وار زون مڈل ایسٹ
The Nobel War Award For Saudi
Arabia,
The Nobel Peace Prize For
America,
And The Allies of War And
Peace
مجیب خان
القا
عدہ کے خلاف جنگ کے عروج پر یہ اسلامی ریاست کہاں سے نازل ہوئی ہے۔ کہ القا عدہ کو
سب بھول گۓ ہیں۔ اور اسلامی ریاست کے خلاف جیسے تیسری عالمی جنگ شروع ہو گی ہے۔ عراق
اور افغان جنگ کے سابق کمانڈ ڈ یوڈ پٹیرس
جو سی آئی اے کے ڈائریکٹر بھی رہے چکے ہیں۔ گزشتہ ماہ انہوں نے سینٹ کی آ ر مڈ سرو
سسز کمیٹی میں کہا ہے کہ امریکہ کو اسلامی ریاست سے لڑنے کے لئے القا عدہ کو
ہتھیار فراہم کرنا چاہیے ۔ ڈیوڈ پیٹرس سی آئی اے کے ڈائریکٹر تھے لہذا وہ اس سارے
ڈرامہ کے حقائق سے اچھی طرح آگاہ ہوں گے۔ جب ہی وہ امریکہ کو القا عدہ کے ساتھ مل
کر اسلامی ریاست کے خلاف لڑنے کا مشورہ دے رہے ہیں۔ عرب دنیا کا ہر ملک ایک اسلامی
ریاست ہے۔ اسلامی ریاست کا خاتمہ کرنے کا مطلب کیا ان سب اسلامی ریاستوں کو ایک
ایک کر کے ختم کیا جاۓ گا ؟ عراق اور لیبیا تقریباً ختم ہو چکے ہیں۔ شام بھی
تقریباً ختم ہونے کی آخری سانس لے رہا ہے۔ جبکہ کچھ اسلامی ریا ستیں اسلامی ریاست کے خلاف
جنگ میں تباہ ہوتی نظر آر ہی ہیں۔ بڑی بڑی طاقتیں اگر اسلامی ریاست سے لڑ رہی ہیں
تو اس کا مطلب ہے کہ اسلامی ریاست سوویت ایمپائر سے بھی کہیں بڑی ایمپائر ہے۔
اوبامہ
انتظامیہ سے سوال ہے کہ سچ سچ بتایا جاۓ
کہ اسلامی ریاست کس کی ایجاد ہے۔ اسلامی ریاست کا بانی کون ہے ۔ جو عرب حکمران عرب
اسپرنگ سے زیادہ خوش نہیں تھے۔ اور عرب دنیا میں Status quo کی سیاست کو ختم کرنے کے خلاف تھے۔ کیا اسلامی ریاست ان کے Status quo کے مفادات کی تکمیل کر رہی ہے؟ اسلامی ریاست کے خلاف جنگ میں سب سے زیادہ
لوگ وہ مارے گۓ ہیں جو عرب اسپرنگ میں فرنٹ لائن پر تھے۔ جو لوگ اسلامی ریاست اور
خانہ جنگی سے خوفزدہ ہو کر بھاگ رہے ہیں۔ انہیں جیسے یہ پیغام دیا جا رہا ہے کہ
انہیں یہاں عرب حکمرانوں کے Status quo کی سیاست میں رہنا ہو گا۔ آزادی
اور جمہوریت کے لئے انہیں یورپ کا رخ کرنا چاہیے ۔ شام میں حکومت تبدیل ہونے سے کیا
شام بہت بڑا جمہوری ملک بن جاۓ گا ؟ امریکہ اور برطانیہ جیسی طاقتیں عراق کو ایک
مثالی جمہوری معاشرہ بنانے میں بری طرح ناکام ہوئیے ہیں۔ ایسی صورت میں سعودی عرب
اور متحدہ عرب امارات شام میں اسد حکومت کو اس لئے ہٹانا چاہتے ہیں کہ وہ شام میں
جمہوریت لائیں گے؟ انہوں نے مصر میں جمہوریت اور آزادی کو اس طرح تباہ کیا ہے کہ
جیسے شام کو تباہ کر دیا ہے۔
بش
انتظامیہ میں اور پھر اوبامہ انتظامیہ کے پہلے چار سال میں انتظامیہ کے اعلی حکام
عرب عوام کو آزادی جمہوریت اور قانون کی
