Thursday, November 19, 2015

The People Are Suffering, Not The “DECIDER”

Globalization of Terror

The People Are Suffering,
Not The “DECIDER”

مجیب خان




U.S. Senator John McCain (R-AZ) meets with Libyan rebels who were supportive to the Islamic State

U.S. Senators John McCain (R-AZ) & Lindsey Graham (R-SC) meeting with ISIS Commander in Libya

Famous French Philosopher Bernard Henri Levy posing with disguised Libyan rebels during the Libyan Civil War

Bernard Henri Levy posing with more Libyan rebels 

Qaddafi's hired militia men came from different nations across northern Africa 

Paris, France  mourning the loss of the innocent people killed by ISIS terrorists - November, 2015

      جنوری میں دہشت گردوں نے پیرس میں  حملہ کیا تھا۔ جس میں 17 بے گناہ لوگ مارے گیے تھے ۔ اس دہشت گردی کی دنیا نے شدید مذ مت کی تھی۔ اور دہشت گردی کے خلاف سخت اقدامات کرنے کا عزم کیا تھا۔ عالمی برادری نے فرانس کے لوگوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا تھا۔ پیرس میں دہشت گردی کے خلاف مارچ ہوا تھا۔ جس میں فرانس کے صدر جرمنی کی چانسلر، افریقہ کے سربراہوں، فلسطینی رہنما محمود عباس، اسرائیل کے وزیر اعظم نے شرکت کی تھی۔ اب دس ماہ بعد پیرس میں دہشت گردوں کا پہلے سے زیادہ بڑا حملہ ہوا ہے ۔ جس میں129 لوگ مارے گیے ہیں۔ اور اس مرتبہ دہشت گردوں نے پیرس میں چھ مختلف مقام پر حملہ کیا ہے - سوال یہ نہیں ہے کہ حملہ کیسے ہوا ہے۔ سوال اب یہ ہے کہ دس ماہ میں فرانس کی حکومت نے کیا کیا ہے۔ اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکی انتظامیہ دنیا میں کیا کر رہی ہے؟
      ان دس ماہ میں فرانس نے سعودی عرب کو کھربوں ڈالر کا اسلحہ فروخت کرنے کا معاہدہ کیا ہے۔ فرانس یمن کے ساتھ سعودی عرب کی جنگ میں اس کی مدد کر رہا۔  شام کے بحران پر فرانس سعودی عرب کے موقف کی حمایت کر رہا تھا۔ د مشق حکومت کے خلاف لڑنے والوں کے بیک گراؤنڈ کا فرانس کی حکومت کو علم تھا ۔  یہ کہنا مبالغہ آ رائی ہے کہ شام کی خانہ جنگی میں صرف اسد حکومت نے ڈھائی لاکھ شامیوں کو ہلاک کیا تھا۔ بلکہ داعش، القاعدہ اور نام نہاد باغیوں نے بھی انسانیت کے خلاف سنگین جرائم کیے ہیں ۔ شام کی حکومت کو ریاست کا دفاع کرنے کا اتنا ہی حق ہے کہ جتنا امریکہ کو ہے ۔ فرانس کو ہے اور برطانیہ کو ہے۔ دہشت گردوں نے پیرس میں حملہ کر کے 129 بے گناہ شہریوں کو ہلاک کیا تھا۔ فرانس کی حکومت اب بھر پور طاقت سے ان دہشت گردوں کا تعاقب کر رہی ہے۔ امریکہ پر نائن ا لیو ن کا حملہ ہوا تھا۔ امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا تھا۔ حالانکہ افغانوں کا اس دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ اور پھر عراق پر حملہ کیا تھا۔ ا بو غریب جیل، گوتانوموبے کیمپ، بگرام جیل میں ان کے ساتھ کیا سلوک کیا گیا تھا۔ اور اب امریکہ برطانیہ اور فرانس شام کی حکومت سے دہشت گردوں سے محبت سے پیش آنے کی توقع کرتے ہیں۔ جبکہ شام میں حکومت کے خلاف لڑنے والوں میں ایک بڑی تعداد غیر ملکی جہادیوں کی ہے۔ انہیں ہتھیار اور فنڈ ز بھی غیر ملکی فراہم کر رہے ہیں۔ اگر شام کی جگہ سعودی عرب ہوتا تو سعودی حکومت ان کے ساتھ کس طرح پیش اتی ؟ امریکہ، برطانیہ اور فرانس کا مسئلہ یہ ہے کہ یہ اپنے مفادات کے مطابق اصولوں کا تعین کرتے ہیں۔ اور اصول جب مفادات میں Fit نہیں ہوتے ہیں تو یہ قانون اور اخلاقی قدروں کی باتیں کرنے لگتے ہیں۔
