Challenges For The Islamic World
Arab-Israeli Conflict, The Mother
of All Terror:
Give Them Justice, They’ll
Give You Peace
مجیب خان
امریکہ کے ساتھ ایک مسئلہ یہ ہے کہ امریکہ کو جو
مخلصانہ مشورے دیتے ہیں۔ امریکہ میں ان کے مشوروں کو زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی ہے۔
واشنگٹن میں دس ہزار لابیاں ہیں۔ اور ان لابیوں کے ذریعے جو مشورے دئیے جاتے ہیں۔
ان کو اہمیت دی جاتی ہے۔ ان لابیوں پر لاکھوں ڈالر خرچ کیے جاتے ہیں۔ اور یہ مشورے
پھر امریکہ اور امریکی عوام کا مفاد بن جاتے ہیں۔ لیکن دنیا میں ایسے ملک بھی ہیں
جو لابیوں کے ذریعے فیصلے کرانے کی سیاست
کو غیر اخلاقی سمجھتے ہیں۔ اور امریکہ کو ہمیشہ مخلصانہ مشورے دیتے ہیں۔ لیکن ان
کے مشوروں کو اہمیت نہیں دی جاتی ہے۔ حال ہی میں ایک نئی کتاب میں یہ انکشاف ہوا
ہے کہ جنوبی افریقہ کی حکومت نے بش انتظامیہ اور وزیر اعظم ٹونی بلیر کو متعدد بار
یہ Data فراہم کیا تھا جس میں عراق میں مہلک ہتھیاروں کے ثبوت نہیں تھے۔ جنوبی
افریقہ کا ایٹمی ہتھیاروں کا اپنا ایک پروگرام تھا جسے جنوبی افریقہ نے بعد میں
ختم کر دیا تھا۔ عراقی حکومت نے اس لئے خصوصی طور پر جنوبی افریقہ کو اپنا ایٹمی
ہتھیاروں کا پروگرام دیکھا یا تھا۔ جنوبی افریقہ کے صدر Mbeki نے عراق میں مہلک ہتھیاروں کے بارے میں اپنی
حکومت کی تحقیقاتی رپورٹ اقوام متحدہ، امریکہ اور برطانیہ کو دی تھی کہ عراق میں ایٹمی ہتھیار نہیں تھے۔ اس
کتاب کے مطابق صدرMbeki اس
سلسلے میں متعدد بار ٹونی بلیر سے ملے تھے اور انہیں اس پر آمادہ کرنے کی کوشش کی
تھی۔ عراق پر حملے سے ایک ماہ قبل فروری 2003 میں انہوں نے ٹونی بلیر سے تین گھنٹے
اس پر بات کی تھی ۔ لیکن ان کی ملاقاتوں کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا تھا۔ سابق صدر
نیلسن منڈ یلا نے ذاتی طور پر صدر بش کو فون کیے تھے اور انہیں آمادہ کرنے کی کوشش
کی تھی کہ عراق میں ایسے ہتھیاروں کا وجود نہیں تھا۔ لیکن بعد میں بش اور ٹونی
بلیر یہ کہنے لگے تھے کہ عراق پر حملہ غلط انٹیلی جنس کا نتیجہ تھا۔ لیکن حقیقت یہ
تھی کہ جو عراق پر حملہ کرنے کی حمایت میں لابیوں پرلاکھوں ڈالر خرچ کر رہے تھے ۔
امریکہ نے ان کی سنی تھی۔
نائن الیون کے بعد اسلامی ملکوں کے بہت سے رہنماؤں نے صدر جارج بش کو یہ
انتہائی مخلصانہ مشورہ دیا تھا کہ آپ فلسطین اسرائیل تنازعہ حل کریں۔ ہم سب کے لئے
یہ سردر بنا ہوا ہے۔ ملیشیا کے صدر مطاہر محمد نے صدر بش سے فلسطین اسرائیل تنازعہ
حل کرنے پر زور تھا۔ صدر پرویز مشرف نے بھی صدر بش سے یہ کہا تھا۔ بعض دوسرے
اسلامی رہنماؤں نے بھی صدر بش پر فلسطین اسرائیل تنازعہ کے حل پر زور دیا تھا۔
فلسطین اسرائیل تنازعہ اسلامی دہشت گردی کی اصل جڑ ہے۔ اس تنازعہ کو حل کرنے سے
