Tuesday, December 8, 2015

This Is The World We Have To Live In: Just Like The Israelis For The Past Six Decades

Freedom Under Attack

:This Is The World We Have To Live In
Just Like The Israelis For The Past Six Decades

مجیب خان     


      2015 اب اختتام پر پہنچ رہا ہے۔ انسانیت کے لئے یہ پچھلے سال کے مقابلے میں زیادہ تکلیف دہ سال رہا ہے۔ اس سال انسانیت کے خلاف جرائم میں اضافہ ہوا ہے۔ انسانیت کے خلاف ہتھیاروں کا استعمال ‌زیادہ ہوا ہے۔ دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ جس قدر لوگ اس سال دہشت گردی کے نتیجے میں مارے گۓ ہیں تقریباً اتنے ہی لوگ ڈر ون حملوں اور ایف 16 طیاروں کی بمباری  سے ہلاک ہوۓ ہیں۔ پندرہ  سال ہو گۓ ہیں لیکن دہشت گردی ختم نہیں ہو رہی ہے۔ ڈر ون حملے اور بمباری بند نہیں ہو رہے ہیں۔ صرف اس سال تقریباً ایک درجن سے زیادہ ملکوں میں دہشت گردی کے انتہائی خوفناک واقعات ہوۓ ہیں ۔ اس سال سعودی عرب ، ترکی اور بنگلہ دیش دہشت گردی کا شکار بننے والے ملکوں کی فہرست میں نیا اضافہ ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف مہم کے باوجود اس سال دہشت گردی میں اضافہ ہوا ہے۔ فرانس میں اس سال دہشت گردی کے دو بڑے واقعات ہوۓ ہیں۔ جن میں ڈیڑھ سو سے زیادہ لوگ مارے گۓ ہیں۔ سوال یہ ہے کہ یہ دہشت گردی کیسے ہوئی ہے؟ اور اتنے لوگ کیسے مارے گۓ ہیں؟ جبکہ امریکہ میں کرائم کی صورت میں دہشت گردی ہوتی رہتی ہے ۔ اور لوگ مرتے رہتے ہیں۔ حکومت اس داخلی دہشت گردی کو ختم نہیں کر سکی ہے ۔ اور اس کی بحث Gun Control پر آئی گئی ہو جاتی ہے ۔ لیکن عالمی دہشت گردی کے تعلق سے اس سال امریکہ میں صرف ایک بڑا واقعہ اس ماہ ہوا ہے ۔ جس میں 14 لوگ مارے گۓ ہیں۔ جبکہ عراق، لیبیا اور شام دہشت گردوں کی پرورش کرنے کے مستقل اڈے بن گۓ ہیں۔
      امریکہ، برطانیہ اور فرانس Regime Change کے نام پر ملکوں کو عدم  استحکام کرتے جا رہے ہیں ۔ اور پھر اسلامی انتہا پسندوں کو ماڈریٹ ہونے کا فتوی دے کر انہیں پھر عدم استحکام ہونے والے ملکوں میں بسا رہے ہیں اور پھر دنیا سے کہا جاتا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ اس وقت تک جا رہے گی کہ جب تک دہشت گردوں کا مکمل خاتمہ نہیں ہو گا۔ عراق کو ناکام ریاست بنانے اور عراق میں خود بھی ناکام ہونے کے بعد اب امریکہ اور برطانیہ داعش کا خاتمہ کرنے کے لئے عراق اور شام پر بمباری کر رہے ہیں۔ لیکن یہ بمباری کب تک کرتے رہیں گے۔ اور یہ کیا ضمانت ہے کہ داعش کا خاتمہ ہونے کے بعد القاعدہ کا عروج پھر نہیں ہو گا۔ عراق اور شام جیسے غازہ اور مغربی کنارہ بن گیے ہیں۔ جہاں اسرائیل کبھی فضا سے اور کبھی زمینی فوج کے ذریعے کاروائیاں کرتا رہتا ہے۔ اور یہ سلسلہ جاری ہے اس کا کوئی End نہیں ہے۔ چار سال سے شام میں دہشت گردی کی حوصلہ افزائی کی جا رہی تھی۔ انہیں ہتھیار دئیے جا رہے تھے ۔ انہیں فنڈ ز دئیے جا رہے تھے۔ انہیں تربیت دی جا رہی تھی۔ دنیا میں جو دہشت گردوں کا خاتمہ کرنے کی جنگ لڑ رہے تھے ۔ انہوں نے جب یہ کہا کہ سی آئی اے شام میں دہشت گردوں کو تربیت دے رہی ہے ۔ جواب میں ان کے ماڈریٹ ہو نے کا فتوی دیا گیا تھا۔ جو بن لادن کے فتووں کی طرح تھا۔ لیکن یہ ماڈریٹ تھے جو شام میں حکومت کے حامیوں کو قتل کر رہے تھے۔ ان کی املاک تباہ کر رہے تھے۔ ان ماڈریٹ دہشت گردوں اور پیرس اورSan Bernardino  میں جنہوں نے بے گناہ لوگوں کو قتل کیا ہے ان میں کیا فرق تھا۔ یہ بھی ماڈریٹ تھے اور ماڈریٹ معاشرے میں رہتے تھے۔
