Monday, November 16, 2015

Warmonger: The Politics of Violence and Counter-Violence

           
No Justice, No Peace

Warmonger:
The Politics of Violence and Counter-Violence

مجیب خان


Invasion of Iraq (2003)

        اسرائیلی وزیر اعظم نتھنا یا ہو ایسے وقت امریکہ آۓ تھے کہ انہیں تالیوں اور خوبصورت خیر مقدمی لفظوں سے زیادہ  دینے کے لئے کچھ نہیں تھا۔ وزیر اعظم نتھنا یا ہو ایران کے ایٹمی پروگرام پر سمجھوتہ سبوتاژ کرنے میں ناکام  ہو گیے تھے۔ اور اوبامہ انتظامیہ کے شام میں تمام منصوبے اور مقاصد ناکام ہو گۓ تھے۔ روس کی فوجیں شام میں آ گی تھیں۔ اور امریکہ کے پسندیدہ باغیوں کے خلاف مورچے سنبھال لئے تھے جو اسد حکومت سے لڑ رہے تھے ۔ ادھر مشرق وسطی کا ہر ملک انتشا ر اور عدم استحکام کی آگ میں تھا۔ اور اسرائیل میں اس کی تپش محسوس کی جا رہی تھی۔ حما س اور حزب اللہ بھی اس سے استثناء نہیں تھے۔ اسرائیل خواہ کتنا ہی طاقتور ہے۔ ہر طرح کے مہلک ہتھیار اسرائیل کے پاس ہیں ۔ لیکن ہمسایہ میں جب ہر طرف آگ کے شعلے بھڑک رہے ہوتے ہیں تو ایسی صورت میں طاقت اور ہتھیار بھی کام نہیں کرتے ہیں۔ مہا تما گاندھی جیسے سیاسی مفکروں نے امن کو اپنی تحریکوں کی طاقت  قرار دیا تھا۔ اور تشدد کی سیاست کی ہمیشہ مخالفت کی تھی۔ پرامن طریقوں سے جب مقاصد میں کامیابی ہوتی ہے۔ تو یہ پائدار کامیابی ہوتی ہے۔ اور امن کامیابیوں پر غالب رہتا ہے۔ اسرائیل اب Dead End پر کھڑا ہے۔ اسرائیل کے اطراف میں تشدد انتشار اور عدم استحکام کی آگ کے شعلے ہیں۔ اور اسرائیل کے لئے اس سے نکلنے کا راستہ نہیں ہے۔ امریکہ تشدد کے ذریعے عراق میں تبدیلیاں لایا ہے۔ نتیجہ یہ نکلا ہے کہ تبدیلیاں ابھی تک پائدار ثابت نہیں ہوئی ہیں۔ عراق اپنی تاریخ کے بدترین انتشار میں گھرا ہوا ہے۔ اسی طرح تشدد کے ذریعے لیبیا میں تبدیلیاں آئی تھیں ۔ نتیجہ یہ ہے لیبیا دہشت تشدد اور انتشار میں پھنسا ہوا ہے۔ مشرق وسطی میں جہاں بھی تشدد پسندوں کی حمایت میں حکومتیں تبدیل کی گی ہیں۔ وہاں دہشت گردوں کا نظام آگیا ہے۔ ان کا نظام ڈکٹیٹروں کے نظام سے زیادہ خوفناک ہے۔ اور دنیا سے کہا جا رہا ہے کہ ہمیں اب ان سے لڑنا ہو گا۔ اسرائیل یہ نہیں چاہے گا کہ شام میں اسلامی انتہا پسند آ جائیں ۔ لیکن اسرائیل یہ بھی نہیں چاہتا ہے کہ بشا ر السد اقتدار میں رہیں اور یہاں ایران کا اثر بڑھ جاۓ ۔اور ایران پھر حزب اللہ کے ذریعے حما س کو ہتھیار فراہم کرے گا۔ اور ایران یہ نہیں چاہے گا کہ شام میں داعش یا وہابی آ جائیں اور پھر لبنا ن پر قبضہ کرنے کے لئے وہاں ایک نئی خانہ جنگی شروع ہو جاۓ۔ بہرحال اسرائیل کو ہر صورت میں مشکل خطروں کا سامنا ہے ۔ تاہم یہ خطرے ایران حزب اللہ اور حما س نے اسرائیل کے لئے پیدا نہیں کیے ہیں۔ یہ خطر ے Neo Cons نے اسرائیل کے لئے پیدا کیے ہیں۔ جن پر عرب دنیا میں Regime Change  کرنے  کا نشہ طاری تھا۔ جو 90 کے عشر ے سے اس کے منصوبے بنا رہے تھے۔ عرب دنیا کے حالات اب  Neo Cons  کے عزائم  کے مطابق سامنے آ رہے ہیں۔ جن کا اسرائیل بھی سامنا کر رہا ہے۔