اسلامی انتہا پسندی ختم ہونے میں بڑی مدد ملتی۔ لیکن بش انتظامیہ نے آٹھ سال میں
اس تنازعہ کو حل کرنے میں کوئی مثبت کام
نہیں کیا تھا ۔
پاکستان کے سابق وزیر اعظم ذوالفقارعلی بھٹو نے ستر کے عشر ے میں صدر نکسن اور مشرق وسطی کی امریکی پالیسی کے God Father ہنری کسنگر سے یہ خصوصی درخواست کی تھی کہ آپ فلسطین اسرائیل تنازعہ حل کریں۔ یہ تنازعہ عالمی امن اور استحکام کے لئے ایک مسئلہ بن جاۓ گا۔ عرب اسرائیل تنازعہ کا حل عالمی امن کے مفاد میں ہے۔ وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے 70 کے عشرے میں یہ بھی کہا تھا کہ تیسری عالمی جنگ مشرق وسطی میں ہو گی۔ اور چالیس سال بعد مشرق وسطی میں اب تیسری عالمی جنگ شروع ہونے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ روس، امریکہ، برطانیہ، فرانس اور نیٹو مشرق وسطی میں اپنے مورچے بنا رہے ہیں ۔ 40 سال قبل وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے جن خدشات کا اظہار کیا تھا ۔ وہ آج لفظ بہ لفظ درست سامنے آ رہے ہیں۔
فلسطین اسرائیل
تنازعہ دنیا میں تمام دہشت گردی کی ماں ہے۔ امریکہ نے صرف اپنے مفاد میں اس تنازعہ
کو زندہ رکھا ہے۔ اور اس تنازعہ کے بارے میں باتیں زیادہ کی ہیں اور نتائج صفر
تھے۔ امریکہ نے عراق میں مہلک ہتھیاروں کا تنازعہ حل کرنے میں جو گرمی دکھائی تھی۔
ویسی سرگرمی فلسطین اسرائیل تنازعہ کے حل میں کبھی نہیں دکھائی تھی۔ حالانکہ
فلسطین اسرائیل تنازعہ عالمی امن اور استحکام کے لئے صدام حسین کے مہلک ہتھیاروں
سے زیادہ بڑا خطرہ تھا۔ لیکن فلسطین اسرائیل تنازعہ کی موجودگی میں دوسرے تنازعوں
کو پہلے حل کرنے کی کوششوں کے نتیجہ میں نئے تنازعہ پیدا کر دئیے ہیں۔ اور ان کوششوں میں بھی بری طرح ناکامی ہوئی
ہے۔ ایک طرف عالمی معیشت کے لئے مشرق وسطی کو انتہائی حساس خطہ بتایا جاتا ہے۔
لیکن دوسری طرف اس خطہ کو عدم استحکام کرنے کی مہم جوئیاں بھی جاری ہیں۔ یہ مہم
جوئیاں اسلامی دنیا کے لئے مسلسل چیلنج بنی ہوئی ہیں۔
1974 میں لاہور میں دوسری اسلامی سربراہ کانفرنس سے
خطاب میں وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے اسلامی دنیا کو اس وقت جن مسائل اور
چیلنجوں کا سامنا تھا ان کا متحد ہو کر مقابلہ کرنے کی اپیل کی تھی۔ اور اس کے لئے
ایک مشترکہ لائحہ عمل اختیار کرنے کا کہا تھا۔ یہ 41 سال قبل کے واقعات تھے۔ لیکن
وزیر اعظم بھٹو کا 1974 میں اسلامی سربراہ کانفرنس سے وہ خطاب اسلامی دنیا کو آج جن مسائل اور پہلے
سے زیادہ خطرناک چیلنجوں کا سامنا ہے۔ جیسے اس سلسلے میں نظر آتا ہے۔ اسلامی دنیا
میں صرف یہ تبدیلی آئی ہے کہ یہ 2015 ہے۔ لیکن اسلامی دنیا کے مسائل اور چیلنج اور
زیادہ پیچیدہ ہو گیے ہیں۔ 41 سال میں اسلامی دنیا میں ایک نسل نے مسائل اور چیلنج
دوسری نسل کے حوالے کر دئیے ہیں۔
No comments:
Post a Comment