بالا دستی کے پیغام دیتے تھے۔ اس موضوع پر عرب یونیورسٹیوں میں نوجوانوں کو لیکچر
دیتے تھے ۔ اپنے خطاب میں وہ آزادی اور جمہوریت کے لفظ چھتیس مرتبہ استعمال کرتے
تھے ۔ عرب حکمران آزادی اور جمہوریت کے پیغام سن کر بڑے مایوس ہوتے تھے۔ مصر میں انہوں
نے آزادی اور جمہوریت کا تختہ الٹ دیا ۔ جس کے بعد امریکہ نے عرب حکمرانوں کی
سرزمین پر آزادی جمہوریت اور انسانی حقوق کی با ت کرنے سے جیسے توبہ کر لی ہے۔ اور
عرب عوام بڑے مایوس ہوۓ ہیں۔ امریکہ کا موضوع اب ISIS ,ISIL ,IS
,Daesh کے خلاف جنگ ہے۔ اور عرب نوجوانوں کے سامنے اب دو راستے ہیں۔ اسلامی ریاست
کے خلاف لڑیں یا اسلامی ریاست کے ساتھ لڑیں۔ اور یہ طویل جنگ ہو گی اور امریکہ
کا آئندہ صدر بھی یہ جنگ لڑے گا؟
لیکن
یہ سوال کوئی نہیں کر رہا ہے کہ اسلامی ریاست کس کی ایجاد ہے۔ نا ئین الیون کے بعد سے عرب سرزمین پر ہر ملک امریکہ کے
انٹیلی جینس ریڈار پر ہے ۔ اور اس سارے خطہ میں القا عدہ اور دوسرے اسلامی انتہا
پسند گروپوں کا تعاقب کیا جا رہا ہے۔ تقریباً ہر عرب ملک کی انٹیلی جینس کے ساتھ
امریکہ کی انٹیلی جینس کے قریبی رابطہ ہیں۔ عرب ملکوں میں اسلامی نظریاتی تھے لیکن
یہ اسلامی دہشت گرد نہیں تھے۔ تاہم انہیں واچ کیا جا رہا تھا۔ پھر امریکہ نے عراق
میں دنیا کا سب سے بڑا سفارت خانہ بھی تعمیر کیا ہے۔ جس کی تعمیر پر 800 سو ملین ڈالر خرچ کیے تھے۔ عرب
دنیا کے وسط میں اتنے بڑے سفارت خانہ تعمیر کرنے کا مقصد یہ تھا کہ یہاں سے اس خطہ
میں انتہا پسندوں کی سرگرمیوں کو واچ کیا جاۓ گا۔ پھر Surveillance کا ایک نظام بھی یہاں قائم کیا گیا تھا۔ لیکن دنیا پھر کیا دیکھتی ہے کہ
عراق میں ISIS اس طرح داخل ہوتی ہے کہ جس طرح اینگلو امریکہ کی فوجیں عراق میں داخل ہوئی
تھیں۔ ان کے پاس فوجی ٹرک تھے۔ ٹینک اور توپیں بھی تھیں۔ Toyota
ٹرکوں کی ایک فلیٹ تھی جو بالکل نئے تھے۔ اور ISIS کے جہادی ان
ٹرکوں پر سوار تھے ۔ ہر طرح کا اسلحہ ان کے ہاتھوں میں تھا۔ اور کچھ ہی روز میں
موصل پر ISIS کا
قبضہ ہو جاتا ہے۔ عراق میں مہم جوئیوں کے بعد ISIS شام میں آ جاتی
ہے۔ اور شام میں حکومت کے باغیوں کے ساتھ اسد حکومت کے خلاف لڑنا شروع کر دیتی ہے۔
شام میں گھمسان کی دہشت گردی ہو رہی تھی۔ ان کی املاک اور تاریخی مقامات تباہ کیے
جا رہے تھے ۔ لوگ روزانہ مر رہے تھے۔ شامیوں کی زندگیاں Miserable ہو
گی تھیں۔ مغربی دنیا کے سامنے اسٹیج پر جیسے یہ ڈرامہ ہو رہا تھا۔ صدراوبامہ اور
دوسرے اعلی امریکی حکام صرف یہ کہتے رہے کہ اسد حکومت کے دن بہت تھوڑے ہیں۔ بشار
