بنانے  میں مدد ملے گی۔ پھر تمام فرقوں میں ایک قوم ہونے کا احساس بحال کیا جاۓ ۔ بیرونی مداخلت بند کی جاۓ۔ جس طرح اسرائیل کے خلاف گروپوں کو اسلحہ فراہم کر نے پر پابندی ہے۔ اسی طرح عراق شام اور لیبیا میں گروپوں کو اسلحہ فراہم کرنے پر پابندی لگائی جاۓ۔ بش انتظامیہ نے عراق کو اپنی پسند کا نظام دیا تھا ۔ جس کے یہ نتائج ہیں۔ لہذا اب شام لیبیا اور عراق کے لوگوں کو اپنے نظام کا خود فیصلہ کرنے کا موقعہ دیا جاۓ۔ بیرونی ملکوں کو اسے ویٹو کرنے کا اختیار نہیں ہونا چاہیے۔

     پانچ سال قبل عرب اسپرنگ میں عرب عوام کا جوش و جذبہ دیکھ کر امریکہ نے عرب حکمرانوں سے رشتہ توڑ کر عرب عوام سے نیا رشتہ بنا لیا تھا۔ عرب اسپرنگ میں عوام لبرٹی ، فریڈم اور ڈیموکریسی کے لئے قربانیاں دے رہے تھے۔ یہ دیکھ کر امریکہ نے بھی اپنے ایک قدیم اور وفا دار اتحادی صدر حسینی مبارک کی قربانی دے دی تھی۔ عرب اسپرنگ کامیابی سے آگے بڑھ رہا تھا۔ اور یہ عرب دنیا کا نقشہ بدل رہا تھا۔ عرب حکمران اور اسرائیل اس وقت عرب اسپرنگ کو اپنے لئے ایران سے زیادہ بڑا دشمن سمجھتے تھے۔ عرب حکمرانوں نے یہ دیکھ کر اسرائیل کے ذریعے امریکہ کا Behavior تبدیل کرنے کے لئے واشنگٹن میں ایک طاقتور لابی Hire کر لی ۔ تقریباً ساٹھ ملین ڈالر خرچ کیے ۔ امریکہ کا Behavior ٹھیک ہو گیا ۔ عرب عوام کوDump کر دیا اور مکہ جا کر عرب اسپرنگ سے امریکہ نے توبہ کر لی۔ اور مطلق العنان عرب حکمرانوں سے رشتہ پھر جوڑ لیا۔ لبرٹی ، فریڈم اور ڈیموکریسی کے پیاسے عرب عوام امریکہ کے اس Behavior سے سخت مایوس ہوۓ تھے۔ اور یہ مایوس عرب اب داعش کے ساتھ ہیں۔ اور مہذب دنیا کے بموں کا سامنا کر رہے ہیں۔ امریکہ کے اس Behavior کی وجہ سے شام Cross Fire میں آگیا ہے۔ اور یہ المیہ ہے جو دہشت گردی بن گیا ہے۔                                                                               

No comments:

Post a Comment