      جنوری میں پیرس میں دہشت گردوں کے حملے کے بعد دس ماہ میں امریکہ کی قیادت میں دہشت گردی کے خلاف مہم میں کتنی کامیابی ہوئی ہے ؟ دہشت گردی ختم کرنے میں کوئی کامیابی نہیں ہوئی ہے۔ صرف باتیں اور شور بہت زیادہ ہے۔ دس ماہ میں یورپ بھر سے مسلم نوجوان داعش میں بھر تی ہو رہے تھے۔ اور شام میں لڑنے جا رہے  تھے۔ امریکی میڈ یا میں اس کی خبریں جیسے داعش میں بھرتی کا Ad  ہوتی تھیں۔ ان دس ماہ میں امریکہ نے بھی سعودی عرب اور خلیج کے حکمرانوں کو کھربوں ڈالر کا اسلحہ فروخت کیا ہے۔ یمن میں جنگ کا ایک نیا محاذ کھولنے پر امریکہ نے سعودی عرب کی پشت پنا ہی کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اور اس جنگ میں امریکہ اور فرانس سعودی عرب کو کھربوں ڈالر کا نیا اسلحہ فروخت کر رہے ہیں ۔ اس جنگ کو 9 ماہ ہو گۓ ہیں۔ لیکن امریکہ کی دہشت گردی کے خلاف جنگ کی طرح یمن میں سعود یوں کی جنگ بھی کسی نتیجے پر نہیں پہنچ رہی ہے۔ غریبوں کے ساتھ جنگ میں دولت مند Loser نظر آ رہے ہیں۔ اور دس ماہ میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں صرف یہ پرو گریس ہوئی ہے۔
      دہشت گردی کے خلاف مہم اور شام کی خانہ جنگی میں امریکہ کا رول بڑا Dubious ہے۔ 80 کے عشر ے میں جس طرح افغان مجاہدین کو تربیت دی گی تھی ۔ بالکل اسی طرح شام میں حکومت کے خلاف باغیوں کو ارد ن میں سی آئی اے کے کیمپوں میں تربیت دی جا رہی تھی۔ انہیں اسلحہ فراہم کیا جا رہا تھا۔ سعودی عرب اور خلیج کی حکومتیں انہیں فنڈ ز دے رہی تھیں۔ یورپ بھر سے جو جہادی یہاں داعش کے ساتھ  اسد حکومت کے خلاف لڑنے آۓ تھے۔ ان میں کتنے پہلے ا رد ن میں سی آئی اے کے کیمپوں میں تربیت لینے گۓ تھے۔ پیرس میں جن دہشت گردوں نے چھ مقا م پر حملے کیے ہیں ۔کیا انہوں نے بھی ارد ن میں ان کیمپوں میں تربیت لی تھی۔ جب بھی یہ سوال ہوتا تھا کہ امریکہ اسلامی جہادیوں کو تربیت دے رہا ہے۔ تو کہا جاتا تھا کہ یہ ماڈریٹ ہیں۔ لیکن یہ ماڈریٹ پھر داعش میں شامل ہو جاتے تھے۔ اور اب داعش میں جہادیوں کی تعداد 80 ہزار سے زیادہ بتائی جا رہی ہے۔
      فرانس میں دہشت گردی کے واقع کی سابق صدر نکو لاس سر کو زی بھی ذمہ دار ہے۔ جس نے برنا رڈ ہنری لیو ی کے مشورے پر لیبیا میں صدر قدا فی کو اقتدار سے ہٹانے کا فیصلہ کیا تھا۔ فرانس کے لوگوں نے برنارڈ ہنری لیوی کو منتخب نہیں کیا تھا ۔اور نہ ہی وہ پارلیمنٹ کا رکن تھا۔ پھر وہ کس حیثیت سے سرکوزی حکومت سے اپنے ذاتی مفاد کے فیصلے کروا رہا تھا۔ لیبیا میں حکومت تبدیل کروانے میں برنارڈ لیو ی کا کیا مفاد تھا۔ برنارڈ لیو ی لیبیا میں قدافی حکومت کے جن باغیوں کے ساتھ کھڑا تھا ۔ وہ لیبیا میں اسلامی ریاست قائم کرنا چاہتے تھے۔ صدر قدافی کا یہ بیان ریکارڈ پر ہے جس میں صدر قدافی نے امریکہ فرانس اور برطانیہ کو متنبہہ کیا تھا کہ ان کی حکومت کے مخالفین کا تعلق القاعدہ سے ہے۔ اور یہ لیبیا میں اسلامی ریاست قائم کرنا چاہتے ہیں۔ امریکہ برطانیہ اسلامی دہشت گردی کے خلاف دنیا کو لیکچر دیتے تھے ۔ لیکن ان پر حکومتیں تبدیل کرنے کا اس قدر نشہ طاری تھا کہ انہوں نے قدافی کو اقتدار سے ہٹا کر لیبیا القاعدہ کو دے دیا تھا۔ غیر قانونی فیصلے اس طرح کر رہے تھے کہ جیسے وہ دنیا کے خدا تھے۔ دہشت گردی بھی جاری تھی اور دہشت گردی کے خلاف جنگ بھی جاری تھی۔ نکولاس سرکوزی اب اقتدار میں نہیں ہیں۔ جارج بش بھی اقتدار میں نہیں ہیں ۔ ٹونی بلیر بھی اقتدار میں نہیں ہیں ۔ لیکن ان کے فیصلے  ہزاروں اور لاکھوں لوگوں کی زندگیوں کو ابھی تک بری طرح متاثر کر رہے ہیں۔  صدر اوبامہ بھی اب ان رہنماؤں  میں شامل ہو گۓ ہیں ۔ پندرہ سال ہو گۓ ہیں لیکن دہشت گردی میں کوئی کمی نہیں آئی ہے۔ کینسر کا علاج ڈاکٹر جب ایسی دواؤں سے کرنے لگتا ہے ۔ جن سے کینسر پھیلنے لگتا ہے ۔ ڈاکٹر دوا بدل دیتا ہے یا مریض ڈاکٹر بدل دیتا ہے۔ لیکن دہشت گردی میں مبتلا مریض ڈاکٹر بدلنا چاہتے ہیں اور نہ ہی ڈاکٹر علاج کے طریقے بدلنا چاہتے ہیں۔

  

No comments:

Post a Comment