السد کو جانا ہے۔ اسد اب حکومت میں نہیں رہے سکتے ہیں۔ لیکن شام میں تباہی ہو رہی
تھی۔ لوگ مر رہے تھے۔ انہیں اور ان کے ملک کو بچا نے کی اتنی باتیں نہیں ہو رہی
تھیں۔ کہ جتنا ISIS سے
لڑنے پر زور دیا جا رہا تھا۔ شام میں انسانیت کی ہلاکتیں اور تباہی دیکھ کر دنیا
باسنیا اور رونڈا کی خانہ جنگی بھول گیے ہیں۔ حالانکہ اس وقت امریکہ اور مغربی
طاقتوں نے یہ عہد کیا تھا کہ آئندہ انسانیت کے خلاف اس تاریخ کو دوہرانے کی اجازت
نہیں دی جاۓ گی۔ لیکن شام میں مغربی طاقتیں انسانیت کے خلاف جرائم کرنے والوں کو
ہتھیار تربیت اور فنڈ فراہم کر رہی ہیں۔
مفادات دلوں کو جب پتھر بنا دیتے ہیں تو انسانیت کا درد دلوں میں نہیں رہتا
ہے ۔ اور انسانیت کو صرف مفادات کے رشتہ سے دیکھا جاتا ہے۔ شام، عراق، لیبیا، یمن
میں مفادات کو انسانیت پر برتری دی گی ہے۔ انسانیت کو Miserable کر کے اپنے مفادات حاصل کیے جا ر ہے۔ امریکہ میں نائین الیون کو دہشت
گردوں نے ور لڈ ٹریڈ سینٹر کے چار ٹاور تباہ کر دیۓ تھے۔ اور اس دہشت گردی کے
نتیجے میں تین ہزار امریکی مارے گیے
تھے۔ یہ مناظر دیکھ کر دنیا رو پڑی تھی۔
دنیا نے اپنے سارے اختلافات بھلا دئیے تھے ۔ اور دہشت گردی کے خلاف امریکہ کے ساتھ
کھڑے ہو گۓ تھے۔ لیکن شام میں لوگوں کے گھروں کو اسی طرح تباہ کیا گیا ہے کہ جیسے
ور لڈ ٹریڈ سینٹر کو تباہ کیا تھا۔ ان کے شہر کھنڈرات ہو گیے ہیں۔ لیکن امریکہ
باغی دہشت گردوں کے ساتھ کھڑا ہے۔ جن میں اکثریت غیرملکی دہشت گردوں کی ہے۔ انہیں
مسلسل ہتھیار دئیے جا رہے ہیں۔ انہیں تربیت بھی دی جا رہی ہے۔ انہیں فنڈ ز بھی
دئیے جا رہے ہیں۔ جبکہ نائین الیون کے بعد صدر بش نے یہ کہا تھا کہ دہشت گردوں کو
جو تربیت دے گا۔ انہیں فنڈ دے گا۔ انہیں پناہ دے گا۔ وہ بھی دہشت گرد سمجھا جاۓ گا۔ یہ اب کیا امریکہ کی پالیسی نہیں ہے ؟ اور اگر
ہے تو کیا شام میں اس پالیسی کا اطلاق نہیں ہوتا ہے ؟
اتنے
بڑے پیمانے پر انسانی تباہی اور پانچ سال بعد آخر کار امریکہ کو شام کا تنازعہ حل
کرنے باغیوں کے ساتھ اس ٹیبل پر آنا پڑا ہے جس کے لئے دنیا کے انسان دوست شام میں
تین ہزار لوگ مرنے اور چند املاک تباہ ہونے کے بعد سے اصرار کر رہے تھے۔ جب امریکہ
کو یہ یقین ہو گیا تھا کہ شام کا مسئلہ ایک دن سیاسی مذاکرات ہی سے حل ہو گا ۔ تو
امریکہ نے اتنی تاخیر کیوں کی تھی ؟ اس میں پہل کر نے میں کون رکاوٹ تھا ؟ کیا
سعود یوں کو Please
کرنے کے لئے شام کے تنازعہ کو صرف جنگ سے حل کرنا تھا ؟ لیکن ISIS بھی شام کا مسئلہ حل کرنے کی جنگ
لڑ رہی ہے۔ اختلاف کیا ہے ؟ ایک چھوٹے سے ملک میں بیک وقت کتنی اور جنگیں لڑی
جائیں گی ؟
No comments:
Post a Comment