      ساری مغربی طاقتیں بمباری کرنے مشرق وسطی میں جمع ہو گی ہیں۔ اور عراق اور شام پر انہوں نے بمباری کا آغاز بھی کر دیا ہے۔ بارہ سال قبل یہ ایک لاکھ ذ مینی فوج کے ساتھ عراق میں القاعدہ  کے دہشت گردوں کا خاتمہ کرنے آۓ تھے۔ اور اس مرتبہ یہ فضا سے بمباری کر کے داعش کے دہشت گردوں کا خاتمہ کریں گے۔ لیکن اس خطہ میں عدم استحکام جو انتہا پسندوں کو آکسیجن دے رہا ہے۔ اور حالات کو خطرناک بنا رہا ہے۔ اس بارے میں کچھ نہیں کیا جا رہا ہے۔ انہیں اس خطہ کو تنازعوں میں رکھنے میں خصوصی دلچسپی ہے۔  فلسطین اسرائیل تنازعہ کو حل کرنے کے بجاۓ ۔ انہوں نے عراق میں شیعہ سنی میں خانہ جنگی کرا دی  ہے۔ یہ شیعہ سنی خانہ جنگی بھی دراصل اسرائیل کے مفاد میں تھی۔ تاکہ کسی طرح شیعہ حزب اللہ اور سنی حما س میں تعلقات کشیدہ ہو جائیں۔ اور حما س کو تنہا کر دیا جا ۓ۔   Holy Land پر یہ Dirty Politics  ہو رہی ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کا سارا کاروبار جھوٹ پر ہے۔ اور حقائق صرف فسانہ ہیں۔ لوگ بیوقوف بن رہے ہیں۔ کبھی القاعدہ کو شکست دی جاۓ گی۔ کبھی داعش کو شکست دی جاۓ گی۔ کبھی النصرہ کو شکست دی جاۓ گی۔ ہوتیوں کو بھی شکست دی جاۓ گی۔ لیکن کسی کی شکست نہیں ہو گی۔ القاعدہ کو اپنے مفاد میں استعمال کیا جاۓ گا۔ داعش کو بھی استعمال کیا جاۓ گا۔ اگر ان سب کو ختم کر دیا گیا تو دنیا میں دہشت گردی کی سیاست کیسے ہو گی۔ ہتھیاروں کی سیاست کیسے ہو گی۔ لوگوں کو خوفزدہ کیسے کیا جاۓ گا۔ دنیا میں جنگوں کا مستقبل پھرکیا ہو گا۔
      دہشت گردی کی جنگ اگر اوبامہ انتظامیہ میں ختم نہیں ہو سکی ہے بلکہ دہشت گردی کو فروغ دیا گیا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ آئندہ انتظامیہ میں بھی دہشت گردی کی جنگ اتنے ہی زور و شور سے جاری رہے گی۔ اور اب ایک ایسی دنیا بنائی جا رہی ہے ۔ جس میں لوگوں کو Decades اس دہشت گردی کے ماحول میں رہنا ہو گا۔ اور رفتہ رفتہ لوگ دہشت گردی کا سامنا کرنے کے عادی ہو جائیں گے۔ جس طرح لوگ Gun کلچر میں رہنے کے عادی ہو گۓ ہیں۔ فرانس میں اس سال دہشت گردی کے دو بڑے واقعات ہوۓ ہیں۔ اسرائیلی 70 سال سے ایسے حالات میں رہنے کے عادی ہو گۓ ہیں ۔ جہا ں پیرس جیسے واقعات ہوتے رہتے ہیں۔ اور اسرائیلی ان واقعات میں مرتے رہتے ہیں۔ لیکن حکومت 70 سال سے فلسطینی تنازعہ کو حل کرنا نہیں چاہتی ہے اور اسرائیلیوں کو اس تنازعہ کے ساتھ زندہ رہنے کا عادی بنا دیا ہے۔  اسرائیل 70 سال سے حالت جنگ میں ہے۔ 70 سال سے اسرائیل میں دہشت گردی ہو رہی ہے ۔ ان کی سڑکوں پر مشین گنیں چل ر ہی ہیں۔ اسرائیلی مرتے ہیں۔ ایمبولینس آتی ہیں انہیں اٹھا کر لے جاتی ہیں۔ فوجی ٹینک ،بکتر بند گاڑیاں ان کی بستیوں میں گشت  کرتے رہتے ہیں۔ اور اسرائیلیوں میں سیکورٹی کا احساس بحال کرتے  رہتے ہیں۔ اسرائیلی اس نظام میں زندہ ہیں اور اقتصادی طور پر خوشحال ہیں۔ اسرائیل نے اس نظام میں ترقی بھی کی ہے۔
      اور اب اسرائیل کے اس کامیاب تجربے کو دنیا میں رائج کیا جا رہا ہے۔ لوگوں کو دہشت گردی کے ساتھ زندہ رہنے کا عادی بنایا جا رہا ہے۔ 20 سال سے دنیا میں دہشت گردی کو صرف فروغ دیا گیا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ اقتصادی ترقی کو بھی فروغ دیا گیا ہے۔ اس عرصہ میں ان تنازعوں کو حل نہیں کیا گیا ہے جو دہشت گردی کا اسباب ہیں۔ عراق، لیبیا، شام، یمن ، صومالیہ، مالی دہشت گرد پیدا کرنے اور دنیا میں دہشت گردی پھیلانے کی فیکٹر یاں بن گۓ ہیں۔ چین ، جاپان ، جنوبی کوریا ،ویت نام ، تائیوان دنیا میں لوگوں کی اقتصادی ضرورتیں پوری کرتے رہیں گے۔ امریکہ، برطانیہ اور فرانس دنیا میں دہشت گردی ختم کرنے کی جنگیں لڑتے رہیں گے۔ دنیا کا کاروبار اسی طرح چلتا رہے گا۔  



      

No comments:

Post a Comment