      امریکہ کے تھینک تھینکس ، ٹی وی ٹاک شو پنڈت ، اسرائیل سب عراق میںRegime Change   سے کم  کوئی دوسری بات کرنے اور سننے  کے لئے تیار نہیں تھے۔ یہ 1930 کی  Appeasement  پالیسی کی دلیلیں دے کر صدام حسین سے سمجھوتہ کرنے کی سخت  مخالفت کرتے تھے۔ صدام حسین نے عراق میں مہلک ہتھیاروں کے بارے میں جو Dossier  دیا تھا۔ اسے جھوٹ کا پلندا کہہ کر ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا تھا۔ یہ لوگ تھے جنہوں نے یہاں اسلامی ریاست کے لئے بنیاد رکھی تھی۔ داعش اب ان کی بنیادوں پر کھڑی ہے۔ اصل مجرم تو وہ ہیں جنہوں نے عراق میں حکومت تبدیل کی تھی اور اسلامی ریاست کے لئے بنیاد رکھی تھی ۔  داعش تو ثانوی مجرم ہے۔
       صدام حسین بدترین ڈکٹیٹر تھے۔ لیکن عراق جس خطہ میں تھا اس میں ان کا رول بڑا اسٹرٹیجک  نوعیت کا تھا۔ انہوں نے سعودی عرب کو توازن میں رکھا تھا۔ اور ایران کو Defensive رکھا تھا۔ اسلامی انتہا پسندوں کو قابو میں رکھا تھا۔ یہ ہی وجہ  تھی کہ ایران میں اسلامی انقلاب کے بعد عرب دنیا میں ا سلا مسٹ کا عروج نہیں ہو سکا تھا۔ حالانکہ اس وقت یہ کہا جا رہا تھا کہ ایران میں اسلامی انقلاب کے عرب دنیا کی سیاست پر گہرے اثرات ہوں گے۔ اور عرب ملکوں میں اسلامی تحریکوں کو ایران کے اسلامی انقلاب سے  نیا حوصلہ ملے گا۔ لیکن اسلامی انقلاب ایران کی سرحدوں میں رہا تھا۔ جبکہ حما س  اور حزب اللہ ایران کے اسلامی انقلاب کی پیداوار نہیں تھے۔ یہ تنظیمیں  لبنا ن اور فلسطین پر اسرائیلی فوجی قبضہ کے نتیجے میں وجود میں آئی تھیں ۔ جس طرح  ایران پی ایل او کی حمایت کرتا تھا اسی طرح ایران نے حما س اور حزب اللہ کی مدد کی تھی۔ لیکن عرب دنیا میں حالات کبھی اتنے خراب نہیں تھے کہ جتنے اس وقت خراب ہیں۔۔
      عرب دنیا میں حکومتوں کا سیاسی Set Up  ایسا برا نہیں تھا۔ اسے پرامن طریقوں سے بہتر بنایا جا سکتا تھا۔ عراق، شام اور لیبیا سیکو لر تھے۔ عراق اور شام کے لئے سیکو لر ہونا ضروری تھا۔ کیونکہ شیعہ سنی عیسائی اور دوسرے چھوٹے فرقہ یہاں صدیوں سے آباد تھے اور ان سب کی بقا صرف سیکو لر نظام میں تھی ۔ اسی طرح لیبیا میں سنی اکثریت تھی لیکن شیعہ اور عیسائی بھی تھے۔ لیبیا ایک سیکو لر سوشلسٹ  جمہوریہ تھا۔ ایک قبائلی معاشرے میں سیکو لر سوشلسٹ جمہوریہ خاصا کامیاب تجربہ تھا ۔ چالیس سال اس نظام نے لیبیا کو استحکام دیا تھا۔ اور لیبیا نے اس نظام میں اقتصادی اور معاشی ترقی بھی کی تھی۔ جمال عبدالنا صر کے دور میں مصر بھی سیکو لر سوشلسٹ جمہوریہ تھا۔ لیکن حسینی مبارک کے دور میں مصر مغربی ماڈریٹ ہو گیا تھا۔ ارد ن بھی ماڈریٹ تھا۔ جبکہ سعودی عرب اور خلیج کی ریاستیں نظریاتی اور مذہبی قدامت پسند تھیں ۔ ترکی ایک ماڈریٹ جمہوری ملک تھا۔ سیکو لر عراق اور شام کے ساتھ اس کی سرحدیں ملتی تھیں۔ لبنا ن میں شیعہ سنی اور عیسائی تھے ۔ لبنا ن انتہائی پرامن اور ماڈریٹ ملک تھا۔ بیرو ت کو مشرق وسطی کا پیرس کہا جاتا تھا۔ لیکن فلسطینی مہاجرین کی یہاں بڑی تعداد میں آمد اور اسرائیل کی مداخلت کے نتیجے میں لبنا ن میں خانہ جنگی شروع ہو گی تھی۔ اور لبنا ن عراق بن گیا تھا۔ یہ خانہ جنگی تقریباً  دس سال رہی تھی۔ دو لاکھ  لبنا نی اس خانہ جنگی میں مارے گیے تھے۔  لبنا ن کے با رے میں بھی یہ کہا جا رہا تھا کہ لبنا ن مذہبی بنیاد پر تقسیم ہو جاۓ گا۔ عراق اور شام بھی بیرونی مداخلت کے نتیجے میں اب خوفناک خانہ جنگی کا سامنا کر رہے ہیں۔ سعودی عرب اور خلیج کے حکمرانوں کے کھربوں ڈالر شام کی خانہ جنگی میں لگے ہوۓ ہیں۔ جبکہ امریکہ کے ہتھیاروں کی صنعت کے لئے یہ خانہ جنگی ایک بڑی مارکیٹ ہے۔
      سرد جنگ ختم ہونے کے بعد مشرقی یورپ کے ملکوں میں جس طرح سیاسی تبدیلیاں آئی تھیں ۔ ان ملکوں میں امریکہ برطانیہ اور فرانس اگر اس طرح مداخلت کرنے لگتے تو شاید یہاں بھی صورت حال عراق  شام اور لیبیا کے حالات سے مختلف نہیں ہوتی۔ اندرونی سیاسی تنازعہ میں بیرونی مداخلت جہادیوں کی ہوتی ہے یا سامراجی اور نوآبادیاتی طاقتیں مداخلت کرتی ہیں۔ ان کی مداخلت انسانیت کے لئے  صرف تباہی ثابت ہوئی ہے۔ اس سے جہادیوں نے کچھ حاصل کیا ہے۔ اور نہ ہی سامراجی اور نوآبادیاتی طاقتوں نے کچھ حاصل کیا ہے۔ دنیا کے لئے مسائل میں صرف اضافہ ہوا ہے۔ افغانستان میں جہادیوں نے مداخلت کی تھی ۔ سامراجی اور نوآبادیاتی ملکوں نے مداخلت کی تھی۔ لیکن 35 سال ہو گیے ہیں دنیا ابھی تک ان کی اس مداخلت کے نتائج بھگت رہی ہے۔

      عراق میں اینگلو امریکہ نے فوجی مداخلت کی تھی۔ ان کے حملے سے ہزاروں اور لاکھوں عراقیوں کی زندگیاں برباد ہو گی ہیں۔ ان کے خاندان تباہ ہو گیے ہیں۔ ان کے بچوں کا مستقبل تاریک ہو گیا ہے۔ شام میں وہابی مداخلت کر رہے ہیں۔ سلا فسٹ مداخلت کر رہے ہیں۔ مغربی Civilized  مداخلت کر رہے ہیں۔ ان سب کی مداخلت نے شام میں انسانیت کو تہس نہس کر دیا ہے۔ بے گناہ شا میوں کے ملک کو کھنڈرات بنا دیا ہے۔ اسی طرح لیبیا میں Civilized West  نے فوجی مداخلت کر کے قد ا فی کو اقتدار سے ہٹایا تھا۔ عراق لیبیا اور شام کے لوگوں کے لئے اب انصاف بھی نہیں ہے۔ امن بھی نہیں ہے۔ ملک بھی نہیں ہے۔ یہ دہشت گرد ہیں اور Civilized West  پر حملے کر رہے ہیں ؟ یا  Civilized World  ان پر حملے کر رہی ہے؟

No comments:

Post a Comment